سیلاب

 ستمبر دو ہزار چودہ کا اختتام ہو رہا تھا مگر اس کے ساتھ ہی نتھو لدھڑ کے خاندان کے مصائب کا نئے سرے سے آغاز ہو رہا تھا ۔ تریموں کے مقام پر دریائے چناب اور جہلم کے قیامت خیز سیلاب نے اس کی زندگی کی تمام رُتیں ہی بے ثمر کر دیں۔آبادیوں کو سیلاب سے بچانے والے بند کیا ٹوٹے ان علاقوں کے مکینوں کے دل ہی ٹوٹ گئے ۔ میلوں تک آبادیاں اور فصلیں نیست و نابود ہو گئیں۔دریا کے کنارے نشیبی علاقوں میں رہنے والے پس ماندہ علاقوں کے درماندہ کسانوں کے مویشی ،پولٹری فارم ،فش فارم ،ایندھن، بیٹیوں کے جہیز کا سامان، غذائی اجناس،گھریلو دستکاریاں ،لباس ،لحاف اور سر چھپانے کے جھونپڑے سب دریا کی طوفانی لہروں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ غریبوں کی ہر بستی کا مقدر پستی ہی رہتا ہے جس میں قسمت سے محروم ان لوگوں کی حباب کی سی ہستی انھیں دنیاکے بے ثبات کارِ جہاں میں تماشا بنا دیتی ہے۔ ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے نتھو کی آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں۔اس کے باپ پھتو لدھڑ نے نصف صدی قبل جب لدھیانہ سے ہجرت کر کے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا تو اپنے مستقبل سے بے خبر ان کنجڑوں نے اپنی جمع پونجی سمیٹی اور ترک وطن کی ٹھان لی۔ نتھو کی بیوی ،بہن بھائی ،تین بیٹیاں اور تین نو جوان بیٹے اپنی آرزؤں کو دل میں سمیٹے اپنے زادِ سفر کواپنے سر پر اُٹھائے اپنے خوابوں کی سر زمین کی جانب نئے عزم کے ساتھ بڑھ رہے تھے۔ اس وقت پھتو کی عمر بیس برس تھی اور اس کی شادی ہو چکی تھی ۔ اس کی بیوی ثباتی بے حد حسین تھی اور ایک مشاطہ تھی۔ اس کا بیٹا رنگو اس وقت چھے سال کا تھا ۔ مو ہوم خدشات سے سہما ہوا یہ قافلہ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا لیکن تقدیر کی ہونی بڑی تیزی کے ساتھ اس کے تعا قب میں تھی ۔سب بلائیں تو تمام ہو چُکی تھیں اب مرگِ نا گہانی نے انھیں دبوچ لیا۔امرتسر کے قریب بلوائیوں نے اس قافلے پر شب خون مارا ۔آگ اور خون کی اس ہولی میں کچھ بھی نہ بچ سکا ۔پھتو صرف اپنے لخت ِ جگر رنگوکو لے کر بھاگا اور اپنی اور کم سِن بیٹے کی جان بچانے میں کام یاب ہو گیا ۔ اس قافلے میں زہدو لُدھڑ کی صورت میں ایک مارِ آستین بھی تھا۔اس درندے نے خانماں برباد اُجڑے ہوئے لوگوں کو لوٹنے سے گریز نہ کیا ۔اس گھر کے بھیدی نے اس طرح لنکا ڈھایا کہ اُٹھائی گیروں ، طالع آزما مہم جوؤں،چور اُچکوں ،ٹھگوں ،بد معاشوں اوررہزنوں کو مخبری کر کے لوٹ مار میں سے اپنا حصہ وصول کیا ۔اپنے قبیح کردار اور گھناؤنے جرائم سے اس نا ہنجار نے کافی زرو مال اکٹھا کر لیا ۔اس کالے دھن کی چمک کو دیکھ کر ثباتی کی آنکھیں چُندھیا گئیں اور ڈھڈو کُٹنی ثباتی اپنے گھر کا سب اندوختہ سمیٹ کر اپنے دیرینہ آشنا زہدوو لُدھڑکے ساتھ رفو چکر ہوگئی۔آزمائش اور ابتلا کی اس گھڑی میں ثباتی کا اپنے کم سن بیٹے اور شو ہر کو چھوڑ کر رنگ رلیا ں منانے کے لیے راہِ فرار اختیار کرنا بے حسی ،بے حیائی ،سفاکی اور سفلگی کی لرزہ خیز مثال تھی۔پھتو کو یہ معلوم نہ تھا کہ اس کے خاندان کے باقی افراد پر کیا بیتی ۔ اس عالم تنہائی میں پھتو اپنے بیٹے رنگو کو سینے سے لگائے دامن جھاڑ کر بے سرو سامانی کے عالم میں جب جھنگ پہنچا تو اس نے تریموں کے نواح میں قیام کیا ۔ پے در پے سانحات،یاس و ہراس اور غیر مختتم صدمات نے پھتو کی روح کو زخم زخم اور دِل کو کرچی کرچی کر دیا۔وہ اکثر کہا کرتا کہ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے امیدوں کی فصل غار ت کر دیتے ہیں اور بے بس انسانوں کی محنت اکارت چلی جاتی ہے ۔سب اس ہونی کو دیکھتے ہیں مگر کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔وقت تیزی سے گزرتا رہا اب تو رنگو بھی کتابِ زیست کے شباب کا باب ختم کر کے ضعیفی کی حدود میں داخل ہو چُکا تھا۔

