بھارتی مقبوضہ جموں و
کشمیراسمبلی الیکشن کے پہلے مرحلے میں 25نومبر کو 15اسمبلی حلقوں میں ووٹ
ڈالے گئے جن میں گریز، بانڈی پورہ، سوناواری، کنگن، گاندربل، نوبرا، لیہہ،
کرگل، زنسکار، کشتواڑ، اندروال، ڈوڈہ، بھدرواہ، رام بن اور بانہال شامل
ہیں۔پہلے مرحلے کے اس الیکشن میں جموں کی6،وادی کشمیر کی5اور لداخ کی
4سیٹوں پر الیکشن ہوئے۔مد مقابل جماعتوں میں نیشنل کانفرنس ،پیپلز
ڈیموکریٹک پارٹی،کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی شامل ہیں۔منگل کو پہلے
مرحلے کے الیکشن والے حلقوں کے پولنگ سٹیشنز پر ووٹروں کی قطاروں کی تصاویر
سوشل میڈیا پر دیکھی گئیں۔بھارتی الیکشن کمیشن کے مطابق کشمیر اسمبلی کے
پہلے مرحلے کے الیکشن میں ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب70فیصد رہا ہے۔پہلے مرحلے
کے الیکشن والے علاقوں کے علاوہ مقبوضہ کشمیر کے باقی علاقوں میں ہڑتال اور
کرفیو کا سا سماں رہا۔اطلاعات کے مطابق پہلے مرحلے کے الیکشن کے دن گاندربل
اور بانڈی پورہ میں بھارتی فوروسز کی طرف سے اس دوران وسیع علاقوں کو گھیرے
میں لیا گیا۔مغربی میڈیا سے منسلک مقبوضہ کشمیر کے ایک سینئر صحافی نے
الیکشن کے دن تبصرہ کیا کہ ایک ساتھی اس بات پہ کنفیوز ہے کہ کیا رپورٹ
کرے،اسی سے یاد آیا کہ ایک عالمی میڈیا آرگنائیزیشن نے اپنے نمائندے کو اس
بات پہ واپس طلب کر لیا کہ اس نے رپورٹ کیا تھا کہ ’’اندرا ،عبداﷲ ایکارڈ
‘‘ کے بعد شیخ عبداﷲ واپس کشمیر پہنچا تو ہزار ہا لوگوں نے اس کا شاندار
استقبال کیا،جبکہ اس سے چند ہی دن پہلے اسی نمائندے نے رپورٹ کیا تھا کہ
ذوالفقار علی بھٹو کی کال پر وادی کشمیر میں زبر دست ہڑتال کی گئی
ہے۔مقبوضہ کشمیر سے ہی ایک اور تبصرہ یہ سامنے آیا کہ ووٹنگ کی یہ زیادہ
شرح بھارتی سیکورٹی فورسز کے لئے پریشانی کا سبب بن سکتی ہے کہ وہ سوسائٹی
پر کنٹرول کھو چکی ہیں،اب 1987ء کی طرح الیکشن میں دھاندلی ممکن نہیں
ہے۔پہلے مرحلے میں ووٹ ڈالنے والے کئی افراد نے میڈیا کے نمائندوں کو بتا
یا کہ وہ اس لئے ووٹ دے رہے ہیں کیونکہ کشمیر میں بیروزگاری بہت زیادہ ہو
گئی ہے۔کسی نے سوشل میڈیا پر تبصرے کے انداز میں کہا کہ لوگوں نے گیلانی کی
کال پر الیکشن بائیکاٹ کیوں نہیں کیا؟
یہ بات واضح ہے کہ الیکشن کے پہلے مرحلے میں کشمیریوں نے کشمیر اسمبلی کے
لئے ووٹ دیئے،تاہم اس سے کوئی نتیجہ اخذ کر لینا درست نہیں ہو سکتا۔ اس
الیکشن کے محرکات ،واقعات اور عوامل پر نظر ڈالے بغیر بات پوری نہیں
ہوتی۔یہ الیکشن ایسے وقت آئے کہ جب تمام مقبوضہ کشمیر بھیانک سیلاب کی تباہ
کاریوں سے بری طرح اجڑ چکا ہے ۔مقبوضہ کشمیر کے لوگوں میں نیشنل کانفرنس کی
حکومت کے خلاف وسیع پیمانے پر بیزاری الیکشن سے بہت پہلے سے ہی واضح طور پر
نظر آ رہی تھی اور نیشنل کانفرنس کی اس حکومت سے پہلے حکومت میں رہنے والی
پی ڈی پی عوام میں نیشنل کانفرنس کی مخالفت کو اپنے حق میں ’’ کیش ‘‘ کرنے
کی کوشش میں نظر آئی۔اس الیکشن کی طرف اس حوالے سے بھی توجہ مرکوز ہوئی کہ
