متنوع تہذیب وثقافت اور اسلام
(Salman Abdul Samad, India)
گلوبلائزیشن کے اثرات
اسلام دین فطرت ہے ۔ وہ نہ تو دیگر تہذیب وتمدن کا منکر ہے اور نہ ہی دیگر
ادیان ومذاہب کے پیکروکاروں کا ہتک عزت اس کا شیوہ ہے ۔کولڈ وار کے بعد جس
طرح گلوبلائزیشن کے سہارے عالم انسانی پرمکمل طور پر مغربی افکار ونظر یات
تھوپنے کی کوشش کی گئی ، وہ بھی اسلام کے توسع پسندانہ نظر یات کے مخالف ہے
، کیوں کہ اسلام ہمیشہ بقائے باہم کے لیے رنگارنگ تہذیب وثقافت کا قدردان
رہا ہے ۔
اسلام حد اعتدال کا قائل ہے ۔ یہ امر مسلم ہے کہ جو سماج ومعاشرہ اعتدال کی
شاہراہ سے ہٹ جائے ، وہ افراط وتفریط کے اس بھول بھلیا ں میں کھوجاتا ہے ،
جہاں کی تہذیت ومعاشرت کسی کے لیے بھی مشعل رہ جاتی ہے اور نہ ہی وہاں
انسانی قدوں کی کوئی اہمیت ہوتی ہے۔ اسلام بنی نوع انسانی کو اسی راہ پر
گامزن کرنا چاہتا ہے ، جس پر چلنا د ونوں جہاں میں صلاح وفلاح کا ضامن ہو ۔
نظریہ اسلام کے مطابق نسل انسانی کی افزائش ایک نفس یعنی ایک فرد سے ہوئی ،
لہذا رنگ ونسل اور حسب ونسب کے تناظر میں فخر ومباہات کسی قوم و فرد یا
مذہب وملت کے لیے زیباں نہیں ۔ حضرت محمد ؐکا فرمان ہے کہ جب تمام بنی نوع
کا ایک ہی رب ہے اور ایک ہی باپ تو نہ کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل
ہے اور نہ ہی کسی عجمی کو کسی عربی پر افضیلت ، اسی طرح نہ کسی گورے کو
کالے پر اور نہ ہی کسی کالے کو گورے پرکوئی تفوق ۔ رہی بات رنگ ونسل ،قبائل
وقومیت کی تو یہ انسانوں کے درمیان تمیز وتعارف اور قیافہ اور شناخت کے لیے
ضروری ہے ۔ سب بڑی بات یہ ہے کہ رنگ ونسل میں تفاوت اور قبائل وگروہ میں
منقسم ہونا بھی اﷲ کی رنگارنگ نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔
تہذیب و ثقافت میں تنوع اور مختلف مذاہب وملل کی پرستاری بھی امرطبعی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ مختلف ادوار میں مختلف ورسل انبیا ء کی بعثت ہوئی ۔ شریعت
محمدیہ میں من جانب اﷲ آنے والے مذاہب وادیان کی قدردانی کے لیے واضح حکم
دیا گیا ہے ۔ چنانچہ اسلام ان کا قدردان ہے ۔اسلامی تہذیب وثقافت تمام امم
وادیان کا پاس ولحاظ رکھتی ہے ۔ ان سے معاشرت کے احکام سے اسلامی تعلیمات
مزین ہیں ۔
اسلامی عقائد وتعلیمات کو تسلیم کروانے کے لیے اسلام نہ کبھی جبر واکراہ کا
قائل رہا ہے اور نہ ہی آج ہے ۔ جس مذہب کے قبو ل کرنے میں اساسی شرط دلی
کیفیت کی تبدیلی ہو ، وہ بھلا کیسے جبرواکراہ میں یقین رکھ سکتا ہے ۔ اسلام
یعنی شریعت محمدی وہ شریعت ہے ، جو انبیا ء ورسل کا مختم ہے ، یہ وہ شریعت
ہے جو ہمیشہ رہنے والی ہے ، اس لیے اس کے قوانین وآئین بھی لاثانی ولافانی
