15اور 16 اپریل کی درمیانی شب
پونے ایک بجے کے قریب بھتیجے مُحسن کے فون سے ایک اَندوہناک خبر ملی ۔اس کی
آواز میں ہمیشہ کی سی خوشی نہ تھی ․کہنے لگا !
چاچو !ذرا حوصلے سے․․․․دل بڑا کر کے ایک خبر سُن لیں ․․․․․چاچو دادی اَمّی․․․․․․
چاچو اسحاق کا فون آیا ہے ․․․․․مُحسن کی دادی․․․․․میری اَمّی ․․․․ہم چار
بھائیوں کی اَمّی․․․․ہمارا سائبان ، تقدیر کے جھکڑ نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے
ہمارے سروں سے اُڑادیا تھا ۔
بے یقینی کی کیفیت میں پہلے اہلیہ رابعہ نے فون کیا ، پھر مَیں نے بھائیوں
کو فون کیا تو غم و اندوہ میں ڈوبی آوازوں نے اَمّی کے دنیا سے اُٹھ جانے
پر مہر لگا دی ۔ہماری زندگیوں میں اُجالا بکھیرنے والی ماں 110 کلو میٹر
دور ابدی نیند سو گئی تھی اور میں رات کے اس پہر بے بسی کی تصویر بنا ، بے
یقینی اور بے چینی کے ملے جلے جذبات میں کچھ دیر تو گُم سم کمرے کے فرش پر
بیٹھا رہا ۔کبھی ہچکی لے کر رو لیتا اور کبھی سسکی لے کر ․․․․․․کچھ دیر اسی
کیفیت میں گزری اور پھر آنسووٗں کا بند تالا کھل گیا اور مَیں نے جی بھر کے
رو لیا ۔ رَات پونے تین بجے کے قریب ہم دونوں لعل پیر پاور پلانٹ محمود کوٹ
مظفر گڑھ سے جہانیاں کے لئے روانہ ہوئے تو عجیب کیفیت تھی ۔اَمّی سے ملنے
تو اس سے پہلے بھی جاتے تھے ․․․․وہ جانا اور تھا ․․․․آج جانا اور تھا
․․․․․․پہلے ملنے جاتے تھے تو اَمّی کا کھلی آنکھوں والا ، روشن اور خوش باش
چہرہ منتظر ہوتا تھا ․․․․آج بند آنکھوں والا خاموش چہرہ دیکھنا تھا ․ سارا
راستہ آنکھوں کا آنسووٗں سے رشتہ نہ ٹوٹا ۔ سسکتا ، بلکتا جہانیاں کی نواحی
بستی ظفر آباد پہنچا تو صبح کا اجالا دستک دے رہا تھا ۔ دروازے پر اسحاق
بھائی ملے ، گلے لگ کر آنسووٗں کے دریا میں اضافہ کرتا اندر گیا تو اَمّی
کی بہوئیں ، پوتے ، پوتیاں ،خالد بھائی ، فاروق بھائی غم زدہ حیران و
پریشان کھڑے تھے ۔اَبّا جی بیمار تھے ،غم کی تصویر بنے لیٹے تھے مگر حوصلے
میں تھے ۔سب کچھ وہی تھا ، وہی گھر ، وہی کمرے ، وہی صحن مگر گھر داخل ہونے
پر مسرت اور فخرو انبساط کی تصویر ، گلے لگا کر کندھا چُوم کر استقبال کرنے
والی اَمّی نہ تھیں ․
وہ تو برآمدے میں لیٹی تھیں !
