ڈاکٹر عبد العزیز ساحر کی ایک قابل تقلید تدوینی کاوش

تدوینی کام بھی' اپنی اصل میں' تخلیقی عمل کا حصہ ہے۔ یہ حد درجہ حساس عمل تو ہے ہی' دوسری طرف انتہائی ذمہ داری کا کام ہے۔ اس کام کی انجام دہی میں' معمولی کوتاہی اور غفلت کی گنجائش نہیں ہوتی۔ معمولی سی کوتاہی اور غفلت' صدیوں کے لیے مخممصے پیدا کر دیتی ہے۔ یہ مخمصے درحقیقت' متن کی تفہیم میں خرابی کا سبب بن جاتے ہیں۔ آتے وقتوں میں' اصل کو کرم کھا چکی ہوتی یا وہ ردی چڑھ چکے ہوتے ہیں یا ان تک رسائی ناممکنات کی وادی میں داخل ہو چکی ہوتی ہے۔ ہونے والے کام آسانیاں پیدا کرنے کی بجائے' بعض لایعنی پچیدگیوں کا سبب بن جاتے ہیں۔

ہمارے ہاں زیادہ تر' ذاتی دل چسپی سے ہٹ کر' تدوینی کام محض خانہ پری کی حد تک ہوا ہے اور یہ ہی کام پچیدگیوں کے دروازے کھولتا آیا ہے۔ ایسا بھی ہوا ہے' صاحب کتاب ہونے کا' نام کے ساتھ لیبل چسپاں کرنے کے لیے' کتاب کا دیباچہ لکھ دیا اور دیباچے میں اپنی کوشش کو بڑھا چڑھا کر پیش کر دیا اور کیا' بس۔ یہ ہی نہیں' خانہ پری کے لیے' دو چار تبصرے لکھوا لیے۔ تبصرہ نگار نے' چوں کہ کتاب کو پڑھا ہی نہیں ہوتا' اس لیے وہ بھی محض ٹوٹل پری کے لیے' مرتب کی ہمتوں اور شخصی اوصاف ہی کو موضوع گفتگو بناتا ہے۔ لوگ ان تبصروں کو مدنظر رکھتے ہوئے' تالیف کی حیثیت و اہمیت کا تعین کرتے آئے ہیں۔

ڈاکٹر عبد العزیز ساحر میرے دیرینہ اور بہت اچھے دوستوں میں ہیں۔ انہوں نے نہایت مہربانی فرماتے ہوئے۔۔۔۔ خیرالاذکار فی مناقب الابرار۔۔۔۔ از مولوی محمد گھلوی مرید خواجہ نور محمد ثانی نارووالہ رح عنایت فرمائی۔ ترتیب و تہذیب اور حواشی لکھنے کی' الله نے موصوف کو توفیق عطا فرمائی۔ کتاب پر' جس محنت اور لگن سے کام کیا گیا ہے' اس کے مطالعہ کے لیے بھی' اس سی یا اس سے بہت قریب کی لگن اور ذوق کی ضرورت ہے۔ میں نے کئی بار پڑھا' غور کیا' ہر بار یہ ہی محسوس کیا' کہ مجھ سا بےچارہ تھوڑ علم' اس پر کیا' کیسے اور کیوں کر بات کر سکتا ہے۔ یہ عرصہ پہلے کی فارسی ہے' اس کے باوجود تازگی اور لسانی حسن میں' رائی بھر فرق نہیں آیا۔ اس میں عصری لسانیاتی سواد اور ذائقہ موجود ہے۔ باطور ذائقہ فقط یہ جملہ اور شعر ملاحظہ فرمائیں:
وروزی در جواب استدعای غلامی کہ در باب باغ نواب غازی الدین گل ہای رنگا رنگ شگفتہ اند' تماشای آن باید کرد۔ این بیت فرمودند کہ:
ما اسیراں را تماشای چمن درکار نیست
داغ ہای سینہ ما کم تر از گلزار نیست

