سب حقوق ہمارے ہی لیے ہیں

رسول کریم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے ایام علالت میں صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمہعین ، اہلبیت اطہاراور ازواج مطہرات سرکار دوجہاں صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے پاس حاضر تھے کہ رحمت دوجہاں صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے فرمایا اے میرے صحابیو!بیماری کی شدت مجھ پر بہت ہے آپ لوگ بلال سے کہو کہ وہ سارے مدینہ میں اعلان کردیں کہ صرف دو روز رسول اکرم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے باقی ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیں کہ جس شخص کا دعوی مجھ پر کسی قسم کا ہو تووہ آکر مجھ سے وصول کرلے اور اپنا حق قیامت کے دن تک موقوف نہ رکھے ۔الغرض ایک مرد عکاشہ نامی نے تازیانے کا دعوی کیا اور کہا یا رسول اﷲ جنگ احد میں آپ کے ہاتھ سے میری پیٹھ پر کوڑا لگا تھا ۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کا بدلہ مجھے مل جائے۔چنانچہ یہ سن کر رسول د وعالم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے یہ سن کر اپنے گھر سے وہ کوڑا جو کہ سات سیر وزن کا تھا منگوایا صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین ، اہلبیت اطہرات ازواج مطہرات کو عکاشہ کے بدلہ لینے کا معلوم ہوا توہر ایک اس سے کہہ رہا تھا کہ اے عکاشہ رسسول کریم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے بدلے ہمارے بدن پر دس دس بیس بیس چالیس چالیس کوڑے مار لے اور چونکہ رحمت دو عالم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم اس وقت شدید بیماری میں مبتلا ہیں اس سے درگزرکر۔لیکن وہ کسی طورپر راضی نہ ہوا۔ اس پر رسول اکرم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے عکاشہ کو فرمایا کوڑا ہاتھ میں لے اور جتنا چاہے مار۔عکاشہ نے وہ کوڑا ہاتھ میں لیا اور عرض کی یارسول اﷲ میں نے ننگی پیٹھ پر کوڑا کھایاتھا اورآپ نے لباس مبارک زیب تن فرمارکھا ہے۔اﷲ پاک کے محبوب صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے اپنا پیراہن اتاردیا۔وہاں موجود حاضرین زاروقطار روتے تھے اور کہتے تھے اے عکاشہ تو نے ہم میں سے کسی کی بات نہیں مانی۔عکاشہ پشت مبارک کے قریب آکر کھڑا ہوگیا ۔ پھر اس نے مہر نبوت کی اپنے آنکھوں سے زیارت کی اسی وقت اس نے مہر نبوت کو بوسہ دیا ۔ پھر کوڑا ہاتھ سے پھینک کر محبوب خد اصلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے قدم مبارک پر گرپڑا اور عرض کرنے لگا یارسول اﷲ مجھ کمینے میں کیا طاقت ہے کہ آپ صلی اﷲ علیک والک وسلم کے غلاموں کی پشت تک بھی کوڑا لے جاسکوں۔میری پیٹھ پر جس روز تازیانہ لگا تھا میں نے اسی روز بخش دیا تھا اب تو غرض میری یہی تھی کہ میں حیلہ سازی سے میہر نبوت کی زیارت کروں اور پھر دوزخ کی آگ سے بے فکر ہوجاؤں۔رحمت دوجہاں صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے فرمایا اے عکاشہ زہے نصیب تیرے کہ دوزخ کی آگ تجھ پر حرام ہوگئی۔

اس واقعہ سے حضرت عکاشہ رضی اﷲ عنہ کے عشق رسول کا پتہ چلتا ہے۔ وہ اپان بدلہ نہیں لینا چاہتے تھے ۔ وہ صرف اور صرف قیامت کے دن اپنی نجات چاہتے تھے۔اس کا ایمان تاھ کہ جس کے جسم کے ساتھ رسول کریم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کا جسم مبارک لگ جائے تو تو اس کو جہنم کی آگ نہ چھوئے گی۔اس سے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجعمین کے عشق کا بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ کسی صورت یہ برداشت نہ کرسکتے تھے کہ اﷲ کے حبیب صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کو معمولی سی بھی تکلیف پہنچے ۔ وہ عکاشہ کو پیشکش کررہے تھے کہ ہماری پشتوں پر ایک کوڑے کی جگہ چالیس کوڑے مارلے۔ یہ باتیں آپ علماء کرام، مقررین حضرات سے سنتے رہتے ہیں۔ اخبارات اور دینی کتابوں میں پڑھتے رہتے ہیں۔