سیلاب کے بارے میں محکمہ مو سمیات کی اطلاع سُن کر رنگو کی آنکھیں ہمیشہ ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگتیں۔رنگو کو ا س بات کا سدا قلق رہا کہ آفاتِ نا گہانی ازل سے قسمت سے محروم دُکھی،مجبور،مظلوم اور بے بس و لاچار انسانیت کے درپئے آزار رہتی ہیں۔فاقہ کش اور سسکتی انسانیت کے حالات تو جوں کے تو ں رہتے ہیں جب کہ ابن الوقت ،مفاد پرست ،بے غیر ت اور بے ضمیردرندوں کے ہمیشہ وارے نیارے ہوتے ہیں۔بہتی گنگا میں ہاتھ دھو کہ اپنا اُلو سیدھا کرنے والے ہوس کے ماروں سے رنگو کو بہت نفرت تھی۔ایک دُکھی انسان کی حیثیت سے رنگو نے دُکھی انسانیت کے ساتھ درد کا جو رشتہ استوار کر رکھا تھا ،اُسے علاج گردشِ لیل و نہار سمجھتے ہوئے زندگی بھر اُس پر عمل کیا۔ایک ملاقات میں رنگو نے مجھے بتایا:
’’ ازل سے سیلاب ہی میرے تعاقب میں ہیں ۔میری توساری زندگی کو سیلابوں نے بے ثمر کر دیا ۔ایسا محسوس ہوتا ہے میری لاش بھی سیلاب میں بہہ جائے گی۔‘‘

’’ حادثے تو مشیتِ ایزدی سے رو نما ہوتے ہیں ،انھیں سیلابوں یا آفاتِ نا گہانی سے وابستہ کرنا کم علمی کی دلیل ہے۔رنگو بابا میں تمھاری ان باتوں کو نہیں سمجھ سکا۔‘‘میں نے حیرت اور دُکھ کے ملے جُلے جذبات سے پُوچھا ’’انسانی زندگی میں رونما ہونے والے سانحات اور حوادث کا سیلابوں کے ساتھ کیا تعلق ہے؟‘‘

’’ یہ باتیں میں نے اپنے باپ سے سُنی ہیں ‘‘ رنگو نے گلو گیر لہجے میں کہا ’’جب میں پیدا ہوا تو دریائے جمنا میں ہو لناک سیلا ب آیا اور ہماری سب جُھگیوں کو بہا لے گیا ۔آزادی کے وقت انتقالِ آبادی کے سیلاب میں سب کچھ بہہ گیا ۔تاریخ کا یہ انوکھا سیلاب زندگی کی تمام درخشاں اقدار و روایات کو بھی خس و خاشاک کے مانند بہا لے گیا۔آفات ِ نا گہانی سے جو مالی نقصانات ہوتے ہیں ان کی تلافی تو ممکن ہے لیکن جب زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کو ضعف پہنچتا ہے تو اس کا ازالہ کسی صورت بھی ممکن نہیں۔ کئی بار ایسا بھی ہوا ہے کہ یہ آفاتِ نا گہانی تو ہمیں پتھر کے زمانے میں پہنچا دیتی ہیں۔‘‘

