رائیونڈ کا اجتماع
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
گذشتہ ہفتے تبلیغی جماعت کا
سالانہ اجتماع منعقد ہو ا،کوئی اشتہار ،نہ کوئی پوسٹر ، حرمین شریفین کے
بعد تبلیغی اجتماعات دنیاکے سب سے بڑے مجمعے ہوتے ہیں ،غیر مسلموں میں دعوت
و تبلیغ، مسلمانوں میں اصلاح اور تذکیرنیز عملی طورپر ضروریاتِ دین سیکھنے
کے لئے چلّے،سات چلے،شبِ جمعات اور روزانہ کے گشت وتعلیم میں ان کے یہاں
شریک ہونے والوں کی تعداد بھی کافی سے زیادہ ہوتی ہے، جن میں عام خواتین
وحضرات سے لے کر طلبہ ،مزدور ، ملازمین ،سیاسی لوگ غرض ہرطبقے کے افراد
شریک ہوتے ہیں ، ’’اﷲ سے ہونے کا یقین، مخلوق سے نہ ہونے کا یقین‘‘ ان کی
سب سے بڑی بات ہے ،اپنی تعریفیں نہ غیروں پرتنقیدیں ،حضرت مولانا الیاس ؒ
کی اس مجددانہ تحریک سے عالمی سطح پر کروڑوں انسان وابستہ وپیوستہ ہیں،فی
زمانہ اطراف واکناف ِعالم میں تیزی سے اسلام کے پھیلنے میں دیگر عوامل کے
ساتھ ساتھ ان لوگوں کابہت بڑاحصہ اور أثرہے، اتنی بڑی اور منظم جماعت ہونے
کے باوجودکرسی ،منصب ،سیاست و اقتداراورفرقہ واریت ولسانیت کے تذکروں تک سے
دور،ایمان وعمل کا حسین امتزاج،فضائل کاانتخاب اور رذائل سے اجتناب ان کا
ماٹو ہے ۔میں ان دنوں اسلام آباد اور پختونخواکے سفرپے تھا، ہرشہر، علاقہ
اور گاؤں گاؤں سے ٹولیاں نکل رہی تھیں ، ایسے عام اندازسے کہ مارچ،جلوس اور
مظاہرے کی شکل اختیار کریں، نہ ہی کہیں ٹریفک کی روانی میں خلل اندازی ہو۔
یہ کون لوگ ہیں ؟ کیا چاہتے ہیں ؟ ان پر کیا اعتراضات ہیں ؟اور ان کے
جوابات کیا ہیں ؟راقم نے بھی جماعت کے ساتھ وقت لگایاہے اور اب بھی
وقتاًفوقتاً جُڑتا رہتا ہوں،لیکن ہمارے مشاہدات وتأثرات کے بجائے، آئیے ذرہ
حضرت ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کے ایک طویل مضمون کا اختصاروتسہیل کے ساتھ
مطالعہ کرتے ہیں:
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ تبلیغی جماعت میں عوام الناس کے ہرطبقہ کے لوگ
شریک ہوتے ہیں ، علماء ،طلبہ ، تاجر ،ملازم ،کسان او رمزدور وغیرہ ،اب ان
میں سے ہر ایک شخص تو ایسانہیں ہوتا، جس کی کامل اصلاح اور تربیت ہوچکی ہو،
اسی لئے بعض اوقات ان میں سے کسی سے جب کوئی نامناسب حرکت سرزد ہوجاتی ہے ،تو
کچھ جذباتی حضرات فورا ًاس فرد کی غلطی کوجماعت کی طرف منسوب کردیتے ہیں ،
حالانکہ یہ انصاف کے خلاف ہے ،انصاف یہ ہے کہ غلطی اس فردکی طرف منسوب کی
جائے نہ جماعت کی طرف ،کیونکہ جماعت خود اسے غلط سمجھتی ہے ۔
ایک صاحب کہنے لگے کہ یہ بات اس حدتک بالکل صحیح ہے ، ہم نے بھی دیکھاہے ،
جولوگ اس جماعت کے ساتھ جڑ جاتے ہیں ،ان پر صلاح وتقوی کے آثارنمایاں ہوتے
ہیں اور وہ منشیات یادیگر جرائم سے دور بھاگتے ہیں لیکن ہمیں جماعت سے دو
شکوے ہیں :
