میں نے دیکھا۔۔۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

انسان کے لینے والے ہاتھ کو دینے کی طاقت سے نوازنا تو اسلام کا طرہ امتیاز ٹھہرا ، لیکن کتنا، کیا اور کیسے دینا ؟ یہ پھر دینے والے کی ظرفیت پر منحصر ہے۔ کوئی مال لٹا دینے کو تیار تو کسی کو جان دینے کی تڑپ، ان سب کے درمیان حسین بن علی بن ابی طالب علیہم السلام، نے ۶۱ ہجری کی دسویں تاریخ کو راہ خدا میں اپنا سب کچھ لٹا کر خداوند عالم کے حضور اپنی ظرفیت کا برملا اعلان کر دیا، اور یوں پھر خدا کا وعدہ بھی حتمی ٹھہرا کہ "تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا" ۔۔۔۔۔،

ذکر کئی ایک قسم کا ہے ، بعض لوگ تسبیح ہلانے کو ہنر کامل سمجھتے ہیں، تو بعض عمل میں ذاکر ہیں، عملی ذکر کے بھی مراتب ہیں۔ علی الظاہر جس طرح ہم انسانوں کے اذکار کئی ایک طرح کےہیں، ویسے ہی الہی پاداش [جزا ] بھی مختلف ہے۔ گویا آیت کا معنی یہ ہو گا کہ تم میرا ذکر جیسے کرو گے ، میں بھی تمہارا ذکر ویسے ہی کروں گا۔ اور چونکہ ذات اقدس حق لافانی ہے، اسی لیے خداوند جس کا ذکر عمل میں رکھ دے وہ لافانی ذکر میں شامل ہو جائے گا۔

خاکسار کے ناقص خیال میں اربعین یعنی امام حسین ع کا چہلم بھی اسی ذکر کی ایک کڑی ہے۔ ویسے تو میں نے زندگی میں کئی اربعین دیکھے لیکن اس اربعین پر مجھے جو دیکھنے کا موقع ملا وہ دنیا جہان کے کسی بھی دوسرے اربعین سے نرالا تھا ، بالکل ویسے ہی جیسے امام حسین ع کا جذبہ سب سے نرالا تھا۔ ایسا کیوں نہ ہوتا ، یہ اربعین خود امام حسین ع کے جوار میں کربلای معلی گزارنے کاشرف نصیب ہوا۔

میں نے دیکھا: لاکھوں انسانوں کا سمندر جو ایک ہی سمت میں، ایک ہی ہدف کی جانب رواں دواں ، ایک ہی روضہ مبارک کو اپنی آنکھوں میں لیےآگے بڑھ رہا تھا۔

میں نے دیکھا: ایثار و محبت کے جذبوں سے سرشار انسانوں کی ایک کثیر تعداد جو فقط اور فقط زائر حسین ع ہونے کے ناطے ہماری خدمت میں ہمہ وقت آمادہ کھڑے تھے۔

ایک واقعہ بھی سناتا چلوں : جب ہم ایرانی بارڈر سے نجف کی جانب روانہ ہوئے، تو گاڑی نہ ملنے کے باعث راستے میں ہی شام ہو گئی، کوت نامی ایک شہر- جو کربلا سے تقریبا ۱۶۰ کیلومیٹر کے فاصلے پر ہے- میں بہت سے لوگ زائرین کو دعوت دینے آئے ہوئے تھے کہ ان کے ہاں رات بسر کی جائے تاکہ اسی بہانے انہیں بھی زائرین کی خدمت کا موقع ملے ۔ ہم جب آگے کی گاڑی ملنے سے مایوسی ہوئی اور ان کے اصرار کو دیکھ کر ، فیصلہ کیا کہ آج کی رات یہیں پر گزارتے ہیں۔ ہم نے اس شرط پر رضایت ظاہر کی کہ صبح چار بجے ، ہمیں وہاں سے نجف کی گاڑی فراہم کی جائے۔ اور یوں جب ہم ان کے گھر پہنچے جو کہ قریبی شہر واسط میں واقع تھا، تب ہمیں پتا چلا کہ یہ لوگ کئی ایک کیلومیٹر دور زائرین کے راستے پر آن کھڑئے ہوئے تھے، کیونکہ ان کے شہر سے زائرین کا راستہ نہیں گزرتا تھا۔

اربعین کے موقع پر پیدل چلنے کی رسم دنیا کے کسی بھی انسان کو پیش کیے جانے والے خراج تحسین کے رسوم سے یکسر مختلف اور متفاوت ہے، عراق کے مختلف شہروں سے سینکڑوں کیلومیٹر کا فاصلہ پا پیادہ طے کر کے لوگ کربلا پہنچتے ہیں۔ دوسرے ممالک سے آئے زائرین اور خود عراق کے کئی ایک شہروں سے آنے والے زائرین کی ایک بہت بڑی تعداد نجف اشرف سے پیدل کربلا کی جانب روانہ ہوتی ہےاور لگ بھگ ۹۰ کیلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے ہوتاہے۔

