’سیکولر ‘پارٹیوں کے داغ داغ چہرے

’سنسد رتن ‘اسدالدین اویسی کے سیاسی نظریہ سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، لیکن بہت سی باتیں جو وہ کہتے ہیں اور جس طرح کہتے ہیں ، دل کو چھو جاتی ہیں۔ مثلاً چندروز قبل ’انڈین ایکسپریس‘ کے ’آئیڈیا ایکس چنج‘ پروگرام (22 نومبر) میں ان سے جب پوچھا گیا کہ ’بہت سی سیاسی پارٹیاں مجلس اتحاد المسلمین کو سماج کے تانے بانے کے لئے خطرہ تصورکرتی ہیں۔ آپ کی سیاست کیا ہے؟‘ توان کا جواب سنئے جو انہوں نے مہاراشٹرا کے حالیہ اسمبلی انتخابات کے پس منظر میں دیا ۔ ’مہاراشٹرا میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی کوئی معتبرآواز نہیں تھی۔ مجبوری میں انکا ووٹ کانگریس (اوراین سی پی) کو مل رہا تھا۔ بدانتظامی، کرپشن کے علاوہ دہشت گردی کے مقدمات میں پھنسائے جانے سے مسلم رائے دہندگان کی ان سے بددلی بڑھی …… کانگریس مسلمانوں کے لئے کچھ کئے بغیر ان کے خدشات سے انتخابی فائدہ اٹھاتی رہی ۔ مہاراشٹرا سے ایک بھی مسلم امیدوار لوک سبھا کے چناؤ میں کامیاب نہیں ہوا۔ عام مسلمانوں کا احساس ہے کہ وہ تو سیکولر پارٹیوں کے لئے ووٹ کرتے ہیں لیکن ان کے امیدواروں کو سیکولر ووٹ نہیں ملتے۔ ‘‘
یہ حقائق ہیں ،جن سے انکار ممکن نہیں ۔ان سے انکار اورفرارکا راستہ تباہی کی طرف لیجاتا ہے۔ جس کا مشاہدہ حالیہ انتخابات میں بخوبی ہوگیا۔ سیکولرہونے کی دعویدار پارٹیوں کو ان حقائق پر غور کرنا چاہئے۔
لیکن اویسی صاحب کا یہ خیال درست نہیں کہ :’’مسلمان سیکولرزم کے قلی نہیں۔ یہ ہمارا مقدس صلیب نہیں کہ ہم تنہااس کا بوجھ ڈھوتے رہیں۔‘‘پہلی بات تو یہ ہے کہ ہندستانی عوام مذہبی ہونے کے باوجود فطرتاً فرقہ پرست نہیں۔ حالیہ لوک سبھا الیکشن میں بھاجپا کوکوئی 20فیصد ہندوووٹ ملا۔ 80فیصد نے مودی کوووٹ نہیں دیا۔دوسرے مسلمان سیکولر صرف اس لئے نہیں کہ یہ ان کی سیاسی ضرورت ہے، بلکہ اس لئے ہیں کہ یہی ہمارے دین کا تقاضا ہے۔ سورۃ ’الکافرون‘ پرہمارا ایمان ہے اور یہ جانتے ہیں کہ ہمارادین ہرمذہب وملت کے افراد کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے ۔ان کی عزت وآبرو اوران کے خون کو ہم پر حرام کرتا ہے۔ ان کے مذہبی مقامات، علامات ، شخصیات اور مراسم عبادات کی بے توقیری سے روکتا ہے۔ ان کے ساتھ خیرخواہی کا حکم دیتا ہے۔

اسلامی ریاست میں بلا لحاظ عقیدہ، ہرفرد کے شہری حقوق برابر ہیں۔ بلکہ بعض پہلوؤں سے غیرمسلموں کو زیادہ تحفظ دیا گیا ہے۔ یہ اسلامی نظریہ ہی سیکولرزم کی اساس ہے۔اس لئے اگرساری دنیا بھی فرقہ پرستی پراترآئے ہم تب بھی اصولاً اور عملًا فرقہ پرستی سے دوررہیں گے اور ’خیرامت ‘ کا فریضہ اداکریں گے۔انشاء اﷲ۔