۱۔ یہ کہ جب کوئی ملازم پیشہ شخص ان سے متاثر ہوکر کچھ وقت ان کے ساتھ
لگاتاہے ،مثلا ًایک چلہ ،توبعض مرتبہ یہ دیکھنے میں آتاہے کہ وہ شخص چلہ
لگانے کے بعد اسی جماعت کا ہوکر رہ جاتاہے ،اسے نوکری کی پرواہ ہوتی ہے اور
نہ بیوی بچوں کی فکر ،اِدھر دفتر والے پوچھ رہے ہیں ،اُدھر گھر والے پریشان
۔
۲۔ اسی طرح یہ بھی دیکھنے میں آیاہے ،اسکول یا کالج کا جو طالب علم چھٹی کے
دنوں میں جماعت کے ساتھ نکل جائے، تو وہ تعطیلات ختم ہونے کے بعد بھی جماعت
کے ساتھ چلتارہتاہے او روہ اسکول چھوڑ دیتاہے ،اسے تعلیم کی فکر ہوتی ہے
اور نہ والدین کے احکام کی پرواہ ۔
میں نے ان سے کہا بے شک اس طرح کے اِکاّدُ کاّ واقعات ہمارے ہاں بھی پیش
آتے ہیں ،لیکن یہ انفرادی کو تاہیاں ہیں ،ان کا جماعت کی پالیسی سے کوئی
تعلق نہیں ،لہذا ان کو تاہیوں کو ان افراد کی طرف منسوب کرنا چاہئے نہ کہ
جماعت کی طرف ، اس لئے کہ جماعت والے کسی ملازم پیشہ شخص یا طالب علم کو
ہرگز نہیں کہتے کہ تم اپنی ملازمت چھوڑدو ،یا اسکول او رکالج کی تعلیم ترک
کردو اور جماعت میں لگ جاؤ، بلکہ وہ تویہ کہتے ہیں کہ بھائی !رخصت کے ایام
ہمارے ساتھ گزاردو، پھر اخلاص اور دیانتداری سے اپناکام کرو۔
اصل بات یہ ہے کہ معاشرے کے ہرطبقہ میں اکاد کا جذباتی افرادہوتے ہیں ،جن
سے اس طرح کے غلط تصرفات صادر ہوجاتے ہیں ،آخر آپ نے بھی تو ایسے ملازمین
کا تذکرہ سناہوگا ،جنہوں نے کسی دوسری وجہ سے جذبات میں آکر ملازمت چھوڑ دی
یا ایسے طلبہ کا تذکرہ بھی سناہوگا جو اسکول یا کالج سے بھاگ گئے ہوں ،
لہذا ایسے تصرفات کی نسبت ان افراد کی طرف کرنی چاہئے، نہ جماعت کی طرف ۔
بعض مرتبہ ذہن میں شبہات اس لئے پیدا ہوتے ہیں کہ انسان شرعی احکام اور
آداب سیچذاتِ خود ناواقف ہوتاہے ۔
اسی طرح کاایک قصہ ہے کہ ایک عربی ملک میں مجھے ایک عرب نوجوان ملا ، جب
تبلیغی جماعت کے بارے میں گفتگوشروع ہوئی تو وہ کہنے لگاکہ یہ جماعت بہت
اچھا اور مفید کام کررہی ہے، مگر اس میں کچھ بدعات ہیں ،جن پر مجھے اعتراض
ہے ،میں نے اس نوجوان سے کہا کہ آپ مجھے کسی ایک بدعت کی نشاندہی کردیجئے ،تاکہ
میں جماعت کے ذمہ دار حضرات تک آپ کی بات پہنچا سکوں ۔ کہنے لگے : جب کوئی
جماعت دعوت کے لئے نکلتی ہے، توکہتے ہیں : یہ ہماراامیرہے ،حالانکہ یہ بدعت
ہے ،میں سمجھ گیا ،یہ اعتراض یا اشکال ،اس کی دینی معلومات کی کمی کی وجہ
سے ہے ،میں نے ان سے پوچھا،کیا ضرورت نہیں ہوگی کہ ان میں ایک شخص ایساہو
جو سب کی نگرانی کرے ،ان میں نظم قائم کرے او ران کے حالت پر نظررکھے ؟جبکہ
سفر میں اس کی ضرورت زیادہ ہے ،کھا نا ،پینا، نماز پڑھنا ،سامان کی حفاظت
اور دعوت کی ترتیب وغیرہ ،یہ امور مستقل منتظم کے متقاضی ہیں ، آپ اس
