کھلے ضرور مگر کھل کے مسکرا نہ سکے
(محمد زاہد الاعظمی, Azamgarh)
وہ پھول اپنی لطافت کی داد پا نہ
سکے
کھلے ضرور مگر کھل کے مسکرا نہ سکے
میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ میں آغاز کہاں سے کروں ؟ کیا لکھوں اور کیا
نہ لکھوں؟؟ سانحہ پشاور کے بارے میں لکھتے ہوئےہاتھ کانپ رہے ہیں آنکھوں کے
سامنے ایک دھند سی چھاجاتی ہے۔
دل و دماغ آج بھی یہ سمجھنے پر راضی نہیں ہورہے ہیں کہ کیا واقعی ایسا ہوا
یا یہ ایک برا خواب تھا؟؟
ان معصوم آنکھوں میں جینے کی چمک اور چہروں پر برستے نور ہم سے آج یہ سوال
کر رہے ہیں کہ کیا ہم اس قابل تھے کہ ہمیں گولیوں سے چھلنی کردیا جائے؟ ہم
اس قابل تھے کہ ہماری ماؤں کے سامنے ہمیں گولیاں ماری جائیں؟ آج انکی بدن
سے بہہ رہے خون ہم سے پوچھتے ہیں کہ کیا آج بھی تم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے
رہو گے ؟ کیا کل جب تمہارے اپنے بچے یا تم خود اس درد سے گذروگے تب تمہیں
احساس ہوگا؟
آج ہماری قوم کہاں جا رہی ہے؟ کیا ان دہشت گردوں کو ان معصوم کلیوں پر بھی
رحم نہیں آیا ؟ ارے جنگ عظیم میں بھی ایسا سانحہ دیکھنے کو نہیں ملا انہوں
نے بھی یہ معاہدہ کر رکھا تھا کہ ہم اسکولوں اور کالجوں پر حملہ نہیں کریں
گے۔
میں مخاطب کرنا چاہتا ہوں ان بزدل لوگوں کو جو اس ناپاک سازش کو انجام دینے
میں ہر طرح کا تعاون کر رہے تھے۔ مجھے بتاؤ کیا تمہارے بچے اگر اسی طرح
مارے جاتے تو تم کیا کرتے ؟ تمہارے دل پر کیا گذرتی ؟ اور مائیں کیا کرتی
؟؟ ارے تم نے ان بچوں کو صرف نہیں مارا بلکہ ان ماؤں کو بھی جیتے جی مار
دیا جن کے وہ لعل تھے ۔ آج ہم اس سانحے پر افسوس تو کرسکتے ہیں اور یہ تو
کہہ سکتے ہیں کہ ہم انکے غم میں شریک ہیں لیکن مجھے بتاؤ ہماری قوم سے جو
سرمایا تم نے چھینا ہے کیا وہ واپس آسکتا ہے؟ ارے ان بچوںمیں کتنے عالم ،
کتنے ڈاکٹر، انجینئر، اور سائنس داں تھے تمہیں پتا بھی ہے؟
مجھے نہیں پتہ کہ یہ حملہ کس نے کیا ؟ اور نہ ہی مجھے جاننے کی خواہش ہے
لیکن میں ان حملہ آوروں سے اتنا ضرور کہوں گا کہ اللہ کے واسطے ان معصوم
بچوں پر حملے بند کرو اگر تمہیں لڑنے کا اتنا ہی جنون ہے تو آؤ میدان میں
اور ہمارے جوانوں کا مقابلہ کرو بزدلوں کی طرح بچوں اور عورتوں کو نشانہ نہ
بناؤ۔
اْس اللہ کا واسطہ دیتا ہوں میں تمہں۔ جس نے ہمیں پیدا کیا اور جو ہمیں رزق
دیتا ہے جو ہمارا کرتا دھرتا ہے جب وہ میدان محشر میں تمہیں حاضر کرے گا کہ
بتاؤ تم نے ان معصوم وں کو کیوں قتل کیا تو کیا جواب دوگے؟؟
اور یہ بچے جو شہید ہوگئے جب اللہ سے سوال کریں گے کہ اے میرے مولا! تو بتا
کہ ہمیں کس جرم میں قتل کیا گیا تو کیا للہ کا جلال جوش میں نہیں آئے گا تو
پھر کیا اس کا غصہ عذاب بن کر ہمارے اوپر نازل نہیں ہوگا۔ تو پھر کیا یہ
زمیں و آسمان اس کے تیش سے تھرّا نہیں جائیں گے۔ خدا کی قسم جب اللہ کا
عذاب آتا ہے تو وہ کسی کو نہیں دیکھتا کیا امیر کیا غریب کیا بوڑھے کیا
جوان نیک اور بد سب کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے۔ تو ڈرو اس دن سے جس دن دنیا
کی یہ عدالتیں کسی کام نہ آسکیں گی۔ |
|