سُوکھی زمین کا سیلاب

یہ اِس ملک میں ہو کیا رہا ہے؟ دریا بپھرتے ہیں، ممکنہ سیلاب سے خوفزدہ کرتے ہیں مگر پھر سیلاب کے ٹائر سے ہوا نکل جاتی ہے۔ سمندر میں طوفان سَر اُٹھاتا ہے، اچھا خاصا خوفزدہ کرتا ہے اور پھر پتلی گلی سے نکل لیتا ہے۔ اور دوسری طرف سُوکھی زمین سے ایسا سیلاب اُبھرتا ہے کہ بہت کچھ اپنے ساتھ بہا لے جانے پر تُلا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

صحرائے تھر ہی کی مثال لیجیے۔ تھر میں پیدا ہونے والے خوراک کے بحران نے سندھ حکومت پر ’’وختا‘‘ ڈال رکھا ہے۔ غذا اور غذائیت کی قِلّت ہے کہ دھرنا دیے بیٹھی ہے، ہٹنے اور کِھسکنے کا نام نہیں لے رہی!
سُوکھی، پیاسی زمین سے ایسا سیلاب اُٹھا ہے جو بہت کچھ ڈبونے پر تُلا ہوا ہے۔ تھر میں حالات کب اچھے رہے ہیں؟ کب وہاں قحط کے خنجر نے بے بس انسانوں کو ذبح نہیں کیا؟ پھر اِس بار ایسا کیا ہوگیا ہے کہ ہاہاکار مچ گیا ہے؟ میڈیا والوں نے تو جیسے بات کا بتنگڑ بنانے کی قسم کھا رکھی ہے، رائی کے دانے کو پربت میں تبدیل کرنے پر کمربستہ ہیں۔

ہم خاصی خوشگوار حیرت کے ساتھ بتا رہے ہیں کہ مرزا تنقید بیگ بھی اِس معاملے میں ہمارے ہم خیال ہیں۔ تھر کی صورت حال پر جو ہنگامہ برپا ہے اُس پر مرزا کو بھی بجا طور پر حیرت ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’صحرائے تھر پر جب اﷲ کی رحمت نہیں برستی تو خوراک کی قلت سے موت برستی ہے۔ اِس پر حیرت کیسی؟ غریبوں کا مقدر تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ دنیا کے ہر خِطے میں غریب اِسی طور جیا اور مرا کرتے ہیں۔ مگر میڈیا والوں کو اﷲ سمجھے۔ وہ صوبائی حکومت کا سُکون غارت کرنے کے مشن پر نکلے ہوئے ہیں! تھر کی صورت حال پر چینلز نے ایسی دھماچوکڑی مچائی کہ بوڑھی اور ضعیف پیپلز پارٹی کے جواں سال چیئرمین کو بھی بیدار ہوکر تھر کی طرف متوجہ ہونا پڑا۔‘‘

تھر میں خوراک کی قِلّت سے متعدد افراد اور بالخصوص بچوں کی ہلاکت پر سندھ کے وزیر اعلیٰ اور وزیر جیل خانہ جات کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری چاہتے ہیں کہ تھر میں غذا اور غذائیت کی شدید قِلّت سے واقع ہونے والی ہلاکتوں کا سبب اُنہیں بھی بتایا جائے!

اظہار وجوہ کا نوٹس جاری ہونے پر ہم حیران تھے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے سید قائم علی شاہ یعنی شاہ سائیں کی کارکردگی کچھ ایسی بُری بھی نہیں رہی۔ سبھی تو مزے میں ہیں۔ جس کے راج میں سب مزے سے اور مزے میں ہوں اُس سے کیسا استفسار اور کیوں؟ اور صوبائی وزیر جیل خانہ جات کی حیثیت سے منظور وسان بھی کسی سے کم ثابت نہیں ہوئے۔ پھر اُن سے کس وجہ کے اظہار کا مطالبہ؟ معلوم ہوا کہ شاہ سائیں کو پیپلز پارٹی سندھ کے صدر اور منظور وسان کو پارٹی کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے نوٹس جاری ہوا ہے۔ پارٹی کے عہدے ایسے ہی سِتم ڈھایا کرتے ہیں۔

