یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان کا خطہ قدررتی
وسائل،قسم ہاقسم معدنیات،جنگلات،گلیشئیر، صاف شفاف آبشاروں، آبی ذخائر، خشک
میوہ،سلاجیت، جنت نظیر حسین و جمیل وادیوں اور بلند و بالا پہاڑوں کا دیس
ہے۔ دفاعی حوالے سے حساس، جغرافیائی اعتبار سے انتہائی اہم اور سیاحتی
حوالے سے نہایت خوبصورت،دلچسپ،دلربا اور جاذب النظر ہے۔ 27469 مربع میل پر
محیط یہ علاقہ1947 ء تک ڈوگرہ راج کے زیر تسلط تھا۔پاکستان کی آزادی کے بعد
یکم نومبر 1947ء کو گلگت بلتستان کے غیور مسلمانوں نے اپنی مدد آپ جہاد کر
کے یہاں سے ڈوگرہ راج کو چلتا کر دیااور غیر مشروط طور پر پاکستان کے ساتھ
اسکا الحاق کردیا۔یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگ باسیان
پاکستان سے زیادہ پاکستان سے مودّت و محبت کرتے ہیں۔اگر اس جذبے ومحبت میں
صداقت نہ ہوتی توکبھی بھی اس طرح الحاق نہ کرتے، مگر اے کاش............ !
بدلے اور صلے میں مملکت خداداد کے نا عاقبت اندیش حکمرانوں نے اہل علاقہ کو
اپنا سمجھ کر گلے سے لگانے کے بجائے '' معاہدہ کراچی '' کے ذریعے دیوار سے
لگایا اور انہیں ایف سی آر(F.C.R) جیسا کالا قانون تحفے میں دیا گیا جو
طویل عرصے میں بڑی جدوجہد کے بعد ختم کردیاگیا۔
اس خطہ زمین نے پاکستان کے زیر کنٹر ول ہونے کی بنیاد پر پاکستانی کہلانا
چاہا تو اقوام متحدہ(U.N.O) نے ڈنڈی مار دی، جغرافیائی لحاظ سے کشمیر بننا
چاہا تو شاہان وقت کی مرضی شامل نہ ہوئی اور اُنکے مذموم مقاصد مانع ٹھہرے،
پانچواں صوبہ کر اپنا الگ تشخص قائم کر نا چاہا تو کچھ اپنوں کی کا
رستانیاں اور کچھ غیروں کی ریشہ دوانیاںرکاوٹ بنیں۔ گواس دھرتی بے آماں کے
ساتھ مختلف ادوار میں ہر قسم کا ظلم و جبر جاری رہااور سیاسی و آئینی اور
بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا۔ بھٹو دور میں ایک نام نہاد '' قانون
ساز کونسل'' وجود میں آئی جس کا کردار فقط زبانی جمع خرچ تک محدود تھا جبکہ
تمام انتظامی اختیارات اور امور چیف ایگزیکٹیو کے پاس ہوتے جو وفاق سے
ہوتا۔مشرف دور میں اس انتظامی ڈھانچے میں کچھ تبدیلی کر کے ''قانون ساز
اسمبلی '' کا نام دیا گیااور زرداری حکومت نے '' سیلف گورننس اینڈ
امپاورمنٹ آرڈیننس 2009 '' کے نام سے ایک انتظامی پیکیج متعارف کروایا
اگرچہ اس میں کافی حد تک اہل علاقہ کو اختیارات سونپ دیے گئے ہیںمگر حقیقت
یہ ہے کہ انتظامی پیکیج کاعدالتی و آئینی تحفّظ نہیں ہے نہ گلگت بلتستان کی
اسمبلی و کونسل کے پاس مکمل اختیارات کا سر چشمہ ہے اور نہ وہ اپنی مرضی سے
سیاسی و انتظامی فیصلے کر سکتے ہیں۔ اس خطے کی تقدیر کے فیصلے اور نفاذ
قوانین کی نکیل اب بھی صاحبان بست وکشاد اور ارباب اسلام آباد کے ہاتھوں
میں ہے ۔وہی سپید و سیاہ کے مالک ہیںاور انہی کی منشاء و مرضی کے مطابق
تمام سیاسی وآئینی اورانتظامی امور طے پاتے ہیں۔
اس وادی جنّت نظیر کی سرحدیں بیک وقت چین،بھارت،افغانستان،تاجکستان،چترال
اور کشمیر سے ملتی ہیں ۔ اس میں سات اضلاع اور سولہ تحصیلیں ہیںاور چھوٹے
بڑے کم و بیش 1000 گائوں آباد ہیں۔ دنیا کی اہم ترین چوٹیاںکے ٹو،
نانگاپربت،کوہ ہمالیہ،کوہ قراقرم، کوہ ہندوکش،پامیراور شنگھریلا،
دیوسائی،فیری میڈو، راما جھیل،گیٹی داس، ہنزہ جیسی خوبصورت جگہیں اس خطے کے
حصہ میں آئی ہیں۔ دفاعی حوالے سے لدّاخ سیکٹر،کارگل،سیاچن اور گلتری باڈرز
شامل ہیں جو ملک کے حساس ترین باڈرز شمار ہوتے ہیںاور ان باڈروں پر گلگت
بلتستان کے عظیم مجاہدین کی قربانیاں سب پرروز روشن کی طرح عیاں ہیں اور
پتھر پر لکیر ہے مگر کوئی نگاہ بصیرت ، عقل سلیم اور اپنے پہلو میں نرم دل
رکھنے والا تو ہو.........!
