پر دہ در اصل مو لا نا مو دو دی
سے تصنیف شدہ کتا ب ہے جس میں مرد اور عو رت کے تعلق کو ا عتدال کی بنیاد
پر قا ئم کر نے کی ا یک قسم کی نصیحت کی گئی ہے یہ کتاب جد ید تقا ضو ں کو
مد نظر ر کھتے ہو ئے لکھی گئی ہے اس میں مو لا نا صا حب نے کچھ تا ر یخی
حوا لو ں سے بھی یہ ثا بت کیا ہے کہ ا گر ا عتدال کا کو ئی ر ا ستہ ہے تو
وہ ا سلام کا را ستہ ہے اور پر دہ نہ صرف عورت کی ز ینت ہے بلکہ مرد اور
عورت دو نو ں کی شمو لیت سے ہی اس راہ پر گا مزن ہوا جا سکتا ہے پر دہ ہے
کیا ۔۔۔؟ تا ر یخ میں کب عمل کیا گیا اور کب فحا شی و عر یا نی عرو ج پر
رہی یو نان ہی کی مثال لے لیجیئے مو لا نا صا حب لکھتے ہیں جب یو نا نی قوم
خوب طا قتور تھی اور پو رے زور کے سا تھ تر قی و عرو ج ک طر ف جا ر ہی تھی
تو ا سو قت یو نا نی خوا تین گھر کی ملکہ ہو تی تھیں اس کے فرا ئض کا دا
ئرہ گھر تک محدود تھا اور ان حدود میں وہ پو ری طر ح با اقتدار تھیں اسکی
عصمت ایک قیمتی چیز تھی جس کو قدرو عزت کی نگاہ سے د یکھا جا تا تھا شر یف
یو نا نیو ں کے ہا ں پر دے کا روا ج تھا ان کے گھرو ں میں ز نا ن خا نے مر
دان خا نو ں سے ا لگ ہو تے تھے ا ن کی عو ر تی ں مخلوط محفلو ں میں شر یک
نہ ہو تی تھیں نہ منظر عا م پر نما یا کی جا تی تھیں یو نا نیو ں کے بعد جس
قو م کو د نیا میں عروج نصیب ہوا وہ ا ہل روم تھے رو می جمہو ریت کے ز ما
نہ عرو ج میں یو نان کیطر ح پر دے کا رواج تو نہ تھا مگر عورت اور جوان نسل
کو خا ندا نی نظام میں کس کر ر کھا گیا تھا عصمت و عزت خصوصا عو ر ت کے معا
ملے میں ا یک قیمتی چیز تھی اور ا سکو معیار شرا فت سمجھا جا تا تھا ا خلا
ق کا معیار کا فی بلند تھا پھر مغر بی د نیا کے اس ا خلا قی ا نحطاط کا علا
ج کر نے کے لیئے مسیحت پہنچی ا ول اول اس نے بڑی ا چھی خد ما ت ا نجام د یں
مگر بعد میں وہ ا نتہا پسند ی کی بھی ا نتہا کو پہنچ گئے تر تو لیا ں:- جو
ا بتدا ئی دور کے ا ئمہ مسیحت میں سے تھا عو رت کے متعلق مسیحی تصور کی تر
جما نی ان ا لفا ظ میں کر تا ہے ۔۔۔۔کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ شیطان کے آ نے کا در وا
زہ ہے وہ شجر ممنو ع کیطرف لے جا نے وا لی خدا کے قا نون کو تو ڑنے وا لی
اور خدا کی تصو یر مرد کو غا رت کر نے وا لی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کرا ئی سو سٹم:-
جو مسیحت کے او لیا ء کبا ر میں شمار کیا جا تا ہے عو رت کے حق میں کہتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ا یک نا گزیر برا ئی ا یک پیدا ئشی و سو سہ ا یک مر غوب آ فت ا یک