’’واہ بابا رنگو تم تو مجھے کوئی فلسفی لگتے ہو ۔آج کل کے کئی نام نہاد فلسفیوں کے بر عکس تم حالات اور واقعات کے بارے میں کسی نہ کسی دلیل کو بنیاد بناتے ہو۔‘‘میں نے حیرت سے کہا ’’معاشرتی زندگی کے نشیب و فرا ز کا آفاتِ نا گہانی سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ۔وقتی نو عیت کے ان نقصانات کی تلافی ہو جاتی ہے اور زندگی پھر سے اپنی پرانی ڈگر پر چل نکلتی ہے ۔ان آفاتِ نا گہانی کی وجہ سے تہذیبی سطح پر کوئی نقصان کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘

’’جو صدمے مجھ پر گزرے ہیں ان کے پسِ پردہ سیلابوں ہی کا اثر ہے۔‘‘رنگو نے روتے ہوئے کہا’’ یہاں آنے والے ہرسیلاب کے بعدمیں نے بہاروں کے موسم میں گلشن کو مسموم ماحول میں جلتے دیکھا ہے۔ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے تو تخت و کلاہ و تاج کے سبھی سلسلوں کو غرقاب کر دیتے ہیں۔عجیب بات ہے سیلاب سے پہلے جہاں سرو و صنوبر اور گُل و یاسمین کی فراوانی ہوا کرتی تھی وہاں سیلاب کا پانی اُترنے کے بعد حدِ نگاہ تک پوہلی،کریر ،زقوم،حنظل،جنڈ،اکڑا،پوست،بھنگ،بھکڑا،ڈیہلے اور کسکوٹا کے سوا کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ جہاں سیلاب کا خطرہ ہوتا ہے ،طائران خوش نوا سیلاب کے آنے سے پہلے ہی اس علاقے سے کُوچ کر جاتے اور اطراف و جوانب میں زاغ و زغن ،بُوم و شپر اور کر گس غول در غول اُڑتے نظر آتے۔‘‘

’’یہ محض اتفاقی کیفیات ہیں جنھیں توہم پرستی کے سوا کچھ بھی نہیں سمجھا جا سکتا ۔ان سب عوامل کا تو آفاتِ نا گہانی سے کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا۔‘‘میں نے بر ملا کہا ’’مسلسل شکستِ دل کے باعث حالات نے تمھیں قنوطیت کا شکار بنا دیا ہے۔بھلا پرندوں اور جڑی بو ٹیوں کا آفاتِ نا گہانی سے کیا واسطہ ہے؟ آٓٓج پُوری دنیا اس بات پر متفق ہے کہ پرِ زمانہ تو پروازِ نُور سے کہیں تیز ہے۔اِدھر تم ہو کہ لکیر کے فقیر ہواور اپنی توہم پرستی کے باعث اپنی زندگی کو اجیرن بنانے پر تُل گئے ہو۔پرندے تو محض دانے دُنکے کی تلاش میں ایک مقام سے دوسرے مقام کی جانب پرواز کرتے رہتے ہیں ۔ان طیورِ آوارہ کی اُڑان کو کسی شگُون پر محمول کرنا دقیانوسی سوچ کے سوا کچھ بھی نہیں۔سیلابوں کی تباہ کاریاں ایک جغرافیائی تبدیلی کی علامت ہیں ،مون سون کی بارشوں کے بعد دنیا کے تما م ممالک میں سیلاب آتے رہتے ہیں۔ ‘‘