سب کے مختلف راستے ایک ہی مرکز میں جمع ہو جاتے ہیں، جس کا نام ہے کربلا۔ جو اس بات کی بھی علامت ہے کہ شیعہ چاہے جس ذوق و شوق کامالک ہواوردنیا کے جس خطے سے بھی ، اپنے تمام تر اختلاف کے باوجود اس کا ہدف اور مقصد ایک ہے، اس کی منزل بھی ایک ہے۔ معنویت کے اس سفر میں ایرانی، عراقی، پاکستانی، ہندوستانی، افغانی، لبنانی،سوری، قطیفی، احصائی، افریقی یا کوئی بھی دوسرا عنوان اپنا معنی اور مفہوم کھو بیٹھتا ہے۔ چاہے کوئی جوان ہو یا بوڑھا ، بچہ ہو یا بڑا، مرد ہو یا عورت فقط ایک ہی عنوان سب کے سب پر برابری سے اطلاق ہوتا ہے اور وہ ہے زائر یا زوار حسین ع، یعنی میرے مولا کی زیارت کا عزم دل میں لیے محبت کی قندیل روشن کیے روشنی کے سفر پر نکلا ہوا عظیم انسان ۔

حیران اور مبہوت ہوں ، جب دیکھتا ہوں کہ انکساری کے عالم میں محبت اور ہمدردی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ لوگ میری خدمت کو اپنے لیے مایہ افتخار سمجھتے ہیں، صرف اس بنیاد پر کہ میں زائر ہوں۔ جب چھوٹے چھوٹے بچے آس پاس کی بستیوں سے میرے راستے میں آ کر مجھے بلاتے ہیں: تفضل یا زائر، اے زائر شام ہو چکی ہے، یقینا سارا دن پیدل چل کر تم تھک چکے ہوگے۔ آو ہمارے گھر چلو، لیکن میں اسے کہتا ہوں ، نہیں ابھی کچھ وقت مزید چلنا ہے، مجھے کچھ مزید آگے بڑھناہے، اور دیکھتا ہوں کہ یوں وہ دوسرے زائر کے پاس جا کر اپنی دعوت دہراتے ہیں۔

حیران ہوں جب دیکھتا ہوں کہ لوگ بے تحاشہ اور بے اختیار محبت حسین ع میں آنسو بہائے جا رہے ہیں۔ محبت کی اس سرزمین پر ایثار و فداکاری کے بہت سے جلووں کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ، اور شاید بہت سے جذبات کی شدت کا انعکاس قلم و قرطاس کی توان سے باہر ہو۔

میں نے دیکھا: جب چھوٹی سی بچی بے تحاشا رو رہی تھی، اور میں پریشان ہو کر اس کی جانب متوجہ ہوا کہ کہیں کروڑوں کے مجمع میں اس نے اپنے والدین نہ کھو دیے ہوں، میری پریشانی دیکھ کر وہ بھی سمجھ گئی اور چونکہ ہم ایک دوسرے کی زبان کو کم ہی سمجھتے تھے، اس نے اشارے سے سمجھا دیا کہ یہ رونا فقط امام حسین ع کے غم میں ہے۔

میں نے دیکھا: چھوٹی چھوٹی معصوم بچیاں راستے کے عین درمیان سروں پر کھجوروں کے طشت لیے، یا زینب یازینب کی صدائیں بلند کر رہی تھیں۔

غذائیں تقسیم کرنے کے مختلف اندا ز تھے ، لیکن ایک طریقہ یہ بھی نظر آیا کہ راستے کے عین درمیان گھٹنے ٹیک کر زانو کے بل بیٹھ کر سر پر کھجور یا دوسری غذاوں کا طشت لیے ، اپنی محبت کا نذرانہ پیش کر رہے تھے۔

بات کو ایک ہی جملے میں سمیٹوں تو یہی کہوں گا کہ محبت کے پاک اور خلوص سے لبریز جذبات کا جتنا برملا اظہار مجھے ان سات دنوں کے مختصر سفر میں نظر آیا ، عمر بھر کہیں بھی نظر نہ آیا۔

شکریہ: آخر میں میرا دل چاہتا ہے کہ شکریہ ادا کروں : اپنے والدین کا جنہوں نے اپنے عمل کی طاقت سے ہم تک محبت حسین ع کا جذبہ منتقل کیا۔ اور امید کرتا ہوں کہ میں بھی اس عظیم خزانے کو اپنی اگلی نسل تک صحیح اندا ز میں پہنچا سکوں۔ نیز شکریہ ادا کرتا ہوں علماء کرام کا جنہوں نے پر آشوب زمانے میں محبت حسین کی شمع ہمارے دلوں میں آج تک روشن رکھنے میں کردار ادا کیا ہے۔

اور ساتھ ساتھ شکریہ ادا کرتا ہوں اپنے دل میں حاضر ، زمانے کی نظروں سے غائب امام عج کا جس کے ظہور کی امید نے شیعہ قوم کو آج تک پرواز کی طاقت دے رکھی ہے، اک ایسی طاقت جس کی بدولت معنویت کے میدان میں آج تک کوئی بھی قوم ہم تک نہیں پہنچ پائی۔
 
Gohar murad
About the Author: Gohar murad Read More Articles by Gohar murad: 3 Articles with 2008 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.