نگرانی کا نام امیر رکھ دیں یا مدیر ،نام سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اس نوجوان نے سرہلاتے ہوئے کہا : آپ نے صحیح کہا ، مجھے مسئلہ سمجھنے میں
غلطی ہوئی ہے ، پھر میں نے اس سے کہا کہ امیر بنانانہ صرف جائز اور مباح ہے
بلکہ سنت اور آداب سفر میں سے ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں حکم دیاہے کہ
جب ہم جماعت کی شکل میں سفر کریں تو اپنے لئے ایک امیر چن لیاکریں ۔
بعض عوام اور غیر علماء سے دور ان سفر ایک یہ اعتراض بھی سننے میں آیا کہ
جماعت نے چھ نمبر متعین کرکے باقی دین کے شعبوں کو چھوڑدیا ہے جب کہ دین
زندگی کے سب شعبوں کو شامل ہے ۔
یہ اعتراض بھی لاعلمی پر مبنی ہے ،بیشک دین زندگی کے تمام شعبوں کو شامل ہے
،لیکن اس کے ساتھ ساتھ تقسیم کاراور اس کے نمبر وار مراحل بھی ایک فطری او
رشرعی قاعدہ ہے ،چنانچہ جس طرح کچھ لوگ پڑھنے پڑھانے ،کچھ جہاد اور کچھ
دیگر شعبوں میں کام کررہے ہیں ٹھیک اسی طرح تبلیغی جماعت کے بزرگوں نے اپنی
فراست اور تجربہ سے یہ چھ نمبرمتعین کئے ، ان سے امت کی اصلاح اور ان کی
زندگی میں انقلاب آئے گا ،جب امت کی تربیت اور اصلاح ہوگی، تو پھر اس کے
افرادزندگی کے جس شعبے میں بھی جائیں گے ،وہ دین کے احکام پر چلیں گے ۔
پھر یہ بات بھی یادرکھنی چاہئے کہ تبلیغی جماعت ایک کھلی ہوئی کتاب ہے ،جس
میں کوئی چھپی ہوئی چیز نہیں ، ہرشخص قریب سے اس کتاب کو پڑھ سکتاہے ،جس کو
جماعت کے بارے میں شک وشبہ ہو ، اسے چاہیئے کہ جماعت کے مراکز میں جائے ،
ان کے اجتماعات میں شامل ہو اور ان کے بیانات سنے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں ؟
ان کے ساتھ وقت لگائے او ردیکھے کہ وہ کیا کرتے ہیں؟ اسی طرح جماعت کے بڑوں
سے ملے اور اگر کوئی اشکال یا اعتراض ہو ،تو ان کے سامنے پیش کرکے تسلی بخش
جواب حاصل کرے ۔
یہاں میں مناسب سمجھتاہوں کہ اس سلسلے کی دوشہادتیں نقل کردوں :
۱۔ پہلی شہادت ایسے نوجوان کی ہے ، جس نے جماعت کے ساتھ غیر اسلامی ملکوں
میں وقت لگایا اور اس جماعت کے نیک آثار دیکھ کر اپنی رائے کا اظہار کیا۔
۲۔ دوسری ایک عرب عالم فاضل کی ہے، جس نے اپنے دوستوں کے ساتھ رائیونڈ کے
سالانہ اجتماع میں شرکت کی اور وہاں جوکچھ دیکھا ،پایا،سُنا،اس کی رپورٹ
اپنے ملک کے مفتی اعظم شیخ بن باز مرحوم کو ارسال کی : ایک عرب نوجوان کی
شہادت کے سلسلے میں عرض ہے کہ 1995ء میں امریکا کے ایک سفر کے دوران شکاگو
کی ایک مسجد میں میری اس سے ملاقات ہو ئی ۔ ہوایوں کہ میں نے اپنے ساتھیوں
کے ساتھ ایک مسجد میں عشاء کی نماز اداکی ، مسجد نمازیوں سے کھچا کھچ بھری
ہوئی تھی ،یہ دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی ،نمازکے بعد کسی نے بتایا کہ یہاں
عربوں کی جماعت آئی ہوئی ہے ،ہم ان سے ملنے گئے ،تعارف ہوا، جب امیر صاحب