جب ہم اس واقعہ میں حضرت عکاشہ رضی اﷲ عنہ کے طرز عمل کو دیکھتے ہیں تو اس وقت سرور دوجہاں صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے حسن عمل کو دیکھنا بھی ضروری ہے۔نبی پاک صاحب لولاک صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے حسن عمل اور عکاشہ رضی اﷲ عنہ کے طرز عمل میں بہت فرق ہے۔رسول کریم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے مدینہ منورہ کی گلیوں میں اعلان کرایا کہ آپ صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی ظاہری زندگی کے دو یوم باقی ہیں ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انبیاء کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین اپنے آخری وقت سے آگاہ ہوتے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ اعلان بھی کرایا کہ جس نے اپنا حق لینا ہے لے لے ۔ قیامت کے دن تک موقوف نہ رکھے۔اس سے امت کو جو درس ملتا ہے۔ اس پر کسی نے غور نہیں کیا۔ اور اگر کسی نے غور کیا بھی ہوگا تواس کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی بہت کم ہوگی۔ہم نے کسی کتاب کسی اخبار میں نہیں پرھا کہ کسی مفکر، مبلغ، مفتی اور عالم دین سے نہیں سنا کہ اس سے امتے کو کیا درس ملتا ہے۔نبی کریم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی زندگی کا ہر قول وفعل امت کی تعلیم وتربیت کے لیے ہی ہے۔ہم اتباع رسول، اطاعت رسول، حب رسول، عشق رسول اور اسوہء حسنہ کی بات تو کرتے ہیں ۔ اس حسن عمل پر کبھی غور نہیں کیا۔جب رحمت دوجہان صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے اپنی رضائی والدہ کا دودھ نوش فرمایا۔ جس وقت بھی دودھ نوش فرماتے تو ایک طرف سے نوش فرماتے تھے دوسری سائیڈ اپنے رضائی بھائی کے لیے چھوڑ دیتے تھے۔ نبی پاک صلی اﷲ علیہ والہ وسلم تو دوسروں کے حقوق کا تحفظ کرنے اور حقوق کی ادائیگی کی تعلیم دیتے رہے۔جو بدبخت بسد سلوکی سے پیش آتا اس کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آتے۔شعب ابی طالب میں جتنا عرصہ محاصر ے میں رہے ۔ کسی کے لیے بددعا نہیں کی۔ طائف کے سفر میں وہاں کے غنڈوں نے رحمت دوجہاں صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے ساتھ جو سلوک کیا۔ وہ مسلمانوں کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ میرے ہاتھ اور قلم میں ہمت نہیں کہ اس ظلم کی روداد لکھ سکوں۔ اس پر بھی بددعا نہیں کی۔ اس لیے کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا کہ رسول دوعالم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے کسی پر ظلم کیا ہو، کسی سے ناانصافی کی ہو، کسی کا حق غصب کیا ہو،کسی کو تنگ کیا ہو، کسی سے دھوکہ فراڈ کیا ہو۔ رحمت دوجہاں صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی شان تو یہ ہے کہ جو بڑھیا روزانہ اپنی چھت سے کوڑا کرکٹ جسم اطہر پر ڈالتی تھی وہ بیمار ہوئی تو اس کے گھر تشریف لے گئے اس کی عیادت کی۔ اسے دوائی کھلائی۔قرآن پاک رسول کریم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے خلق عظیم کی گواہی دے رہاہے۔ کہ
’’بیشک آپ ( صلی اﷲ علیہ والہ وسلم) خلق عظیم کے مالک ہیں ‘‘

جو بڑھیا ڈرکی وجہ سے شہر چھوڑ کر جارہی تھی ۔ اس کے سامان کی گھٹڑی اٹھا کر اسے ندی پار کرادی۔پھر بھی مدینہ منورہ کی گلیوں میں اعلان کرایا کہ جس نے اپنا حق لینا ہے آکر لے لے۔ جس کسی پر ظلم نہیں کیا، کسی سے ناانصافی نہیں کی، کسی سےء دھوکہ فراڈ نہیں کیا، کسی کا حق غصب نہیں کیا تو اس اعلان کی کیا ضرورت تھی، یہ اعلان کیوں کرایا یہ عمل بھی امت کی تعلیم کے لیے ہی ہے۔مبارک زندگی میں امت کو یہ درس دیا کہ کسی پر ظلم نہ کرو،سب کے حقوق ادا کرو، کسی سے دھوکہ نہ کرو، کسی سے نانصافی نہ کرو، کسی کو تنگ نہ کرو۔مبارک زندگی کے آخری ایام میں یہ اعلان کراکے یہ سبق دیا کہ اگر زندگی میں ایسی بات ہوجائے یا تمہیں یاد نہ بھی ہو کہ تم نے کسی کا قرض دینا ہے یا کسی کا دل دکھایا ہے اپنی جان مالک حقیقی کو سپرد کرنے سے پہلے قرض ادا کردو، دوسروں کے حقوق دے کرجاؤ چاہے تم کو اعلان ہی کیوں نہ کرانا پڑے۔ اگر ایسی بات ہو گئی ہو جس کا بدلہ نہیں دیا جاسکتا تو معاف کرالو۔چاہے تمہیں شہر، بستی اور گاؤں میں اعلان ہی کیوں نہ کرانا پڑے۔ اس سے یہ درس بھی ملتا ہے کہ حقوق اﷲ کے ساتھ حقوق العبادکی ادائیگی بھی بہت ضروری ہے۔ بلکہ اور ضروری ہے۔اس سے پہلے کہ ہمیں موت آجائے حقوق اﷲ اور حقوق العباد اداکردیں یہ تعلیم بھی حاصل ہوتی ہے۔آیئے ہم اپنی زندگیوں کا جائزہ لیں کہ ہم شعوری اور لاشعوری طور پر کتنے انسانوں کے حقوق پرس ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ روزانہ کتنوں پر ظلم کرتے ہیں ۔ روزانہ کتنی ناانصافیاں کرتے ہیں ۔ کتنے انسانوں، جانوروں اور پرندوں کو تنگ کرتے ہیں بچیوں کی شادیاں اس لیے نہیں کرتے کہ جائیدادمیں سے حصہ دینا پڑے گا۔ٹرانسپورٹ پر سفر کرتے ہیں ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں سیٹ مل جائے چاہے کسی اور کو ملے نہ ملے۔کسی ایسی جگہ اور ایسے کام کے لیے جائیں جہاں ہمیں قطار میں کھڑاہونا پڑے چاہے ہم سے پہلے ایک سو افرادبھی کیوں نہ کھڑے ہوں ہم چاہتے ہیں اور اپنی طرف سے پوری کوشش کرتے ہیں کہ ہمارا کام سب سے پہلے ہوجائے۔ صرف ہمیں ہی جلدی اور ضروری کام ہوتا ہے۔ صرف ہمارے پاس ہی وقت نہیں ہوتا۔ جو ہم سے پہلے آئے ہوئے ہوتے ہیں گویا ان کے پاس وقت ہی وقت ہوتاہے۔سڑک پر گاڑی چلاتے ہیں تو سڑک کے عین درمیان میں جیسے گورنمنٹ نے سڑک صرف ہمارے لیے ہی بنائی ہو۔جس آسامی کے لیے انٹرویو دینے جاتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں کہ ہمیں ہی اس آسامی پر تعینات کردیاجائے کیونکہ صرف ہم ہی بیروزگار ہوتے ہیں اورکوئی بیروزگارنہیں ہوتا چاہے ہمارے پاس پچاس ایکڑ زمین ، لاکھوں روپے کا کاروبار اورذاتی ٹرانسپورٹ ہی کیوں نہ ہو۔ہم اپنے مطالبات منوانے کے لیے روڈ بلاک کردیتے ہیں۔ٹائر جلا کر فضا آلودہ کردیتے ہیں ۔ اس وقت ہمیں کسی کا احساس نہیں ہوتا۔چاہے کوئی کتنے ہی ضروری کام کے لیے جا رہا ہو۔وہ ہمارے احتجاج ختم ہونے کا انتظار کرے یا طویل چکرکا ٹ کر متبادل راستہ اختیار کرے۔ہمیں ہروقت اپنا ہی خیال ہوتا ہے۔ہماری آمدنی میں اضافہ ہوجائے۔ ہماری آمدنی میں کمی نہ آئے۔ہم کوئی چیز خریدنے جائیں تو کوشش کرتے ہیں کہ ہمیں سستی اور رعایت سے اچھی اور معیاری چیز مل جائے ۔ اور ہم سے کوئی چیز خریدنے آئے تو ہم ایک ہزار میں سے ایک روپیہ بھی رعائت نہیں کرتے۔چاہے کسی کی مشکل آسان ہو نہ ہو ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ ڈاکٹروں کو فی مریض ہزاروں روپے فیس مل جائے ورنہ مریض جان سے۷ چلا جائے تو چلا جائے ان کا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔جس کو حکومت مل جائے سارے اختیار اسی کے لیے ہوتے ہیں کسی کو کچھ نہ کہا جائے چاہے وہ جو کرتا رہے سو کرتا رہے۔سیاسی قیادت چاہتی ہے کہ اس کی اولادہی سیاسی جماعتوں کی قیادت کرے بلکہ قیادت ملتی ہی ان کی اولادوں کوہے۔چاہے ورکرز نے کتنی ہی قربانیاں دی ہوں۔اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔تفصیل میں جائیں تو آپ پڑھتے پڑھتے تھک جائیں گے۔ ہمارے اس طرز عمل کا خلاصہ ایک جملہ میں یہ ہے کہ دنیا کے تمام حقوق ہمارے لیے ہی ہیں۔کسی اورکا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ہم اپنے حقوق وصول کرنے کے لیے جو کرسکتے ہیں کرگزرتے ہیں۔فرائض کی ادائیگی ہمارانہیں کسی اور کا ہوتا ہے۔ہم اپنا حق تو مانگتے ہیں دوسروں کے حقوق ادا نہیں کرتے۔رحمت دوجہاں صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے حقوق ادا کرنے کا درس دیا ہے۔آج کے جو خیر خواہ حقوق کا پرچارکرتے ہیں وہ ﷺخد اس کا کتنا خیال کرتے ہیں اور خود کتنوں کے حقوق ادا کرتے ہیں ۔ یہ واقفان حال بخوبی جانتے ہیں۔دین اسلام نے سب کے حقوق متعین کردیے ہیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے فرمان عالی شان پر عمل کریں تو پھر سب جہانوں میں خیر ہی خیر ہے۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 350888 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.