ادھورے خواب !

گل خان کیلئے یہ خبر دھماکے سے کم نہیں تھی کہ اس کی بیوی روزینہ کا انتقال ہوگیا- گھر سے آنیوالے فون نے اس کے دماغ کو ماؤف کردیا- جس میں گھر والوں نے اسے بتا دیا کہ \"تمھاری بیوی بیٹے کو جنم دیتے ہوئے مر گئی \" یہ چھوٹا سا جملہ اس کیلئے جیسے بم تھا- گھر سے دور دبئی کے ایک شاپنگ مال میں سیکورٹی گارڈ کی حیثیت سے کام کرنے والا گل خان دس ماہ قبل پاکستان میں چھٹی گزارنے کے بعد آیا تھا اور اس کا پروگرام تھا کہ دو سال بعد وہ اپنے گھر جائیگا جہاں پر وہ اپنی بیوی روزینہ اپنی بیٹی آمنہ سے ملے گا اور اپنی خاندان کیلئے وہ بہت سارے خواب دیکھتا -یہ خواب اسے ہر روز نئی زندگی دیتے اور وہ دلجمعی سے کام میں مصروف ہو جاتا - شاپنگ مال کے باہر ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے بھی اپنے گھر والی اور بیٹی آمنہ کو یاد کرتا تو اس کے چہرے پر خود بخود مسکراہٹ پھیل جاتی-کبھی کبھار لوگ اسے مسکراتا دیکھا کر حیران رہ جاتے کہ آخر \"خان صاحب کو کیا ہوگیا\" کہ ہنس رہا ہے لیکن گل خان اپنے خیالی دنیا میں گھر والی اور بیٹی آمنہ کو دیکھ کر اپنی زندگی جیتا-

خیبر پختونخواہ کے دور دراز علاقے دیر سے تعلق رکھنے والے پینتیس سالہ گل خان پانچ سال سے دبئی میں سیکورٹی گارڈ کی حیثیت سے ڈیوٹی انجام دے رہا تھا - اپنے علاقے میں روزگار نہ ملنے کی وجہ سے وہ دبئی میں ویزہ لیکر آیا - ایف اے پاس گل خان کے پاس کوئی ہنر نہیں تھی اسی بناء پرگل خان کو سیکورٹی اہلکار کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا- جس کی ماہانہ تنخواہ چالیس ہزار روپے تھی تاہم اس کم تنخواہ میں وہ اپنے اخراجات بھی پورا کرتا اور گھر والوں کو بھی بھیجتا-جس سے گاؤں میں اس کے گھر والوں کی زندگی گزر رہی تھی -وہ اپنے گاؤں جسکی آبادی تین سو لوگوں پر مشتمل تھی کا پہلا شخص تھا جو دبئی میں کام کرنے آیاتھا - تین سال قبل جب وہ اپنی سالانہ چھٹی پر گاؤں گیا تو تین ماہ کی چھٹی میں اس کے گھر والوں نے اس کی شادی گاؤں ہی میں رہائش پذیرعبدل کاکا کی بیٹی روزینہ سے کردی جو اس وقت میٹرک کی طالبہ تھی -اسے منگنی کے موقع پر احساس ہوا کہ روزینہ کی عمر اتنی نہیں لیکن اپنی والدہ کے سامنے اس بارے میں بات بھی نہیں کرسکتا تھا البتہ اس حوالے سے اس نے اپنی بہن گل مینہ کو بتادیا تھا کہ روزینہ اور اس کی عمر میں پندرہ سال سے زائد کا فرق ہے اور شادی ہی کرنی ہے تو پھر اس کی عمر کی کوئی دوسری لڑکی سے شادی کرائی جائے لیکن بہن گل مینہ بھی اس معاملے میں اس کی مدد کرنے سے قاصر رہی اور یوں گل خان کی شادی روزینہ سے کردی گئی - شادی کے دوسرے مہینے وہ دبئی روزگار کی وجہ سے واپس آگیا اور اپنی نئی نویلی دلہن روزینہ کو روتے ہوئے چھوڑ دیا تھا گھر چھوڑتے ہوئے گل خان نے روزینہ کو جھوٹا دلاسہ دیا تھا کہ میں تمھیں جلد بلالونگا لیکن اسے پتہ تھا کہ اس کی اوقات اتنی نہیں نہ ہی وہ دبئی میں اپنی دلہن کو فلیٹ میں رکھ سکتا تھا جہاں پر اس جیسے پانچ اور افراد بھی زندگی گزارنے پر مجبور تھے کیونکہ مشترکہ اخراجات کی وجہ سے یہ سب افراد جن کا تعلق مختلف شہروں سے تھا ایک کمرے میں سوتے تھے-

