بڑھتے ہوئے کرپشن کے ناسور کی
مضبوط سے مضبوط تر ہوئی جڑوں سے پردہ اٹھانے کا گزشتہ کالم میں کیا گیا
وعدہ وفا کرنے سے پہلے اپنے اُن تمام تر قارئین کرام سے معذرت چاہوں گا جن
کی ای میلز اور فون میسجز کے گزشتہ تقریباً ڈیڑھ ماہ سے بذیعہ کالم جوابات
نہیں دے سکا ،اور اُن تمام تر قارئین کا تہہ دِل سے مشکور ہوں جو بے لوث
خیر خبر لینے کے علاوہ صحافتی دُنیا و کچھ قابلِ احترام دوستوں سے سخت
مایوسی کے عالم میں کبھی بذریعہ ایس ایم ایس تو کبھی بذریعہ فون حوصلہ
افزائی کرتے رہے، اب آتے ہیں کرپشن کے ناسور کی مضبوط سے مضبوط تر ہوئی
جڑوں سے پردہ اُٹھا نے کے وعدے کی طرف جس کا گزشتہ کالم میں وعدہ کیا گیا
تھا،گزشتہ کالم میں بات ہو رہی تھی خادمِ اعلیٰ پنجاب کی جانب سے عوامی
فلاح وبہبود کیلئے دِ ن رات ایک کردینے کی ،اور ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا
کہ اُن کے تمام تر کارناموں پر پانی پھیرنے کیلئے جب کرپشن کی بات کی جاتی
ہے تو جواب تلاش کرنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ کرپشن سے پاک محکمے دکھائی
دینے بند ہوتے چلے جارہے ہیں جس کی وجہ احتساب کرنے والوں کااپنا وجود خود
اب کرپشن میں ڈوبتا چلا جا رہا ہے اور وہ سب جانتے ہوئے بھی احتساب و قومی
مفادات کی بجائے ذاتی مفادات کو افضل قراردے کر کرپشن کے ناسور کی جڑیں اس
قدر مضبوط کرتے چلے جارہے ہیں کہ اگر خاتمہ کرنا پڑ جائے تو سو سال میں بھی
نہ ہوسکے گا، جیسا کہ کچھ عرصہ قبل محکمہ فوڈ کے ایک آفیسر جن کا نام
تقریباً (چ خ الف ) سے ہے ،یہاں میں وضاحت محض عیب جوئی سے بچنے کیلئے نہیں
کر رہا ورنہ مجھے اپنے پیدا کرنے کے علاوہ نہ ہی کسی کا کوئی خوف ہے اور نہ
ہی میں نے کسی قسم کا کسی سے کوئی مفاد لیا ہے اگر کوئی تحقیقاتی ادارہ
وضاحت چاہے گا تو ضرور ہو گی جبکہ پوسٹ اسسٹنٹ فوڈ کنٹرولر بتائی جاتی ہے
کےMCBبنک کے ایک طرف تو 160 جعلی پے آرڈر بنوا کر باردانہ حاصل کرنے کے بعد
اس میں ذاتی گندم بھر کر بیچتے ہوئے جبکہ دوسری طرف2012میں سرکاری گندم سے
بھرے 2ٹرک بیچنے کیلئے لے جاتے وقت چیچہ وطنی کے قریب رنگے ہاتھوں پکڑے
جانے کے باوجودجس کا چیچہ وطنی کے ایک تھانہ میں مقدمہ بھی درج ہے چند یوم
کا ٹرائل ہوا اور اُس کے بعد اسے صرف بحال ہی نہیں بلکہ مذید ترقی سے بھی
نواز دیا جاتا ہے،یہ وہ شخص ہے جس کا والد ایک پولیس آفیسر تھا جو پہلے
گاڑیاں چوری کرواتا پھر اُسے فروخت کرکے جو روپیہ پیسہ مِلتا اپنے اِس
مذکور بیٹے پر صرف کرتا یہ اُس کی ایک معمولی سی اور عام سی کرپشن تھی اِس
کے علاوہ جو کچھ کرتا تھا وہ الگ ہے خیر ایسا کر کرا کے جو حرام مال کماتا
وہ اِس پر صرف کر کے اِس کو اُس نے پڑھا لکھادیا پڑھنے کے بعد اِس صاحب نے
باپ کی کمائی پرخوب آوارہ گردی کرناشروع کر دی اور اِس آوارہ گردی کے دوران
یہ ایک ایسی عادت سے بھی دوچار ہوگیا جسے بیان بھی نہیں کیا جا سکتاجس کا
علم جب اس کے والد صاحب کو ہوا تو پہلے تو اُنہوں نے (یہ سوچے بغیر ہی کہ
یہ عادت کہیں حرام کی کمائی سے اس کی پرورش کا نتیجہ تونہیں )اس کی خوب