ہیں ۔ مذاہب وامم اور متنوع تہذیب وثقافت کی پاسداری کے تئیں واضح مثال اور
کیا ہوگی کہ اسلام نے دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ بھی بہترین سلوک کا
حکم دیا ہے ۔ ابتدائے اسلام کے زمانہ میں بھی شریعت محمدیہ نے سابقہ مذاہب
پر قائم رشہ داروں سے حسن وسلوک پر جس طرح زور دیا ہے ، وہ بھی اسلام کی
حسن معاشرت کی بہترین مثال ہے ۔ مختلف مواقع پر بذات خود رسول اﷲؐاور ازواج
مطہرات نے اس کا عملی مظاہرہ بھی کیا ہے ۔ حضرت صفیہؓنے اپنے رشتہ داروں کو
صدقہ دیا ، حالانکہ وہ دونوں یہودی تھے ، ان کا دیا ہوا ہد یہ تقریبا ً تیس
ہزار درہم میں فروخت ہوا ۔
اسلامی حسن معاشرت میں ذمیوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک بھی انتہائی قابل
التفا ت ہیں ۔ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’جس کسی نے کسی معاہد پر
ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اس کی استطاعت کے برخلاف کوئی کام لیا یا
تکلیف دی ، یا اس کی رضا کے بغیر کوئی چیز لی تو روزقیامت میں ذمی کی طرف
سے مسلمانوں کے خلاف جھگڑوں گا ‘۔تاریخ شاہد ہے کہ مشرکین مکہ نے آپ ؐ پر
کیسی کیسی زیادتیاں روا نہ رکھیں ، مگر فتح مکہ کے موقع پر صحابی رسول حضرت
سعد بن عبادہؓنے حضرت ابوسفیان ؓ سے جب کہا : ’الیوم یوم الملحمۃ یعنی کفار
سے انتقام کا دین ہے ‘ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کے ہاتھ علم لے کر ان
کے بیٹے حضرت قیس ؓ کو سپر د کردیا اورحضرت ابو سفیان ؓسے یوں گویا ہوئے
’الیوم یوم المرحمۃ ، یعنی رحم وکرم اور عفو ودرگزر کا دن ہے‘۔اسی طرح
نجران کے یہودیوں کو کچھ اس طرح خط لکھا گیا :
’’نجران اور ان کے حلیفوں کو اﷲ اور اس کے رسول کی پناہ حاصل ہے ، ان کی
جانیں ، ان کی شریعت ، زمین ، اموال ، حاضروغائب اشخاص ،ا ن کی عبادت گاہوں
اور ان کے گرجاگھروں کی حفاظت کی جائے گی ، کسی پادری کو اس کے مذہبی مرتبہ
، کسی راہب کو اس کی رہبانیت اور کسی صاحب منصب کو اس کے منصب سے ہٹایا
نہیں جائے گا اوران کی زیر مملکت ہر چیز کی حفاظت کی جائے ‘‘۔
یہاں پر سب سے توجہ طلب بات یہ ہے کہ اسلام میں رہنانیت کی کوئی گنجائش
نہیں ، اس کے باجود بھی اہل اسلام نے نجران کے یہودیوں کو جومکتوب ارسال
کیا ، اس میں اس کی گنجائش باقی رکھی ،یعنی اسلام میں تعلیمات میں اس کی
گنجائش نہ سہی تاہم سامنے والے افراد کے مذہب میں اس کی اہمیت ہے ، چنانچہ
اسلام نے رواداری کی مثال قائم کرتے ہیں اس کو باقی رکھا ، ان کے پادریوں
کو ان کا مقام دیا ہے ،رواداری و دلجوئی اور متنوع تہذیب وثقافت کو قبول