گاؤں سے دبئی واپسی کے دسویں مہینے اسے اطلاع ملی کہ اس کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوئی یہ اطلاع اسے گاؤں سے فون پر ملی تھی اور یہ اطلاع اس کی زندگی کی بڑی خوشی ثابت ہوئی کیونکہ اطلاع کے تیسرے دن اسے ایک دوسرے کمپنی میں سیکورٹی سپروائزر کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا جہاں پر اسے اچھی تنخواہ ملنے لگی گل خان نے فون پر اپنے گھر والوں کو اپنی بیٹی کے نام سے آگاہ کیا اور روزینہ کے مشورے سے اس نے اپنی بیٹی کا نام آمنہ رکھ دیا - اس کی بیوی بھی خوش تھی لیکن بیٹی کی پیدائش پر اس کے دل میں گل خان کے گھر والوں کا ڈر تھا جو روزینہ نے فون پر گل خان کو بتا دیا تھا لیکن گل خان نے اسے ہر قسم کا وسوسہ دور کرنے کو کہا اور کہا کہ \" بیٹیاں تو رحمت ہوتی ہیں\" - چونکہ بیٹی کی پیدائش کے بعد اسے دوسری جگہ پر نوکری مل گئی اسی بناء پر اسے زیادہ وقت دفتر کو دینا پڑ گیا اور پھر ایک دن روزینہ نے اپنے میکے سے گل خان کو فون کیا کہ بیٹی کی پیدائش گل خان کے گھر والوں کیلئے خوشی کا باعث تو ہے لیکن انہیں بیٹے کی خواہش تھی جبکہ بیٹی کی پیدائش نے گل خان کے گھر والوں کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا ہے اسی باعث اس کے گھر والوں کا رویہ بھی گل خان کے بیوی روزینہ سے ٹھیک نہیں- بیوی کی بات سن کر گل خان کو افسوس بھی ہوا لیکن وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا اس نے بیوی کو\" گزارہ کرو\" کی بات کی اور کہا کہ وہ وطن واپسی کیلئے چھٹی کی درخواست دیگا اور حالات جلد ٹھیک ہو جائینگے جیسے جملے کہہ کر اپنی بیوی کی شکایتوں کو کم کیا اور پھر فون بند کردیا-

گھر سے فون آنے کاسلسلہ جاری تھا جس میں وہ بیوی کو دلاسے دیتا کہ حالات بہتر ہوتے ہی وہ اسے بلالے گا اور پھر اس کی بیوی اس کی دلاسوں سے مطمئن ہو جاتی او رپھرآخر کار جس کمپنی میں وہ ملازم تھا اسے ایک ماہ کیلئے چھٹی دیدی جس کا اسے خوشی سے انتظار تھا وہ گھر والوں کو حیران کرنا چاہتا تھا اس لئے گھر والوں کو بتائے بغیر ہی پاکستان روانہ ہوگیا -اپنے گھر پہنچ کر اسے پتہ چلا کہ اس کی بیوی کیساتھ اس کے گھر والوں کا رویہ ٹھیک نہیں تھا کیونکہ بیٹی کی پیدائش پر گھروالے اسکی بیوی روزینہ کو قصور وار گردانتے تھے اس کے والدہ کو اپنے بیٹے سے نسل چلانے کی خواہش تھی کہ اس کا پوتا اس کے ہاتھ میں ہو لیکن پوتی کی پیدائش نے اس کی خواہش کو مزید بڑھا دیا تھا -

