کرپشن (بد عنوانی ) کا لفظ تو
ہمارے لیے نیا نہیں ‘ایک بیوروکریٹ سے لیکر ایک ریڑھی بان تک‘ اس لفظ سے
شناسا ہی نہیں ‘بلکہ گھنٹوں اس کے بارے گفتگو کر سکتا ہے ا ور اس کے تدارک
کے لیے تجاویز‘ بھی ایک دانشور کی طرح بڑی مہارت سے دے سکتا ہے‘ مگر اس کے
انسداد کے لیے اپنے حصے کا دیا کوئی نہیں جلاتا۔ کیونکہ اس بیوروکریٹ سے
لیکر اس ریڑھی بان تک ہر کوئی اپنے مفادات اور مسائل میں ایسا جکڑا ہوا ہے
کہ ان سے خود کو چھڑانا جوئے شیر بہا لانے کے مترادف لگتا ہے اور یہی
مفادات اسے مجبور کرتے ہیں کہ وہ کرپشن کاپیالہ نہ چاہتے ہوئے بھی پیے
‘سوال یہ ہے کہ کرپشن کا زہر‘ جو اس ملک کے استخوانوں میں آج چیخ چیخ کر
بول رہا ہے‘ اس کا تدار ک ممکن بھی ہے یا نہیں ؟؟؟
یہ حقیقت تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آج کا انسان میانہ روی اور سادہ
زندگی سے بہت دور ہو چکا ہے اور ایک دوسرے سے برترہونے کی ان دیکھی جنگ
جاری ہے‘ میں اس سماجی جنگ کو اس طرح سے دیکھتی ہوں کہ آجکل ہر انسان تاریخ
ساز بننا چاہتا ہے‘ مگر در حقیقت آج کا انسان خود ساز ہے ․احساسات اور
جزبات سے عاری اپنے مفادات اور ترجیحات کا غلام ‘اس کے حصول کے لیے وہ جائز
و ناجائز ہر قسم کے حربے استعمال کرتا ہے ۔جبکہ’’ تاریخ ساز انسان‘‘ وہ
ہوتے ہیں جو اپنی خواہشات کے بت کو خود توڑ کر کے اپنی ذات کو بڑے مقاصد کے
لیے وقف کر کے پیش کرتے ہیں ‘یہاں دعوی تو سبھی اس بات کا کرتے ہیں کہ خود
کو وقف کر چکے ہیں‘ لیکن در حقیقت یہ ایک لبادھا ہے اور کھرا سچ یہ ہے کہ’’
ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے او ر‘‘ کی طرح معاملہ ہے اور کرپشن
کی دوڑ میں سب پیشہ ور کھلاڑی بن چکے ہیں۔اس تاریخ ساز بننے کی خواہش اور
ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی عامیانہ سوچ نے کرپشن کو فروغ ہی نہیں دیا
بلکہ یہ اس کینسر کی طرح اس ملک کی جڑوں میں بیٹھ چکی ہے جس کا تدارک آئندہ
کئی دہائیوں تک ممکن نظر نہیں آتا اگر مناسب اور اخلاص پر مبنی انتظامات نہ
کئے گئے ۔
پاکستان میں کرپشن کی روک تھام کے لیے نیب اور اینٹی کرپشن کے ادارے کام کر
رہے ہیں مگردیکھنے میں یہ آیا ہے کہ بااثر شخصیات کی پشت پناہی کے باعث
پاکستان میں بڑے مگر مچھوں پر‘ ہاتھ ڈالنا ہمیشہ ہی بے سود رہا ہے اور اس
کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ یہ زہر چھوٹے محکموں میں بھی راسخ ہو گیا ہے ۔بین
الاقوامی طور پرکرپشن کی شرح کا جائزہ لینے والے ادارے’’ ٹرانسپیرنسی
انٹرنیشنل‘‘ نے حال ہی میں جو روپورٹ پیش کی ہے اس کی مطابق پاکستان کے
پوائنٹس 29 ہیں ،کرپشن کی شرح میں175 ممالک میں سے 126ویں نمبر پر ہے ،اور
یہ واضح کیا گیا ہے کہ یہ شرح پہلے کی نسبت کم ہے ،اگر سی پی آئی کی موجودہ
رپورٹ کو دیکھا جائے تو 175ممالک کی فہرست میں سے دو تہائی ممالک نے 50سے