ہاں ! یہ بھی یاد رہے کہ اس خطے پر عالم کفر کی للچائی ہوئی نظریں جمی ہوئی
ہیں۔عالمی دہشت گرد ، مسلمانوں کا اجتماعی قاتل،فرعون وقت امریکہ یہاں اپنا
'' دفاعی اڈہ '' بنانا چاہتا ہے اس لیئے کہ یہاں سے چین ، روس اور
افغانستان اور دیگر ممالک پر دراندازی سہل ہو جاتی ہے۔گلگت بلتسان کا علاقہ
ہر لحاظ سے خصوصیت کا حامل ہے۔ یہاں دو ڈیم بنائے جارہے ہیںایک ڈیم سد پارہ
کے نام سے کلی طور پر گلگت بلتستان کے ضلع اسکردو میں بن رہا ہے دوسرا ڈیم
'' دیامر بھاشا ڈیم '' کے نام سے ضلع دیامر میں بن رہاہے تو آئیے آئندہ
سطور میں ہم اس ڈیم کے حوالے سے ایک تحقیقی اور تجزیاتی رپورٹ آپ کی خدمت
میں پیش کرتے ہیں
٭دیامر بھاشا ڈیم کا تعارف و پس منظر:
دیامر بھاشا ڈیم کے لئے جس جگہ کا انتخاب کیاگیا ہے وہ ضلع دیامر کا ہیڈ
کوارٹر چلاس سے تقریباََ40 کلو میٹر کے فاصلے پر ''تھور گاؤں،، میں واقع ہے
۔ دریا سندھ کے بائیں طرف داریل و تانگیر جو کہ سب ڈویژن چلاس کا علاقہ ہے
اور دائیں طرف شاہراہ قراقرم بھاشا نالہ تک چلاس سب ڈویژن کا علاقہ ہے جبکہ
ڈوڈیشال داریل کے بالمقابل بھاشا پولیس چوکی کوہستان ایریا دکھائی دیتی ہے
حالانکہ قدیمی ریکارڈ کے مطابق بھاشا نالہ تک کا علاقہ چلاس کے عملداری میں
آتا ہے۔
پاکستان کے شمال میں دریا سندھ پر بنایا جانے والا یہ ڈیم چلاس ٹاؤن بہاؤ
کا رخ ٤٠کلو میٹر صوبہ خیبر پختون خواں اور گلگت بلتستان کی سرحد پر تعمیر
کیا جائے گا۔اس ذخیرے کا 98فیصد حصہ گلگت بلتستان میں واقع ہوگا جبکہ پاور
ہاؤس صوبہ خیبر پختون خواںمیں واقع ہونگے۔ 12.6بلین امریکی ڈالر کی لاگت سے
تیار ہونے والا یہ ہائیڈروپاور منصوبہ4500 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی
صلاحیت رکھتاہے ۔اس ڈیم کی لمبائی 35 سو فٹ،چورائی 2ہزار فٹ،اونچائی 660فٹ
اور سطح سمندر سے اس کی بلندی 35سو فٹ ہو گی اور 6.4ملین ایکٹرفٹ پانی
ذخیرہ کیا جاسکے گا۔ڈیم کی دیوار کی اونچائی 270میٹر ہوگی ، دریائے سندھ کے
پانی کے سال بھر کا بہاؤ کا 15فیصد اس میں ذخیرہ ہوگا۔دنیا میں سب سے ز
یادہ بلندی پر بنائے جانے والے اس ڈیم کی عمر 100سال ہوگی اور اس میں ریت
جمع نہ ہوگی اور اس ڈیم کی تعمیر2016تک مکمل کر لی جائیگی(تلخیص از روز
نامہ جنگ 28اپریل 2006)
ڈیم کے منصو بے کے ڈیزائن کے مطابق اس ہائیڈرو پاور منصوبے میں دو موڑ یا
سرنگیں اور منصوبے کے مقام پر پانی کے بہاؤ کا رخ دو حائطہ بند
(Cofferdams) بنائے جائیگے۔ منصوبے میں دو پاور ہاؤس ہونگے جسمیں 375
میگاواٹ صلاحیت کے 12یونٹ ہونگے اور دو پاور ہاؤس سے سالانہ اوسطاََ
Gwh18000کی پیداوار کا تخمینہ لگایا گیا ہے اور یہ سارا ذخیرہ بالعموم گلگت
بلتستان بالخصوص ضلع دیامرمیں واقع ہوگا ( تلخیص از دیامر بھاشا ڈیم ۔فیلڈ
وزٹ رپورٹ اکتو بر2008 )
٭ دیامر بھاشا ڈیم کی ضرورت و اہمیت:
دیامر بھاشا ڈیم اپنی نوعیت کاایک مثالی ڈیم ہوگا۔اس ڈیم کی اہمیت و فوائد
کا اندازہ ڈیم کی افتتاحی تقریب میں صدر مشرف کے ان الفاظ سے لگایا جا سکتا
