بھارت میں مسلمانوں کوزبردستی ہندو بنانے کی مہم

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

بھارت میں ان دنوں ہندو انتہا پسند تنظیموں بی جے پی اور بجرنگ دل کی جانب سے 60مسلم خاندانوں کے 200سو سے زائد افراد کو زبردستی ہندو بنانے کی خبروں پر مسلمانوں میں سخت اشتعال پایا جاتا ہے۔ ہر جگہ ایک ہی موضوع زیر بحث ہے‘ منگل کوجب بھارتی اخبارات نے یہ خبریں اور تصاویر شائع کیں کہ سروں پر ٹوپیاں پہنے بعض مسلمان ہندوؤں کی مذہبی تقریب میں شریک ہیں اورانہوں نے دین اسلام چھوڑ کر ہندو مذہب قبول کر لیا ہے تو ہندوؤں کی جانب سے جشن منایا جاتا رہا جبکہ مسلمانوں میں اس بات پر شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی کہ کوئی مسلمان کبھی ہندو نہیں بن سکتا پھر یہ اچانک کیا ماجرا ہوا ہے کہ دو سو سے زائد افراد نے بیک وقت سچا مذہب اسلام ترک کر دیاہے؟۔بھارتی شہر آگرہ میں اس ساری صورتحال پر کہرام مچا ہوا تھا کہ ’’ہندوؤں کی گھر واپسی‘‘ کے نام پر منعقدہ تقریب میں شرکت کرنے والے مسلمانوں نے جھوٹ کا پول کھول دیا اور بتایاکہ آگرہ کے مدھونگر کی گندی بستی کے دو سو سے زائد مسلمان جو انتہائی غریب ہیں اور خط افلاس سے بھی نیچے زندگی بسر کرر ہے ہیں انہیں ہندوؤں کی جانب سے یہ کہہ کر بلایا گیا تھا کہ انہیں راشن کارڈ اور پلاٹ دیے جائیں گے ‘ وہ صرف ہماری اس تقریب میں شریک ہوں اورگروپ فوٹو بنوائیں تاکہ مسلم ہندو اتحاد کا مظاہرہ کیا جا سکے تاہم جب وہ وہاں پہنچے تو ہندو انتہا پسندوں کی بڑی تعداد نے انہیں گھیر لیا، زبردستی پوجا کروائی گئی اور انکی تصویریں بنوا کر واپس بھیج دیا گیا۔ متاثرہ مسلمانوں کا کہنا تھا کہ انہیں خود اخبارات دیکھ کر پتہ چلا ہے کہ ان کے ساتھ کس طرح دھوکہ کیا گیا ہے۔ ہم حقیقی معنوں میں مسلمان تھے، ہیں اور رہیں گے۔ ہم نے دین اسلام کو ترک نہیں کیا اور نا ہی ایسا کرنے کا کبھی سوچ سکتے ہیں۔ متاثرہ مسلمانوں نے ہندوؤں کے پروپیگنڈا کا توڑ کرنے کیلئے نمازیں اداکیں اور ہر گھر میں قرآن پاک کی بلند آواز میں تلاوت کی گئی تاکہ سب کو اس بات کا علم ہو سکے کہ یہ لوگ مسلمان ہیں ۔

بھارت میں جب سے احمد آباد گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کی شہادت کے ذمہ دار نریندر مودی کی حکومت آئی ہے مسلم کش فسادات میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور ہندو انتہا پسندوں کو کھل کھیلنے کے مواقع مل گئے ہیں۔ وہ کبھی اعلانیہ طور پر بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر، گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگانے، مسلمانوں کو مظفر نگر یاد رکھنے اور حیدرآباد میں تاریخی چار مینار اور آگرہ کے تاج محل کے مندر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو کبھی کہاجاتا ہے کہ انگلینڈ میں رہنے والے انگریز ، جرمنی میں رہنے والے جرمن، امریکہ میں رہنے والے امریکی ہیں تو پھر ہندوستان میں بسنے والے سب لوگ ہندوکیوں نہیں ہو سکتے؟یہاں جس کسی کو رہنا ہے اسے ہندو ہی ہونا چاہیے۔