بابے شاہ جیسے لوگوں کی‘ ایک رگ ہی الگ سے ہوتی ہے۔ وہ ہر
عصری طور اور روایت کی بااصولی کو بھی‘ منفی عینک لگا کر دیکھتے ہیں۔ ہر
شاہی درستی میں بھی‘ کیڑے نکالنے بیٹھ جاتے ہیں۔ سقراط‘ حسین‘ منصور اور
سرمد سے لوگ‘ مرنے سے بھی نہیں ڈرتے‘ جب کہ شاہ بابا سے لوگ‘ دعا مومن کا
ہتھیار ہے‘ کے مصداق دعا ہی کو ذریعہءاصلاح بنا لیتے ہیں۔
پرسوں میں‘ شاہ بابا کی زیارت کے لیے‘ ان کے ہاں گیا۔ بیٹھک میں‘ اکیلے ہی‘
تشریف فرما تھے۔ آنکھیں بند کیے‘ بڑی دل سوزی اور خلوص دل سے‘ دعا اور عجب
طور کی خودکلامی فرما رہے تھے۔ بڑی عجیب اور معمول سے ہٹ کر‘ دعا اور
خودکلامی تھی:
اے الله! تو خوب جانتا ہے‘ تیرا یہ عاجز اور حقیر بندہ‘ کم زور اور ناتواں
ہے۔ ظالموں سے ٹکر لینے کی‘ طاقت نہیں رکھتا۔ زبانی کلامی کو‘ یہ بگڑے لوگ
مانتے نہیں ہیں۔
کہتے ہیں: بابا پرانے زمانے کا بندہ ہے‘ اسے آج کے معاملات کا کیا پتا۔ یہ
بابے تو محض خبطی ہوتے ہیں۔
بےشک‘ تو قادراور رحیم و کریم ہے۔ تدابیر کی‘ کب تیرے پاس کمی ہے۔
تیرے بندے‘ حد درجہ بےراہرو ہو گیے ہیں۔ یہ تیرے ماننے والے ہیں‘ لیکن تیرا
خوف ان کے دل سے اٹھ گیا ہے۔
اے الله! ظلم‘ زیادتی اورخرابی کا بازار گرم ہے۔ ایسی خرابی آئی ہے‘ کہ اس
نے اگلے پچھلے‘ سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔
اے الله! میں‘ یہ سب نہیں دیکھ سکتا۔ مجھ سے اب‘ مزید دیکھا نہیں جاتا۔
میری برداشت کی قوتیں جواب دے گئی ہیں۔
بلا شبہ‘ شر شیطان کی طرف سے اٹھتی ہے۔ روز اول سے‘ وہ انسانوں کو اکساتا
چلا آرہا ہے۔ اب تواس کے‘ دانت اور ناخن کچھ زیادہ ہی تیز ہو گیے ہیں۔ میں
اس کی موت نہیں مانگتا‘ کیوں کہ کسی ذی روح کی موت مانگنا‘ ققیر کے مسلک
میں داخل نہیں۔
میرے مالک! آج کا انسان تو‘ اس کا ایک جھٹکا برداشت کرنے کی استطاعت نہیں
رکھتا۔ وہ تو گرفت میں آنے کے لیے‘ پہلے ہی پر تول رہا ہوتا ہے۔ بہت ہو
چکا‘ اب اس بے راہ روی کا دروازہ بند ہونا چاہیے۔ اگر بند نہ ہوا‘ تو آتی
نسلوں کے طور‘ اس سے بھی بدتر ہوں گے۔ برائی کا کینسر تیسری اسٹیج پر نہیں
آنا چاہیے۔
عزازئیل! انسان کے دل میں وسوسہ ڈال کر‘ تم اس کے نفس میں جگہ بنا لیتے ہو
اور پھر‘ ہر موڑ پر اسے گم راہ کرتے ہو۔ تم سمجھتے ہو‘ میں بہت بڑا معرکہ
سر کر رہا ہوں۔۔۔۔ بالکل نہیں۔۔۔۔۔ تم بہت بڑی بھول اور خسارہ میں ہو۔ ہر
برا‘ تمہارے کھاتے میں پڑ رہا ہے۔ تم اتنے توانا نہیں ہو‘ جتنا خود کو سمجھ
رہے ہو۔
جان رکھو! تم مخلوق ہو‘ خالق نہیں ہو۔ مخلوق‘ خالق کی دسترس سے‘ باہر نہیں
جا سکتی۔ میں تمہیں الله‘ وہ ہی الله‘ جو سب کا خالق و مالک ہے‘ کے غضب سے
ڈراتا ہوں۔ اب بھی وقت ہے‘ توبہ کی طرف لوٹ آؤ۔ قیامت کے روز‘ کیا منہ لے