ہے ۔ انہوں نے کہا کہ '' پانی اور توانائی ہمارے لیئے زندگی اور موت کا
مسئلہ ہے،تیس سال سے ملک میں کوئی ڈیم نہ بننے کے باعث پانی کی ایک بڑی
مقدار سمندر میں چلی جاتی ہے جبکہ وسیع ارضی بنجر پڑی ہے۔ملک میں بڑھتی
ہوئی آبادی کیلئے پانی کی ضرورت بڑھ رہی ہے'' بعد میں انہوں نے ریڈیو اور
ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے ڈیم کی عدم تعمیر کو خودکشی قرار دیا۔
موجودہ حکومت کے وفاقی وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف نے ڈیامر بھاشا
ڈیم کی اہمیت و ضرورت پر زور دیتے ہوئے قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے
جوابات دیتے ہوئے کہا کہ '' دیامر بھاشا ڈیم قومی منصوبہ ہے جولائی میں
تعمیر شروع ہو جائیگی۔کالا باغ ڈیم نہیں بننا چاہیے اور موجودہ حکومت کالا
باغ ڈیم پر لڑائی کے بجائے قومی منصوبے پر آگے بڑھے۔بھاشا ڈیم کی تعمیر سے
تر بیلا ڈیم کی زندگی تیس سال اور بڑھے گی،انرجی کانفرنس کے نتائج شروع ہو
گے ہیں۔ہائیڈرو پاور پیداوار میں کمی کی وجہ سے آلودگی کے باعث تربیلا کی
صلاحیت 30فیصد کم ہوگئی ہے''(تلخیص از ڈیلی صدائے گلگت 4مئی 2010)
دیا مر بھاشا ڈیم ترقی کی راہ پر اہم پیش رفت ہے ملک میں وقفے کے بعد 12.6
بلین امریکی لاگت سے تعمیر ہونے والے اس کثیر المقاصد ڈیم کی تعمیر خوش
آئند ہے ۔ ڈیامر بھاشا ڈیم سے نہ صرف گلگت بلتستان میں تعمیر و خوشحالی
آئیگی بلکہ اس کا فائدہ سندھ تک پہنچ جائیگا اور 6.4 ملین ایکڑ فٹ پانی
دیامر سے ٹھٹھ تک مختلف علاقوں کو سیراب کرتے ہوئے سمندر میں گرے گا۔ واپڈا
کے مطابق یہ منصو بہ نہ صرف پانی سے بجلی پیدا کرے گابلکہ اس سے آبپاشی کے
کثیر فوائد بھی حاصل ہونگے۔کم بہاؤ کے دنوں میں ذخیرہ شدہ پانی زرعی
استعمال کیلئے روز گار کے مواقع ہونگے اور منصو بے سے سیلاب کی روک تھام
اور دریا ئے سندھ میں گاد جمع ہونے کیلئے عمل پر کنٹرول کیا جائے سکے گا۔
مختصراً ڈیم کی تعمیر کو ڈیم کی فزیبلٹی رپورٹ سے لیکراب تک ارباب اقتدار ،
وزراء اعظم ، چاروں وزرائے اعلی،گورنر اور تمام سیاسی و مذہبی لیڈران لازمی
قرار دے رہے ہیں اس سے اسکی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔دیامر بھاشا ڈیم کی سب
سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ اس کی تعمیر سے ملک زرعی و صنعتی ترقی پر گامزن ہوگا
کیونکہ پانی زندگی بھی ہے اور دولت بھی،اسی دولت سے زمین ہری ہوجاتی ہے،
صنعتوں کیلئے توانائی ملتی ہے ۔غربت کے عفریت کم ہو جاتے ہیں اور بیروز
گاری کے سائے دور ہو جاتے ہیں تب ہی تو ملک کے صدور، وزراء اعظماء ،اور
انکی کابینیںکالا باغ ڈیم کی تعمیر کو (سیاسی دباؤ میںآکر )ملتوی کرکے دیا
مر بھاشا ڈیم کے تعمیراتی پلان پر زور وشور سے کام کی تکمیل چاہتے ہیںاور
تمام سیاسی و مذہبی اور حکومتی و اپوزیشنی رہنماء و زعماء اتفاق رائے کے
دعوے کر رہے ہیںمگر افسوس انکی کج روی پر کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو روز