اسی طرح ہندو انتہا پسند تنظیموں کے متشدد اور تربیت یافتہ اہلکار جو شادی کرنے کو گناہ سمجھتے ہیں اور چلتی بسوں، گاڑیوں اور ٹرینوں میں آئے دن لڑکیوں کی اجتماعی عصمت دری کے واقعات میں ملوث ہیں‘ وہ مسلم نوجوانوں سے ہندو خواتین کی عزتیں بچانے کیلئے نام نہاد مہم چلارہے ہیں۔خاص طور پر آر ایس ایس، بجرنگ دل ،وشواہندو پریشد، بی جے پی اور سناتھن سنستھا جیسی ہندو انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے ہندو لڑکیوں کی عزتوں کے مسلمانوں کے ہاتھوں لاحق خطرات کا جھوٹا واویلا مچایا جارہا ہے۔ہندو انتہا پسندوں کا دعویٰ ہے کہ مسلم نوجوان ہندو لڑکیوں کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت محبت کے جال میں پھانستے ہیں ‘ان سے شادی کر کے بچے پیدا کرتے ہیں اور پھر ان بچوں کو ہندوؤں کے خلاف تربیت دی جاتی ہے تاکہ مستقبل میں بھارت کو ایک مسلم ریاست میں تبدیل کیا جاسکے۔سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز پھیلائی جارہی ہیں جن میں ہندوؤں کو یہ کہہ کر اشتعال دلایا گیا ہے کہ مسلمانوں کا مقصد ہندو لڑکیوں سے شادیاں کر کے انہیں جہادکی ٹریننگ دے کر ہندوؤں کے خلاف کرنا ہے۔ اس لئے ان کی غیر ت کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے آس پاس پیدا ہونی والی ایسی کسی بھی صورتحال سے ہوشیار رہیں اور اگر کسی مسلم لڑکے کو کسی ہندو لڑکی سے ملتا ہوا دیکھیں تو فورا پولیس کو آگاہ کر کے بھارت ماتا کے ایک سچے شہری ہونے کا ثبو ت دیں۔ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے ایک طرف مسلمانوں کے خلاف ’’لو جہاد ‘‘ کا مذموم پروپیگنڈا کیاجارہا ہے تو دوسری جانب اصل صورتحال یہ ہے کہ آر ایس ایس جیسی تنظیمیں باقاعدہ طور پر ہندو نوجوانوں کو تربیت دیکر مخلوط تعلیمی اداروں میں بھیجتی ہیں کہ وہ مسلمان لڑکیوں سے دوستی کریں اوران سے شادیوں کی کوشش کریں۔ اس دوران اگر وہ ہندو مذہب قبول کر لیں تو ٹھیک وگرنہ ایسے ہی ان کے ساتھ تعلقات قائم کر کے شادی شدہ زندگی گزاریں۔اس عمل کو پروان چڑھانے کیلئے سرکاری سرپرستی میں منصوبہ بندی کے تحت ایسی فلمیں بنائی گئی ہیں جن میں فرضی کردار وں کے ذریعہ دکھایاجاتا رہا کہ کسی برقعہ پوش لڑکی نے ایک ہندو لڑکے سے شادی کر لی اور پھر گھر سے بھاگ کر نامعلوم مقام پر شادی شدہ بن کر زندگی گزارتی رہی ۔اسی طرح بھارت کے جن علاقوں میں بہت زیادہ غربت ہے وہاں کے سادہ لوح مسلمانوں کو راشن کارڈ اور رہائش وغیرہ کا لالچ دیکر اور ڈرا دھمکا کر ان کا مذہب تبدیل کروانے کی کوششیں کی جاتی ہیں ۔آگرہ میں بھی جو حالیہ واقعہ پیش آیا ہے اس میں بھی مسلمانوں کی غربت سے فائدہ اٹھا کر ان کے ساتھ دھوکہ کیا گیا اور اب کہایہ جارہا ہے کہ مذکورہ مسلمانوں نے اپنی مرضی سے ہندو مذہب قبول کیا ہے لیکن مسلمانوں کے دباؤ پر اب وہ ہندو ہونے سے انکار کر رہے ہیں۔ ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے انتہائی دیدہ دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بھی کہاجارہا ہے کہ ان کا اگلا ٹارگٹ علی گڑھ ہے اورآئندہ کرسمس کے موقع پر وہاں سے پانچ ہزار مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو بنایا جائے گا۔ آگرہ میں ہندو انتہا پسندوں کی غنڈہ گردی پر راجیہ سبھا میں کانگریس اور دیگر تنظیموں نے سخت احتجاج کیا اور اسے سیکولرازم کے منہ پر بدترین طمانچہ قرار دیا ہے۔مسلمانوں کی طرف سے بھی اس واقعہ کے خلاف آگرہ میں احتجاج کرتے ہوئے دھرنا دیاگیا ۔ دارالعلوم دیوبند نے بھی اس واقعہ کی مذمت کی اور آل انڈیا ملی کونسل، کل ہند تنظیم آئمہ مساجد، جمعیت علماء مہاراشٹر و دیگر مسلم تنظیموں کا کہنا ہے کہ اگر فوری طور پر ہندوانتہا پسندوں کے خلاف کاروائی نہ کی گئی تو اس سے پورے ملک میں انتشار پھیلے گا اور حالات کو کنٹرول کرنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔ مسلمانوں کے اس شدید احتجاج پر بھارتی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے آر ایس ایس کی ایک ذیلی تنظیم کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے اور زبردستی تبدیلی مذہب کے ملزمان کے خلاف کاروائی شروع کر دی ہے۔ بہرحال ہم سمجھتے ہیں کہ بھارتی پولیس کے یہ تمامتر دعوے محض مسلمانوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کیلئے ہیں وگرنہ ساری دنیا جاتی ہے کہ اگر کوئی ہندو‘ مسلمان یا عیسائی بن جائے تو پورے ملک میں واویلا مچایا جاتا ہے۔ کوئی ہندو لڑکی اپنی مرضی سے اسلام قبول کرکے کسی مسلم نوجوان سے شادی کر لے تو مسلم کش فسادات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے لیکن یہاں دو سو سے زائد مسلمانوں سے زبردستی طاقت کے بل بوتے پر ہندومذہب قبول کرنے کے اعلانات کروائے جارہے ہیں مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی بلکہ الٹا مسلمانوں کو دھمکاکر ان کی زندگیاں اجیرن بنائی جارہی ہیں۔ بعض بھارتی مسلمانوں نے بہت کوششیں کی ہیں کہ کسی طرح وہ اپنے آپ کو سچا بھارتی ثابت کرسکیں۔ اس کیلئے نصیر الدین، عامر خاں، شاہ رخ، سیف علی خاں اورکرکٹر عرفان پٹھان جیسے کھلاڑیوں اور اداکاروں نے ہندو لڑکیوں سے شادیاں کیں، اپنے گھروں میں مندر بنائے اور اپنے بچوں کے نام ہندوؤں کے ناموں پر رکھے مگر ہندو بنیا پھر بھی انہیں دل سے بھارتی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں اور محض مسلمان ہونے کی بنا پر ممبئی جیسے شہروں میں وہ اپنے لئے ایک فلیٹ تک نہیں خرید سکتے۔ہندو انتہا پسند انہیں بھی’’ لو جہادی’’ قرار دیتے ہیں۔یہ صورتحال بھارتی مسلمانوں کیلئے بہت بڑا سبق ہے کہ وہ ہندوؤں کو خوش کرنے کی بجائے اسلامی شریعت پر کسی طور کمپرومائز نہ کریں اور یہ بات یاد رکھیں کہ وہ جس قدرمرضی اپنی وفاداری کا یقین دلائیں ان کی بات ہندوکبھی بھی تسلیم نہیں کریں گے۔اسی طرح ہندو انتہا پسند بھی یہ بات ذہن میں رکھیں کہ وہ ایسی مذموم اور گھناؤنی حرکتیں کر کے جتنا زیادہ مسلم مخالف جذبات بھڑکارہے ہیں اسی قدر دو قومی نظریہ پروان چڑھے گا، بھارتی مسلمان متحد وبیدار ہوں گے اورپورے بھارت میں اسلام کی پھیلتی ہوئی دعوت کو روکا نہیں جاسکے گا۔
Habib Ullah Salfi
About the Author: Habib Ullah Salfi Read More Articles by Habib Ullah Salfi: 194 Articles with 141288 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.