کر جاؤ گے۔ کتنے افسوس اور دکھ کی بات ہو گی‘ کہ تمہارے کھاتہ میں ایک بھی
نیکی نہ ہو گی‘ جب کہ بدیوں کا شمار‘ حد سے باہر ہو گا۔ کیا تم‘ الله کے
قہر و غضب کا سامنا کرسکو گے۔ خود کو تولو‘ پھر دیکھو‘ کہ میں کہاں تک درست
کہہ رہا ہوں۔
میں جانتا ہوں‘ تم میری باتوں پر‘ قہقہے لگا رہے ہو گے۔ ہاں‘ میں خود غرض
ہوں۔ میں یہ سب‘ انسان کی بھلائی اور خیر خواہی میں کررہا ہوں۔ میری یہ خود
غرضی‘ اس نیکی سے اچھی ہے‘ جو ذات تک محدود ہوتی ہے۔ میری اس خودغرضی کے
نتیجہ میں‘ تمہارے کھاتے میں‘ مزید گناہ نہیں پڑیں گے۔ تمہارا کھاتہ کچھ تو
ہلکا ہو گا۔ دوسری طرف‘ انسان بھلائی کی طرف راغب ہو سکے گا اور امن کی فضا
قائم ہو سکے گی۔
عزازئیل! توبہ کی طرف آؤ اور باقی زندگی‘ توبہ کے دروازے پر بتا دو۔ الله
سے زیادہ معاف کرنے والا‘ کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔
عزازئیل! الله کا کہا اور کیا‘ برحق اور پرعدل ہوتا ہے۔ الله نہ غلط کہتا
ہے اور نہہی ‘ غلط کرتا ہے۔ الله نے غلط نہیں کہا تھا‘ کہ آدم تم سے برتر
ہے۔ نمرود‘ شداد‘ فرعون‘ قارون‘ یزید‘ مقتدر‘ اورنگ زیب تم پر تھے‘ تب ہی
تو کوراہ رہے۔ ابرہیم‘ موسی‘ حسین‘ منصور‘ سرمد‘ سقراط اور ان سے لوگوں پر‘
اپنے مکروفریب کا جادو چلا کر دکھاتے‘ تو پتا چلتا‘ کہ تم کتنے پانی میں
ہو۔ کیا وہاں تمہاری‘ بس بس نہیں ہو گئی تھی‘ ساری پھنے خانی نکل گئی تھی
ناں۔
عزازئیل! ان گنت بار تم ہارے ہو‘ اور تمہاری باباں بولی ہے۔ تسلیم کرو‘ کہ
تم الله کے بندوں کو‘ مات نہیں دے سکتے۔ مان لوالله کا کہا اور کیا‘ غلط ہو
ہی نہیں سکتا۔
تمہارا بس‘ مجھ سے‘ کم زورایمان والوں پر چلتا ہے۔ ہر کوئی کم زور ہی کے سر
پر چڑھتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے‘ کہ مخلوق کی شکتی‘ گنے چنے دنوں کی ہے۔
سکندر‘ محمود‘ چرچل وغیرہ خود کو بہت بڑا تیس مار خاں سمجھتے تھے‘ آج کہاں
ہیں‘ سب مٹی میں مل گیا۔ آج کے بڑے بھی باقی نہیں رہیں گے۔ سب مٹی میں مل
جائیں گے۔ اپنے ساتھ کچھ نہ لے جا سکیں گے۔ اچھے برے اعمال ہی ساتھ جائیں
گے۔
عزازئیل! مت بھولو‘ موت کا ذائقہ تم بھی چکھو گے۔ تم اور تمہارے ساتھی‘ کیا
ساتھ لے جاؤ گے‘ ذرا سوچو اور غور تو کرو‘ تہی دست اور تہی دامن ہی جاؤ گے۔
ہاں بداعمالی اور بدکرداری کا بدنما داغ‘ تمہاری پیشانی پر ہو گا اور
تمہارے برا ہونے کی‘ گواہی دے رہا ہوگا۔
جب تک زندہ ہو‘ برے نام‘ تمہارے نام کے ساتھ‘ پیوست رہیں گے۔ تم اور تمہارے
احباب پر‘ لعنتوں کی بوچھاڑ رہے گی۔ تمہارے ساتھی‘ بھول میں ہیں‘ ان کی
تعریف صرف ان کے منہ پر ہوتی ہے۔ وہ اپنے چمچوں کی تعریف سن کر‘ خود کو صاف
ستھرا سمجھتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے‘ کہ یہ ہی ان کے چمچے کڑچھے اور گماشتے‘
