اسلام اور انسان دوستی
(Dr Muhammad Shahid Shaukat, )
انسان دوستی کا مفہوم۔انسان
دوستی کا مطلب یہ ہے کہ انسان دوسرے تمام انسانوں کو اپنے جیسا تصور
کرے،جسطرح اپنی ذات کیلئے آرام آسائش،ترقی و عروج، عد ل وانصاف ، ہمدردی و
ایثارکا تقاضا کرتا ہے دوسرے انسانو ں کیلئے بھی ویسی ہی خواہشات و جذبات
رکھے۔جسطرح اپنی ضروریات ، حقوق اور تقاضوں کی تکمیل کیلئے بے چین و بے
قرار رہتا ہے بالکل اسی طرح دوسرے بنی نوع انسان کی ضروریات ، حقوق اور
تقاضو ں کی خاطر بغیر کسی لالچ اور مفاد کے سرگرداں اور بے چین رہے۔
اسلام مین انسان دوستی کامقام۔جناب رسالتمابﷺ کا فرمان ہے’’تم میں سے بہتر
وہ ہے جو لوگوں کیلئے فائدہ مند ہے‘‘۔ایک اور روایت میں ہے کہ ’’قیامت کے
دن اﷲ تعالیٰ انسانوں سے کہے گاکہ میں بھو کا تھا تو نے مجھے کھانا نہ دیا،
میں پیاسا تھا تو نے مجھے پانی نہ پلایا، میں محروم لباس تھا تو نے مجھے
کپڑا نہ پہنایا۔۔۔۔بندہ عرض کرے گا کہ اے رب العزت تو ان تمام ضروریات سے
مبرا ہے۔اﷲ رب العزت فرمائے گا کہ میرا فلاں فلاں بندہ ان تقاضوں کیلئے
تیرے پاس آیاتھا ،اگر تو انہیں دے دیتا تو گویا میرا تقاضا پورا ہو
جاتا‘‘۔حضرت آدم ؑ سے لے کر آنحضرت ﷺتک تمام انبیاکرام ؑکی ساری زندگی کی
جدوجہد کا مرکزومحور بلاتمیز مذہب ، رنگ ونسل سارے انسانوں کی بھلائی
اوربہتری ہی رہا ہے اور ہر نبی نے اپنے اپنے دور میں انسانیت کو مروجہ نظام
ظلم سے نجات دلا کر عدل و انصاف کامعاشرہ قائم کرنے کی سعی فرمائی۔
انسان دوستی اور خدا پرستی۔امام انقلاب حضرت مولا نا عبیداﷲ سندھی ؒ فرماتے
ہیں’’ ایمان باﷲ کی سب سے اونچی منزل یہ ہے کہ آدمی یہ مانے کہ اس زمین و
آسمان میں اگر کوئی وجود حقیقی ہے تو اسی خدا کا ہے، جو کچھ ہے اسی کا
فیضان ہے اور جو کچھ ہوتا ہے اسکا اصلی سبب وہی ہے۔ایمان باﷲ یعنی خدا
پرستی کی ایک منزل انسان دوستی ہے۔اگر آدمی یہ مانے کہ سارے انسان اسی(خدا
) کے پیدا کئے ہوئے ہیں۔ اور اگر اسکو خالق حقیقی سے محبت ہے تو لازمی ہے
کہ اسکی مخلوق سے بھی محبت ہو۔اسلئے خداپرستی کی پہچان اس دنیا میں یہی ہے
کہ ایک خدا پرست انسان کو خدا کے تمام بندوں سے محبت ہو اور وہ خدا کی
خوشنودی اسکی مخلوق کی بہبودی اور خدمت میں ڈھونڈے‘‘۔
انسان دوستی اور تاریخ اسلام۔اسلام کے نظام کے غلبے کے دور کی گیارہ سو
سالہ تاریخ اس بات کی شاہدہے کہ مسلم عادل حکمرانوں نے انسان دوستی کو اپنے
نظام حکومت کا مرکزومحور بنایا ہواتھا۔اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان ؒکی
انسان دوستی کا یہ عالم تھا کہ ہر نابینا آدمی کے ساتھ ایک اعصابردار مقرر
کر رکھا تھاجو اسکو چلنے پھرنے میں مدد کرتا تھا۔انسان تو انسان ، یہ
خلفائے اسلام خودکوجانوروں تک کی ضروریات کا ذمہ دار سمجھتے تھے۔حضرت عمربن
عبدالعزیزؒ نے فرمایا کہ اگر دریائے دجلہ کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مرگیا
تومجھے اسکا بھی جوابدہ ہونا پڑیگا۔تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ
اولیاء اﷲ نے اپنی ساری زندگیاں خداپرستی کے منطقی نتیجے یعنی انسان دوستی
کے نام پر تیاگ دی تھیں-
یہ اﷲ والے صرف اپنے حجروں میں بیٹھ کر صرف ذکراﷲ ہی نہیں کرتے تھے بلکہ
عام انسانوں کے درمیان اپنی زندگی بسر کرتے ، انکی پریشانیاں دوررکرتے ،انکے
مسائل حل کرنے میں انکا ہاتھ بٹاتے ،اور انکو راہ راست پر لانے کیلئے بے
چین رہتے تھے ۔حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ ہندوستان کے ظلمت کدے