کو معلوم ہوا، ہمارا تعلق پاکستان سے ہے، تو انہوں نے میراہاتھ پکڑ ااو
رالگ ایک جگہ بیٹھ گئے ، مجھ سے جماعت کے بارے میں سوالات کرنے لگے ،میں نے
اپنے معلومات کے مطابق اس کو جوابات دیئے تو کہنے لگے : یا شیخ !میرے ملک
میں بعض لوگ اس جماعت کے خلاف باتیں کرتے ہیں ، لیکن حق یہ ہے کہ میں نے ان
ملکوں میں اس جماعت کے جو اچھے اثرات دیکھے ہیں ، وہ اس بات کی کھلی
اورروشن دلیل ہیں کہ یہ اہل حق کی جماعت ہے ، اس عرب نوجوان کا ’’ اچھے
اثرات ‘‘ کہنے کامعنی یہ تھاکہ وہ اسلامی مظاہر،جو ان ملکوں میں پائے جاتے
ہیں ،یعنی باوجود اس کے کہ مسلمان اقلیت میں ہیں ، مگر ان کا دین کی طرف
متوجہ ہونا ، اپنے اور اپنی نئی نسل کے ایمان واسلام کی فکر کرنا، اس کے
لئے جگہ جگہ مساجد تعمیرکرنااور مساجد میں قرآن کریم کے لئے مکاتب کا اجراء
وغیرہ ،یہ اسی کی برکت ہے کہ اب وہ مسلمان خود بھی مساجد میں باجماعت نماز
اداکرتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی ساتھ لاکر مکاتب میں قرآن کریم کی اور
دین کے بنیادی مسائل کی تعلیم دلواتے ہیں جب کہ اس سے پہلے وہ مغربی تہذیب
اوروہاں کی مادی زندگی پر اس قدر فریفتہ ہوچکے تھے کہ انہیں اسلامی ملکوں
سے علماء ،ائمہ ، خطبااور مکاتب کے لئے حفاظ اور قراء لائے ، تاکہ وہ انہیں
دین اسلام سکھلائیں ۔
ایک دوسری شہادت ایک بہت بڑے عالم دین کی ہے جن کا تعلق ایک عرب برادر ملک
سے ہے ،1407ھ میں خود بنفس نفیس رائیونڈ کے سالانہ اجتماع میں شریک ہوئے
اور پھر اس کی رپورٹ اپنے ملک کے مفتی اعظم کو پیش کی ،یہ رپورٹ ایک کتاب
’’جلاء الأذھان عمااشتبہ فی جماعۃ التبلیغ بعض اھل الایمان ‘‘ سے لی گئی ہے
:
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ ابرکاتہ ۔۔۔۔امابعد !
میری رخصت 1/3/1407ھ کو شروع ہوئی اور میں 3/3/1405ھ کو علماء اور طلبہ کی
ایک جماعت کے ساتھ پاکستان کے سفر پر روانہ ہوا،ان علماء اور طلبہ کاتعلق
مملکت کی مختلف جامعات سے تھا، یعنی مدینہ یونی ورسٹی ،جامعۃ الامام محمدبن
سعود الاسلامیہ اور جامعۃ الملک سعود وغیرہ ۔اس سفر میں ہم نے عجائبات کا
مشاہدہ کیا، جب ہم لاہورکے ہوائی اڈے پرپہنچے، ، تحیۃ المسجد اداکرنے کے
بعد ہم سب مل جل کر بیٹھ گئے، ہماراتعلق مختلف ممالک سے تھا ، اب ان میں سے
ایک نوجوان اٹھا اور اس نے ایسا بیان شروع کیا، جو دلوں کوکھینچ رہاتھا،
پھر گاڑیاں آگئیں اورہمیں رائیونڈ لے گئیں ، جہاں سالانہ اجتماع منعقد
ہوتاہے ، وہ خوب صورت اجتماع جسے دیکھ کر دل میں خشوع پیداہوتاہے اور
آنکھیں ڈر، خوشی اور اﷲ کے خوف سے بارش کی طرح آنسو بہاتی ہیں ، یہ اجتماع
اہل جنت کے اجتماع سے مشابہ ہے ، جہاں نہ کوئی شوروغل تھا اور نہ کوئی تکلف
،نہ کوئی فضول بات ، نہ لاقانونیت ،اور نہ جھوٹ ، صاف ستھراماحول ، نہ کوئی