یہ تخلیق' ناصرف ایک عالم فاضل کی ہے' بلکہ ایک بامرشد عامل کی بھی ہے' جو گزرے وقت کے پاکیزہ لمحوں کی یاد دلاتی ہے۔ کردار سازی کے عملی نمونے بھی پیش کرتی ہے۔ بڑے لوگوں کے کرنے اور کہنے کے اطوار وانداز سے' آگاہ کرتی ہے۔ بہت سے ان سنے' مگر کمال کے لوگوں سے' ملنے کے مواقع مہیا کرتی ہے۔
نثر میں' حسن و شیفتگی کے عناصر اجاگر کرنے کے لیے' گاہے بہ گاہے شعر بھی استعمال کیے گیے ہیں' جو حضرت صاحب کے اعلی ذوق کی نشاندہی کرتے ہیں۔ بات یہاں تک محدود نہیں' ان کی جار شعری تخلیقات اس تصنیف کا حصہ ہیں۔ ان میں دو آقا کریم کی نعت ہیں' جب کہ باقی دو غزلیں ہیں۔ ایک نعت فارسی میں' جب کہ دوسری عربی میں ہے۔ اسی طرح ایک غزل فارسی' جب کہ دوسری غزل عربی اور فارسی میں ہے' یعنی پہلا مصرع فارسی' جب کہ دوسرا مصرع عربی میں ہے۔ چاروں شعری تخلیقات کمال کی ہیں. باطور نمونہ صرف تین شعر ملاحظہ ہوں:
تو پادشاہی من گدا' تو قبلہ من قبلہ نما
ای پیشوای مرسلاں مشتاق دیدار تو ام
..............
من بداں حضرت عالی کہ غمش سینہ گداخت
رسم آخر بہ نشاطی کہ بداں دلبر ما بود
گرچہ بدکارم و بیکارم اما بدو صد دل
دارم امید بشاہی کہ نگاہش بگدا بود
ان اشعار کے حوالہ سے' حضرت صاحب کے ناصرف ذوق شعر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے' بلکہ لفظوں کے استعمال کے ہنر سے آگہی' کا بھی پتا چلتا ہے۔

ڈاکٹر عبد العزیز ساحر نے' اس تخلیق کی تدوین کے ذیل میں' اتہتائی ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے۔ ان کے کام میں سلیقہ اور نفاست پائی جاتی ہے۔ مثلا
1- نثری رموز کا خیال نہیں رکھا جاتا تھا' یا پھر یہ مستعمل ہی نہ تھیں۔ میرے پاس میرے بڑوں کے' سو سے ساڑھے سات سوسال کے' اردو' پنجابی اور فارسی مخطوطے پڑے ہیں اور میں ان پر' بساط بھر کام بھی کر رہا ہوں۔ ان میں سے ایک بھی نہیں' جس میں رموز کا استعمال کیا گیا ہو' ڈاکٹر عبد العزیز ساحر نے اس نایاب تخلیق کے' اصل متن میں رموز کا استعمال کرکے' اس کے مطالعہ کو آسان بنا دیا ہے۔ ان کی اس کوشش سے تفہیی پچیدگیوں سے ایک حد تک سہی' نجات مل جاتی ہے۔

2- تذکرے یا اس قسم تخلیقات عموما رواں روی میں لکھی گئی ہوتی ہیں۔ یہ بھی کہ اصل مسودے وقت کی دھول میں کھو گیے ہوتے ہیں۔ کاتب بھی' اپنی علمی کارہ گری میں ہاتھ دکھا گیے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر عبد العزیز ساحر نے مسنگز کو' متن کا حصہ بنانے کی بجائے' بریکٹوں میں درج کر دیا ہے۔
3- قوسین میں مسنگز کے علاوہ:
ا۔ تعظیمی کلمے درج کرکے' ان بزرگوں سے' اپنی محبت اور عقیدت و سعادت مندی کا اظہار کر گیے ہیں۔ بےشک الله بہتر اجر دینے والا ہے۔
ب۔ شخص سے متعلق امرجہ کا اندراج کر دیا ہے۔
ج۔ الله کریم کی ذات گرامی کے ساتھ تعظیمی کلمے بڑھائے گیے ہیں۔
د۔ جہاں محض اشارہ ہے' وہاں متعلقہ کا نام لکھ دیا گیا ہے۔
ھ۔ کیفیت کا بڑی خوبی سے اندراج کیا گیا ہے۔ مثلا
ودو سہ کلمہ در آن حالت و رقص' یہاں قوسین میں جلالت درج کر دیا گیا ہے۔.......بر زبان مبارک می راندند و در فہم من نمی آمدند' اما آن کلمات را فرایاد گرفتم۔ ص۔86
4- لفظوں کو ملا کر لکھنے کا رواج تھا' انہوں نے نثر کو عصری مزاج اور مستعمل انداز میں' پیش کیا ہے۔ اس سے پڑھنے میں' آج کے قاری کے لیے آسانی پیدا ہوئی ہے۔

ڈاکٹر عبد العزیز ساحر نے کام کا دائرہ' متن کی ذمہ دارانہ اور باسلیقہ پیش کش تک محدود نہیں رکھا' بلکہ مقدمہ تحریر کیا ہے. انہوں نے مقدمے کو بارہ حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ اس تقسیم سے' تفیہیم میں اآسانی اور اس پیش کش کی ادبی و فکری قدروقیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔
مقدمے کے پہلے حصہ میں' مولوی گھلوی صاحب کا تعارف اور اس تخلیق کی ذیل میں' ان کی مصروفیات کے بارے میں' معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ ان معلومات کے حوالہ سے' مولوی گھلوی صاحب کی عادات و اطوار اور عمومی رویے سے بھی آگہی دستیاب ہوتی ہے۔ کتب خانہ تونسہ شریف اور کتب خانہ مولانا محمد علی مکھڈ شریف میں موجود سولہ کتب کی فہرست دی گئی ہے۔