کم سکور کیا ہے ،جن میں سب سے اوپر ڈنمارک ہے اس نے 92پوائینٹس حاصل کئے
ہیں‘ یعنی ڈنمارک وہ ملک ہے جس میں کرپشن نہ ہونے کے برابر ہے ‘اور مقام
حیرت تو یہ ہے کہ دنیا میں خود کو سپر پاور کہلوانے والے ممالک بھی اس دوڑ
میں پیچھے ہیں ۔امریکہ 17نمبر پر ہے اور چین 14نمبر پر ہے ‘اس سے ثابت ہوا
کہ ان کے حکمران بھی عوامی بہبود کے معاملات میں ابھی مکمل طور پر خود کو
وقف کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ‘کیونکہ جہاں کرپشن نہیں ہوگی یہ تو طے ہے
وہاں لوگ خوشحال ہوں گے اورتمام محکمے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے
اپنے فرائض منصبی اچھی طرح ادا کر رہے ہوں گے ۔پاکستان میں حالنکہ یہ شرح
کرپشن پہلے کی نسبت کم ہے تاہم پھر بھی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان
میں کرپشن ایک وبا کی طرح پھیل چکی ہے جس میں مقتدر افراد بیشتر کرپٹ
اداروں کی پشت پناہی کرتے ہیں جس کیوجہ سے آمریت اور غیر جمہوری طرز حکومت
کو پنپنے کا موقع ملا ہے اور اسی وجہ سے عوام میں بے بسی اور سیاسی جماعتوں
پر عدم اعتماد پیدا ہوا ہے ۔یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ہر چار میں سے تین
سیاسی جماعتیں بد عنوان ہیں اوراپنے مفادات کے حصول کے لیے بری طرح کرپشن
کی دھل دھل میں دھنس چکی ہیں ۔ویسے تو کرپشن سے کوئی بھی محکمہ پاک نظر
نہیں آتا کیونکہ موجودہ حالات میں ‘جب احساس زیاں دم توڑ چکا ہے اور زندگی
کی سہولتوں کو حاصل کرنا ‘سیدھے راستے سے ناممکن نظر آتا ہے‘ ایسے میں سب
کا اس کی لپیٹ میں آنا کوئی لمحہ فکریہ نہیں ہے ۔پاکستان میں کرپشن ہر
انتظامی اور احتسابی لیول پر ہے یعنی کرپشن میں کوئی بھی محکمہ پیچھے نہیں
مگر پولیس جیسے محکمے سر فہرست ہیں کہ جہاں رشوت اور سفارش کے سوا کوئی
صحیح کام بھی ہونا ممکن نہیں رہا ۔عسکری ادارے جو کہ تحفظ پاکستان کی علامت
ہیں‘ اس کے علاوہ باقی ہر ادارے کو ہد ف تنقید بنایا جا سکتا ہے ۔سیاسی
اداروں کے علاوہ حکومتوں کے سربراہوں سے لیکر معمولی درجے کے ملازم بھی‘ اس
میں ملوث ہیں ۔پرائیوٹ اداروں اور نیم سرکاری مالیاتی اداروں میں بھی یہ
وبا عام ہے ۔سیاسی اداروں میں اس کا مظاہرہ ووٹ خرید کر اچھے عہدوں کے وعدے
‘ خصوصی مراعات کی پیشکش‘ انتخابات کی آزادی میں مداخلت اور الیکشن کمشنوں
کی تقرری یہ سب کرپشن کے زمرے میں آتے ہیں ‘دفاتر میں بلوں کا اخراج و کمی
اور مختلف امور پر حکومتی اداروں کے تعاون کے لیے‘ ہدیئے او ر دعوتوں کے نہ
ختم ہونے والے سلسلے بھی کرپشن کی ایک بد ترین شکل ہیں ۔گفٹ کی شکل میں کام
جلد کروانے کے لیے پیسوں کی ادائیگی تو اس قدر عام ہے کہ جیسے یہ کوئی ثواب
کا کام ہو ۔ مسئلہ یہ ہے کہ انصاف و قانون کی عملداری نہ ہونے کے برابر ہے
‘بے گناہوں کے لیے سزا اور سزاواروں کے لیے دوا ہے ۔جس کی وجہ سے ایسے کرپٹ