خا نگی خطرہ ا یک غار ت گر د لر با ئی ا یک آ را ستہ مصیبت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان
کے ان نظر یا ت نے ا خلا ق اور معا شر ت میں عورت کی حیثیت حد سے ز یا دہ
گرا دی اور سو سا ئٹی میں عو ر ت کا ر تبہ ہر حیثیت سے پست ہو گیا پھر جد
ید یو ر پ کے ا ٹھا ر و یں صدی عیسو ٰ ی میں یو ر پ کے فلا سفہ اور ا ہل
قلم نے عو رت حما ئیت میں آواز ا ٹھا ئی ان کی مختلف تدا بیر سے ر فتہ رفتہ
عو رتو ں کی وہ قا بلیتیں جو غلط قوا نین معا شرت میں نفا ست پیدا کی ر فا
ہ عا مہ کے بہت سے مفید کا م کیئے صحت عا مہ کی تر قی نئی نسلو ں کی عمدہ
تر بیت بیما رو ں کی خد مت اور فنون خا نہ داری کی نشو و نما یہ سب کچھ اس
بیدا ری کے ا بتدا ئی پھل تھے جو تہذیب نو کی بدو لت عو رتو ں میں رو نما
ہو ئیں پھر نئی مغر بی معا شرت نے جنم لیا جس میں عو رتو ں اور مر دو ں کی
مسا وا ت عور تو ں کا معا شی ا ستقلال اور دو نو ں صنفو ں کا آزادانہ
اختلاط یہ وہ چیز یں تھیں جس نے مغر بی معا شرت کی جڑ یں ہلا کر ر کھ دیں
تین ہزار سال کے تا ر یخی نشیب و فراز کی یہ مسلسل دا ستا ں ایک بڑے خطہ ز
مین سے تعلق ر کھتی ہے جو پہلے بھی دو عظیم ا لشان تہز یبو ں کا گہوا رہ رہ
چکا ہے اور اب پھر جسکی تہذ یب کا ڈ نکا د نیا میں بج ر ہا ہے ا یسی ہی دا
ستان مصر با بل ا یران اور دو سر ے مما لک کی بھی ہے اور خود ہما را ملک
ہندو ستان بھی صد یو ں سے ا فراط و تفر یط میں گر فتار ہے ا فرا ط و تفر یط
کی بھول بھلیا ں میں بھٹکنے وا لو ں کو ا گر عدل کا را ستہ د کھا نے وا لا
کو ئی ہو سکتا تھا تو وہ صرف مسلمان تھا جس کے پاس ا جتما ئی ز ند گی کی سا
ری گتھیو ں کے صیح حل مو جود ہیں مگر د نیا کی تا ر یخ کا یہ بھی ا یک عجیب
درد ناک پہلو ہے کہ اس ا ند ھیر ے میں جس کے پاس چرا غ تھا و ہی کمبخت ر تو
ند کے مر ض میں مبتلا ہو گیا دو سرو ں کو ر ستہ د کھا نا تو در کنار خود ا
ند ھو ں کی طر ح بھٹک ر ہا ہے اور ا یک ایک بھٹکنے وا لے کے پیچھے دو ڑ تا
پھر تا ہے مسلما نو ں کی تا ر یخ کا یہ دور سب سے ز یا دہ شر منا ک ہے اور
یہ ہی دور ہے جس میں پر دے کے سوا ل پر بحث چھڑی مسلما نو ں میں یہ مسئلہ
اس لیئے پیدا ہو ا کہ یو ر پ نے حرم اور پر دہ و نقاب کو نہا ئیت نفر ت کی
نگا ہ سے د یکھا ا پنے لٹر یچر میں اسکی نہا ئیت گھنا و نی اور مضحکہ خیز
تصو یر یں کھیچیں اب کیو نکر ممکن تھا کہ مسلا نو ں کو حسب د ستور اس چیز