بدبو اور نہ کوئی گندگی ،ہرچیز ذہانت وسلیقہ سے ترتیب دی ہوئی تھی ،نہ
ٹریفک پولیس ،نہ عام پولیس اور نہ کوئی چوکیدار ،جب کہ اجتماع میں آنے
والوں کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہے ۔
ایک فطری اور پاکیزہ زندگی ہے ،جہاں ذکر اﷲ کی فضا پھیلی ہوئی ہے ،دن رات
ہرطرف علمی محاضرات ،دروس اور ذکر اﷲ کے حلقے لگے ہوئے ہیں ،بخدا !یہ ایک
ایسا اجتماع ہے جس سے دل زندہ اور ایمان چمکتاہے اور اس میں اضافہ ہوتاہے
،کتنا بارعب اور کتنا خوب صورت اجتماع ہے جو آپ کے سامنے صحابہ کرام ؓ ،
تابعین ؒ اورتبع تابعین کی بولتی ہوئی تصویر پیش کرتاہے ، ہر طرف محنت ،علم
،ذکر ، میٹھی گفتگو،خوب صورت اعمال ، عمدہ اسلامی حرکات او رایمان اور علم
سے چمکتے ہوئے چہرے آپ کو ملیں گے ،آپ اس اجتماع میں صرف توحید ،ذکر ،تسبیح
وتحمید ، تحلیل وتکبیر ، قرآن کریم کی تلاوت ،السلام علیکم ،وعلیکم السلام
ورحمۃ اﷲ اور جزاکم اﷲ خیرا جیسی باتیں سنیں گے ۔
آپ کی نگاہ ایسی چیزوں پر پڑے گی جن سے آپ کو خوشی ہوگی اور آپ کا دل باغ
باغ ہوجائے گا او رمحمد ﷺ کی سنتوں کو تروتازہ زندہ کرنا ،جنہیں آپ ہر آن
اور ہر وقت دیکھ کر لطف اندوز ہوں گے ،یہ کتنا خوب صورت اور کتنا ہی عمدہ
عظیم الشان اجتماع ہے ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ یہاں آپ کو واضح طورپر قرآن کریم اور رسول اﷲ ﷺ کی سنت
کا عملی نمونہ نظر آئے گا، کیاہی خوب پاکیزہ اور سعادت مند زندگی ہے ۔
میرے دل میں باربار یہ آرزو پیدا ہوئی کہ کاش ! اس قسم کی دعوت کا اجتماع
مملکت سعودی عرب میں بھی منعقد ہو ، اس لئے کہ ہر اچھے کام اسی مملکت کے
ساتھ زیب دیتے ہیں او راس لئے بھی کہ مرحوم ملک عبدالعزیز ؒ کے ابتدائی
تابندہ دور سے لے کر مملکت ہمیشہ ہر عمل خیرمیں آگے آگے رہی ہے ۔
اس عظیم اجتماع میں اکٹھے ہونے والے افراد جن کا تعلق دنیا کے مختلف ملکوں
سے تھا، سب کی ایک شکل ،ایک طبیعت ،ایک بات اور ایک ہدف ہے ،گویا وہ سب ایک
باپ کی اولاد ہیں ،یایہ سمجھیں کہ گویا اﷲ تعالی نے ایک دل پیدافرمایا اور
ان سب میں تقسیم کردیاہے ، ان سب کا مقصد اور غرض اس کے سواکچھ نہیں کہ دین
کو مضبوطی سے پکڑا جائے اور مسلمان نوجوانوں کی اصلاح کی جائے او رغیر
مسلموں کو اﷲ تعالی کے راستے کی طرف رہنمائی کی جائے ، تعجب ہے کہ ایسے
صالحین کے خلاف جھوٹی خبریں پھیلانے والے کیوں غلط بیانی سے کام لیتے ہیں ؟
ان حضرات کے بارے میں شیخ عبدالمجید زندانی نے کیاخوب فرمایاہے ’’ یہ تو
آسمان کی مخلوق ہے جو زمین پر چل پھر رہی ہے ‘‘اس کے بعد ایسا بھی کوئی دل
ہوگا جو ان کوبرابھلاکہے اور ایسی باتوں کی تہمت لگانے کی جرأت کرے گا جو
ان میں نہیں ہیں ۔
میراخیال یہ ہے کہ اس جماعت کاہدف اور مقصد بھی وہی ہے جو ہماری مملکت کا
