بارش
(Rashid Noor Madani, Karachi)
بارش اللہ تعالٰی کی نعمتوں میں
سے ایک عظیم نعمت ہے اگر بارش نہ ہو تونظامِ کائنات میں فسادِعظیم پیداہو
جائے اسی سے کروڑوں انسانوں کا رزق اورروزگاروابستہ ہے عام طورپرسائنس کی
کتابوں میں طلباء کوفقط اتنابتایاجاتاہے کہ سمندرسے اُٹھنے والے بُخارات
آسمان کی طرف اُٹھتے ہیں اوربادل میں جذب ہوکرزمین پربارش کی صورت میں
برستے ہیں لیکن تفسیردُرِّمنثورمیں علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرّحمہ نے
محدّثین ومفسّرین کے بارش سے متعلق مختلف اقوال کوجمع فرمایاہے جس کا
مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ بارش کے نزول کاسبب فقط سمندری پانی نہیں
بلکہ جنّت کابابرکت پانی بھی ہے جس کے ذریعے اللہ پاک زمین میں مختلف اقسام
کے پھل،سبزیاں،گھاس اور انسانوں وجانوروں کی خوراک پیدافرماتاہے جیساکہ
قرآنِ پاک میں ارشادہوتاہے۔ وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَآء ِ مَآء ً فَاَخْرَجَ
بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّکُمْ٭ ترجمہ:اور آسمان سے پانی اتارا تو
اس (آسمانی پانی کے ذریعے زمین)سے کچھ پھل نکالے تمہارے کھانے کو۔(البقرہ
آیت22)آئیے اب تفسیر دُرِّمنثورجلداول میں موجود ہمارے اسلاف کی بارش سے
متعلق تحقیقاتِ جلیلہ کامطالعہ کرتے ہیں تاکہ مغربی افکارسے متائثرہونے کی
بجائے اسلامی وشرعی تحقیقات سے اپنے قلوب کی تسکین کاسامان کرسکیں۔ امام
حسن بصری علیہ الرّحمہ سے پوچھاگیاکہ بارش آسمان سے نازل ہوتی ہے یابادل
سے۔؟فرمایا بارش آسمان سے بادل پر نازل ہوتی ہے بادل توفقط نشانی
ہے۔سیدناوہب فرماتے ہیں میں نہیں جانتاکہ بارش آسمان سے بادل میں نازل ہوتی
ہے یا اللہ تعالٰی بادل میں بارش پید افرماتاہے پھروہ نیچے برساتاہے۔
سیدناکعب علیہ الرحمہ فرماتے ہیں بادل بارش کیلئے چھاننی ہے اگربادل نہ
ہوتاتوپانی ایک جگہ گِرتا اور اس کوخراب کردیتااوربِیج آسمان سے اُترتاہے۔
سیدناخالدبن معدان فرماتے ہیں بارش ایک پانی ہے جوعرش کے نیچے سے نکلتا ہے
پِھرپے درپے ہرآسمان پر اُترتا ہے حتّٰی کہ پہلے آسمان میں جمع ہوجاتاہے
اورجس جگہ جمع ہوتاہے اُسے ا َلاِیرَم کہاجاتاہے پِھرکالے بادل آتے ہیں اور
آسمان میں داخل ہوکراُس بارش کوپیتے ہیں پِھراللہ عزّوجل جہاں چاہتاہے
اُنہیں لے جاتاہے۔ حضرت عکرمہ علیہ الرّحمہ فرماتے ہیں پانی ساتویں آسمان
سے نازل ہوتاہے پِھر اِس سے ایک قطرہ بادل پر اُونٹ کی طرح
گرتاہے۔سیدناخالدبن یزید رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ بادل سے ہونے والی
بارش میں آسمانی پانی اور سمندر سے اُٹھنے والے بُخارات ہوتے ہیں جوبادل
اُٹھا کرلاتے ہیں پَس کڑک اورآسمانی بجلی اِس کومیٹھاکرتے ہیں لہٰذا جوپانی
سمندروں سے ہوتاہے اُس سے پودے نہیں اُگتے بلکہ آسمان سے اُترنے والے پانی
کے سبب زمین میں پودے اُگتے ہیں۔سیدناعکرمہ سے روایت ہے کہ آسمان سے اُترنے
والاپانی ضائع نہیں ہوتابلکہ اِس کے ذریعے زمین میں گھاس اُگتی ہے
یاسمندرمیں موتی بنتاہے۔ سیدناعبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
کہ اللہ تعالٰی بارش کے ذریعے صدف کے مُنہ میں موتی پیدا فرماتاہے اِس طرح
کہ جب بارش برستی ہے تودریاؤں میں صدف اپنے مُنہ کھول لیتے ہیں جوقطرہ ان
کے مُنہ میں گِرتاہے وہ موتی بن جاتاہے پس بڑاموتی بڑے قطرے سے
اورچھوٹاموتی چھوٹے قطرے کے باعث ہوتاہے۔امام شافعی علیہ الرّحمہ کتاب
الاُم میں سیدنامُطلب بن حنطب رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ
سیّدِعالم ﷺ نے ارشادفرمایا دن اوررات میں کوئی وقت ایسانہیں جب بارش نہ
برس رہی ہواللہ تعالٰی جہاں چاہتاہے اِسکوپھیردیتاہے۔ابنِ عباس رضی اللہ
عنہ سے مروی ہے کہ آسمان سے جب بارش نازل ہوتی ہے تواس کے ساتھ بیج بھی
نازل ہوتاہے اگرتُم چمڑے کادسترخوان بچھاؤ تواسے دیکھ لو۔اور بارش کی آمیزش
جنّت سے ہے جنّت کی آمیزش زیادہ ہوتی ہے توبرکت زیادہ ہوتی ہے اگرچہ بارش
کم ہواورجب جنّت کی آمیزش کم ہوتی ہے توبرکت کم ہوتی ہے اگرچہ بارش زیادہ
ہو۔امام حسن بصری سے روایت ہے کہ کوئی سال دوسر ے سال سے بارش کے اعتبار سے
زیادہ نہیں ہوتالیکن اللہ عزّوجل جہاں چاہتاہے اسے پھیردیتاہے اور بارش کے
قطروں کیساتھ آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ہیں جوتین باتیں لکھتے ہیں 1 ) بارش
کامقام 2 ) بارش کیوجہ سے لوگوں کومِلنے والارزق 3 )اوراس بارش سے زمین میں
کیاپیداہوگا۔ ماخوذازتفسیردُرِّمنثورمترجم جلد1صفحہ100مکتبہ ضیاء القرآن
الحاصل: ان تمام روایات میں اس طرح مطابقت دی جاسکتی ہے کہ عرشِ اعظم کے
نیچےسے پانی نکلتاہے اورساتوں آسمانوں سے ہوتاہوا آسمانِ دُنیا (یعنی پہلے
آسمان)سے بادل میں گرتاہے اوربادل اس آسمانی پانی اوردریاؤں سے اُٹھنے والے
بخارات کواپنے اندرجذب کرکے جہاں اللہ تعالٰی چاہتاہے وہاں برساتاہے۔ |
|