’’سانپ نکل جائے تو لکیر پیٹنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا،‘‘رنگونے کہا’’ہر سیلاب ایک پیغام لے کر آتا ہے کہ خبردار ہو جاؤ دریا کو سدا اپنی موجوں کی طغیانیوں سے کام ہوتا ہے ۔دریا کی طوفانی موجوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کسی کی کشتی کنارے لگے یا دریا کی منجدھار میں غرقاب ہو جائے ۔تسبیح روز و شب ہو یا آب ِ رواں کی گردش ،یہ ہمیں متنبہ کرتے ہیں کہ تمھاری بساط ہی کیا ہے ۔اپنی تما م ترقی ،قوت،تمنا اورآن بان کے با وجود کوئی شخص بیتے ہوئے لمحات کے عکس اور آب رواں کے لمس سے پھر کبھی فیض یاب نہیں ہوسکتا ۔‘‘

’’یہ بات بالکل درست ہے لیکن طیور ِ آوارہ کی پرواز اوراثمار و اشجار کی روئیدگی کا مستقبل کے حالات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔‘‘میں نے کہا’’کوئی با شعور انسان اس بات کا یقین نہیں کر سکتا کہ اس قسم کے شگون کوئی حقیقت رکھتے ہیں۔اس قسم کی خام خیالی نے تو ہمیں اقوام عالم کی صف میں تماشا بنا دیا ہے۔ستاروں کی چال ،مستقبل کا احوال اور طوطے والے نجومیوں کی قیل و قال اب اس دنیا کے آئینہ خانے میں کوئی وقعت نہیں رکھتی۔‘‘

’’میری بات کان کھول کو سن لو ،جسے لوگ توہم پرستی سمجھتے ہیں وہی در اصل حالات کی پیش بینی کی ایک صورت ہے۔‘‘رنگو نے آنسو پُو نچھتے ہوئے کہا’’نصف صدی قبل ہمارے آبائی گھر کی دیواروں پر غول در غول زاغ و زغن ،بُوم اور گدھ آ کر بیٹھ گئے۔گھر کے کمروں میں بے شمار چمگادڑ نہ جانے کہاں سے آکر گُھس گئے ۔کمروں کے فرش چمگادڑوں کے ضماد کا فرش بن گیا۔چیونٹیاں قطار اندر قطار اپنے انڈے اپنے منہ میں لیے کسی محفوظ پناہ گاہ کی جانب رینگ رہی تھیں۔ ہم سمجھ گئے کہ اب یہ گھر کسی آفت کی زد میں آنے والا ہے۔ ہم گھر سے باہر نکلے ہی تھے کہ ہمارے گھر کو آ گ لگا دی گئی اس کے ساتھ ہی ایامِ گزشتہ کی یادوں سے وابستہ تما م ارمان بھی جل کر خا کستر ہو گئے ۔جب ہم لدھیانہ سے چلے تو ایک کالی بلی نے ہمارا راستہ کاٹا۔اس کالی بلی کی نحوست مقدر کی سیاہی بن گئی اور ہم در بہ در اور خاک بہ سر ہو کر رہ گئے۔جس گٹھڑی میں ہمارے سونے چاندی کے زیورات اور عمر بھر کی جمع پُونجی تھی اس میں ایک زندہ بچھو دیکھا گیا ۔اس بچھو نے میرے باپ کو ڈس لیا اور پھر نہ جانے کہاں غائب ہو گیا ۔ میرے باپ نے کہہ دیا تھا کہ اب کوئی بڑا حادثہ ہونے والا ہے یہ زمین بھی اب تو دِل کے مانند دھڑکتی محسوس ہو رہی ہے ۔جب گھر کی جمع پونجی میں سے بچھو نکلے تو یہ اس بات کا شگون ہے کہ کوئی سانپ تلے کا بچھو ڈس لے گا ۔سگانِ راہ عف عف کر کے قافلے والوں کو ہونی کے آلا م سے خبر دار کر رہے تھے ۔پھر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا ہمارے سب خدشات درست ثابت ہوئے۔قافلہ لُٹ گیا ،بہت سے نہتے بے گناہ لوگ مارے گئے۔ اگلے لمحے ثباتی زادِ سفر اور زرو مال والی ہماری گٹھڑی لیے اپنے آشنازہدو لُدھڑ کے ساتھ غائب ہو گئی۔ زہدو لُدھڑ میرے دادا کو ایک کُوڑے کے ڈھیر سے ملا تھاایک دن کے اس بچے کو میرے دادا نے پال پوس کر جوان کیا۔اس نمک حرام نے محسن کُشی کی انتہا کر دی۔ وہ دن اور آج کا دن ہم اس قسم کے شگون کو کبھی نظر انداز نہیں کرتے۔‘‘

