کراچی:احتجاج کے لیے پی ٹی آئی کو فری ہینڈ دیا گیا

پاکستان تحریک انصاف کے پلان سی کا دوسرا مرحلہ کراچی میں احتجاج اور دھرنوں کی صورت میں گزشتہ روز پایہ تکمیل کو پہنچا، جس میں تحریک انصاف کے کارکنوں نے انتخابی دھاندلی کے خلاف کراچی کے داخلی اور خارجی راستوں سمیت تقریباً دو درجن مقامات پر دھرنا دیا، جن میں شارع فیصل، اسٹار گیٹ، حسن اسکوائر، تین تلوار، مائی کولاچی روڈ، سپر ہائی وے اور نیشنل ہائی وے سمیت شہر کے مختلف مقامات شامل تھے۔ تحریک انصاف نے جمعرات کو رات گئے ہی ٹائر نذر آتش کر کے کراچی کی کئی سڑکوں کو بند کر دیا تھا۔ جمعہ کے روز دھرنوں کی وجہ سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور بعض علاقوں میں شہری گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے ٹائر جلا کر مختلف سڑکیں بلاک کی گئیں، جبکہ پولیس نے شہر بھر کے پیٹرول پمپس بھی بند کروادیے تھے، جس سے شہریوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا۔ کراچی کے اکثر تعلیمی ادارے بھی بند رہے، جبکہ کراچی یونیورسٹی میں گزشتہ روز ہونے والے پرچے ملتوی کیے گئے۔ پی ٹی آئی کے احتجاج کی وجہ سے کراچی کی اکثر مارکیٹیں اور دوکانیں بند رہیں، لیکن کئی علاقے مکمل طور پر کھلے رہے، جبکہ کراچی کی سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی، کیونکہ پی ٹی آئی کی جانب سے مرکزی راستوں کو بند کر دیا گیا تھا، جس کی وجہ سے ٹریفک سرکوں پر نہ آ سکی۔ پی ٹی آئی کے احتجاج سے ایک روز قبل صدر کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد ارشاد حسین بخاری کا کہنا تھا کہ حالات دیکھ کر گاڑیاں سڑکوں پر لانے کا فیصلہ کریں گے، جبکہ صدر سندھ تاجر اتحاد نے تمام تجارتی مراکز معمول کے مطابق کھلے رکھنے کا اعلان کیا تھا اور بزنس ایکشن کمیٹی کا کہنا تھا کہ تمام الیکٹرانک مارکیٹیں کھلی رہیں گی، جبکہ ٹینکرز ایسوسی ایشن نے بھی سپلائی معمول کے مطابق جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن جمعہ کو سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے کراچی کی بہت سی مارکیٹیں کھل نہ سکیں۔ چیئر مین آل کراچی تاجر اتحاد عتیق میر کا کہنا تھا کہ کاروبار کھولنا دشوار ہوچکا ہے، حکوت کی جانب سے تاجروں کو تحفظ دینے کی کوئی یقین دہانی نہیں کروائی گئی۔ کراچی کی خاصیت ہے کہ جب بھی کوئی ہڑتال کا اعلان کرتا ہے تو بعض نادیدہ قوتیں پہلے سے ہی افواہیں اور خوف و ہراس پھیلادیتی ہیں۔پھر یہ کہ شہر میں سیکورٹی بھی نہیں ہے، اس کا بھی فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔

ذرائع کے مطابق کراچی پی ٹی آئی کی مقامی قیادت نے کراچی میں اپنے احتجاج کو کامیاب بنانے کے لیے کراچی کے تاجروں اور ٹرانسپورٹر برادری سے سے رابطہ کیا تھا، لیکن انہوں نے پی ٹی آئی کے حکم کی تعمیل کرنے سے انکار کر دیا تھا، لیکن پی ٹی آئی قیادت ہر حال میں کراچی میں ہونے والے اپنے احتجاج کو کامیاب بنانا چاہتی تھی، اعلیٰ قیادت کی طرف سے یہی حکم ملا تھا۔ پی ٹی آئی رہنما عارف علوی کا کہنا تھا کہ کراچی میں کوئی گاڑی چلے گی، نہ کاروبار ہوگا،ہم پورا شہر بند کرا دیں گے، کاروباری مراکز اور ٹریفک بھی بند کرا کے نظام زندگی معطل کر دیں گے، بہر حال کراچی میں احتجاج کر کے نظام زندگی معطل کردینا اتنا آسان نہیں ہے، لہٰذا پی ٹی آئی نے اپنے احتجاج کو کامیاب بنانے کے لیے مختلف جماعتوں سے بھی رابطے کیے، جن کی طرف سے اطمنان بخش جواب نہ ملا، لیکن پی ٹی آئی کو حکومت اور کراچی کی سب سے بڑی سیاسی قوت ایم کیو ایم کی جانب سے خاموش حمایت حاصل ہوگئی۔ پی ٹی آئی کے احتجاج سے ایک روز قبل متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کا کہنا تھا کہ اپنے مؤقف کے حق میں پاکستان کے کسی بھی شہر میں پر امن جلسہ، جلوس اور مظاہرہ کرنا تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں سمیت ہرشہری کا جمہوری حق ہے، کراچی میں مظاہرہ کرنا عمران خان اور ان کی جماعت کا سیاسی، جمہوری اور آئینی حق ہے اور ایم کیوایم ان کے اس حق کا احترام کرتی ہے۔ عمران خان کراچی میں خوشی سے احتجاج کریں، لیکن اپنے احتجاج کو پرامن رکھیں اور تحریک انصاف کے پرامن احتجاج پر کسی جماعت کو اعتراض نہیں ہوگا۔ دوسری جانب حکومت نے احتجاج کو عمران خان کا حق قرار دیتے ہوئے عمران خان کو وزیراعلیٰ سندھ سے بھی زیادہ سیکورٹی فراہم کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ تحریک انصاف کو احتجاج کرنے سے کوئی بھی نہیں روکے گا، جس کے بعد پی ٹی آئی نے یہ حکمت عملی اختیار کی کہ وہ تمام راستوں کو بند کردیں، جس سے پورا شہر خود بخود بند ہوجائے گا،کیونکہ تمام تعلیمی اداروں میں طلبہ اور دکانداروں کی اکثریت بھی گاڑیوں پر سوار ہوکر ہی منزل مقصود تک جاتی ہے، سڑکیں بند ہونے کی صورت میں گاڑیاں بند ہوجائیں گی اور تمام تعلیمی و کاروباری مراکز بھی بند ہوجائیں گے، جس سے احتجاج کامیاب گردانا جائے گا۔ پھر ایسا ہی ہوا کہ پی ٹی آئی کارکنوں نے کراچی کی اہم سڑکیں بند کردیں، جس سے نہ تو سڑکوں پر گاڑیاں آسکیں اور نہ ہی لوگ اپنے اپنے کام پر جاسکے، جس سے بہت سی مارکیٹیں بھی بند ہوگئیں۔ احتجاج کے اختتام پرعمران خان نے کراچی میں اپنے خطاب میں کراچی کے عوام کا شکریہ ادا کیا اور احتجاج کی وجہ سے تکلیف پر عوام سے معذرت بھی کی۔