بھارتی حکمران پارٹی ’بی جے پی‘ نے الیکشن سے پہلے ہی دعوی کیا کہ وہ جموں
وکشمیر اسمبلی کی87میں سے 44سے زیادہ سیٹیں لیکر بھارتی آئین میں ریاست
کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق 370کی دفعہ ختم کر دیں گے۔ 19 نومبر کے
انڈین ایکسپریس میں دواہم خبریں شائع ہوئیں، ان میں سے ایک کاتعلق لکھنوسے
ہے، جس میں کہاگیا:بی جے پی نے 124ایسے لیڈروں کو اتر پردیش سے کشمیر روانہ
کیا جواصل میں آر ایس ایس کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔یہ لوگ انتخابات اختتام
پذیر ہونے تک یہ لیڈران کشمیرمیں ہی مقیم رہیں گے اورچالیس مخصوص حلقہ ہائے
انتخاب پر اپنی توجہ مرکوزرکھیں گے تاکہ جادوئی آنکھڑا پوار ہو۔ دوسری خبر
کاتعلق جموں سے ہے جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ تارک الوطن پنڈتوں کی آبادی
پچھلے چھ سالوں میں27فیصدی بڑھ گئی ہے،خصوصا مئی کے لوک سبھا انتخابات کے
بعد 4.65فیصدی اضافہ ہوگیاہے۔ رپورٹ کے مطابق اگر وادی میں بائیکاٹ کال
کااثر رہاتو اس سے پنڈت ووٹ بنک کوسرینگرکے حبہ کدل،امیراکدل
اورخانیارحلقوں میں کلیدی اور فیصلہ کن رول نبھانے کاموقع مل جائے گا۔ خیال
رہے کہ 2008 نیشنل کانفرنس نے سرینگرضلع میں جیتی گئیں آٹھ سیٹوں کی مددسے
ہی حکومت قائم کی تھی۔ بی جے پی کی اتحادی اور بھارتی وزیر اعظم نریندر
مودی کی تربیت کرنے والی انتہا پسند ہندو تنظیم ’’آر ایس ایس ‘‘ اپنا ایک
لائحہ عمل ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ ریاست کشمیرکے پاس آبادی کی تو سیع کے
لئے بہت ساری گنجائش موجود ہے،اگر یہاں صنعت کاری کوفروغ دیاجائے،تویہ
ریاست بلاشبہ کروڑوں کی تعدادمیں بھارتیہ لوگوں کی جائے پناہ بن سکتی ہے،
یوں اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جاسکتاہے ۔ ظاہر ہے یہ کروڑوں بھارتیہ
لوگوں کو کشمیرمیں بسانے کی جوبات کہی گئی تھی،کوئی دورائے نہیں کہ یہ سب
بھارت کے ہی مختلف حصوں سے ہی لائے جانے مقصود ہیں۔ لہذا کشمیر کے اکثریتی
طبقہ کواقلیت میں بدلنا ممکن ہے۔’آر ایس ایس‘‘ یہ پروپیگنڈہ بھی کر رہی ہے
کہ قریب ایک ہزارسال سے قبل کشمیر ہندوتہذیب کا گہوارہ اور دھارمک تعلیم
کامرکزتھا، کشمیرمیں آج بھی جگہ جگہ ہماری عبادت گاہوں اورمقدس مقامات کے
آثار موجود ہیں،لہذا ضروری ہے کہ ہندوتہذیب کی اس ماضی بعبد کی روایت
کوازسرنوجلابخشی جائے اوردرمیان میں حائل مسلم تاریخ کے اوراق کو حرف غلط
کی طرح کو مٹادیاجائے جو اہل کشمیر کو پیارے ہیں۔
بی جے پی کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کو سیاسی طور پر فتح کرنے کے بار بار کے
دعوے سے بھی مقبوضہ کشمیر میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا ہوئی۔بھارتی مقبوضہ
کشمیر کی صورتحال کا اندازہ کشمیر سے باہر بیٹھ کر نہیں لگایا جا
سکتا۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز اتنی زیادہ تعداد میں متعین ہیں کہ
تمام کشمیر ایک فوجی چھاؤنی کا منظر پیش کرتا ہے۔یہ کہنا بھی بالکل مناسب