مقدمے کے دوسرے حصہ میں' خیرالاذکار کے آخر میں موجود چار منظومات' یہاں الگ سے باطور خاص پیش کی گئی ہیں ابتدا میں ان کے پیش کرنے کی توضیح دی گئی ہے۔

مقدمے کے چوتھے حصہ میں مولوی گھلوی صاحب کے سقر آخر کا احوال بیان کیا ہے۔ اس ذیل میں رانا غلام یسین کے ایک خط کا اقتباس دیا ہے۔ یہ اقتباس اس ذیل میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

مقدمے کے پانچویں حصہ میں' خیرالاذکار کا مختصر تخلیقی تعارف اور اس کے سن تخلیق کے متعلق گفتگو کی گئی ہے۔

مقدمے کے چھٹے حصہ میں' اس تخلیق کی زبان' روحانی حیثیت اور تاریخی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔

مقدمے کے ساتویں حصہ میں' اس تضنیف کی ترتیب وتہذیب میں جن امور کو مدنظر رکھا گیا اور جن جن سورسز کو استعمال کیا گیا ہے' ان کا کمال اختصار کے ساتھ' بیان کیا گیا ہے

آٹھواں حصہ' اختصار کی بڑی ہی شان دار مثال ہے۔ چند سطور میں' مقدمہ کے ساتویں حصہ کے نتائج درج کر دیے گیے ہیں گیا مقدمے کے نواں حصہ میں'خیرالاذکار کی ترتیب وتہذیب کے دوران' جن امور کو مدنظر رکھا گیا' رقم کیے گیے ہیں۔

دسویں حصہ میں جس نسخے کو بنیادی رکھا گیا' اس کی چھے وجوہ درج کی ہیں۔

گیارواں حصہ' ایک تحقیقی وضاحت سے متعلق ہے' جب کہ بارہواں حصہ کتاب کی تکمیل اور احباب کے شکریہ وغیرہ سے متعلق ہے۔

مزے بات یہ کہ مقدمہ قیافی نہیں' جو کہا گیا ہے' دلیل اور سند کے ساتھ کہا گیا ہے۔ متن کو ثقالت سے بچانے کے لیے' حواشی کا اہتمام کیا گیا۔ یہ تعداد میں تیس اور چھے سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہیں۔حواشی سمیت مقدمہ انتیس سے زیادہ صفحات لیے ہوئے ہے۔ کتاب کا اصل متن ص:37 تا ص:99 جاتا ہے۔ کتاب کی ضخامت 141 صفحات ہے۔ ص100 سے 131 تک متن کے متعلق حواشی ہیں۔ ص:132 تا ص:141 پر اشارہ اور کتابیات ہیں۔

خدا لگتی تو یہ ہے' زیر مطالعہ کام اپنی نوعیت کا' پروقار اور پر سلیقہ کام ہے۔ حواشی کیا ہیں' معلومات کا بہتا دریا ہیں۔ ان میں:
1- اشخاص اور اشخاص کے متعلق معلومات فراہم کی گئی ہیں.
2- امرجہ اور ان کی متن سے متعلق اشخاص کی نسبت یا تعلق واضع کیا گیا ہے۔
3- کئی امور کے متلق وضاحتی نوٹ ہیں۔
4- بعض معاملات کی تشریح کی گئی ہے۔
5- بعض کتب کی طرف اشارے ہیں۔
6- بہت سی علمی و ادبی معلومات درج کی گئی ہیں۔
7- کچھ کارگزاریوں کا تذکرہءخیر کیا گیا ہے۔
8- بعض اشعار کے شعرا کے نام درج کیے گیے ہیں۔

ہمارے ہاں فارسی تقریبا ختم سی ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر عبد العزیز ساحر کا کمال یہ ہے' کہ انہوں نے متن کی ترتیب' مقدمہ اور حوشی کے ذریعے' اردو سے متعلق لوگوں کے لیے بھی' اس کا مطلعہ بڑی حد تک آسان بنا دیا ہے۔ اگر ترجمہ بھی ساتھ میں پیش کر دیا گیا ہوتا' تو مزید بہہ جا بہہ ہو جاتی۔ تدوینی کام کرنے والوں کو چاہیے' کہ وہ کام کرنے سے پہلے' اس کاوش کو ایک نظر ضرور دیکھ لیں' بلکہ اسے نمونہ بنانے میں عار نہ سمجھیں۔ اس سے ان کے کام کو وقار اور ثروت میسر آئے گی۔ ڈاکٹر عبد العزیز ساحر اس باسلیقہ اور پر مشقت کار گزاری کے لیے' ڈھیر ساری داد کے مسحق ہیں۔ الله انہیں برکت دے اور اس نیک کام کا بہتر اجر عطا فرمائے۔
 
maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 190962 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.