ہے اور وہ ہے ، دنیاکے انسانوں کی اصلاح اور زمیں کے چپہ چپہ پر امن وامان
کی ترویج ،اب آپ ہی بتائیں کہ کون سی بات ان کی قابل گرفت ہے ؟؟
اب دوبارہ اجتماع کی طرف آئیے !عشاء کے بعد جب بیان ختم ہوتاہے تو دائیں
بائیں نگاہ دوڑائیں، تو آپ کو مختلف علمی حلقے نظر آئیں گے ، ان میں جس
حلقے میں بھی آپ بیٹھیں گے ،لطف اندوز ہوں گے اور وہاں سے کچھ نہ کچھ فائدہ
اٹھا کر ہی اٹھیں گے ، پھر جب سونے کا وقت ہوجاتاہے اور چاروں طرف خاموشی
او رسکون طاری ہوجاتاہے ،توآپ ان کو دیکھیں گے ،گویا جگہ جگہ ستون کھڑے ہیں
او رنمازمیں مشغول ہیں او رجب رات کا آخری وقت ہوتاہے ،تو دیکھیں گے گویا
شہد کی مکھیاں ہیں جو بھنبھنارہی ہیں ،ہرطرف آہ وبکا او ررورو کے ہاتھ
اٹھائے دعاکررہے ہیں کہ اﷲ تعالی ان کے اور تمام مسلمانوں کے گناہ معاف
فرمائے ۔اﷲ تعالی ان کو او ران کے تمام مسلمان بھائیوں کو جہنم کی آگ سے
بچائے اور سب لوگوں کوہدایت بخشے کہ محمد ﷺ کی سنتوں کو زندہ کریں ۔
مختصریہ کہ یہ ایک ایسا اجتماع ہے جس میں ہر عالم اور ہرطالب علم کو آنا
چاہئے ،بلکہ ہر اس مسلمان کو آنا چاہئیے جو دل میں اﷲ کا خوف اور آخرت میں
جنت کی امید رکھتاہے ،اﷲ تعالی اس اجتماع کے ذمہ دار حضرات کو جزائے خیر دے
،ان کو ثابت قدم رکھے ، ان کی مددفرمائے اور ان کے ذریعے مسلمانوں کو فائدہ
پہنچائے ۔۔انہ سمیع مجیب ۔
اب ان کے بارے میں سنیں جو اس اجتماع میں آنے والوں کی خدمت پر مقررہیں ،
وہ سب کے سب قرآن کریم کے حافظ ہیں ، آٹاپیسنے والے کی زبان پر اﷲ کا نام
او رتسبیح وتکبیر جاری ہے ، آٹاگوندھنے والے کی زبان پر اﷲ کا نام ، اﷲ
اکبر ،سبحان اﷲ ،والحمدﷲ جاری ہے اور روٹی پکانے والے کی زبان پر بھی اﷲ کا
نام ، اﷲ کا ذکر ،تسبیح ،تحمید او رتکبیر جاری ہے اور یہ ہم نے اس وقت اپنی
آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا ،جبکہ ان کو ہمارے آنے کی پیشگی کوئی
اطلاع نہیں تھی اور نہ ہی ان کو پتہ چلا کہ ہم دیکھ او رسن رہے ہیں ،پاک ہے
وہ ذات جس نے ان پر بصیرت کے دروازے کھول دیئے ہیں اور اپنے ذکر کی توفیق
دی ہے او رانکو سیدھا راستہ دکھایا ہے جس کی ہرمسلمان تمناکرتاہے ۔
سماحۃ الشیخ !حقیقت یہ ہے کہ جو شخص بھی اس جماعت میں شامل ہوگااور ان کی
صحبت میں شامل ہوگا اور ان کی صحبت میں رہے گا وہ ضرور عملی طور پر داعی
الی اﷲ بن کر رہے گا ۔کاش !میں جب جامعہ میں طالب علم تھا، اس وقت سے اس
جماعت سے متعارف ہوتاتوآج میں دعوت اور تما م علوم میں علامہ ہوتا۔
بخدا! میرا ان کے بارے میں یہ اعتقادہے او رقیامت کے روزکہ ’’جس دن مال ،
اولاد اور کوئی چیز کسی کے کام نہ آئے گی ‘‘ اگر جبار مجھ سے پوچھیں گے تو
میں یہی جواب دوں گا۔
فضیلۃ الشیخ !کاش وہ تما م داعی حضرات جو آپ کے مبارک شعبہ کے ماتحت کام