ان کی پیٹھ پیچھے غلیظ پالوتے بولتے ہیں۔ یہ ہی نہیں‘ ان کا ہر کیا‘ کسی
ناکسی صورت میں‘ قرطاس وقت پر رقم ہو رہا ہے۔ آتے وقتوں میں‘ ان کی کرتوتوں
پر‘ کوئی پردہ ڈالنے والا نہ ہو گا۔ یہ ہی کم زور طبقہ کے لوگ‘ جنہیں وہ‘
کیڑے مکوڑے سجھتے رہے‘ ننگی گالیاں دیں گے۔ انہیں‘ تمہارے بھائی بندوں کی
لسٹ میں رکھا جائے گا اور تم‘ بدی کے سردار اور موڈھی ٹھہرو گے۔
جان رکھو! یہ ہی حقیقت اور یہ ہی سچائی ہے۔
عزازئیل! میں تمہیں اور تمہارے پیروکاروں کو‘ الله کے غضب‘ ابدی سچائی اور
آتے وقتوں کی‘ ان گنت لعنتوں سے‘ آگاہ کر رہا ہوں۔ اس برے وقت سے ڈرو اور
تائب ہو کر‘ توبہ کو شعار بناؤ۔ الله کی رحمت سے بعید نہیں‘ کہ معاف کر دیے
جاؤ۔ صبح کا بھولا‘ اگر شام کو واپس آ جائے‘ تو اسے بھولا نہیں کہتے۔ الله
سے زیادہ اور بڑھ کر درگزر کرنے والا بھلا اور کون ہو سکتا ہے۔ چلے جانے
والوں کو دیکھو‘ کتنے بدقسمت ہیں‘ کہ وہ توبہ سی انمول نعمت سے‘ یکسر محروم
ہو چکے ہیں۔
میں جانتا ہوں‘ تم میرے نفس میں موجود ہو اور میرے ہر کہے کو‘ خوب خوب سن
رہے ہو۔ تم یہ نہیں کہہ سکو گے‘ کہ مجھے صورت حال سے آگاہ نہیں کیا گیا اور
الله کے غضب سے نہیں ڈرایا گیا یا پھر رستہ نہیں دکھایا گیا۔ تائب ہو کر‘
توبہ کے دروازے پر آ جانا ہی فلاح کا رستہ ہے۔
اے قادر و قدیر! اس کی ہدایت و اصلاح کے لیے‘ کسی کو اس پر‘ نازل فرما۔ اس
کی اصلاح ہو گئی‘ تو یہ بگڑا ہوا انسان‘ اپنی اصل فطرت پر آ جائے گا۔ شیطان
کی اصلاح ہونے کی صورت میں ہی‘ آج کے انسان کی درستی کا‘ دروازہ کھل سکتا
ہے۔ یہ کسی مصلح کے بس کا روگ نہیں رہے۔ اچھے لوگوں کی جانیں جانا‘ اچھی
اور صحت مند بات نہیں۔ موڑ موڑ پر کربلا برپا ہونا‘ میرے مالک قیامت ہے‘
قیامت ہے۔ صلاحین کی موت‘ اب دل گردہ برداشت کرنے کی تاب نہیں رکھتا۔ اچھے
لوگ رہ ہی کتنے گیے ہیں۔ ان کا اٹھ جانا‘ درست نہیں ہو گا۔
شاہ بابا‘ اپنی ذات میں مگن‘ گردوپیش سے بےخبر اور بےنیاز‘ اپنے الله سے
مخاطب تھے۔ وہ شیطان سے بھی مخاطب ہوئے۔ میں دعا اور شیطان سے مخاطبے میں
کسی قسم کا خلل نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ لگتا تھا‘ یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہو
گا۔ اسی لیے‘ تھوڑی دیر کے لیے‘ وہاں بیٹھا اور پھر‘ گھر واپس لوٹ آیا۔ گھر
آ کر مجھے خیال آیا‘ کہ مجھے وہاں مزید بیٹھنا چاہیے تھا۔ میں اس معاملہ
میں‘ نکما اور لایعنی سہی‘ پر ان کے ہر دعائیہ جملے پر‘ آمین تو کہہ ہی
سکتا تھا۔ نیکی اور نیک طلبی میں‘ کسی بھی نہج کی معاونت‘ بذات خود نیکی کے
مترادف ہے۔ شاید میں بھی نیکی پسند نہ تھا‘ تب ہی تو اٹھ آیا تھا‘ ورنہ کچھ
دیر وہاں اور رکنے سے‘ کیا ہو جاتا۔
|