موجودہ مسلمانوں میں ایمانی پختگی کی کمی یامادیت پرستی کا زور؟
(Ata Ur Rehman Noori, India)
آگرہ میں ہوئے واقعۂ ارتدادکے
اسباب وعلل اور حل
مذہب کا انسانی زندگی سے بڑاگہراتعلق ہے۔اسے انسانی زندگی میں بنیادی اور
مرکزی حیثیت حاصل ہے۔آثارقدیمہ،علم الانسان اور جغرافیائی تحقیقات نے یہ
واضح کردیا کہ اب تک انسانوں کی کوئی مستقل جماعتی ،قومی یاتہذیبی زندگی
ایسی نہیں رہی ہے جو مذہب کی کسی نہ کسی شکل سے یکسر خالی رہی ہو۔یہی وجہ
ہے کہ اس کا اظہار مختلف عقیدوں،مخصوص اعمال، رسومات، فنون لطیفہ کے
مظاہر،مخصوص قوانین،اخلاقی ضابطوں،مخصوص رویوں،حرکات وسکنات اور بے شمار
دیگر صورتوں میں ہوتاہے۔انسانی زندگی میں مذہبی احساس کے اظہار کی لاتعداد
اور متنوع شکلیں ہیں کہ اس کی کوئی مخصوص تشریح بہت مشکل معلوم ہوتی
ہے۔ڈنمارک کے ایک اسکالر ہوفڈنگ کے خیال میں مذہب تمام روایتوں میں اپنی
انتہائی بنیادی صورت میں اعلیٰ قدروں کی بقا پر یقین کا نام ہے۔(مولاناآزاد
یونی ورسٹی ،بی اے سال اول،اسلامیات،پہلا پرچہ،ص:۱۲)غرضیکہ زندگی کی تمام
تر وسعت اور ہمہ گیری میں ہمیں مذہب کا ہی جلوہ دیکھنے کو ملتاہے۔ہم جیسے
جیسے انسانی زندگی کا مطالعہ کریں گے ہمیں مذہب کی حقیقت کے نئے نئے عکس
نظر آئیں گے۔
تمہیدی کلمات سے انسانی زندگی میں مذہب کی اہمیت وضرورت سے آگاہی
ہوئی۔تاریخی کتابوں کے ورق گردانی سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مختلف مذاہب
کے پیروکاروں نے اپنے مذہب کی تبلیغ وتشہیر کے لیے جداجداطریقے اور حربے
استعمال کئے ہیں۔مگر اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے کبھی بھی بزورشمشیر اور
طاقت کے بل بوتے پر اپنی تعلیمات کی تبلیغ نہیں کی ۔ بلکہ اکناف عالم میں
اسلامی پرچم انسانیت کی اعلیٰ قدروں اور اخلاقی بنیادوں کے سبب بلند ہواہے
۔ہندوستان میں بھی اسلام کی اشاعت محض مجاہدین کے ذریعے نہیں بلکہ صحابۂ
کرام ،تابعین عظام اور صوفیاکے اخلاق ،کردار، روحانیت اور ان کی بے لوث
خدمات کے ذریعے ہواہے۔ صدیوں تک مسلمانوں نے اس سرزمین پر حکومت کی مگر ایک
مثال ایسی نہیں ملتی کہ ہمارے بادشاہوں،حکمرانوں اور علما نے بالجبر اسلام
میں کسی کو داخل کیاہو۔
ہندوستان کے باشندوں نے اسلام کی صداقت وحقانیت کو دیکھتے ہوئے اﷲ کا
پسندیدہ مذہب قبول کیاہے۔مگر افسوس!چند شرپسند عناصر اپنی شریر طبع کے سبب
ہر دور میں مسلمانوں کو اپنے مذہب سے بیگانہ کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے
ہیں۔اترپردیش،ہریانہ ،راجستھان اوردہلی کے کئی علاقوں میں ’’دھرم
پریورتن‘‘کے نام پر ہندوستان کی پُرامن فضاکو خراب کرنے کی کوشش کی گئی
ہے۔کچھ دن قبل آگرہ کا یہ واقعہ سامنے آیاکہ سینکڑوں مسلمانوں کو دھوکے سے
