یہ دونوں تاریخ کی معروف ترین
شخصیات ہیں ایک کا نام کارل مارکس ہے اور دوسرا مائیکل بکونن۔ ایک نے اپنے
نظریات کی بنیاد معیشت پر رکھی تو دوسرے نے سیاست پر۔ ایک کمیونزم کا بانی
ہے تو دوسرا انارکی ازم کا۔دونوں ہی ہم عصر تھے اور ایک دوسرے کواچھی طرح
جانتے تھے۔ لیکن دونوں کے نظریات کی بنیاد الگ الگ کیوں ہے؟ یہ ایک دلچسپ
سوال ہے اور اس کا جواب دونوں کی سوانح حیات سے ملتاہے۔
کارل مارکس رائن لینڈ کے شہر ٹرائر میں 1818ءکو پیدا ہوا۔ اس کو ابتدا ہی
سے معاشی مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ فارغ التحصیل ہوا تو اس کو حسب ِمنشاءملازمت
نہ ملی۔ ملک کے معاشی نظام میں اسے کوئی بھلائی نصیب نہ ہوئی۔ حالانکہ اس
سرزمین میں اس نے نااہلوں کو نہ صرف خوشحال بلکہ معیشت کے ذرائع اُن کے
قبضے میں دیکھے۔ کمیونزم کے زیر عنوان اس کی زندگی کے تجربے سے صاف معلوم
ہوتا ہے کہ مارکس کے مصائب کی ابتداءمعاشی مسائل سے ہوئی اس میں شک نہیں کہ
وہ سیاسی استبداد کے ہاتھوں بھی پریشان رہا۔ مگر اس کے قلب پر پہلا نقش تنگ
دستی کا تھا۔ گھر میں تنگ دستی و فاقہ کشی سے گزارا ہو رہا تھا۔ بچے بھوک
سے مر رہے تھے غربت اور افلاس نے مارکس کو وقت سے پہلے ہی بوڑھا کر دیا تھا۔
یہی وجہ ہے اس کے فکر کی جولانیاں تمام تر معاشی میدان میں ہی رہیں اس کا
تیار کردہ نظام بھی معاشیات پر مبنی تھا۔
انارکی ازم کا بانی مائیکل بکونن کو مارکس کے برعکس کبھی معاشی مشکلات پیش
نہ آئیں۔ وہ روس کے کھاتے پیتے خاندان کا نونہال تھا۔ اس نے فوجی سکول میں
تعلیم پائی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں رجمنٹ میں اعلیٰ عہدے پر ملازم ہو گیا۔
روس کی فوج کا پولینڈ کی بغاوت کچلنے کے دل دھلا دینے والے مناظر نے اس
نوجوان افسر کے دل پر گہرا اثر کیا اور وہ دل ہی دل میں سیاسی غلبہ اور
مطلق العنانی کا سخت دشمن ہوگیا۔ اس نے حکام کے خلاف بغاوت کی۔ اس پر دو
سال مقدمہ چلا اُس نے فوج کو خیر باد کیا۔ ماسکو آ کر فلسفے کی تعلیم حاصل
کی۔ پھر سوئٹزرلینڈ اور وہاں سے نکالے جانے کے بعد پیرس چلا گیا۔ وہ جس ملک
میں بھی جاتا وہاں کی حکومت کے خلاف بغاوت کی آگ روشن کر دیتا۔ یورپ کی
تمام حکومتیں اس کو خطرے کی نظر سے دیکھتی اور اُنھوں نے اپنی تمام قوتوں
کو اس کے کچلنے کے لیے وقف کر دیا۔ 1850ءسے لے کر اپنی موت کے سال یعنی
1872ءتک وہ حکومتی نظام کے کلاف ہی برسر پیکار رہا۔
ان دونوں معروف شخصیات سوانح حیات سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسانی زندگی میں
انسان کا ماحول اور حالات بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ انسانی نظریات کی
کاشت انسانی ماحول اور حالات میں ہوتی ہے۔ اُس کا ماحول اُسے زندگی کا جو
بھی رُخ دکھاتا ہے وہ اُسی رُخ کو کل کائنات سمجھ کر اپنے نظریات کی بنیاد
اُسی پر اُٹھا لیتا ہے۔ اور پوری زندگی کے نظام کی ترتیب اُسی رُخ پر
استوار کرلیتا ہے۔ دنیا میں آج تک جتنے بھی نظریات متعارف کروائے گئے ہیں
اُن کی عام طو رپر دو اقسام ہیں۔ پہلی قسم کے نظریات تو وہ جو انسان اپنے
ماحول سے اخذ کرتا ہے اور اُسی نامکمل نظریے کا نفاذ تمام زندگی پر کر دیتا
ہے جبکہ دوسری قسم کے نظریات وہ ہوتے ہیں جن کو انسان اپنے ماحول کے اثر سے
آزاد ہو کر ترتیب دیتا ہے اُس کی نظر زندگی کے تمام پہلوؤں پر ہوتی ہے اس
طرح وہ اپنے ماحول سے آزاد ہو کر ایک یونیورسل نظریہ تشکیل دیتاہے۔
اگر غور کیا جائے تو ہماری زندگی کا نظام ان دونوں نظریات میں سے کسی ایک
نظریے کی پیروی میں ترتیب پاتا ہے۔ یا تو ہم ماحول سے متاثر ہو کر زندگی کے
کسی ایک نقطے پر منجمد ہوجاتے ہیں یا پھر نظر میں وسعت پیدا کر کے اور
ماحول کی غلامی سے نجات پا کر زندگی کا وسیع مفہوم پا لیتے ہیں۔
کارل مارکس اور مائیکل بکونن کے طاقتور نظریات کی اصل بنیادان کے ماحول نے
ہی اُٹھائی تھی یہی وجہ ہے کہ مارکس سرمایہ داری نظام کو تمام برائیوں کی
جڑ قرار دیتاہے تو دوسری طرف مائیکل بکونن سیاسی نظام کو تمام برائیوں کا
منبع قرار دیتا ہے۔ دونوں کے نظریات انتہائی زیادہ پُر اثر ہونے کے باوجود
چونکہ ان نظریات کی پیدائش ایک مخصوص ماحول میں ہوئی تھی لہٰذا جیسے ہی وہ
ماحول تبدیل کر دیا گیا تو یہ نظریات بھی اپنی افادیت کھو گئے۔
اب یہ وقت کا تقاضا ہے کہ انسان اپنے ماحول سے آزادی حاصل کر کے ایک
عالمگیر نظریہ ترتیب دے جو تمام انسانی شعبہ جات کا احاطہ کرتا ہو اور تمام
نوع انسان کو ایک نظر سے دیکھتا اور یہ تمام زمانوں کے لیے قابل اور مفید
ہو۔ کیا انسان ایسے کسی نظریے کو وجود میں لا سکتا ہے جو زمان و مکاں سے
ماورا ہو؟ |