اپنی ہوش میں پہلی بارمَیں نے اپنی اَمّی کو گھر آنے پر یوں لیٹے دیکھا تھا
ورنہ ان کی ساری زندگی حرکت سے عبارت ہے ․خود انحصاری ،خود اعتمادی اور خود
داری کی اس تصویر کومَیں نے ہمیشہ مصروف دیکھا ․
ہم سب کے لئے بادِ نسیم بننے والی اَمّی پُر سکون لیٹی تھیں ۔یہ محسوس ہی
نہیں ہوتا تھا کہ یہ بند آنکھیں اَب کبھی نہیں کھلیں گی ۔ اَمّی گزشتہ
تقریباً تین ہفتوں سے ملتان تھیں ۔اَبّا جی بیمار تھے تو دونوں چیک اَپ کے
لئے ملتان آگئے۔اَمّی دل کی مریضہ تھیں ،کچھ عرصہ سے کھانسی کی شکایت تھی ۔ملتان
تمام ڈاکٹر ز سے ملوا کر ، ہر طرح سے تسلی کر کے ان کے اصرار پر انہیں
جہانیاں چھوڑ آئے۔دو دن پہلے مَیں اور خالد بھائی مل کر گئے ، جس رات اﷲ کو
پیاری ہوئیں اس رات بھی میری اُن سے فون پر بات ہوئی میری یہ عادت کہ اگر
اُن کے پاس نہیں ہوں تو عشاء کی نماز کے بعد دونوں سے فون پر ضرور بات کرتا
۔ اَبّا جی نے بتایا کہ رات بڑے شوق سے خود کریلے ، گوشت بنایا ، کھانا
کھایا ، عشاء کی نماز پڑھ کے سو گئیں ۔پونے بارہ بجے کے قریب اَچانک اُٹھ
کر کمرے سے باہر گئیں ، خون کی قے آئی ، اُٹھ کر بستر پر آگئیں ایک اور قے
آئی اور پھر اُٹھ نہیں سکیں ․
اَمّی ایک دُعا ہمیشہ کیا کرتی تھیں کہ اﷲ کسی کا محتاج نہ کرنا اور چلتے
پھرتے لے جانا ، اﷲ نے اُن کی دُعا لفظ لفظ پوری کی اور اُنہوں نے زندگی کے
آخری لمحے تک اَپنی زندگی اپنے قدموں پر گزاری ۔ اُنہوں نے کبھی اپنا ذاتی
کام کسی سے کہہ کر نہیں کروایا ․
ہمارا ننھیال /10 R 102 جہانیاں میں ہے جو ہمارے گھر سے تقریباً 2 کلو میٹر
ہے ، آبائی قبرستان بھی وہیں ہے ،اَمّی کی تدفین بھی وہیں ہو نا تھی اس لئے
ان کی میت ہم اپنے ماموں مرحوم کے گھر لے گئے ۔اُن کے بیٹے زاہد مشہدی نے
دل وجاں سے تمام مہمانوں کا خیال رکھا ۔اَمّی مرحومہ نے اسی گھر سے اپنے
ابو ، اَمّی ، بہنوں اور بھائیوں کو آخری سفر پر رخصت کیا تھا ، آج اسی گھر
سے ان کے اپنے سفرِ آخرت کی تیاریاں ہو رہی تھیں ۔
غُسل کے بعد اَمّی کے چہرے کا نور قابلِ رشک تھا ۔اَسی برس کی عُمر میں اُن
کے چہرے پر بہت سی جھریاں تھیں ، جو اَب باقی نہ تھیں ․ مسکراتا ، کھلا
پھول سا چہرہ ، ایسا محسوس ہوتا تھا مسکراتے مسکراتے سو گئی ہیں اور ابھی
مسکراتے ہوئے اُٹھ جائیں گی ․ مَیں تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد باہر سے اندر
آتا ، اَمّی کا چہرہ دیکھتا ، آنسو بہا لیتا اور پھر واپس چلا جاتا ․ فرطِ
عقیدت سے دو تین بار مَیں نے اَمّی کی پیشانی پر بوسہ دیا ۔ معلوم نہیں یہ
درست تھا یا غلط مگر بے اختیار ایسا ہو گیا ۔میرے اندر کا سکون یہ بتاتا ہے
کہ میں نے ٹھیک کیا ۔ اَمّی کے نرم و گداز چہرے کا لمس میرے ہاتھوں پر ،
اور پیشانی پر دیے گئے بوسے کی ٹھنڈک میرے لبوں پر گلاب کی ترو تازہ پتیوں
کی طرح ثبت ہیں ۔وہ کیفیت میں صرف محسوس کر سکتا ہوں ، لفظوں میں بیان نہیں
کر سکتا ․ اَمّی کے گلاب چہرے کی تدفین کا وقت آیا تو یہ سعادت مجھے اور
اُن کے پوتے مُحسن کو ملی․ جب کبھی ڈاکٹر کو ملنا ہوتا اَمّی کا اطمینان
میرے اور محسن سے ہی ہوتا ، اﷲ نے اُس دن بھی اُن کے اطمینان کا سامان پیدا