اوّل سے مایوس کرتے آرہے ہیں اور اب تلک باسیان ارض شمال کو مکمل اتفاق
رائے میں شامل نہ کرکے اور مسلسل انکو نظر انداز کرکے اپنی ہٹ دھڑمی ،بغض و
عناد اور خواہشات نفسانی کا بین ثبوت دے رہے ہیں۔اہلیان گلگت بلتسا ن نہ
ڈیم کے پہلے مخالف تھے نہ اب ہیں وہ تو صر ف اپنے نقصانات کا ازالہ اور
جائز مطالبات کا رونا رو رہے ہیں۔
٭دیامر بھاشا ڈیم کے نقصانات:
یہ ایک بدیہی امر ہے کہ ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ نہایت شاندار اور قابل
تعریف ہے مگر شو مئی قسمت ڈیم کا نام متنازعہ بنا دیا گیا۔ یہ بھی اظہر من
الشمس ہے کہ ڈیم کی تعمیر سے تمام تر علاقہ گلگت بلتسان کا تیسرا بڑا اور
سب سے پسماندہ ضلع دیامر کے ہیڈ کوارٹر چلاس کا 80 فیصد زیر آب آئیگااور سب
ڈویژن چلاس اور داریل و تانگیر کی آبادی متاثر ہوگی جسمیں کھنبری گاؤں،
بصری نالہ، گینے گاؤں ، تھور نالہ ، ہوڈر گاؤں، تھلپنٹ، گیس بالا،گیس پائن،
بونر داس، ڈرنگ داس، جلی پور گاؤں، گونر فارم، شاہین کوٹ، سونیوال ،اور
گوہرآباد اور رائیکوٹ تک کے نشیبی علاقوں کی تمام آبادیاں شامل ہیں۔اس کے
علاوہ زرعی قابل کاشت اراضی اور بنجر ارضیات بھی متاثر ہونگی اور شتیال
تارائیکوٹ تقریباً 80سے 150کلو میٹر تک شاہراہ قراقرم بھی غرقابی کا شکار
ہوگی جوکہ تمام تر '' ضلع دیامر'' کے حدود سے گزرتی ہے۔
ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 200مربع کلومیٹر کا یہ ذخیرہ شاہراہ قراقرم کے
100کلو میٹر پر مشتمل حصہ کو بہا لے گا اور 28000نفوس پر مشتمل گاؤں ختم
ہوجائینگے اور تقریباً 50ہزار پرانی چٹانوں پر موجود کھدائیوں کو تباہ کر
دے گا (دیامر بھاشا ڈیم ، فیلڈ وزٹ رپورٹ اکتوبر 2008)
واپڈا کے مطابق 27گاؤں ڈیم کے ذخیرے میں بہہ جائیگے۔ یہ تمام گاؤں یا تو
دریا سندھ کے کناروں پر واقع ہیں یا اس کے شا خو ں پر ۔ علاقے کے طبعی اور
جغرافیائی خصوصیات کی مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات فوری سمجھ میں آجاتی ہے کہ
ڈیم کے مجوّزہ مقام کے ارد گرد زمین بہت قیمتی ہے۔ انسانی آبادی اور زرعی
سرگرمیوں کیلئے تر چھے پہاڑوں میں زیاد ہ ہموار جگہ موجود نہیں، یہاں یہ
بات ذہن میں رہے کہ مقامی لوگوں کے مطابق 31سے بھی زیادہ گاؤں اور بستیاں
متاثر ہونگیں۔ 3115 گھر تباہ ہونگے اور 1500زیادہ ایکڑ زمین ذخیرہ میں زیر
آب آئیگی۔
معروف کالم نویس جناب عبد الجبار ناصر صاحب دلکش اور دلنشیں پیرائے میں اس
ڈیم کے نقصانات کا نقشہ کھنچتے ہوئے رقم طراز ہیں ۔
'' آبی ذخائر کے حوالے سے گلگت بلتسان کو اعتماد میں لیا جائے کیونکہ اس
وقت جو تین بڑے ڈیم زیر غور ہیں(کالا باغ، دیامر بھاشا اور اسکردو)ان میں
سے دو ڈیم ریاست جموں و کشمیر کامتنازعہ حصہ گلگت بلتستان میں واقع ہیں۔
اسکردو ڈیم کلی طور پر گلگت بلتستان میں بنے گا جبکہ دیامر بھاشا ڈیم کی
تعمیر سے گلگت بلتستان کا تیسرا بڑا ضلع دیامر ہیڈ کوارٹر سمیت اسی فیصد
رقبے کی آزادی متاثر ہوگی۔ سچ تو یہ ہے یہ دونوں علاقے صفحہ ہستی سے مٹ