’’یہ سب ماضی کے قصے ہیں ۔اب کون ان کی جانچ پرکھ کرے ۔‘‘میں نے رنگو کو ٹوکتے ہوئے کہا’’ارض ِ پاکستان میں تو سیلاب کم آئے ہیں ۔انسان جن سانحات سے دو چار ہوتاہے وہ اس کی تقدیر اور حالات میں لکھے ہوتے ہیں ۔انھیں بے سر و پا شگونوں سے نہیں جوڑا جا سکتا۔اچھا یہ بتاؤ اس بار کے شگون دیکھ کر کیا اندازہ لگایا ہے تم نے ؟ اب کی بار اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟‘‘

’’اس بار جھنگ کا حفاظتی بند ٹُوٹ جائے گا ‘‘رنگو نے روتے ہوئے کہا ’’غریب لوگوں کا بہت مالی اور جانی نقصان ہو گا ۔دیہی علاقوں میں زراعت ، مویشی اور اجناس کو شدید نقصان پہنچے گا ۔وہ سامنے دیکھو چڑیاں ،فاختائیں،بلبل،تیتر ،قمریاں ،بٹیر اور طیور لمبی اُڑانیں بھر کے کہیں جا رہے ہیں ۔دوسری جانب اس علاقے کے مکینوں کے گھروں کے اُداس بام اور سائیں سائیں کرتے درختوں پر زاغ و زغن اور بوم و شپر نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں ۔ہر طرف ہُو کا عالم ہے ۔‘‘

’’لیکن محکمہ مو سمیات اور سیلاب کے مراکز نے تو کہا ہے کہ حفاظتی بند کو کئی خطرہ نہیں۔‘‘ میں نے جواب دیا’’کیا یہ کوے ،گدھ ،اُلو اور چمگادڑ محکمہ مو سمیات اور سیلاب کی اطلاع دینے والے محکمہ سے زیادہ معلومات رکھتے ہیں؟‘‘

’’سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں ۔‘‘رنگو بولا ’’تم دیکھ لینا کہ اب کیا ہونے والا ہے ۔دریائے جہلم اور دریائے چناب میں آنے والے سیلاب کا ریلا جب تریموں کے مقام پر ملے گا تو ماہر انجینئیر اس بات پر غور کریں گے کہ اب کیا کریں تریموں ہیڈ ورکس تو اس قیامت خیز سیلاب کی تاب نہیں لا سکتا ۔ہیڈ ورکس کو بچانے کے لیے شہر کے حفاظتی بند کو توڑ ا جائے گا ۔اس بار یہ حفاظتی بند وجھلانہ کے مقام سے خو د ٹوٹ جائے گا اس کے بعد اسے اٹھارہ ہزاری کے مقام سے بارود سے اُڑا دیا جائے گا تاکہ تریموں ہیڈ ورکس محفوظ رہے۔‘‘

’’تمھیں یہ سب معلومات گدھ ،اُلو اور چمگادڑ پہنچاتے ہیں۔‘‘میں نے پوچھا ’’پچاس سال سے وجھلانہ کے مقام سے کبھی حفاظتی بند نہیں ٹُوٹا ۔اس بار وہاں کیا مصیبت آن پڑی ہے؟‘‘