دوسری جانب حکومت سندھ نے پی ٹی آئی کو یہ تنبیہ بھی کردی تھی کہ کسی کو زبردستی سڑکیں بند نہیں کرنے دی جائیں گی، اگر جلاؤ گھیراؤ کی کوشش کی گئی تو پولیس اس کا مقابلہ کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔ جبکہ ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام قادر تھیبو کا کہنا تھا کہ کوئی شہری اپنی مرضی سے اپنی دکان، دفتر یا کاروبار بند کرنے کا اختیار رکھتا ہے، لیکن اس سلسلے میں کسی کو دھونس، دھاندلی یا زبردستی نہیں کرنے دیں گے، جلاﺅ گھیراﺅ یا قانون ہاتھ میں لینے والے افراد سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ دراصل حکومت سندھ کو اس بات کا خدشہ تھا کہ اجازت ملنے باوجود بھی پی ٹی آئی کا کراچی میں بھی کسی مخالف جماعت کے ساتھ فیصل آباد کی طرح تصادم نہ ہوجائے۔کیونکہ اس سے قبل فیصل آباد میں بھی اسی طرح کی کال دی گئی تھی، جہاں پاکستان مسلم لیگ نواز کے کارکنان اور پولیس کے ساتھ جھڑپ میں ایک پی ٹی آئی کارکن جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ اسی لیے پولیس چیف غلام قادر تھیبو کا کہنا تھا کہ فیصل آباد جیسے واقعات کراچی میں نہیں چاہتے۔ پاکستان تحریک انصاف کراچی میں کوئی بڑی خبر بنانا چاہتی ہے۔ پارٹی قیادت نے پولیس، رینجرز اور ہنگامی امداد کے شعبے بند کرنے کی کوشش کی، شارع فیصل پر پولیس کمانڈوز کو راستہ دینے سے روکا گیا تو وہ زبردستی نکلے۔ کہیں لاٹھی چارج نہیں کیا گیا، پولیس محتاط ہے اور کوئی خبر بننے نہیں دے رہی۔ کراچی پولیس ایک حد تک خاموش ہے، پالیسی کے تحت پاکستان تحریک انصاف کو جمہوریت کے لیے فری ہینڈ دیا گیا ہے۔ مبصرین نے کراچی میں پی ٹی آئی کے ہونے والے احتجاج کو کامیاب قرار نہیں دیا، کیونکہ یہاں پی ٹی آئی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی، بلکہ حکومت اور بڑی سیاسی جماعت کی تقریباً حمایت بھی حاصل تھی، اس کے باوجود بھی پی ٹی آئی اپنے احتجاج سے یہ ثابت کرنے سے قاصر رہی ہے کہ وہ کراچی میں کامیاب احتجاج کر پائی ہے اور جن علاقوں میں احتجاج کامیاب ہوا بھی ہے، وہ زبردستی کاروبار اور ٹرانسپورٹ بند کروا کر ہوا ہے، حالانکہ اگر احتجاج کرنا جمہوری حق ہے تو اپنی مرضی سے دکانیں کھولنا بھی عوام کا جمہوری حق ہے، جسے کسی صورت بھی چھینا نہیں جاسکتا، لیکن زبردستی کاروبار اور دکانیں بند کروا کے پی ٹی آئی نے کراچی میں عوام سے یہ حق چھینا ہے۔ دوسری جانب بعض حلقوں نے پی ٹی آئی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس قسم کے احتجاجوں اوردھرنوں سے ملک کو سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہیں ہونے والا، دو روز قبل عالمی بینک کی آنے والی رپورٹ سے اس کی وضاحت ہوجاتی ہے، اس رپورٹ کے مطابق ملک میں جاری سیاسی ہلچل سے پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچا ہے اور شرح نمو متاثر ہوئی ہے۔ لہٰذا عمران خان اور حکومت کو چاہیے کہ فوری مذاکرات کریں ، تاکہ ملک میں جاری کشمکش ختم ہو۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700883 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.