جائیگے۔دونوں کا مجموعی طور پر 70فیصد سے زائد اور پانچ لاکھ سے زائد آبادی
متاثر ہوگی اس کے باوجود دیامر بھاشاڈیم کی رائلٹی اور دیگر مراعات کا
مطالبہ صوبہ سرحد کرے تو یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے۔''
٭ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر سے ثقافتی ورثے کی بربادی:
دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر سے وہاں کے قدیمی ثقافتی ورثے کو سخت خطرات لاحق
ہیں۔ مجوّزہ مقام پر چٹانوں پر کندہ بدھا کی تصاویر ہیںاور وادی سندھ کے
اوپری حصوں میں بہت ساری قدیم کندہ چٹانیں ہیں جن کی عالمگیر اہمیت واضح
ہے۔ایک تحقیقاتی ٹیم نے آبی ذخائر کیلئے مجوّزہ زمین پر کندہ چٹانوں کا
تفصیلی دورہ کیا اور Heidel Berg یو نیو رسٹی کے پروفیسر Harald Hauptmann
اور واپڈا کے حکام ے آبی ذخائر کے متعلق تفصیلی گفت و شنید کی۔ ایک اور
ریسرچ ٹیم نے 2008 میں مقامی لوگوں سے کندہ چٹانوں کے متعلق انٹر ویو کیے۔
کندہ چٹانوں اور بالائی سندھ میں چٹانوں پرلکھائی کا مرکز چلاس ضلع دیامر
میں ہے جوکہ وسطی اور جنوبی ایشیاء کی ثقافتی تاریخ کے مطالعہ کیلئے ایک
نایاب ذریعہ ہے اور جس کے بہت سے قدیم راستے قدیم سلک روٹ کے ورثے کو ظاہر
کرتے ہیں۔
جرمنی میں اکیڈمی بر ائے سائنس اور بشریات کے پروفیسر Harald Hauptmann کی
ہدایت کے تحت اس مواد کی تیاری اور طبع کیا جارہا ہے۔صرف دیامر بھاشا ڈیم
کے مجوّزہ علاقے میں 88 آثار قدیمہ کے مقامات میں جن میں 68 کندھ چٹانوں کے
کمپلکس ہیں۔ کل 5,157 پتھر اور چٹانوں پر 36.187 کندھ چیزیں ہیں جن میں
مختلف زبانوں کے 3610 تحریریں ہیں جو کہ اس علاقے سے متعلق مطلو بہ ہیں ۔
مختلف سائز کے پتھر وں اور چٹانوںپرعبارتیں دریا کے کنارے اور پوری وادی
میں پھیلی ہوتی ہیں۔ اس چٹانوں پر تاریخ کے ابتدائی ادوار سے لیکر اسلام کی
آمد تک تصاویر کندھ ہیں بالخصوص وہاں بدھا آرٹ کثرت سے موجود ہیں جوکہ بین
الاقوامی دنیا کی توجہ کا مرکز ہے۔ 1989سےHeidel Berg یو نیو رسٹی کے اس
مشن نے ماہرین آثار قدیمہ اور جغر افیائی مطالعہ کر نے والے ماہرین کو چلاس
میں لایا اور ان کندھ عبارتوں اور تصاویر کو ماپا،تفصیلی جائزہ لیا،
تصاویریں لیں اور انکی درجہ بندی کی۔ مذکورہ اعداد و شمار سے اندازہ لگایا
جاسکتا ہے کہ ڈیم کی تعمیر سے ثقافتی ورثے کو کتنا نقصان پہنچتا ہے اور
کتنے تحقیق و ریسرچ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔
٭سونیوال کوٹ اور وادی کھنبری کی کہانی :
ہرے بھرے لمبے درختوں کے درمیان ایک خوبصورت گاؤں سونیوال دریائے سندھ اور
تھور نالہ کے جنکشن میں واقع ہے ۔ یہ گاؤں 100 گھرانوں پر مشتمل ہے ۔گاؤں
میں بڑے بڑے پھلدار درخت ہیں اور آبشاروں اور ندی نالوں کا شفّاف پانی
دریائے سندھ میں شامل ہو کر اپنی شناخت کھو دیتا ہے ۔ یہ مقامی لوگ سونے کی
تلاش، مویشی پالنے اور کھیتی باڑی کا کام کرتے ہیںاور انکی زرعی زمیں کا
300تا 350کنال حصہ زیر آب آئیگا۔ یہی انکا ذریعہ معاش ہے اور یہ لوگ پہاڑوں
میں نہیں رہنا چاہتے ہیں۔