’’دو دن سے سیکڑوں کی تعداد میں گدھ ،چیل اور کوے یہاں منڈلا رہے ہیں ۔‘‘رنگو نے کہا’’وجھلانہ کے علاقے سے طائران خوش نوا کُوچ کر گئے ہیں۔میرا مکان بھی وجھلانہ کے نواح میں واقع ہے اس لیے میں بھی وہاں سے نکل آیا ہوں اور سر گودھا روڈ پر ایک دری بچھا کر اپنا سامان وہاں رکھ دیا ہے۔ ایک بات اور سُن لو کہ آج صبح میرے سامان کی اس گٹھڑی سے ایک بچھو نکلا جس نے مجھے ڈس لیا۔اٹھارہ ہزاری اور اس سے ملحق علاقوں میں بھی یہی کیفیت ہے۔لوگ اپنی جان بچانے کی فکر میں ہیں ۔‘‘

’’تو کیا اس بار یہ سامان کی گٹھڑی بھی پھر سے لُٹ جائے گی؟‘‘میں نے بڑے دُکھ سے کہا’’فکر نہ کروا ب کوئی چور لٹیرا تمھیں اس طر ح لوٹ نہیں سکتا۔‘‘

’’میری آنکھوں نے سن انیس سو پچاس اور انیس سو تہتر میں دریائے چناب میں آنے والے سیلابوں کی تباہ کاری کے لرزہ خیز اعصاب شکن منظر دیکھے ہیں۔‘‘رنگونے آہ بھر کر کہا’’ ہم غریبوں کی اُمیدوں کی فصل غارت ہو جاتی ہے،لگتا ہے اس باربھی میری محنت اکارت چلی جائے گی ۔ہم جیسے بے بس لوگ آفاتِ نا گہانی سے بچنے کی دعا کرتے ہیں جب کہ کچھ لوگ یہ تمنا کرتے ہیں کہ کوئی نا گہانی آفت آئے اور ان کی بن آئے۔ان آفاتِ نا گہانی کے بعد ظالم و سفاک ،موذی و مکار استحصالی عناصر کو لُوٹ مار کے مواقع ملتے ہیں اور یوں اُن کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔‘‘

’’رنگو بابا !تمھاری یہ بات بھی نا قابلِ یقین ہے کہ کچھ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ نا گہانی آفات آئیں اور ان کی اس طرح چاندی ہو جائے۔‘‘میں نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا’’کیا کوئی شخص اس قدر بھی انسانیت کے درجے سے گِر سکتا ہے کہ وہ اپنے ہی ابنائے جنس کو مصیبت میں دیکھ کر خوش ہو ؟سادیت پسندی ایک خطرناک مرض ہے ۔جو شخص اس موذی مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے وہ دوسروں کو اذیت میں مبتلا کر کے راحت محسوس کرتا ہے۔ایسے بے حس لوگ تو سادیت پسندی کے مریض ہو سکتے ہیں ۔‘‘

’’زہدوو لُدھڑ کا بیٹا آسو موہانہ ہی دیکھ لو ۔‘‘نتھو نے کہا’’اس شہر نے اب تک جو تین سیلاب دیکھے ہیں ،آسو موہانہ ان سیلابوں کی آمد نی سے ارب پتی بن گیا ۔ غریبوں کے پاس تو سیلاب کے بعد سر چھپانے کی کُٹیا نہیں رہتی مگر یہ کم بخت آسو مو ہانہ کسی بڑے شہر میں ایک وسیع کوٹھی بنا لیتا ہے۔ اب یہ چوتھا سیلا ب آنے والا ہے،ان لٹیروں اور اُچکوں نے لُوٹ مار کے سب انتظام کر لیے ہیں ۔ آسو موہانہ اور اس کے ساتا روہن لُوٹ مار اور درندگی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔سیلاب کا پانی اترنے کے بعد جب مصیبت زدہ لوگ اپنے شکستہ مکانوں کے کھنڈرات کے ملبے کے پاس پہنچیں گے تو اُن کاسب اثاثہ غائب ہو چُکا ہو گا ۔ المیہ یہ ہے کہ کئی بُھوت اور چڑیلیں سیلاب میں اچانک نمودار ہو کر بے بس و لا چار انسانیت پرعرصہء حیات تنگ کرنے کے قبیح دھندے میں ملوث ہو کر اپنی خون آشامی کا ثبوت دیتے ہیں۔‘‘