ایک مہینے کی چھٹی کے دوران اس کے گھر والے اس کے ذہن میں یہی بات ڈالتے کہ بیٹا لازمی ہے - اور پھر انہی چھٹیوں میں گل خان سے غلطی ہوگئی جس کا اسے بعد میں احساس ہوا لیکن اپنی اس غلطی کو ختم کرنے کیلئے اس نے کوشش بھی نہیں کی - گل خان کی بیوی نے اسے بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ بچوں میں وقفہ ضروری ہے - لیکن اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں کے روئیے اور احساس نے گل خان کے دماغ میں آگ بھر دی تھی کیونکہ اسے طعنہ بھی ملا تھا کہ \" تمھاری بیگم بیٹی پیدا کرسکتی ہیں بیٹے نہیں \" اور ساتھ میں اسے\" مردانگی \" کا طعنہ بھی ملا تھا- انہی طعنوں نے گل خان سے وہ غلطی کروادی جس کا احساس دبئی واپسی پر اسے ہوا کہ اس نے اپنی بیٹی آمنہ کے بنیادی حقوق کی بھی پامالی کی کیونکہ دو ماہ تک دودھ پینا اس کیلئے ضروری تھا لیکن پھر غم روزگار نے غلطی کا یہ احساس بھی کسی حد تک کم کردیا اور پھر اسے گھر والوں کی طرف سے فون آیا کہ تمھاری بیوی ایک مرتبہ پھر بیمار پڑ گئی ہیں جس کے علاج مقامی دائی کررہی ہیں یہ اطلاع دیتے ہوئے اس کے گھر والے بہت زیادہ خوش تھے کیونکہ تیمرگرہ میں الٹرا ساؤنڈ کروانے پر پیدا ہونیوالے بچے کی جنس کا بھی پتہ چلا تھا اور یوں اس کی بیوی روزینہ کی بیماری گل خان کے گھر والوں کی خوشیوں کا پیغام لیکر آئی تھی لیکن ساتھ میں اسے بتا دیا گیا کہ اس کی بیوی ایک تو کم عمر ہے دوسری اس کی اپنی صحت کمزور ہے اس لئے ڈاکٹر نے اسے احتیاط کرنے کی ہدایت کی تھی ساتھ میں یہ بھی کہا تھا کہ \" ابھی تو پہلی بیٹی کی عمر بھی اتنی نہیں کہ نئی بچے پیدا کرنے جارہی ہو \" اور ڈاکٹر نے اس کی بیوی روزینہ کو سخت و سست کہا تھا کہ \" اپنی عمر اور حالت دیکھو اور اس حالت میں دوسرے بچے کی پیدائش \" -

گھر والوں سے فون پر بات کرنے کے بعد گل خان نے اپنی بیگم روزینہ سے بھی بات کی اوراسے ہدایات دی کہ اپنا خیال رکھے لیکن جب اسے بیگم نے ڈاکٹر کے بچوں میں وقفے سے متعلق بتایا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ اس دفعہ بچے کی پیدائش خطرناک ہے- تو اس وقت گل خان کے دل کو ایک جھٹکا سا لگاجس نے اس کے دل میں خلش پیدا کردی کہ \" کاش میں گھر والوں اور رشتہ داروں کے طعنوں میں نہ آیا ہوتا اور مجھ سے یہ غلطی نہ ہوتی\"اور پھر گل خان کو کام کے دوران جب بھی گھر والوں کی یاد آتی تو اپنی غلطی کا احساس ہوتا لیکن یہ صرف احساس کی حد تک رہا-

اور آج جب وہ کمرے میں یونیفارم پہن کر دفتر جانے کیلئے نکل رہا تھا کہ اسے گھر والوں کا فون موصول ہوا اور گھر والوں نے اسے بتا دیا کہ \" تمھاری بیوی بچے کو جنم دیتے ہوئے مر گئی جبکہ بیٹا بھی انتہائی کمزور ہے\" یہ جملہ اس احساس کو جس کا شکار گل خان تھانے گل خان کو اس حال تک پہنچا دیا کہ وہ اپنے بیگم کی موت کا ذمہ دار اپنے آپ کو ٹھہرانے لگا یہ احساس اسے اپنا جرم لگا کہ اس کی بیوی کی موت میں اس کا اپنا ہاتھ ہے کیونکہ غلطی بھی اسی کی تھی جس کی تلافی بھی ممکن تھی لیکن اپنی مردانگی دکھانے اور طعنوں سے بچنے کیلئے گل خان نے اپنی غلطی کی تلافی بھی نہیں کی جس کا انجام اس کی بیوی کی موت کی صورت میں نکلا- اور فون کانوں کیساتھ لگائے گل خان کے دل و دماغ میں بیگم کی باتیں اور آنکھوں میں آنسوؤں اسے یہ احساس دلا رہے تھے کہ وہ نہ صرف اپنی بیوی بلکہ اپنے بچوں کا بھی مجرم ہے -جس کی سزا تو اسے اس دنیا میں نہیں مل سکتی لیکن \" اللہ کے ہاں\"اس سے ضرور پوچھ گچھ ہوگی-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 589 Articles with 422488 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More