اسی طرح ایک اور وادی کھنبری جو ڈیم کے بالکل قریب میں واقع ہے۔ڈیم کی
دیوار وادی سے صرف دو کلو میڑ پر ہوگی وادی کے تمام چھ گاؤں جوسوکم ، چنگ
چار ، ناروت، نیما،بالاوٹ اور نرارآبی ذخیرے میںبہہ جائیں گے۔یہ آبادیاں
تقریباً 100برس قدیم ہیں اور سونا تلاش کرتی ہیں۔ ان لوگوں کو جنگلات پر
کوئی اختیار ات حاصل نہیں ہے وہ کالنگ ادا کرکے جنگلاتی وسائل کو اسستعمال
کرنے کیلئے محدود اختیارات حاصل کرتے ہیں۔ وادی مچھلیوں اور دوسرے آبی حیات
سے مالا مال ہے۔ زمیں زرخیز ہے لوگ آناج، سبزیاں اور پھلدار درخت لگاتے
ہیں۔
سونیوال کوٹ اور کھنبری کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ڈیم کی تعمیر سے پاکستان
اور گلگت بلتستان خوشحال اور ترقی کرتا ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ، ہمیں
صر ف ایک مناسب معاوضہ چاہیے تاکہ ہم سب اکھٹے آباد ہوجائیں۔ ہم علیحدہ
علیحدہ ہونا نہیں چاہتے ہیں،انہیں شدید خدشہ ہے اور یہ لوگ سوچتے ہیں کہ:
حکو مت کوکوئی فرق نہیں پڑتا ہے اگر ہم نیست و نابود بھی ہوجائیں۔حکو مت
ہمیں مناسب آدائیگی نہیں کریگی،تربیلہ کے لوگ ابھی تک منتظر ہیں ۔وہ لوگ ہر
لحاظ سے طاقتور تھے اور ہم نحیف و کمزور ہیں۔شومئی قسمت اس پر مستزاد یہ کہ
گلگت بلتستان کی حکومت،ا ہلیان دیامر اور ایکشن کمیٹی دیامر بھاشا ڈیم بھی
ان دونوں وادیوں کیلئے کوئی پلان نہیںرکھتی اور انکی غرقابی اور بربادی میں
کسی کو کوئی فکر نہیں۔
٭دیامر بھاشا ڈیم اور گلگت بلتستان کا مؤقف:
مذکورہ بالا تمام باتوں کے بعد اب گلگت بلتستان بالخصوص کے ضلع دیامر کئی
عوام کے چند تحفظات و مطالبات کا ذکر کیئے جاتے ہیں۔دیامر کے حوالے سے
مختلف اوقات میں احتجاج اور مذاکرات ہوتے رہے۔ حاجی گندل شاہ اور عنایت
اللہ شمالی کی کوششیں قابل قدر ہیں۔ فروری 2010 کو چلاس کے عوام اپنے
مطالبات منوانے کیلئے ایک پر امن احتجاجی مظاہرہ کر رہے تھے اسی اثناء
پولیس نے ان پر فائر کھول دی جس سے تین افراد شہید ہوئے اور کئی زخمی ہوگئے
تب احتجاجی عمل سخت ہوا،ایک ایکشن کمیٹی بنی جسکے چیئر مین محترم عطاء اللہ
صاحب ہیں۔ڈیم ایکشن کمیٹی اور حکو مت کے درمیان ایک معاہدہ ہواجسکی تفصیل
عطاء اللہ صاحب سے موصول ہوئی جو حسب ذیل ہے۔
مورخہ 25 فروری 2010 کو ایک اجلاس دیامر بھاشا ڈیم کمیٹی کے ممبران اور
حکومت پاکستان کے وفاقی وزیربرائے امور کشمیر و گلگت بلتستان میاں منظور
وٹو کی ذیلی کمیٹی زیر صدارت جناب مہدی شاہ وزیر اعلی گلگت بلتستان منعقد
ہوا۔وزیر اعلی نے شروع میں تمام شرکاء بالخصوص کمیٹی دیامر بھاشا ڈیم کو
خوش آمدید کہا اور سیکریڑی امور کشمیر و گلگت بلتستان باقاعدہ اجلاس کی
کاروائی شروع کی اور یقین دلایا کہ تمام مذاکرات اور بحث مذاکراتی کمیٹی
اور انتظامیہ کے مابین معاہدے12-08-2009کی روشنی میں طے پائینگے۔اس اجلاس
میں متفقہ طور پر جو امور طے ہوئے وہ درج ذیل ہیں۔
١۔رہائشی پلاٹ متاثرین کیلئے 5 کے بجائے ایک کنال کاہونا چاہیے۔