رہی سیکولرزم کے دعویدار پارٹیاں تو یہ ان کی سیاسی ضرورت ہے۔ ہماری نظر میں کمیونسٹ سیکولرزم کے سب سے بلند بانگ دعویدار ہیں۔ لیکن سچر کمیٹی کی رپورٹ سے یہ حقیقت واشگاف ہوگئی کہ اقلیتی فرقہ کو ابتر ترین حالت میں پہنچانے میں بائیں بازو کی پارٹیاں سرفہرست رہیں۔مغربی بنگال میں ان کے دور حکومت میں بیشک فسادات نہیں ہوئے۔مگر مار صرف فسادات کی ہی نہیں ہوتی ۔ معاشی اور سماجی ترقی کی راہوں کو مسدود کردینا ، دینی اداروں اور تعلیم گاہوں کو مسخ کردینا، فسادات سے بھی بدتر مار ہے۔مسلم اقلیت پر فسادات کی صورت میں گجرات میں جو مظالم ہوئے، ان کا ذکر تو ہم کرلیتے ہیں ،لیکن وہ ظلم جو سیکولر کمیونسٹوں نے ڈھائے ان کو بھول جاتے ہیں ، حالانکہ وہ کم سنگین نہیں۔ یہی صورتحال لالویادو کے دور حکومت میں بہار میں رہی۔ ہمیں لالویادو بہت اچھے لگتے ہیں ، لیکن ان کی حکومت میں پسماندہ مسلم اقلیت کی تعلیم وترقی کے لئے کچھ نہیں ہوا۔ یہی کچھ گزشتہ ساٹھ سال میں کانگریس کی مرکزی اور ریاستی حکومتوں میں ہوا۔ سچر کمیٹی اس کی گواہ ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ اس کمیٹی کی تشکیل کا ایک مقصد یہ تھا کہ بھاجپا کے اس الزام کو غلط ثابت کیا جائے کہ کانگریس مسلمانوں کی منھ بھرائی کرتی ہے۔اور بتادیا جائے کہ دیکھو ہم نے ساٹھ سال میں مسلم اقلیت کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا؟

نام کی سیکولر پارٹیوں کے بارے میں جو بات مسٹراویسی نے کہی ہے، وہ سچائی ہے۔ یہ پارٹیاں ووٹ پانے کے لئے وعدے توکرلیتی ہیں مگر اقتدار میں آنے کے بعد اپنے وعدوں اورذمہ داریوں کو بھول جاتی ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ کانگریس کو پے درپے شکستیں ہورہی ہیں اور مرکز سے لیکر ریاستوں تک نظام حکومت پر آر ایس ایس کی گرفت مضبوط ہوگئی ہے۔حد یہ ہے کہ کانگریس کے مقامی لیڈر اب ہر اس آشوب میں شامل ہوجاتے ہیں جو سماج کے سیکولرتانے بانے کو تباہ کرنے کے لئے ہندتووا کی علمبردار اٹھاتے ہیں۔ دہلی کے بوانا میں علم تعزیہ کے خلاف اور ترلوک پوری میں فساد کے دوران کانگریسی کارکن اقلیت مخالف سرگرمیوں میں کھل کر شریک نظر آئے۔

وقت کا تقاضا ہے کہ کمیونسٹوں سمیت تمام’ سیکولر‘ پارٹیاں اپنا محاسبہ کریں، ورنہ ان کا نام صرف تاریخ کی کتابوں میں رہ جائیگا۔یہ پارٹیاں سیکولرزم کے حقیقی تقاضوں سے فرار کی راہ اختیارکرتی ہیں۔ سیکولرزم مذہب کی نفی کا نہیں ،تمام مذاہب اور اقدار کے احترام کا نام ہے۔ یہ نہیں کہ آپ پرسنل لاء کو کاالعدم کرنے ، بے حجابی کو فروغ دینے، بین مذہبی شادیوں کی وکالت کرنے میں لگ جائیں۔مذہب کی نفی کا جو تجربہ روس ، چین اور دیگر ممالک میں ہوا، ناکام ہوگیا۔ اب ان نعروں میں کشش نہیں رہی جو ان ممالک میں انقلاب کا زریعہ بنے تھے۔ دانشوری نقالی میں میں نہیں، ہندستان کی سماجی حقیقتوں کو سامنے رکھ کر حکمت عملی بنانے میں ہے۔ ہر مذہب کے پیروکاروں کے عقائد کا احترام کیا جائے اور ان کے جان و مال کو ہی نہیں بلکہ ان کی اقدار کو بھی تحفظ فراہم کرایا جائے۔