کر دیا ورنہ میں تو نمازِ جنازہ میں شرکت کرنے والوں کی بھیڑ میں تھا ․
میرے دوست کامران جعفری نے مجھے اُس بھیڑ سے نکالا اور بنائی گئی قبر پر لا
کھڑا کیا ․ وہ گلاب ہستی جسے زندگی میں کانٹا بھی لگ جائے تو انسان اسے اس
تکلیف سے نکالنے کے لئے اپنا جسم و جاں قربان کر دے ، آج اسی خوشبو کو اپنے
ہاتھوں منوں مٹی تلے دفن کرنے جا رہے تھے ۔ میں زندگی میں پہلی بار قبر میں
اُترا بھی تو اَمّی کے لئے ! انسان اﷲ کے حُکم کے سامنے بے بس ہے ورنہ کوئی
کبھی اپنی ماں کو یوں منوں مٹی تلے دفن کر کے شہرِ خموشاں میں اکیلا چھوڑ
کر نہ آئے مگر یہ اﷲ کا فیصلہ ہے کہ جو دنیا میں آیا اُس نے ایک دن چلے
جاناہے․ قبر میں لٹانے کے بعد میرے کزن آصف مشہدی نے اَمّی کے چہرے سے آخری
بار کفن ہٹایا، میں نے ان کا آخری دیدار کیا ، وہی گلاب چہرہ تھا ، مسکراہٹ
تھی اور سکون تھا ․․․․․ اور پھر اَمّی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہماری نظروں سے
اوجھل ہو گئیں ۔مگر وہ ہمارے دلوں میں صبحِ پر نور کی طرح زندہ ہیں ․
تدفین کے بعد اگلے دن ہم سب ظفر آباد گھر واپس آئے تو اُداسیوں اور وحشتوں
کے ڈیرے تھے ․ اَمّی نے اس گھر میں 62 برس گزارے۔گویا کہ اَبّا جی کے ساتھ
ان کا وقت نصف صدی سے زائد گزرا ۔ اُن کے چلے جانے کے بعد اَبّا جی کا غم
فطرتی اَمر ہَے ۔ وہ غم سے نڈھال ہیں اُن دونوں کی زندگی کے آخری کچھ ماہ و
سال یوں اکٹھے گزرے تھے کہ نہ صرف اُس گھر بلکہ جہاں بھی گئے اکٹھے گئے،
یہاں تک کہ 2011 میں مَیں اور اہلیہ رابعہ حجِ بیت اﷲ کے لئے گئے میں نے
اَمّی کو بہت اصرار کیا کہ وہ ساتھ چلیں ، اَبّا جی نے تو حج کیا ہوا ہے
مگر وہ اکیلے جانے پر تیار نہ ہوئیں ، اَبّا جی خرابی ٗ صحت کی وجہ سے سفرِ
حج کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے ․اَمّی نے اَبّا جی کی دل و جاں سے خدمت کی ․
اگرچہ دونوں کی طبیعتوں میں بڑا فرق رہا ، کئی معاملات میں بارہا دونوں میں
اختلاف بھی ہوا ، اَبّا جی فیصلہ کرنے میں وقت لیتے جبکہ اَمّی فوری فیصلہ
کرنے اور سننے کی عادی تھیں ․ان چھوٹے موٹے اختلافات کے با وجود شوہر کے
ساتھ صبر و وفا کی تصویر مَیں نے اپنی اَمّی کے علاوہ کسی اور میں نہیں
دیکھی ․ اَمّی باقاعدہ سکول پڑھی ہوئی نہیں تھیں مگر اَبّا جی چونکہ سکول
ٹیچر تھے ، اُن کے ساتھ نے انہیں ایک باذوق گھریلو خاتون اور ایک بہترین
معلمہ بنا دیا تھا ۔اقبال کے بہت سارے اشعار انہیں یاد تھے ․ علاقے کی بہت
ساری بچیوں نے ان سے قرآنِ پاک پڑھا ۔ عیدین کی نماز بھی پڑھایا کرتیں اور
سب سے بڑھ کر ہم بھائیوں خالد جاوید مشہدی ، ڈاکٹر احمد فاروق مشہدی ،
اسحاق مشہدی ، اور مجھ نا چیز کی تعلیم و تربیت میں ان کا کردار بے حد
نمایاں رہا ۔مزاجاً وہ سخت تھیں مگر جوں جوں ہم سکول کی تعلیم مکمل کر کے
کالجز میں چلے گئے وہ مجسئمہ شفقت و ہمدردی بنتی گئیں ․ مجھے یاد ہے ایک
بار میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا موسم گرما کی تعطیلات کا کام نہیں کیا
تھا ، تعطیلات ختم ہونے پر پہلے دن اَبّا جی اور اسحاق بھائی کے سکول چلے
جانے کے بعد میں بگڑ گیا کہ سکول نہیں جانا ․ اَمّی نے پردہ کرنے والی چادر