٢۔زرعی پلاٹ جس کا زیادہ سے زیادہ 6 کنال ہے۔اس میں سے متاثرین اپنی مرضی
اور منشاء کے مطابق کم بھی خرید سکتے ہیں۔
٣۔n Special Quelifica کے علاوہ جتنی بھاشا ڈیم میں سیکمز آجائینگی ان میں
روز گار کیلئے متاثرین کو ہر گز نظر انداز نہیں کیا جائیگا۔ااور تمام
روزگار کے عمومی مواقع پر متاثرین کو ترجیح دی جائیگی۔امیدوار کی عدم
دستیابی کی صورت میںگلگت بلتستان کے دیگر علاقوں کے امیدواروں کو فوقیت دی
جائے گی۔
٤۔ہرپن داس کے مقدے کو کورٹ سے پندرہ روز کے اندر واپس لیا جائیگا جو زمین
واپڈا کو پہلے معاہدے کے تحت بغیرمعاوضے کے تحت دی گئی تھی اب واپڈا
باقاعدہ معاوضہ ادا کریگا اور اس طرح باقی ماندہ زمین حکومت کو معاوضے کے
ساتھ دی جائیگی۔
٥۔دیامر بھاشا ڈیم کی رئلٹی کا100% حق صرف گلگت بلتستان کا ہے ۔اور ساتھ
بونڈری کے تنازعے کو فوری طور پر ختم کرنے کیلئے
سپریم کورٹ آف پاکستان کے غیر جانبدار جج کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دی
جائیگی۔
٦۔دیامر بھاشا ڈیم سے پیدا ہونے والی بجلی سے متاثرین ڈیم کو 50%رعایتی ریٹ
پربجلی مہیا کی جائے۔
٧۔Chilas Development Authority کا قیام عمل میں لایا جائے۔
٨۔جن چراگاہوں کی اراضی جو ڈیم میں زیر آب آرہی ہے میں 50%حکومت کو بغیر
معاوضے کے مالکان نے چھوڑا تھا،اب حکومت مالکان کو یہ زمین واپس کرتے ہوئے
فی کنال ریٹ 1,50,000مقرر کردیا ہے۔
٩۔ایک مصالحتی کمیٹی زیر سربراہی ڈی سی دیامر تشکیل دی جائیگی جسمیں واپڈا
اور متاثرین کا ایک ایک نمائندہ بھی شامل ہوگا۔اس کمیٹی کے درج ذیل فرائض
ہونگے۔
١۔اگر داس کی سروے میں کوئی غلطی ہوگئی ہو تو اس کی درستگی اور اگر
دورانLand Aoquisition کوئی تعمیر عارضی طور پر ضروری تو اس کی اجازت دینا۔
٢۔یہ اصول بھی طے ہوگیا کہ صرف معاوضے دینے کی صورت میں زمین واپڈاکے حوالے
کی جائیگی اور مزید یہ کہ اگر معاوضے میں تاخیر ہو تو اس میں مناسب ہر جانہ
بھی شامل کیا جائیگا۔
٣۔تھک داس کے سلسلے میں9 12-08-200 کے فیصلے پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ ہرپن
داس کے مقدموں کی واپسی تھور اور دیگر زمین جو فوری طور پر واپڈا کے چاہنے
کے ساتھ منسلک کیا جائیگا۔ہرپن داس وغیرہ میں جو سرکاری پروجیکٹسن تعمیر ہو
اس کا معاوضہ حکومت گلگت بلتستان ادا کرے گیا اور واپڈا کی کوئی ذمہ داری
نہیں ہوگی۔
٤۔Land Aoquisitaionکے مطابق ہوگی۔
اس کے علاوہ کمرشل، زرعی، بنجر اور دیگر اراضی کے فی کنال ریٹ بھی طے
ہوئے۔اب حکومت کو چاہیے کہ ان متفقہ اور منظور شدہ مطالبات کو فراخدلی سے
قبول کرے۔
٭دیامر بھاشا ڈیم اور گلگت بلتستان کا مستقبل:
دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے گلگت بلتستان کے مستقبل کے بارے کچھ
کہنایا لکھنا قبل از وقت ہوگاتاہم فکر و تخیل کی حد تک چند ایک پہلوؤں پر
تجزیہ کی گنجائش ہے۔ مثلاًترقیاتی مستقبل (Development Future) تعلیمی
مستقبل (Educational Future) صنعتی مستقبل (Industrail Future) اور بے روز
گاری کے بارے میں تفصیل سے لکھا جاسکتا ہے۔مذکورہ بالا موضوعات پر مستقل