میں رشدو ہدایت کی وہ شمع روشن کی کہ جس سے ایک عالم بقعہ نوربنا۔یہ انکے
انسان دوستی پر مبنی طرز عمل کا ہی نتیجہ ہے کہ آج بھی ساری دنیا بالخصوص
ہندوستان میں بسنے والے تمام انسان خواہ ہندو ہوں ، سکھ ہوں ، عیسائی ہوں
یا پارسی ،آپؒ کو خواجہ غریب نواز کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔برعظیم ہندوستان
کی ساڑھے آٹھ سو سالہ مسلم حکمرانی کی تاریخ گواہ ہے کہ بیرون ہندوستان سے
آکر یہاں انسان دوستی پر مبنی جو سسٹم قائم کیااسکے تحت یہاں کی تمام اقوام
اور مذاہب کے لوگ پرسکون اور مطمئن زندگی بسر کرتے رہے تھے۔برطانوی سامراج
سے آزادی کے حصول کیلئے ولی اللٰہی تحریک سے وابستہ علمائے حق اور مجاہدین
انسانیت نے پھانسیاں قبول کیں، کالا پانی کی سزائیں کاٹیں،جلاوطنی قبول کی
تو کس لئے؟ جاگیریں حاصل کرنے کیلئے؟اقتدار میں اپنا حصہ حاصل کرنے کیلئے ؟
ذاتی مفادات کے حصول کیلئے ؟نہیں بلکہ عام انسانوں کی آزادی اور ترقی کے
حصول کیلئے ، نہ صرف ہندوستان بلکہ ساری دنیا کو امن وسکون کا گہوارہ بنانے
کیلئے۔اس ساری جدوجہد آزادی کی تہہ میں یہی انسان دوستی کا جذبہ ہی کارفرما
تھا۔
انسان دوستی کے سماجی تقاضے۔کسی سماج کو دیکھ کر ہم یہ کیسے اندازہ کر سکتے
ہیں کہ یہ انسان دوست سماج ہے یا نہیں۔ظاہر ہے کہ کچھ سماجی مظاہر و
معیارات ہونگے۔یہ دنیا دارالاسباب ہے۔ اسکی حسن وقبح کا فیصلہ انہی اسباب
اور معیارات کودیکھ کر ہی کیا جا سکے گاکیونکہ درخت اپنے پھل سے پہچانا
جاتاہے۔اگر کسی سماج میں بنیادی حقوق کی ادائیگی انسانی بنیادوں پر ہو رہی
ہے معیشت کا نظام عادلانہ بنیادوں پر قائم ہے جس میں ہر انسان بلا تفریق
معاشی وسائل سے مستفید ہو رہاہے، سیاسی نظام انسان دوست اور حقیقی بنیادوں
پر قائم ہے،وحدت انسانیت پر مبنی ایک باوقار اجتماعیت موجودہے جہاں آزادیِ
رائے،تبادلہ خیال کی فضا پروان چڑھ رہی ہے،اختلاف رائے کوٹکراؤ کی بجائے
ارتقاء اور ترقی کا زینہ بنایا گیا ہے تو یہ سماج انسان دوست سما ج کہلائے
گا گر یہ نہیں تو بابا باقی کہانیاں ہیں-
انسان دوستی اور نظریہ جہاد۔اس دنیا میں خیر اور شر کی جنگ ازل سے جاری ہے
اور ابد تک جاری رہے گی۔اسلئے ہر سماج میں ایسی قوتیں موجود رہتی ہیں جنکا
مطمع نظر معاشرے میں انتشار ، بدنظمی، اور ظلم وبربریت کا بازار گرم کئے
رکھنا ہے تو لامحالہ ایسی قوتوں کاسدباب کر نا پڑیگا،اس سماج میں ظلم
وبربریت کو پھیلانے والے زھریلے سرچشمے بند کرناپڑیں گے،انکامعاشی اور
سیاسی غلبہ وتسلط ختم کرنا پڑے گا۔اس موقعہ پر نظریہ جہاد ہی وہ ڈھال ہوگی
جو انسانیت کو ایسی انسان دشمن قوتوں کے اثر سے بچاکرترقی اور کامرانی کی
راہ پر گامزن رکھے گی۔
انسان دوستی اور صالح نظام۔انسان دوستی کے سماجی تقاضے محض خواب وخیال اور
فکرو نظر میں پورے نہیں ہو سکتے اور نہ ہی محض دعاؤں اور لچھے دارمگر بے
روح تقریریں کرنے سے حاصل ہوگا بلکہ اس مقصدکی تکمیل کے لئے بالکل اسی طرح
میدان عمل میں نکلناپڑے گاجس طرح ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام ؑاور
خصوصاًہمارے آقائے نامدارحضرت محمدﷺاور آپکی تربیت یافتہ جماعت صحابہؓنے
ایک جہد مسلسل کے ذریعے قریش مکہ اور قیصروکسریٰ کے مسلط کردہ نظام ظلم کو
توڑکر ایک عادلانہ سماجی،معاشی اور سیاسی نظام قائم کیا تھا بقول اقبالؒ
عمل سے زندگی بنتی ہے،جنت بھی، جہنم بھی یہ
خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے |
|