ہم بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں کسی طرح کا سُوءِ ظن نہیں رکھتے۔ اُن کی قابلیت سے انکار کرنے کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ وہ ولایت سے پڑھ کر آئے ہیں۔ ہمیں جہاں کی خاک دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوسکا وہاں سے وہ علم کے موتی سمیٹ کر آئے ہیں۔ ایسے میں ہم حیران نہ ہوں تو کیا کریں؟ تھر کی صورت حال میں ایسا کیا ہے جس کی تحریری وضاحت طلب کی جائے؟ پی پی پی چیئرمین کی لیاقت مُسلّم مگر گستاخی معاف، اظہار وجوہ کے نوٹس کا اجرا تو مکھی پر مکھی بٹھانے والی فرمائش ٹھہرا!

شاہ سائیں کی زندگی میں بکھیڑے کیا کم ہیں؟ اُنہیں سندھ میں پارٹی کو مزید کمزور ہونے سے بچانا ہے۔ ہر محکمہ مویشیوں کی طرح چَرتا ہوا کہیں سے کہیں جا نکلتا ہے۔ اُسے ایسا کرنے سے روکنا بھی ہے۔ پارٹی کے ناراض کارکنوں کو تھوڑا بہت نواز کر منانا بھی ہے۔ ایسے میں تھر کا قحط کہاں سے آ ٹپکا؟ یہ تو توجہ ہٹانے والی بات ہوئی۔ قدرت پر ہم سازش کا اِلزام عائد کر نہیں سکتے مگر بدقسمتی کو تو رو سکتے ہیں۔ شاہ سائیں کا کمال یہ ہے کہ اِس پیرانہ سالی میں بھی خوش مزاجی کو اپنائے ہوئے ہیں۔ ایسے میں خشک سالی ’’دخل در معمولات‘‘ کرے یعنی پُرسکون زندگی کو تہس نہس کرنے پر تُل جائے تو عالی جاہ کو غصہ تو آئے گا ہی!

کہا جارہا ہے کہ تھر کی صورت حال پر بروقت اور خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے۔ مگر کوئی بلاول بھٹو زرداری کو بتائے کہ یہاں کسی بھی ناگہانی کے وارد ہونے کی اطلاع پر تھوڑا انتظار کرنا پڑتا ہے کہ وہ واقعی آ بھی رہی ہے یا آنے کا محض دھوکا ہے! اب سمندری طوفان ’’نیلوفر‘‘ ہی کی مثال لیجیے۔ اِس طوفان کی آمد کے بارے میں سوچ سوچ کر لاکھوں افراد ہائی بلڈ پریشر کو مزید بلند کربیٹھے! رہی سہی کسر میڈیا والوں نے پوری کردی۔ صوبائی حکومت کو بھی جاگنا پڑا کیونکہ میڈیا والے خاصی بلند آواز میں اُس کے خوابِ غفلت کو ’’خراج عقیدت‘‘ پیش کر رہے تھے! بے چاری صوبائی حکومت نے سمندری طوفان سے نمٹنے کے لیے اپنے طور پر چند ایک اقدامات کئے۔ جب تیاریاں مکمل ہوگئیں تو طوفان کراچی سے چار پانچ سو کلومیٹر کے فاصلے ہی پر دم توڑ گیا۔ کراچی سمیت سندھ کے بہت سے ساحلی علاقوں میں وسیع تباہی کے خدشات پیدا کرنے والا طوفان کھودا پہاڑ اور نکلا چُوہا جیسا معاملہ ثابت ہوا۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ سندھ حکومت کو کسی قدرتی آفت نے فریب دیا ہو۔ ڈیڑھ دو ماہ قبل پنجاب میں سیلاب نے تباہی مچائی۔ اِس تباہی کو دیکھ کر سندھ حکومت کو بھی ہوش کے ناخن لینا پڑے۔ سیلاب سے نمٹنے کی تیاریاں شروع ہوئیں۔ الرٹ پر الرٹ جاری ہوئے۔ دیہی علاقوں میں دریا کے کنارے آباد لوگوں میں کھلبلی مچ گئی۔ مگر جس کی آمد کا خدشہ تھا وہ سیلاب نہ جانے کہاں رہ گیا؟ یہ تو اﷲ کا کرم ہے کہ تباہی ٹل گئی مگر سیلاب کی شرارت بھی تو دیکھیے کہ اچھی خاصی سُکون سے سوئی ہوئی حکومت کو ہڑبڑاکر اُٹھ بیٹھنے پر مجبور کردیا! کسی منتخب حکومت سے ایسا مذاق اچھا نہیں ہوا کرتا۔ قدرت کے کارخانے کو ایسی شرارتیں تیار کرنے سے گریز کرنا چاہیے!