قلم اٹھانے کی ضرورت ہے تاہم مضمون کی طوالت سے گریزاں کرتے ہوئے مختصر و
اجمالاً چند کلمات سپرد کیے جاتے ہیں۔
مذکورہ ڈیم سے ترقیاتی کاموںمثلاًسڑکوںکی تعمیر و تصحیح،پرانی سرکاری
عمارتوںکی بوسیدگی کاخاتمہ اور نئے سرکاری عمارتوں کو وجود میںلایا جاسکتا
ہے اور جو دیہات اب تک روڈ اور بجلی جیسی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں
وہاںروڈ اور بجلی کا سستا انتظام کیا جاسکتا ہے۔اور تعلیمی حوالے سے دور
دراز دیہاتوں میں نئے اسکولوں کا قیام اور پرانے اسکولوں کی تزئین و آرائش
اورتمام ہائی اسکولوں کو انٹر کالجز اور انٹر کالجز کو ڈگری کالجز میں ترقی
دیکر غریب عوام کو سستی تعلیم مہیا کی جاسکتی ہے۔ اور تشنگان علوم کو کراچی
،لاہور،اسلام آباد، پشاور اور دیگر شہروں میں در بدر ہونے سے بچایا جاسکتا
ہے بالخصوص قراقرم انٹر نیشنل یونیورسٹی کو منظور شدہ شیڈول و چارٹر کے
مطابق ڈھال کر یعنی تمام ضلعوں میں یونیورسٹی کے کیمپس قائم کر کے گلگت
بلتستان کے طالبان علوم و تشنگان فنون کو سب سے بڑی ڈپریشن سے نجات دلائی
جاسکتی ہے۔ اس طرح علماء کیلئے دینی مدارس قائم کرنے کے حالات سازگار ہونگے
تو علماء کرام وفاق المدارس کے ماتحت دینی مدارس قائم کرکے گلگت بلتستان کے
مسلمانوں کی صحیح طریقے سے خدمت کر سکیں گے اور ان میں دین اسلام کا مثبت
جذبہ پیدا کرکے اور بنیادی دینی اصول و عقائدسے آگاہ کرکے انکی درست
رہنمائی کر سکتے ہیںاور انہی تعلیمی اداروں سے علماء کرام،صلحاء عظام،خطباء
دین،مبلغین، مفسرین،محدثین، وکلائ، انجینیرز ، ڈاکٹرز،معیشت دان، سیاستدان،
ادیب، صحافی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کیلئے ممتاز رجال کار پیدا ہونگے جس
سے گلگت بلتستان میں ایک منفرد اور مثالی معاشرہ قائم ہوگا جسکا عالم
انسانیت متمنی اور متلاشی ہے
اسی طرح صنعتی اعتبار سے بجلی وافر مقدار میں سستی مہیا ہوگی تو سینکڑوں
صنعتیں، کارخانے اور فیکٹریاںقائم ہونگی اس طرح ان صنعتوں اور دیگر سرکاری
و پرائیویٹ اداروں جو نئے معرض وجود میں آئینگے میں ہزاروں اسامیاں آئینگی
جس سے گلگت بلتستان کے عوام بالخصوص نوجوان تعلیم یافتہ طبقہ بیروز گاری کے
دلدل سے چھٹکارا پا سکے گااور ان کیلئے ترقی، پھلنے پھولنے ، روشن مستقبل،
کامیابی کے شاندار مو اقع ملیں گے اور ان میں ستاروں پر کمند ڈالنے،اقبال
کا شاہین اور نانوتوی کے جانشیں بننے کی صلاحیتیں پیدا ہونگیں۔ تاجر حضرات
اپنی تجارت میںوسعت لاکر کاشغر، کشمیر،چترال اور دیگر علاقوں تک پھیل
سکیںگے۔ یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہے جب حکومت پاکستان گلگت بلتستان بالخصوص
'' ضلع دیامر'' کے جائز بنیادی مطالبات کو فراخدلی سے منظور کرے اور انکے
ساتھ دوغلی پالیسی اختیار نہ کرے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
نوٹ: یہ فیچر، 2010 کو ناو انٹرنیشنل کراچی میں شائع ہوا ہے جبکہ فروری
2011کو سنڈے میگزین میں تصویری البم کے ساتھ شایع ہوا ہے۔ حقانی
|