پر بھی شر م نہ آ نے لگتی سب سے ز یا دہ قبیح فر یب جو اس سلسلے میں د یا
گیا یہ وہ ہے کہ قرآن اور حد یث سے ا ستد لال کر کے اس تحر یک کو ا سلام کے
مو ا فق ثا بت کر نے کی کو شش کی گئی ہے حا لا نکہ اسلام اور مغر بی تہذ یب
اور تنظیم معا شر ت کے ا صو لو ںمیں ز مین و آ سما ن کا فر ق ہے اسلا م کا
ا صل مقصد عو ر ت کے معا ملے میں نقطہ عدل کو پا نا اور ا سے سمجھنا اور اس
پر قا ئم ہو نا ہے اور نقطہ عدل یہ ہی ہو سکتا ہے کہ ا یک طر ف عو رت کو ا
پنی شخصیت اور ا پنی قا بلیتو ں کے نشو و نما کا پو را مو قع ملے اور اسے
اس قا بل بنا یا جا ئےکہ وہ ز یا دہ سے ز یا دہ تر قی یا فتہ صلا حیتو ں کے
سا تھ ا نسا نی تہذ یب و تمد ن کے ا ر تقا ء میں ا پنا حصہ ا دا کر سکے مگر
دو سر ی طرف اسکو ا خلا قی تنزل و ا نحطاط کا ذر یعہ اور ا نسا نی تبا ہی
کا آ لہ نہ بننے د یا جا ئے بلکہ مرد کے سا تھ ا سکے تعا ون کی ا یسی سبیل
مقرر کر دی جا ئے کہ دو نو ں کا اشتراق عمل ہر حیثیت سے تمدن کے لیئے صحت
بخش ہو اس نقطہ عد ل کو د نیا صد ہا بر س سے تلا ش کر تی ر ہی ہے مگر آج تک
نہیں پا سکی کبھی ایک انتہا کی طرف جا تی ہے اور ا نسا نیت کے پو رے نصف
حصے کو بیکار بنا کر رکھ د یتی ہے کبھی دو سری ا نتہا کی طر ف جا تی ہے اور
ا نسا نیت کے دو نو ں حصو ں کو ملا کر غرق مئے ناب کر د یتی ہے نقطہ عدل نا
پید نہیں مو جود ہے مگر ہزا رو ں سال ا فراط و تفر یط کے د ر میان گر دش کر
تے ر ہنے کی و جہ سے لو گو ں کا سر کچھ ا تنا چکرا گیا ہے کہ وہ سا منے آتا
ہے اور یہ پہچان نہیں سکتے کہ یہ ہی تو وہ مطلوب ہے جسے ہما ری فطرت ڈھو نڈ
ر ہی تھی اس مطلوب حقیقی کو د یکھ کر وہ ناک بھو ں چڑ ھاتے ہیں اس پر آواز
یں کستے ہیں اور جس کے پاس وہ نظر آ تا ہے ا لٹا اسی کو شر مندہ کر نے کی
کو شش کر تے ہیں ان کی مثال اس بچے کی سی ہے جو ا یک کو ئلے کی کان میں
پیدا ہوا ہو اور اور و ہیں جوا نی تک پہنچے ظا ہر ہے کہ ا سکو و ہی کو ئلے
کی ما ری ہو ئی آبو حوا اور و ہی کا لی کا لی فضا عین فطر ی چیز معلوم ہو
گی اور جب وہ اس کان سے نکال کر با ہر لا یا جا ئے گا تو عا لم فطرت کی پا
کیزہ فضا میں ہر شے کو دیکھ دیکھ کر اول اول ضرور ا پرا ئے گا مگر ا نسان آ
خر ا نسان ہے اس کی آ نکھیں کو ئلے کی چھت اور تا رو ں بھرے آسمان کا فرق
محسوس کر نے سے کب تک ا نکار کر سکتی ہیں۔۔۔؟ ا سکے پھیپھڑ ے گند ی ہوا اور
صاف ہوا میں آخر کب تک تمیز نہ کر یں گے۔۔۔۔۔؟ |