ہندومت میں شامل کرلیاگیا۔ارتداد کے اس واقعہ کا حقیقی تجزیہ کیاجائے تو
بہت سے ایسے عوامل سامنے آتے ہیں جن کے سبب یہ دلخراش حادثہ رونما ہوااور
ان عوامل کے حل کے لیے سرجوڑ کر بیٹھنا ضروری ہے۔(۱)موجودہ دور میں مسلمان
طبقاتیت کا شکار ہورہے ہیں ۔ امیر و غریب کے درمیان دوریاں بڑھ رہی
ہیں۔مالدار طبقہ زکوٰۃ ،صدقات اور خیرات سے جی چُرا رہاہے جس کے سبب غریب
طبقہ غیروں کے دَر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔(۲)غریب طبقہ بنیادی
ضرورتوں سے بھی محروم ہے۔ان کا حال بھی تاریک ہے اور مستقبل بھی۔تاریخ گواہ
ہے کہ بھوک سے بلبلاتے ہوئے بچوں کے آنسواورسسکیاں ماں باپ کو ارتدادکا
راستہ بتاتے ہیں۔ (۳) کہیں مساجد کی کمی ہے جبکہ مساجد معاشرے میں قلعوں کا
کام انجام دیتی ہیں۔مساجد کے ذریعے مسلمانوں کے عقائد واعمال کی اصلاح اور
اخلاق وکردار کی تربیت کا فریضہ بخوبی ادا کیا جاتاہے۔مگر مساجد ومدارس کی
کمی کے باعث دین سے دوری اوراسلامی تعلیمات سے ناآشنائی جیسے مسائل کا
سامناہوتاہے۔(۴)یہ لوگ ووٹرکارڈ او رآدھار کارڈ جیسی معمولی مگراہم چیزوں
سے بھی محروم تھے۔ان کاغذات سے محرومی کے سبب غیر ملکی قرار دیئے جانے کا
خوف ہمیشہ دامن گیر رہتاتھا۔غیر مسلم جماعتوں نے انہی اشیاء کا سہارا لے کر
انہیں مرتد بنانے کی کوشش کی ۔یہ بات ملکی اور عالمی مسلم تنظیموں کے لیے
لمحۂ فکریہ ہے۔مسلم تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ دعوت وتبلیغ کے ساتھ اس شعبے
میں بھی رہ نمائی کا فریضہ انجام دیں۔
آخر میں ایک حتمی بات ہمیں اپنے آپ سے کرنی ہے۔غیر مسلموں کی سازشیں اپنی
جگہ۔مگر کیاآج کے مسلمان ایمانی اعتبار سے اتنے کمزورہوگئے ہیں کہ چندسکّوں
کی چمک دمک ایمان کو متزلزل کردے؟چند کاغذات کی غیر موجودگی توحید کی
بنیادوں کو ہلاکر رکھ دے؟یا کسی کا ڈر وخوف ارتداد کی راہ کا مسافر
بنادے؟ہمارا ماضی تو ہم سے یہ کہتا ہے کہ جب بات ایمان کی آئی تو ہمارے
اسلاف نے اپناگھر بار،مال ومتاع حتیٰ کہ اپنا وطن بھی چھوڑ دیاصرف ایمان کی
حفاظت کے لیے۔انہیں کھَولتے ہوئے تیل میں ڈال دیاگیا،سولی پر لٹکادیاگیا،ان
کی آنکھوں کے سامنے ننھّے ننھّے بچوں کے جسموں پر گھوڑے دوڑادیئے گئے،سروں
کونیزوں پر چڑھادیاگیا،مگر دامنِ مصطفیٰ سے غداری کرناان کے ضمیر نے گوارا
نہیں کیا اور انہوں نے اپنی جان راہِ خدامیں نثار کردی ۔آج ضرورت اس بات کی
ہے کہ مادیت کے دَلدَل سے نکل کر دل ودماغ میں اسلام کی سچی محبت بٹھائی
جائے،صحابہ واسلاف کی قربانیاں بتائی جائیں،دین کی اشاعت میں رسول اکرمﷺکے
عطا کردہ درس کا ذکر کیاجائے تاکہ اسلام کے متعلق ایسی محبت پیداہو جس کے
سامنے بڑی سے بڑی سازشیں اور طاقتیں زیروزبر ہوجائیں۔ |
|