کرتے ہیں ،وہ اس اجتماع میں شریک ہوں اور جماعت کے ساتھ اﷲ کی راہ میں
نکلیں اور اخلاص اور دعوت کا انداز سیکھیں اور صحابہ کرام ؓ ،تابعین ؒاور
تبع تابعین ؒ کے اخلاق سیکھیں ۔
آخرمیں اﷲ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں حق کو حق دکھا ئے اور اس کی اتباع کی
توفیق دے اور رشد وہدایت کی رہنمائی فرمائے اور اخلاص اور صحیح اعمال کی
توفیق دے اور ہمیں ہمارے نفس ،خواہشات اور شیطان کے شر سے بچائے اور اپنے
دین کی نصرت فرمائے اور کلمہ حق کو بلند کرے اور ہماری حکومت کو اسلام سے
عزت دے اور اسلام کو اس کے ذریعے عزت دے اور وہی اﷲ ہی اس کے ولی اور اس پر
قادر ہیں ۔
وصلی علی نبینا محمد والہ واصحابہ
صالح بن علی الشُویمان
نمائندہ ٔدعوت وارشاد
جواب میں سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز نے ان کو جو درج ذیل خط (نمبر1007خ
17/8/1407ھ) لکھا:
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
عبدالعزیز بن باز کی طرف سے مکرم ومحترم فضیلۃ الشیخ صالح بن علی الشویمان
کی جانب ! آپ جہاں بھی ہوں ،اﷲ تعالی آپ کو مبارک بنائے ،آمین ۔
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ ،امابعد !
میں نے آپ کی رپورٹ جو آپ نے پیش کی ہے ، پڑھی ہے ، جس میں آ پ نے اپنے اور
اپنے ساتھ جانے والے علماء اور طلبہ ،جن کا تعلق الجامعۃ الاسلامیہ ، مدینہ
منورہ ، جامعۃ الامام محمدبن سعود اور جامعہ مالک سعود وغیرہ سے ہے ،اس
اجتماع میں شریک ہونے کی تفصیلات لکھی ہیں ،جسے تبلیغی جماعت نے رائیونڈمیں
ربیع الاول 1407ھ میں منعقد کیا ہے ،اس رپورٹ کو میں نے پڑھا ہے اور اسے
کافی وشافی پایاہے ،اس رپورٹ میں اس اجتماع کی ایسی باریک تصویر پیش کی گئی
ہے ،جسے پڑھنے والے کو ایک شوق پیداہوتاہے اور رپورٹ پڑھنے والا ایسا محسوس
کرتاہے کہ جیسے وہ خود اس کا مشاہدہ کررہاہے ، مجھے اس سے بھی بہت خوشی
ہوئی کہ آپ سب حضرات نے اس اجتماع سے بہت سے فوائد حاصل کئے او رذمہ دار
حضرات سے تبادلۂ خیالات کیا ، اﷲ تعالی ان کو جزائے خیردے اور اس قسم کے
اجتماعات زیادہ سے زیادہ ہوں اور ان سے مسلمانوں کو اﷲ تعالی نفع دے ۔
بیشک اس وقت مسلمانوں کو اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ اس قسم کی پاکیزہ
ملاقاتیں ہوں ، جن میں اﷲ تعالی کی ذات کا تذکرہ ہو اور جن میں اسلام کو
مضبوط پکڑنے ، اس کی تعلیمات پر عمل کرنے اور توحید کو بدعات اور خرافات سے
پاک رکھنے کی عادت ہو،اﷲ تعالی سے دعاہے کہ وہ تمام مسلمانوں کو ، چاہے
حاکم ہوں یا رعیت ،اس فرض کی کامل ادائیگی کی توفیق دے ۔
انہ جواد کریم ۔۔۔۔ والسلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
الرئیس العام لادارۃ البحوث العلمیۃوالافتاء والدعوۃوالارشاد
المملکۃ العربیۃ السعودیۃ
٭٭٭٭٭ |
|