اُٹھائی ، میرا بستہ اُٹھوایا ، میں آگے اور وہ میرے پیچھے تھیں ، میں روتا
کُرلاتا رہا ، سب سے چھوٹا تھااور اَمّی کا لاڈلا بھی مگر اَمّی نے سکول
جانے پر کوئی کمپرو مائز نہیں کیا ․ اُس کے بعد میں نے سکول سے کبھی بغیر
وجہ کے چُھٹی نہیں کی ․ اُن کی شفقت و محبت ہماری تعلیم میں کبھی رُکاوٹ
نہیں بنی ، میٹرک کے بعد کالجز میں داخلوں کے بعد اُنہوں نے دعاووٗں اور
دواوٗں کے ساتھ ہمیں اپنی زندگی کا حصّہ بنائے رکھا ․ فاروق بھائی سکالر شپ
پر پی ایچ ڈی کے لئے انگلینڈ گئے تو اَمّی کی ایک سہیلی ماسی منیرہ نے
پوچھا کہ بیٹا یاد نہیں آتا تھا ؟کہنے لگیں ! بہت آتا تھا بس جہاں میں سوتی
تھی اُس کمرے میں کھونٹی پر فاروق کی ایک قمیص چار سال لٹکائے رکھی ، اسی
میں فاروق کو دیکھ لیتی تھی ، تصویر سامنے نہیں رکھی کہ لوگ میرا مذاق نہ
اُڑائیں ․
سوگ کے تین دن پورے ہونے پر جب ہم گھر سے آنے لگے تو دعاوٗں کے ساتھ رخصت
کرنے والی اَمّی نہ تھیں ․ آخری رات اور آخری دن مَیں ان جگہوں کو حسرت سے
دیکھتا رہا جہاں اَمّی نے ایک ایک لمحہ گزارا تھا ․ اَمّی کے کمرے میں اُن
کے جوتے پڑے تھے ، عقیدت کے جذبے سے مغلوب مَیں نے بے اختیار اٹھا کر ان
جوتوں کو چوم لیا ۔ آج رخصت ہو رہے تھے تو ہر ایک کے لئے الگ الگ گُڑ ، شکر
، اچار اور ساگ کی پوٹلیاں بنا کر دینے والا کوئی نہ تھا ۔ اب عیدیں تو بہت
سی آئیں گی مگر صبح سویرے ہر ایک کی پسند کی سویاں پکا کر انتظار کرنے والا
کوئی نہیں ہو گا ۔ خشخاص والی میٹھی روٹیاں پکا کر ،مکھن لگا کے ،آم کے
اچار کے ساتھ کھلانے والی اَمّی تو ہمیشہ کے لئے چلی گئیں ، اَب ہمارے اس
طرح کے نخرے اور فرمائشیں کون پوری کرے گا ؟ اُس گھر میں قدم قدم پر اَمّی
کی یادوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے․ ہماری اَمّی انسان تھیں مجھے یقین
ہے کہ اﷲ تعالیٰ اُن کی بشری خطاووٗں سے اُن کی کشادہ دلی ، نماز کی پابندی
، صلہ رحمی ،صدقہ و خیرات اور سب سے بڑھ کر اَبّا جی خدمت کی وجہ سے در گزر
کرتے ہوئے اُنہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے گا ․
مَاں ہزار سال زندہ رہ کر بھی دنیا سے تو جائے تو غم وہی رہتا ہے ۔ ہر لمحے
ایسا گمان ہوتا ہے کہ ماں گئی نہیں ہے ، یہیں کہیں ہے ، ابھی آتی ہی ہوگی ۔
ہم سب نے اپنی اَمّی سے بہت دعائیں لی ہیں ،یہ دعائیں زندگی بھر شجرِ سایہ
دار بن کر ہر کڑی آزمائش سے انشا ء اﷲ سُر خرو کریں گی․ دل کے نہال خانے
میں ایک سکون ہے کہ میری ماں نے ایک بار کہا تھا کہ مجھے اپنے چاروں بیٹوں
پر فخر ہے ، مجھے اُن سے کوئی گلہ نہیں ، میں سر تا پاؤں اُن سے ، اُن کی
بیویوں سے اور اُن کے بچوں سے خوش ہوں ․ میری ماں کے یہ الفاظ اس دنیا اور
اگلی دنیا میں ہمارے لئے قیمتی سرمایہ ہیں ․ ماں کی دُعا تو کبھی رد نہیں
ہوتی،ماں کی دُعا سے تو زم زم کا چشمہ پھوٹ پڑا تھا ، اس لئے․
ماؤں والو !ماؤں کے پیروں کی خاک کے ذرے بن کر انہیں راضی کر لو ، مائیں
ٹھنڈا سائباں ہیں ، شجر سایہ دار ہیں ، جتنی تھپکیاں ، جتنا سایہ لے سکتے
ہو لے لو ، ان کے چلے جانے کے بعد کڑکتی دھوپ ہے اور بس ․․․․․وحشتوں کے
ڈیرے ہیں ․․․․․اُداسی ہے․․․․․․․․اُداسی ہے․․․․․․․․․اور بس․․․․․․․۔ |