رنگو کی یہ اُکھڑی اُکھڑی باتیں سن کر مجھے یقین نہ آیا ۔میرے ساتھی پروفیسر قاسم خان جو اس ملاقات میں میرے ساتھ رہے نہایت توجہ سے اس بوڑھے محنت کش کی باتیں سنتے رہے۔ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ سیرِِ جہاں کا حاصل حیرت اور حسرت کے سوا کچھ بھی تو نہیں ۔پروفیسر قاسم خان کافی دیر تک اس معمر مزدور کے حالات سن کر دل گرفتہ رہے اور کہنے لگے :
’’کسی نے سچ کہا ہے کہ ہجوم غم میں انسان کا سینہ و دِل جب حسرتوں سے چھا جاتا ہے تو مسلسل شکست ِ دل کی تاب نہ لا کروہ خبطی ہو جاتا ہے۔مجھے تو یہ بوڑھا مکمل طور پر سودائی لگتا ہے ۔میں نا تواں تو اب اس الم نصیب کے لیے صرف دعا ہی کر سکتا ہوں ۔‘‘

دریائے چناب کا تیس فٹ بلند ریلا جھنگ کے حفاظتی بند سے پُوری شدت سے ٹکر ا رہا ۔قیامت کی گھڑی تھی لوگ اپنی جان بچانے کے لیے محفوظ مقامات کی جانب منتقل ہو رہے تھے۔رات کی تاریکی بڑھ رہی تھی اس کے ساتھ ہی سیلاب کی طوفانی لہروں کے دباؤ اور شور میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا تھا ۔رات کے د وبجے مقامی انتظامیہ کی طرف سے اعلان ہوا کہ وجھلانہ کے مقام پر جھنگ کے حفاظتی بند کو دریائے چناب کی طوفانی لہریں بہا لے گئی ہیں۔ صبح کو یہ معلوم ہوا کہ تریموں ہیڈ ورکس کو بچانے کے لیے اٹھارہ ہزاری کے مقام سے حفاظتی بند کو بارودی سرنگ کے ذریعے اُڑا دیا گیا ہے۔مجھے حیرت ہوئی کہ اس پر اسرار بُو ڑھے شخص کی سب باتیں حر ف بہ حرف سچ ثابت ہوئیں ۔میں نے فیصلہ کیا کہ صبح سویرے اُسے ملنے جاؤں گااور اس کے شگونوں اور پُر اسرار باتوں کے بارے میں چھان بین کروں گا۔

سورج طلوع ہو رہا تھا،میں سرگودھا روڈ پر اُس مقام پر پہنچا جہاں کل سہ پہر رنگو اپنا سامان باندھے ایک بوسیدہ دری پر بیٹھا تھا ۔ میں نے دیکھا کہ رنگو ایک لنگوٹ پہنے تھر تھر کانپ رہا تھا ۔اس کے سامان کا گٹھڑ غائب تھا ۔مجھے دیکھ کر وہ کہنے لگا :
’’میرا سامان تو رات آسو موہانہ کے لوگ لے گئے لیکن انھوں نے میری جان بخشی کر دی ۔ میں زندہ ہوں ،مجھے نقصان کی کوئی پروا نہیں ۔اﷲ کا شُکر ہے زندگی بچ گئی ۔جان ہے تو جہان ہے۔‘‘

وہ کہہ رہا تھا کہ میں زندہ ہوں ۔ہاں بے شک بدنصیب رنگو زندہ رہ گیا مزید دکھ سہنے کے لیے تقدیر نے اس کے عرصہء حیات کو بڑھا دیا۔اب وہ سانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پُورے کرے گا۔ دریا کی طوفانی لہروں سے تو لوگوں کا سامان بچ گیا لیکن لٹیروں نے ان مظلوموں کو زندہ در گور کر دیا۔مجھے یوں محسوس ہوا کہ بے حسی اور درندگی کے سیلاب میں زندگی کی اقدار عالیہ خس و خاشاک کی طرح بہہ گئی ہیں۔
Ghulam Ibn-e-Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e-Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e-Sultan: 277 Articles with 680084 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.