افراد کے حوصلوں کو تقویت ملتی ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں ہر ۴ میں سے ایک کو اپنا کام
نکلوانے کے لیے رشوت دینی پڑتی ہے اور جو رشوت نہیں دیتے وہ بے گھر رہتے
ہیں ،کاروبار شروع نہیں کر سکتے ،بچوں کو اچھی جگہوں پرپڑھا نہیں
سکتے،نوکری کے حصول کے لیے در در کی خاک چھاننا پڑتی ہے اور بہت سے ایسے
مسائل کا شکار ہو کر جن میں ذہنی بیماریاں بھی شامل ہیں خود سوزی جیسے
اقدام اٹھاتے ہیں ۔کیونکہ جب طاقتورگروہ حکومتی فیصلوں پر اثر انداز ہوں گے
،ملکی فنڈ اشرافیہ میں تقسیم ہو جائے گا اور عہدوں کی بندر بانٹ کی جائے گی
،یہاں تک کے تعلیمی اداروں پر بھی مقتدر افراد کا غلبہ ہوگا اور نا اہل لوگ
اہم عہدوں پر فائز ہونگے تو ایسے میں عام آدمی کیا کرے گا ۔یہ صورت حال کسی
بھی ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کر سکتی ہے ،اور ایسے میں افراد کااپنی
حکومت ،اداروں اور قانون کے محافظوں پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے اور یہی ہوا
ہے ،آج ملکی منظر نامہ جو انتشار و بے یقینی کے گرداب میں ہچکولے کھا رہا
ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ’’ کرپشن ‘‘ہے ۔گزشتہ کئی دہائیوں سے حکمران عوام
کا پیسہ چوری کر کے اس کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور ہمارے
ملک کو یہ کرپشن دیمک کی طرح کھا رہی ہے ملکی خزانے خالی ہو رہے ہیں اور ہم
دردر بھیک مانگ رہے ہیں ۔
جمہوری ممالک میں کرپشن کے خلاف سب سے بڑا ہتھیار آزادی صحافت اور مضبوط و
مستحکم عدالتی نظام ہے ۔یہ کس انصاف و قانون کی بات ہے کہ ایک عام پاکستانی
آزاد شہری کو معمولی قانونی کو تاہی کی صورت میں سخت عزاب میں مبتلا کر دیا
جاتاہے اور بڑے جرائم کرنے والوں پر گرفت بھی نہیں ڈالی جاتی اور اگر مقدمہ
رجسٹر ہو بھی جائے‘ تو بڑے سے بڑے قومی جرم سے بھی‘ کلیرنس اور رہائی مل
جاتی ہے اور وہ عدالتوں سے فارغ ہو کر جب ٹیلی ویژن کیمروں کے ذریع عوام کو
نظر آتے ہیں تو ان کی مسکراہٹ ان کی ذاتی خوشی کے لیے ہو نہ ہو لیکن ان کے
چہرے یہ اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ یہ ہیں قانون اور یہ عدالتیں ۔۔! جنھوں
نے ہمارے جرموں سے ہمیں آج پاک کر دیا ہے۔ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ اس ملک
میں بڑے بڑے قومی مجرموں کو برسر اقتدار لوگوں کی ایما پر کبھی کچھ عرصے کے
لیے زیر اعتاب رکھا گیا اور کبھی اپنی موج میں آ کر بری کر دیا گیا ۔ایسا
لگتا ہے یہ اشرافیہ کا ایک کھیل بنا ہوا ہے کہ اگر چاہا تو کرپشن میں کسی
کو پکڑ لیا اور جب چاہا چھوڑ دیا اس طرح کے حکومتی طرز عمل کو دیکھ کر یہ
کہنا بجا ہے کہ قانون کی عملداری انصاف کے تقاضوں کے مطابق کم نظرآرہی ہے
جو کہ ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے ۔اس کی اگر کرپشن جیسی مزمت نہیں کریں گے