کرنے کی ایسی مثال شاید کسی اور مذہب میں ملے ۔ اس کے باوجود بھی اسلامی
تعلیمات پر تنگ نظری اور رجعت پسندی کا پردہ ڈالنے والوں کی عقل ودانش کے
بارے میں کیا کہا جائے ۔
حضرت خالید بن ولید ؓ نے اہل حیرہ سے جو معاہدہ کیا تھا ، اس کے نکات کچھ
اس طرح ہیں:
٭کسی کافر کی مسلمانوں کے خلاف اعانت نہ کرو ۔
٭مسلمانوں کی مخالفت نہ کرو ۔
٭اگر وہ ان باتوں کی مخالفت کریں گے تو گویا معاہدہ ختم ہوجائے گا ۔
اس معاہدہ اور فتح مکہ کے دن رسول اﷲ کی جانب سے جاری فرمان سے یہ باتیں
واضح ہیں کہ انسانی نقطہ نظر سے اسلام دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی نہ
صرف قدر دانی کرتا ہے ، بلکہ اپنے جانی دشمنوں سے بھی عفوو درگزر کا معاملہ
بھی کرتا ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اپنی حفاظت کے لیے تد
بیر کرنا بھی خود اپنی ایک بڑی ذمہ داری ہے ، جیسا کہ حیرہ کے لوگوں سے اس
بات پر معاہدہ کہ وہ مسلمانوں کے خلاف کسی کافر کی حمایت و اعانت نہ کرے ۔
مختلف مواقع پر دی گئیں رسول اﷲ ؐ کی تعلیمات اس بات پر شاہد ہیں کہ متنوع
تہذیب وثقافت سے بیر رکھنا اور ان سے معاشرت قائم نہ کرنا اسلام کا حکم
نہیں ۔
تاریخ شاہد ہے کہ ولڈ وار کے بعد بڑی شد ومد کے ساتھ گلوبلائزیشن کے پردہ
میں دنیا میں پائی جانی تہذیب وتمدن اور امم وادیان پر مغربی افکار ونظر
یات کو کس طرح تھوپنے کی کوشش کی گئی ، بالخصوص دنیا میں پیش آنے والے دیگر
واقعات اس بات پر بھی شاہد ہیں کہ گلوبلائزیشن کی آڑ میں اسلامی تعلیمات کو
بھی مشق ستم بنانے کے حربے استعمال کیے گیے۔یونیورسٹی فلوریڈ کے پروفیسر
اوثر لوری نے سچ ہی کہاہے :’’ولڈ وار اور سویت یونین کے معاملے کے بعد
امریکی میڈیا نے اسلامی تعلیمات اور اہل اسلام کے خلاف جم کر پروپیگنڈہ کیا
کہ اہل اسلام غیر جمہوریت پسند ہیں ، بلکہ تشدد و انتہاپسندی اور اعلی
اقدار سے گرا ہوا کام ان کا شیوہ ہے ، اس طرح اسلام کو مشق ستم بنانے کے
لیے مغربی افکار نے تعلیم پر بھی خاص توجہ دی ہے‘‘۔پوری دنیا پر جس طرح
مغربی افکار ونظر یات کو تھوپنے کی کوشش کی جارہی ہے ، وہ توخود جمہوریت کے
منافی ہے اور انسانی آزادی پر قدغن لگانے کا ہتھکنڈہ ہے ۔ معیشت کے نظریہ
سے دیکھا جائے تو بھی گلوبلائزیشن کے دور میں وہی ممالک مضبوط ومستحکم
ہورہے ہیں ، جو پہلے مضبوط تھے اور کمزور ممالک مزید کمزورہوتے چلے جارہے
ہیں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح گلوبلائزیشن کے درپر دہ رنگا رنگ تہذیب وتمدن
کو کچلنے کی کوشش کی جارہی ہے ، وہ نہ بقائے باہم کے نظریہ سے مفید ہے اور
نہ ہی انسانی آزادی کے نظریہ سے ۔ اس ضمن میں اسلام ہی وہ شریعت ہے جو پہلے
