جنید جمشید اور جماعت دعوت تبلیغ کی ذمہ داریاں

تفرقے سے بالا تر ہو کر ۔
جنیدجمشید نے جو کچھ کہا اس کے پیچھے نیت کیا تھی اﷲ تعالی عزوجل بہتر جاتا ہے۔ جیسا کہ انہوں نے اس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ انہوں نے یہ سب کچھ لاعلمی اور جہالت کی بنا ء پر کیا اور اﷲ تعالی عزوجل سے معافی کی درخواست بھی کر دی لہذا چونکہ لاعلمی کی بناء پر کیا ہے تو اﷲ تعالیٰ عزوجل سے قوی امید ہے کہ وہ اپنی رحمت کاملہ سے انہیں معاف کر دے گا ۔

تین چیزیں یا عوامل عمل‘ علم اور کامل اخلاص کی بنیاد پر ہی آپ کی کارکردگی اﷲ تعالی عزوجل کے ہاں مقبولیت پا سکتی ہے۔ اگر عمل کیا اور علم نہ تھا جیسے کہ نماز پڑھی لیکن وضو صحیح نہیں کیا علم کی کمی کی بناء پر‘ تو عمل بیکار ہونے کا احتمال ہے ۔ اسی طرح علم ناقص ہے تو یہ اسی طرح ہے جیسے کہ نیم حکیم خطرہ ایمان۔ اور اگر علم اور عمل ہے مگر اخلاص نہیں تو علم اور عمل بے کار ہے۔ یعنی کہ عمل کے لئے علم‘ اسی طرح علم کے اخلاص اور اخلاص کے لئے تزکیہ نفس کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ قرآن شریف میں اﷲ تعالی عزوجل نے تزکیہ نفس کی تعلیم دی ہے اور یہ تزکیہ نفس ایک باعمل ‘ علم رکھنے والا اور اخلاص عمل پر متحمل شیخ کی صحبت سے ہی میسر آتا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اﷲ علیہ نے صاف صاف اپنی کتب میں لکھا ہے جس کا مفہوم ہے کہ شیخ سالک کے دل کو دھوتا ہے اور دل کی گندگی صرف اور صرف شیخ کامل ہی دھو سکتا ہے ورنہ اگر شیخ کامل نہیں ہوگا تو کبھی نہ کبھی دل کا مرض دوبارہ ہو سکتا ہے۔ حضرت امداد اﷲ مہاجر مکی رحمتہ اﷲ علیہ جیسے شیخ کامل کے سند یافتہ سلاسل سے جڑ کر اور ان کی اور ان سے پہلے کے شیخوں کی کتب اور ان کے فیض سے یہ سب کچھ ممکن ہے۔ آج حضرت امداد اﷲ مہاجر مکی رحمتہ اﷲ علیہ کی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے اور اس فقدان کو پورا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

مزید یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک علم رکھنے والا ‘ لوگوں کو درس دینے والا کیونکر بھول گیا کہ حضور اکرم ﷺ ‘ ان کی ازواج مطہرات رضی اﷲ تعالی عنہم جو کہ ہماری مائیں ہیں ‘ ان کی آل علیہ السلام سب کا احترام کرنا اسی طرح لازم ہے جس طرح ہم اﷲ تعالی عزوج کی عزت‘ احترام کرتے ہیں۔ یہ غلطیاں میرے خیال میں شاید اس وقت سرزد ہوتی ہیں جب انسان کے دل میں غرور آجاتا ہے کہ وہ تو بہت کچھ علم رکھتا ہے‘ لوگ اس سے سوال پوچھتے ہیں اور وہ ان کا جواب دیتا ہے۔ انسان کو تو چاہئے کہ علم رکھنے کے باوجود دل ہی دل میں اپنے رب کی بارگاہ میں ہر وقت یہی کلمہ گو رہے کہ اے اﷲ تعالی عزوجل میں تو ایک نااہل انسان ہوں ‘ کچھ نہیں جانتا‘ جو کچھ علم میرے پاس آرہا ہے سب کچھ اے اﷲ تعالی عزوجل تو دے رہا ہے اور دل ہی دل میں روتا رہے‘ نادم رہے ۔ کیونکہ ایمان تو خوف اور امید کے درمیان کا نام ہے اور ہر وقت اسی بات کا احتمال ہے کہ کہیں اگر پڑوس کی چھت یا دیوار کی مٹی میرے پاس آگئی تو کہیں پکڑا نہ جاؤں یہ ہے خوف اور یہ بھی امید ہو کہ شاید راستے سے کوئی کانٹا اٹھا لوں تو اﷲ تعالی عزوجل کی رحمت جوش مارے اور سارے گناہ بخش دے۔ مزید اﷲ تعالی عزوجل سے ہر ہروقت یہی دعا کرے کہ اﷲ تعالی عزوجل اپنی اور اپنے حبیب ﷺاور ان کے چاہنے والوں کی کسی طرح بھی ایک رائی کے دانے کے برابر بھی بے حرمتی‘ برے الفاظ کبھی زبان پر نہ آئیں ‘ اے اﷲ تعالی عزوجل اس سے پہلے ہمیں مو ت آجائے یہ بہتر ہے۔ یہ باتیں اسی وقت کارآمد ثابت ہوسکتی ہیں جب وہ اپنے پختہ علماء جو کہ اس دنیا جہانی سے رحلت فرما گئے ہیں ان کی کتابوں کا مطالعہ کرے ان سے فیض لے ‘ ان سند یافتہ پختہ علماء کی اﷲ تعالی عزوجل اور اس کے حبیب ﷺسے جو دلی لگاؤ تھا اس کو قائم و دائم اپنے دل میں رکھے۔ کاش جنید جمشید نے اپنے پختہ علماء جن میں سے جناب مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اﷲ کی کتاب پڑھ لی ہوتی جس میں انہوں نے صاف صاف لکھا کہ جب تک کسی کو 114 علوم ) ان علوم کے نام کیا ہیں میں نے نہیں پڑھا اورنہ ہی جانتا ہوں( حاصل نہ ہو جائیں تب تک بھی قرآن شریف کا ترجمہ نہیں کر سکتا ۔ لہذا یہ بات اس چیز کی غمازی کرتا ہے کہ قرآن کی تشریح کوئی اس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک کہ اسے 114 علوم حاصل نہ ہوں ۔ نماز‘ روزہ‘ زکوۃ کے بارے میں تو کوئی تفصیل بیان کر سکتا ہے مگر حضور اکرم ﷺ کے بارے میں اور دوسری آیات جو کہ دو معانی رکھتی ہیں اس کی تشریح نہیں کر سکتا۔ اس طرح ان کو مولانا شبیر احمد عثمانی رحمتہ اﷲ علیہ ‘ محمود حسن دیوبندی اور اپنے دوسرے اکابرین کی تصانیف کا مطالعہ کرنا چاہئے تاکہ وہ ان پر عمل کرکے نہ صرف ان سے استفادہ حاص کریں بلکہ دوسروں کو بھی اس سے روشناس کرائیں۔ جنید جمشید کو ان لوگوں کا شکرگزار ہونا چاہئے جنہوں نے ان کی غلطی کو عام کیا کیونکہ اس بات سے انہیں معافی مانگنے کا موقعہ بھی ملا گیا جو کہ لاعلمی کی بناء پرہوئی ہے )شاید(۔ لہذا اگر کسی کو پتہ نہ چلتا اور وہ ان عزام میں آگے بڑھتے رہتے تو ایک وقت آتا جب وہ اچانک مرجاتے تو حضور اکرم ﷺ کوقبر میں کیا منہ دیکھاتے۔

بخاری شریف میں ایک حدیث ہے ) مفہوم(ذوالخویصرہ کے بارے میں‘ا‘ اس حدیث کو بشمول جنیدجمشید ہمیں ضرور پڑھنا چاہئے کیونکہ وہ بھی سنت کا پابند‘ عمامہ پہنتا تھا‘ نمازیں بڑی لمبی پڑھتا تھا لیکن سرکار ﷺ نے اسے دین سے خارج کہا کیونکہ اس سے ایک بے ادبی کی تھی اور وہ دل میں غرور رکھتا تھا کہ میں باعمل ہوں ۔ اس طرح ہمیں بشمول جنید جمشید ایک اور حدیث کا بھی مطالعہ کرنا چاہئے جس کا مفہوم ہے کہ جب شراب پینا منع کیا گیا تو ایک صحابی رضی اﷲ تعالی عنہ شراب پیتے تھے لیکن ان سے چھوڑنا مشکل ہو رہا تھا کچھ اصحاب رضی اﷲ تعالی عنہم نے حضور اکرم ﷺ کے سامنے اسے لعن تعن کیا تو حضور اکرم ﷺ نے کہا خبردار یہ اﷲ تعالی عزوجل اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہے۔ ) آپ حضرات کو سمجھانے کی غرض سے ( اس کی حضور ﷺ سے محبت تو سمجھ آسکتی ہے لیکن وہ تو شراب پی کر اﷲ کی حدود کو توڑ رہا تھا لیکن پھر بھی وہ اﷲ تعالی عزوجل کے ہاں کیسے مقبول تھا کیونکہ اس کا ایک عمل تھا یعنی سب سے پہلے جو سبزی شہر میں آتی تھی تو وہ اس سبزی فروش کو کہتا ہے کہ یہ سبزی حضور اکرم ﷺ نے منگوائی ہے جب وہ لیکر حاضر ہوتا تو حضور اکرم ﷺ پوچھتے کہ میں نے تونہیں کیا تو وہ صحابی رضی اﷲ عنہ یہ جواب دیتے کہ حضور ﷺ میں چاہتا ہوں کہ جب سبزی شہر میں آئے تو سب سے پہلے آپ ﷺ کھائیں۔ مزید جب اس صحابی کے پاس پیسے نہ ہوتے تو حضور اکرم ﷺ خود ہی اس سبزی فروش کو دے دیتے۔ اس طرح ایک اور عمل تھا اس کا کہ جب حضور اکرم ﷺ اپنی محفل میں کافی دیر تک بیان اور لوگوں کے دکھڑے سنتے اور تھک جاتے تو یہ صحابی کچھ ایسی بات کرتا تھا جس کی وجہ سے حضور اکرم ﷺ مسکرا پڑتے تھے اور انکی تھکاوٹ میں کمی ہو جاتی تھی۔ دیکھیئے اس صحابی کو حضور اکرم ﷺ سے محبت کام آئی یا کہ ذوالخویصرہ مردود کے عمل ۔ یعنی ذوالخویصرہ مردود کو اس کے عمل نہ بچاسکے لیکن ایک صحابی رضی اﷲ تعالی عنہ کو حضور اکرم ﷺ سے محبت پار کر گئی۔

یہاں پر مجھے امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کی کتاب بخاری شریف کی حدیث نمبر 98 تا 100 یادآرہی ہے جس کا مفہوم ہے کہ اﷲ تعالی عزوجل علم کو اچانک نہیں اٹھا لے گا بلکہ )پختہ (علماء جب اس دنیا فانی سے چلے جائیں گے تو ان کے پیروکار ان کی تعلیمات کو چھوڑ کر اپنی مرضی اور منشاء اور اپنی جماعت کے مفاد میں فتوے دینے لگیں گے ۔جن کی مثال آج کل جہاں بھی یا رسول اﷲ یا یا محمد لکھا ہوتا ہے وہ لوگ بالخصوص ٹیکسی ڈرائیور اور رکشتہ ڈرائیور لا علمی کی بنیاد پر یا کے لفظ کو نعوذباﷲ تعالی ایک نقطہ مٹا کر با بنا دیتے ہیں یا لفظ کو کاٹ دیتے ہیں یا دونوں نقطوں کو کاٹ دیتے ہیں۔ یہ حضرات چند منٹ تقریبا 5 یا 10 منٹ کے لئے بیٹھے ہیں جن کو تعلیم دی جاتی ہے کہ حضور اکرم ﷺ کو علم نہیں لہذا یا کہنا شرک ہے‘ اس لئے لوگ لاعلمی کی بناء پر نقطے مٹانا شرو ع کردیتے ہیں جو کہ میرے نزدیک بے حرمتی ہے ۔ میں نے 18 صدی سے پہلے کے مصنفوں اور بشمول اکابر دیوبند کی کتابیں پڑھیں ان میں انہوں نے کہیں بھی ایسا کرنے کو نہیں کہا اور نہ ہی کیا بلکہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اﷲ علیہ اور امداد اﷲ مہاجر مکی سب نے یامحمد یارسول اﷲ کہا بلکہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ علیہ نے اپنی کتاب نشر الطیب میں یا محمد ﷺ کہہ کر ان سے مدد طلب کی) حضور اکرم ﷺ سے درخواست کی کہ وہ اﷲ تعالی عزوجل سے دعا کریں کیونکہ وہ مخلوق میں سب سے زیادہ اﷲ تعالی عزوجل کے عاجز بندے ہیں ( ۔ لہذا ان اکابرین کو پڑھیں۔ مزید اﷲ تعالی عزوجل نے سورہ حجرات میں صرف اپنے حبیب ﷺ کو اونچی آواز سے بلانا بھی گوارہ نہیں اور اپنے بندوں کو انتباہ کیا کہ خبردار میرے حبیب ﷺ کو اونچی آواز سے بلاؤ یعنی ان کی بے ادبی ہو جائے اور تمہیں علم بھی نہ ہو اور تمہارے تمام اعمال بے کار ہو جائیں اور تمہیں ان کا علم بھی نہ ہو یعنی اس دنیا میں نماز بھی پڑھیں‘ زکوۃ بھی دی‘ حج بھی کئے‘ صدقات بھی کئے لیکن لاعلمی سے اس کا فرق نہ کر سکے کہ زندگی میں ایسے الفاظ کہتے رہے جو کہ اﷲ تعالی عزوجل کے ہاں بے حرمتی کے زمرے میں آتے رہے اور موقع بھی نہ ملا کہ تجدید ایمان کرلیں اور یہ کہہ سکے ہوں کہ اے اﷲ تعالی عزوجل ہم تجدید ایمان کرتے ہیں اور اگر لاعلمی کی بنیاد پر ہم سے کوئی خطاء یا کوئی ایسا لفظ جو تیری بارہ گاہ میں تیرے غصے کو للکاررہا تھا ‘ ان سب کی معافی مانگتے ہیں۔ لہذا میرے مسلمان بھائیو ۱ اﷲ تعالی عزوجل سے اٹھتے بیٹھتے‘ سوتے جاگتے‘ ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جاتے وقت‘ ہر لمحہ جب بھی یاد آجائے‘ تجدید ایمان کر لیں‘ اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں ۔

یہاں پرحضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اﷲ علیہ کی ایک بات یاد آرہی ہے جو کہ انہوں نے اپنے خطوط میں لکھی تھی کہ یاد رہے کہ کہیں ایک بدعت کو مٹانے کے پیچھے 100 مسائل کھڑے ہو جائیں، لہذا وہ ہمیں اس بات سے بھی متنبہ کر رہے تھے کہ یاد رہے کہ تم ایک بدعت کو مٹانے چلے ہو اور پتہ چلے کہ اپنی آخرت ہی گنوا بیٹھو۔

میرا ایک مشورہ ہے کہ دعوت و تبلیغی جماعت کیلئے کہ جب 40 دن ‘ یا 4 ماہ یا ایک سال کے لئے جماعت بھیجیں تو فرائض و واجبات کے بعد صرف حضور اکرم ﷺ ‘ ان کے اہل خانہ ‘ صحابہ اکرام رضی اﷲ تعالی عنہم‘ اولیاء کرام رحہم اﷲ کے واقعات بتائیں اور ہر وقت حضور اکرم ﷺ کی محبت میں روتے رہیں‘ ہر وقت خیالات و تصورات میں حضور اکرم ﷺ کا چہرہ ان کے سامنے رہے اور اﷲ تعالی عزوجل سے اس طرح عرض کریں کہ یا اﷲ ہمیں حضور اکرم ﷺ کے پاس لے جائیں میں پیارے آقا ﷺ سے بات کرنا چاہتا ہوں، بس آنکھیں بند اور انشاء اﷲ تعالی آپ دیکھیں گے کہ حضور اکرم ﷺ کی نورانی محفل میں آپ پہنچ جائیں گے جہاں صحابہ کرام رضی اﷲ تعالی عنہم بھی ہوں گے۔ بخاری شریف و مسلم ہے جس کا مفہوم ہے کہ اﷲ تعالی فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوتا ہوں جو وہ میرے بارے میں رکھتا ہے‘ اور میں بھی اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ ) مزید آنکھیں بند کرکے اﷲ کے ذکر کرتے ہوئے آنکھ بند کرے آقا ﷺ سے باتیں کرنے کا کلیہ مجھے حضرت باہو رحمتہ اﷲ علیہ نے سکھایا کیونکہ ان کی تمام کتب اس طرح کی ترکیبوں سے بھری پڑی ہیں جو کہ اٹھارویں صدی سے پہلے کے ولی ہیں اور فتنے اور فسادات اٹھارویں صدی کے بعد کے ہیں‘ لہذا جب بھی آپ کو کسی قسم کا مسئلہ اختلاف کا پیش آئے تو برائے مہربانی اٹھارویں صدی سے پہلے کے اولیاء کرام ‘ اس وقت کے محدثیں ‘ ائمہ حدیث‘ فقہائے دین ‘ تبع تابعین‘ تابعین‘ صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالی اجمعین وغیرہم کی تصانیف کا مطالعہ کر لیں انشاء اﷲ تعالی فتنوں سے باز رہیں گے( ۔ مزید کسی نے مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اﷲ سے ایک سوال جو کہ انہوں نے اپنی کتاب التکشف میں بیان کیا۔ سوال۔ حضرت رحمہ اﷲ علیہ نے مجھ کو جب ذکر شریف تعلیم فرمایا تھا تو یہ فرمایا تھا کہ لا الہ کے وقت یہ خیال کرے۔۔۔۔ کہ جس قدر محبتیں غیر خدا کی قلب میں ہیں ۔۔ سب کو نکال کر پس پشت ڈال دیں۔۔۔ اور الا اﷲ کے وقت یہ خیال کرے۔۔ کہ صرف اﷲ کی محبت قلب میں داخل کی۔۔ تو اب وسوسہ پیدا ہوتا ہے۔۔۔ کہ کیا رسول اﷲ ﷺ کی بھی محبت کو بروقت ذکر شریف کے ایسا ہی خیال کرے۔۔۔ اور حدیث شریف میں ہے کہ جس کے دل میں رسول اﷲ ﷺ کی محبت نہ ہوگی۔۔۔مسلمان نہیں۔۔۔ اس پر مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اﷲ علیہ نے جواب دیا۔ چونکہ رسول اﷲ ﷺ کی محبت عین خدا کی محبت ہے۔ ۔۔ بلکہ جمیع اہل اﷲ کی محبت بھی۔۔۔ عین خدا تعالی کی محبت ہے۔۔۔ پس مراد اس تعلیم میں یہ ہے کہ جو محبتیں خدا تعالی سے تعلق نہیں رکھتیں۔۔۔ ان کو پس پشت ڈال دیا۔۔۔۔ اب کوئی اشکال نہیں۔ آپ نے دیکھا مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اﷲ علیہ نے کیا جواب دیا یعنی اﷲ تعالی عزوجل‘ اس کے رسول اﷲ ﷺ‘ ان کی ازواج رضی اﷲ تعالی عنہم‘ صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالی اجمعین‘ اولیاء کرام رحمہم اﷲ اور ان کے غلاموں سب کا ذکر ہی اﷲ کا ذکر ہے لہذا اگر کوئی پوری زندگی فرائض و واجبات کو چھوڑ کر ان کا تذکرہ کرتے رہے تو عبادت ہی عبادت ہے۔

باتیں تو بہت لیکن جمشید بھائی ) انسانیت کے ناطے ورنہ آپ کا عمل اس قابل نہیں( آپ کو شکر گزار ہونا چاہئے مولانا طارق جمیل مدظلہ العالیہ کا کہ انہوں نے آپ پر محنت کرکے آپ کو کچرے سے اٹھا کر ایمان والی زندگی میں لانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن شاید ان کی تربیت میں کوئی کمی رہ گئی کیونکہ وہ خو د تو عاشق رسول ﷺ ہیں ۔ اگر آپ پوری زندگی اس کچرے میں رہتے وہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ آپ گستاخی میں ملوث ہوں اور اگر بغیر معافی اور تجدید ایمان کے مر گئے ہوتے تو آپ کے لئے بہت نقصان دہ بات ہوتی۔ لہذا اپنے اس عمل جو کہ آپ نے کیا اس پر زندگی پر نادم رہئے ‘ زندگی بھر آنسوں بہاتے رہتے جب جب یاد آئے۔ اﷲ تعالی عزوجل سے دعا گو ہوں کہ وہ ہم سب مسلمانوں کو اپنی اور اپنے حبیب ﷺ کی محبت ‘ ادب میں زندگیاں گزارنے کی توفیق دے اور جب اس دنیا فانی سے کوچ کریں تو کلمہ طیب اور کلمہ شہادت لب پر ہو ۔ آمین ثم آمین۔ یہ باتیں بلا کسی تفرے کو بڑھانے کی غرض سے ہیں لہذا ان باتوں سے کسی طرح بھی کسی ایک فرقے کو نشانہ نہ بنایا جائے۔ برائے مہربانی ۔ جلدی جلدی لکھا ہے اگر اس میں کسی قسم کی غلطی ہو گئی تو اپنے رب بالمصطفٰی سے دعا گو ہوں کہ وہ میری اس خطا کو معاف کر دے۔ ) رب بالمصطفٰی اس لئے کہا کیونکہ مجدد الف ثانی رحمتہ اﷲ نے بھی ایک جگہ کہا تھا کہ مجھے رب سے محبت ہے کیونکہ وہ حضور اکرم ﷺ کا رب ہے۔ لہذا حضور اکرم ﷺ کا رب کہنے میں مزا ہی کچھ اور ہے کیونکہ اﷲ تعالی عزوجل نے سب سے پہلے انہیں تخلیق کیا۔
امام ابوحنیفہ کے دو پھول کیسے جڑیں اس کے لئے ایک اور آرٹیکل میرا پڑھیں۔
اللھم صل علی محمد و علی آلہ وبارک وسلم۔
Abdullah Khan
About the Author: Abdullah Khan Read More Articles by Abdullah Khan: 2 Articles with 2720 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.