تو شاید اس کے لیے کوئی دوسرا لفظ بھی مناسب نہ ہو کیونکہ در پردہ مفادات
کے حصول کا نام ہی کرپشن ہے ۔
اگر آج ہم دنیا کی ترقی یافتہ اقوام میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں کرپشن
کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا ،ہمیں اپنے سیاسی ،سماجی اور معاشی نظام کے
ڈھانچے کو ازسر نو تعمیر کرنا ہوگا ،یہ مسئلہ صرف ایک حکومت کو تبدیل کرنے
سے حل نہیں ہوگا کیونکہ حکومت انتطامی امورچلانے کے لیے مستقل ملازمین کی
محتاج ہوتی ہے ۔اس لیے اس کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت ترجیحی
بنیادوں پر احتساب کا ایسا مؤثر نظام وضع کرے جس سے عوام کو یہ اختیا ر ملے
کہ وہ سیاسی نمائندوں اور کرپٹ عہدے داروں کا احتساب کر سکیں اور اگر عدلیہ
کا نظام بہتر ہوجائے ،انصاف کو فروغ حاصل ہو ،برتری کی دوڑ ختم ہوجائے یعنی
ہر ادارے میں امیر ،غریب دونوں کو برابری کی بنیاد پر ڈیل کیا جائے ،ایک
دوسرے کو نیچا دکھانے کی سوچ ختم ہوجائے اور رشوت لینے اور دینے والا دونوں
سزا کے مرتکب ٹھہریں تو کیسے ممکن ہے کہ ہم اس بیماری سے چھٹکارا نا پائیں
۔لیکن اس کے لیے ہمیں اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلنے ہوگا اور اسلامی طرز
معاشرت کو فروغ دینا ہوگا ۔المیہ یہ بھی ہے کہ اس وقت حکومت کے پاس اس وقت
ایسا کوئی انفرا سٹرکچر نہیں جس سے وہ اداروں میں ہونے والی کرپشن کا سراغ
لگا سکے ۔اور اس کی تمام کرپشن کے خلاف کاروائیاں اندازوں اور خود ساختہ
اعداد و شمار پر مبنی ہیں اس لیے حکومت کو چاہیئے کہ کرپشن کے خلاف آواز
اٹھانے والوں کے تحفط کو یقینی بنائے ۔اور ان کی نشاندہی پر خاموشی اختیار
مت کرے بلکہ اس میں ملوث افراد کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے تاکہ دوسروں کو
عبرت حاصل ہو ۔
اس سارے معاملے کا مثبت اور تعمیری حل یہ بھی ہے کہ ایک ایسا احتساب کمیشن
تشکیل دیا جائے جس کی مکمل طور پر آزادانہ حثیت ہو جس وجہ سے وہ انتہائی
غیر جاندار ہو اور ہر قسم کے سیاسی دباؤ مداخلت اور جانبداری سے پاک ہو کر
فیصلے اور قانون پر عمل درآمد کروا سکے اس مقصد کے لیے مکمل طور پر غیر
جانبدار، غیر متنازعہ اور نیک نام شخصیات کا انتخاب کیا جائے اور یہ کمیشن
کسی ملزم کی فوری گرفتاری اور شفاف تفشیش کر کے اسے مجرم یا با عزت بری
کرنے کا اہل ہو ۔جب لوگوں کو اس بات کا علم ہو جائے گا کہ سرکاری سطح پر
ہونے والی کسی بھی محکمے میں بد عنوانی اس کمیشن کے وجود کی وجہ سے کنٹرول
ہو سکتی ہے تو پھر یہ تا ثر عام ہو جائے گا کہ کوئی بھی کرپٹ اہلکار ،افسر
یا عہدے دار احتساب سے نہیں بچ سکتا اور جو کرے گا وہ بھرے گا کی صدا بلند
ہو جائے گی تو پھر پاکستان میں ہر طرف سے ترقی کا انقلاب اور عوامی خدمت کی
فراہمی یقینی ہو جائے گی اورملکی سالمیت کو لاحق خطرات سے با آسانی نپٹا جا
سکے گا ۔ |