بھی دیگر مذاہب کا قدردان رہا ہے اور آج بھی متنوع تہذیب وثفافت کا علمبر
ہے ۔
ضمنا یہ بھی عرض کردینا مناسب ہے کہ قدیم زمانہ سے زیادہ آج کی متنوع تہذیب
وثقافت اور گلوبلائزیشن کے درو میں اہل اسلام کو دیگر ادیان ومذاہب کے
افراد سے بہترحسن سلوک اور اچھی معاشرت رکھنی چاہئے ، تاکہ وہ اسلام کو
سمجھیں ، اسلامی تعلیمات پر غور وفکر کریں ۔ان سب سے بڑھ کر آج بقائے باہم
کا تصوراس وقت تک ممکن نہیں ہے ، جب تک کہ ان تہذیب وثقافت کا حد اعتدال کے
مدنظر پا س ولحاظ نہ رکھا جائے ۔ گلوبلائزیشن کے پس منظر میں قرآن کی تعلیم
کو دیکھیں تو قرآن واحادیث میں کسی بھی مذہب کو سخت سست کہنے کی ممانعت آئی
ہے ، اسلامی ایسی ایسی تعلیمات کو فروغ دینا اور بقائے باہم کے مدنظر ان
اصولوں کو اپنا کر انسانی قدروں کی پاسداری آج بیحد ضروری ہے ۔ کیوں کہ
اسلام جہاں اپنے پیروکاروں کے لیے بھلائی کا ضامن ہے ، وہیں دوسرے ادیان
مذاہب کے ماننے والوں کے لیے بھی ۔ محمد ؐکی رحمۃ اللعالمینی کا فریضہ اب
ہمارے اوپر یہ بھی ہے کہ ہم اپنے اخلا ق وکردار ، رفتار وگفتار اور حسن
معاشرت سے متنوع تہذب وثقافت کے علمبرداروں کے دلوں پر دستک دیں ، تاکہ وہ
اسلامی تعلیمات پر غور وفکرکرسکیں ۔ یہاں پر یہ بات بھی عرض کردینی ضروری
ہے کہ ذہنی سکون کی متلاشی دنیا کے بے شمار افراد کو اسلام میں آج جائے
پناہ مل رہی ہے ، جو کہ خوش آئند بات ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ
گلوبلائزیشن کی وجہ سے مسخ ہوتی قدروں نے جہاں ایک طرف انسانی ضمیر کو
جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے وہیں اسلام کا فروغ بھی ہورہا ہے۔ قابل توجہ سوال یہ
ہے کہ کیا ان کا طبعی میلان اہل اسلام کی طرز معاشرت کی وجہ سے اسلام کی
طرف ہورہا ہے ؟ اس کا جواب نفی میں ہی ہوگا ۔ دائرہ اسلا م کے پھیلنے کی سب
سے بڑی آج یہ ہے کہ آج گلوبلائزیشن کے دور میں ذہنی سکون کے متلاشی اہل
اسلام کے رہن سہن سے متاثر نہیں ہورہے ہیں ، بلکہ وہ سکون کی تلاش میں ادھر
ادھر بھٹکتے ہیں ، اسلامی تعلیمات پر مبنی پر کتابیں ہاتھ لگتی ہیں ، جن کے
مطالعوں کے بعد انھیں ذہنی سکون اسلام میں نظر آتا ہے ، لہذا وہ مشرف بہ
اسلام ہوجاتے ہیں ،رنگا رنگ تہذیب وثقافت میں بلکتی اورسسکتی دنیا کے حفظ
اومان اور سکون وطمانیت کے لیے اہل اسلام کا فریضہ یہ بھی ہے کہ وہ مثبت
عملی نمونہ پیش کریں ، تاکہ لوگوں کی نگاہیں ان کی طرف اٹھیں اور انھیں
اسلا م کے تئیں غور وفکر کا موقع نصیب ہوسکے اوراسلام کے توسع پسند انہ
نظریہ یعنی متنوع تہذیب وثقافت کو قبول کرنا اسلام کا شیووہ ہے ، پوری دنیا
پر واضح ہوسکے ۔ |
|