پٹائی کی پھر اس کی فوری شادی کا سوچا مگر اس کیلئے پہلے صاحب کا اپنے پاؤں
پہ کھڑا ہونا ضروری تھا لہذا اسے اپنے پاؤں پہ کھڑا کرنے کیلئے اُنہوں نے
اپنے ایک دوست کی منت سماجت کرکے اسے دو وقت کی روٹی کمانے کے قابل بنا
یاپھِرکچھ ہی عرصہ بعد شادی بھی کردی مگر نہ ہی وہ عادت بدلی اور نہ ہی
حرام کھانے کی لذت بھولی لہذا اس نے اپنی حلال کمائی کو حرام میں تبدیل
کرنے کیلئے مختلف فارمولے ایجاد کر تے ہوئے حرام کھانے کے ساتھ ساتھ جمع
کرنا بھی شروع کردیا جس سے کچھ ہی دِنو میں شہر کے اندر تقریباً 03 کروڑ
روپے مالیتی 2مکان بھی بنائے گئے لیکن ایک چیز پھر بھی حلال رہی ،لہذا رگوں
میں حرام اور اس کے حلال میسرہونے کی وجہ سے صاحب اس پر بھی جب پوری طرح سے
مطمئن نہ ہو سکے تو ایک قریبی گاؤں کی رہائشی لڑکی کو اُس سے شادی کرنے کا
جھانسہ دیتے ہوئے اپنے جال میں پھانس لیا گیا اور جب اس بیچاری نے اِسے
اپنے حرام تعلقات کو ہلال میں تبدیل کرنے کی زِد کی تو اِسے چھوڑ دیا گیا
اور کچھ دِنوں کیلئے قبہ خانوں کا رُخ کر لیا گیا اسی ہی دوران ایک دوسری
کی قسمت نے اُس کا ساتھ چوڑ دیا اور کچھ عرصہ تک تو وہ بھی گزشتہ کی طرح سے
ہی رہی لیکن پھر اُس نے اپنی ہوشیاری کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے آخر حرام
کو حلال کر ہی لیا، اب گزشتہ اور اس کے سمیت اس صاحب کی دو بیویاں ہیں اور
بچے بھی ہیں جن میں سے دو ڈی پی ایس سکول میں پڑھ رہے ہیں جہاں ایک بچے کی
ماہانہ فیس 05ہزار روپے ہے اور ایک بیٹی دی ایجو کیٹر سے BAکر چکی ہے جہاں
65سو روپے ماہانہ فیس تھی دوسری نے Seekاکیڈمی سے Fscجہاں 35سو روپے ماہانہ
فیس جبکہ تیسری بچی ایم بی بی ایس کر رہی ہے جس کی ہوسٹل کے کرائے سمیت ایک
لاکھ سے زائد ماہانہ فیس ہے اس طرح سے صاحب کے ماہانہ اخراجات تقریباً ڈیڑھ
سے دو لاکھ کے قریب جبکہ ماہانہ تنخواہ 30سے 37ہزار کے قریب ہے ،یہ 37ہزار
نکال کر باقی رقم کا ذریعہ آمدن پوچھا جائے تو جواب مِلتا ہے کہ اُس کی
بیوی بہت مہنگی ترین اور بہت زیادہ پراپرٹی کی مالک ہے جو کہ اس صاحب کی
باقی آمدن کا ذریعہ ہے جبکہ حقیقت میں وہ اس صاحب کے سوکن ڈال رکھنے ’و‘
اسکے دیگر چال چلن کی وجہ سے اس سے حد سے زیادہ اختلاف رکھتی ہے اور اسے
اپنی آمدن سے ایک روپیہ تک نہیں دیتی،جو کہ ثابت کرتا ہے کہ یہ صاحب 37ہزار
کے بعد کی رقم حرام و غیر قانونی طریقہ سے کما کر بچوں پر صرف کر رہے ہیں
جس سے ایک طرف تو ایسی کمائی سے پرورش پانے والی اولاد بھی اپنے مستقبل میں
لازماً وہی کرداراداکرے گی جو باپ نے اپنی زِندگی میں کیا،جبکہ دوسری طرف
رشوت خوری کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی رہے گی ،جوکہ دوسروں کی حق تلفی کی سب
سے بڑی وجہ ہے،اور جب کسی گھر محلے شہر یا ریاست میں دوسروں کی حق تلفی کی
نوبت حد سے آگے گزر جاتی ہے تو پھر ایسے حالات ہی پیدا ہوتے ہیں جیسے آج کل
ہمارے ہاں ہیں اوران حالات کا انجام بربادی کے سوا کچھ نہیں،جس کی طرف ہم
بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں(فی امان اﷲ)۔ |