ہے کہ کشمیر ایک کھلی جیل ہے۔اوپر سے بھارت فورسز کو کشمیریوں کے خلاف قتل
و غارت گری کی ہر قسم کی کاروائیوں کو ’’افسا‘‘ و دیگر ظالمانہ قوانین کے
تحت خصوصی تحفظ حاصل ہے،دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’ ہر کشمیر
ی کے سر پر بھارتی فوج کی بندوق تنی ہوئی ہے‘‘۔کشمیری بھارت کے اس مستقل
فوجی دباؤ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔مقبوضہ کشمیر کے معروف اخبار ’’ سرینگر
ٹائمز‘‘نے ایک کارٹون میں بتایا کہ مقبوضہ کشمیر اسمبلی الیکشن کے امید وار
کشمیری کے کٹے ہوئے سر سے فٹ بال کھیل رہے ہیں۔سرینگر سے ہی شائع ہونے والے
ایک انگریزی اخبار نے ایک کارٹون میں دکھایا کہ کشمیری آزادی اور الیکشن کی
دو کشتیوں پر سوار ہے۔بعض حلقے اس بات پر تنقید کرتے ہیں کہ کشمیری دو طرح
کے انداز اپنائے نظر آتے ہیں۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مقبوضہ کشمیر
اسمبلی کے الیکشن کشمیریوں کے حق خود ارادیت پر اثر انداز نہیں ہوتے،اسمبلی
الیکشن مقامی انتظام سے متعلق ہے جبکہ حق خود ارادیت تمام ریاست کشمیر کا
سیاسی مستقبل کے تعین کا فیصلہ ہے جس کا اقرار اور عہد بھارت،پاکستان اور
عالمی برادری نے کیا ہوا ہے۔لیکن بھارت مقبوضہ کشمیر اسمبلی الیکشن کو
ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر اثر انداز کرتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ ’’ کونسا مسئلہ
کشمیر ؟ کشمیری تو اپنی اسمبلی کے لئے ووٹ دیتے ہیں‘‘۔لیکن کشمیر اسمبلی کے
لئے ووٹ دینے والے و ہی کشمیری ہیں جن کے مطالبہ آزادی اور ان کی جدوجہد
مسلسل کی وجہ سے بھارت آٹھ لاکھ سے زائد فوج رکھنے اور تمام تر مظالم اور
سازشوں کے باوجود کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو تسخیر کرنے میں ناکام چلا آ
رہا ہے۔کشمیری مقبوضہ کشمیر کے جابرانہ حالات اوربدترین ظلم کی صورتحال میں
بہتری چاہتے ہیں،وہ مسئلہ کشمیر کا پرامن اور منصفانہ حل چاہتے ہیں اور
انہوں نے گزشتہ چھ دھائیوں سے زائد عر صے سے نسل در نسل قربانیاں دیتے ہوئے
یہ ثابت کیا ہے کہ کشمیریوں کا مطالبہ آزاد ی مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل تک
جاری و ساری رہے گا۔تعمیر کا عمل سست ہوتا ہے،اور اگر مثبت تعمیر کی راہیں
مسدود کر دی جائیں تو تخریب میں کوئی دیر نہیں لگتی۔اس الیکشن سے بی جے پی
کی طرف سے مسئلہ کشمیر اپنی مرضی کے مطابق ختم کرنے کے منصوبے بھی سامنے آ
گئے ہیں،اگر بھارت گزشتہ 67سال میں کشمیریوں کو کسی بھی طرح اپنے ساتھ رہنے
پر مجبور نہیں کر سکا تو مقبوضہ کشمیر کی بھارتی فوج کے ظلم کی چھاؤں میں
پلنے والی نسل ، کشمیر کے تعلیم یافتہ ،غیور اور باشعور لوگوں سے یہ توقع
کرنا کہ وہ اسمبلی الیکشن کے دھارے میں بہہ کر بھارت پہنچ جائیں گے، مبنی
بر حقیقت نہیں ہے۔کشمیری رہنما مجبور ،پابند ہو سکتے ہیں لیکن کشمیریوں کے
عزم آزادی کو مقید کرنا بھارت کے بس کی بات نہیں ہے اور یہ بات کشمیری
گزشتہ 67سال اور بالخصوص گزشتہ 26سال سے بار بار ثابت کرتے آئے ہیں۔ |