دہشت گردی کے کیس
مسٹراویسی نے دہشت گردی کے جھوٹے کیسوں کا بھی حوالہ دیا ہے۔ اس کے لئے کسی کتابی شہادت کی ضرورت نہیں۔ ابھی چند روز کی بات ہے، کرُلا کی عدالت نے مہاراشٹرا کے آٹھ افراد کو دہشت گردی اوروطن دشمنی کے ایک جھوٹے کیس میں چودہ سا ل کے بعد بری کیا ہے ۔ ان افراد کے 27؍ستمبر 2001کو ایس آئی ایم سے تعلق کی بنا پر گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ گرفتاری مہاراشٹرا پولیس کی اقلیت دشمنی بیان کرتی ہے۔ صورت واقعہ یہ ہے کہ اسی تاریخ کو مرکز کی این ڈی اے سرکار نے ایس آئی ایم کو غیرقانونی تنظیم قراردیا تھا ۔مہاراشٹرا سرکار کو اس کی باضابطہ اطلاع اگلے دن 28ستمبر کوپہچی۔ مگراس نے اس سے پہلے ہی یہ گرفتاریاں شروع کر دیں۔ ملزمان کو گرفتاری سے قبل کوئی نوٹس بھی نہیں دیا گیا۔یہ داستان طویل ہے جس کی کچھ تفصیلات خبروں میں آچکی ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ چودہ سال کی اس مدت میں دس سال مرکز میں یوپی اے کی اور15سال ریاست میں ’سیکولر‘ کانگریس اور این سی پی کی سرکاریں رہیں۔ مگر ان کے کانوں تک مظلوموں کی صدائیں نہیں پہنچیں۔ 14؍ سال میں مقدمہ کا پہلا مرحلہ 22؍نومبر کو اس وقت پورا ہوا جب ٹرائل کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ ملزمان کے خلاف استغاثہ کوئی ثبوت فراہم نہیں کرسکا۔ہم بصد احترام سپریم کورٹ کو متوجہ کرانا چاہتے ہیں کہ عدالتی نظام میں یہ نقص بھی کرپشن شمار کیا جائے اور ذیلی عدالتوں میں کام کاج کو چاق و چوبند کیا جائے۔ ٹرائل کورٹس کو یہ ہدایت دی جائے کہ آن ریکارڈ دستاویزات کا بغورجائزہ لے کر ہی مقدمہ قائم کیا جائے اور ایک مقررہ مدت کے اندراگر مقدمہ فیصل نہ ہو تو ملزمان کو ضمانت پر رہا کردیا جائے۔اگریہ نظرآئے کہ استغاثہ نے جھوٹا کیس بنایا ہے تو ملزمان کو معقول معاوضہ اور اپنے اختیارات کا بیجا استعمال کرنے والے افسران بالا کا مواخذہ کیا جائے۔ ایسی کیسوں میں گواہوں کی پیشی فوری ہونی چاہئے۔ 14برس میں تو دنیا بدل جاتی ہے اور یادداشت ساتھ نہیں دیتی۔

یہ دہشت گردی کا پہلا کیس نہیں جس میں ملزمان کے خلاف ثبوت نہ ہونے کے باوجود ان کو طویل مدت تک قید رکھا گیا۔ یہ سب کچھ ’سیکولر‘ پارٹیوں کے دور حکمرانی میں ہوا۔ یہی حشر اورنگ آباد اسلحہ کیس کا بھی ہوتا نظرآرہا ہے۔ غرض یہ کہ مسلمانوں کے ووٹ سے اقتدار میں آنے والی ان پارٹیوں نے سب سے زیادہ ظلم اسی فرقہ پر ڈھائے ہیں۔ اویسی صاحب کا یہ کہنا بجا ہے اس طرح کی واقعات کی وجہ سے مسلم اقلیت ’سیکولر ‘پارٹیوں سے بدظن ہوگئی۔ ایم آئی ایم کو اس کے ردعمل میں مہاراشٹرا میں دوسیٹوں پر جو کامیابی ملی ہے، اس سے مرض کا مداواممکن نہیں ہوگا۔ مگرمسٹراویسی کا یہ کہنا بجا ہے کہ وہ مذہب کی سیاست نہیں کرتے بلکہ ایک مظلوم فرقے کے آئینی اور قانونی حقوق کی بحالی کی سیاست کرتے ہیں۔ مگران کی یہ دلیل نقارخانے میں طوطی کی آواز بن کر رہ جائیگی۔ اس میڈیا کے شور میں دب جائیگی جس کو دھرم کے نام پر سیاست کرنے والوں سے توسماج کے ٹوٹنے کا اندیشہ محسوس نہیں ہوتا البتہ ایک مسلم امیدوار کے میدان سیاست میں اترنے اور اقلیتوں کے حقوق کی آواز اٹھانے سے طوفان آتا نظرآتا ہے۔غرض یہ فی الحال امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ آج بس اتنا ہی۔ مگر چلتے چلتے یہ شعر سنتے جائیے:
دل درد، جگر درد، دعا درد، اثر درد
میں ہوں ہمہ تن درد، میری شام و سحر درد
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180526 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.