تھر میں خوراک کے بحران پر شاہ سائیں اور منظور وسان سے تحریری جواب طلب کرنا زیادتی ہے۔ شاہ سائیں سے تو اِس عمر میں تحریری جواب طلب کرنا سُوءِ ادب ہے۔ جواب طلبی کرنے کے بجائے ہمیں تو اُن کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اُن کی ٹھنڈی ٹھار شخصیت کو دیکھ کر سمندری طوفان اور سیلاب کے ’’پریشر کا دباؤ‘‘ منزل سے بہت دور دم توڑ دیتا ہے!

منظور وسان صاحب کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ خوابوں کی دُنیا کے مکین ہیں۔ اُن سے زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ذرا خواب دیکھ کر بتائیں آئندہ سال کوئی طوفان یا سیلاب اِس سرزمین کے نصیب میں لکھا ہے یا نہیں۔ مگر خواب کو بیان کرنا بھی ہنر ہے۔ کسی کو کیا پتا کس کے خواب میں کیا کیا دکھائی دیتا ہے۔ خواب میں جو کچھ دکھائی دیتا ہے اُسے بیان کرنے کے حوالے سے قمر جمیلؔ مرحوم نے کیا خوب کہا ہے ع
آئینے میں پھول کھلا ہے، ہاتھ لگانا مشکل ہے

منظور وسان کے آئینے میں پتا نہیں کیسے کیسے پُھول کِھلتے رہتے ہیں مگر وہ ہاتھ لگانے سے قاصر ہیں۔ صوبائی وزیر جیل خانہ جات کو خوابوں نے اِس قدر پریشان کیا ہے کہ وہ بے حواسی کی سلاخوں کے پیچھے دکھائی دینے لگے ہیں۔ ایسے میں وہ اپنے محکمے کی کارکردگی پر کیا خاک متوجہ ہوں؟

پیپلز پارٹی کے جواں سال چیئرمین نے شاہ سائیں اور منظور وسان کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرکے کوئی اچھی روایت قائم نہیں کی۔ کسی بھی قدرتی آفت پر جواب طلبی عجیب سی بات ہے۔ معاملہ اِنسانوں کی لائی ہوئی آفات پر جواب طلبی تک محدود رہنا چاہیے۔ اگر جواب طلب کرنا ہی ٹھہرا تو راستے میں دم توڑنے والے سمندری طوفان نیلوفر اور سیلاب کی بھی گوشمالی کی جانی چاہیے کہ اِس قدر ہنگامی اقدامات کئے جانے پر وہ کیوں نہ آئے! یہ تو دھوکا دینے والی بات ہوئی۔ کل کو اگر کوئی سمندری طوفان یا سیلاب آتا دکھائی دے گا تو سندھ حکومت گزشتہ برس کے تجربے کی بنیاد پر مطمئن بیٹھی رہے گی۔ ’’شیر آیا، شیر آیا‘‘ کی سی کیفیت پیدا کرکے دِل پشوری کرنا اچھی بات نہیں۔ کل کو اگر واقعی شیر آگیا تو سندھ حکومت بے چاری تاریک راہوں میں ماری جائے گی!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 482278 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More