ریسکیو ون ون ٹو ٹو (مزاحیہ افسانہ)

استاد جنگو شہر کا ایک مشہور ٹانگے ولا تھا۔ اس کے شہرت یافتہ ہونے کی وجہ بس یہی تھی کہ وہ اپنی سواریوں سے مزے مزے کی باتیں کر نے اور ان کو محظوظ کرنے کا ماہر تھا۔اس کے ساتھ جو ایک بار ٹانگے پر سفر کر لیتا دوسری بار اس کی آنکھیں استاد جنگو کو ہی تلاش کر رہی ہوتیں۔

استاد جنگو کا باپ استاد منگو لاہور سے قصور ہجرت کر آیا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات تھی جب لاہور میں رکشوں کی بھر مار نے ٹانگوں کو ان کے دیس ہی میں دیس نکالا دے دیا تھا۔دیس کا مان ہوتے ہوئے بھی ٹانگے بڑے شہروں میں بیگانگی کا طرزِ عمل دیکھ رہے تھے۔ایسا ہمارے ملک کے وطن پسند شہریوں نے ملک کی ہر چیز کے ساتھ کیا : لباس، زبان، کھانے،آداب، سوچیں۔۔۔۔۔۔اگرٹانگوں کے ساتھ ایسا ہو گیا تو کون سی قیامت آگئی۔

استاد جنگو قصور کے چپے چپے سے واقف تھا۔ اس میں اس کا اپنا تجربہ بنیادی طور پر اور اس کے دوستوں کی محفل اور ملاقات ثانوی طور پر ذمہ وار تھیں۔اس منگو نے ہوش سنبھالتے ہی جنگو کو ٹانگے پر کام میں لگا لیا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ پڑھنے لکھنے سے مسائل میں اضافہ ہوتا ہے اور اپنا کام سیکھ لینے سے کسی کے ہاتھوں کی طرف نہیں دیکھنا پڑتا۔اپنا کام شہنشاہی ہوتا ہے کسی کی کان نہیں ہوتی۔ جب جی چاہا کیا جب چاہا نہ کیا۔ایسا نوکریوں میں تو سوچا بھی نہیں جا سکتا۔استاد منگو لاہور کا شعور لے کر قصور آیا تھا اسے حالات کی بہت اچھی سمجھ تھی۔اس نے اپنے اکلوتے بیٹے کی زندگی کو بہت زیادہ پریشانیوں کا شکار ہونے سے بچا لیا تھا۔اوریہ بات استاد جنگو کی زندگی سے دیکھی جا سکتی تھی۔

استاد جنگو کی شادی بھی ہوش سنبھالتے ہی کر دی گئی تھی۔ ایک دور کے رشتہ دار کی طرف جو کہ ایک قریبی گاؤں میں رہتا تھا کی طرف کر دی گئی۔ اس کی شریکِ حیات کافی مضبوط جسامت، اور قد کاٹھ کی مالک تھی۔ استاد جنگو سے کچھ طاقتور ہی تھی لیکن شادی کے ابتدائی سالوں میں گھر میں بہت امن وامان کی، اور باہمی احترام کی فضا برقرار رہی۔ لیکن جیسا کہ ہر شادی میں ہوتا ہے آہستہ، آہستہ محبت اور اپنائیت کے رنگ پھیکے پڑتے گئے اور ایک دوسرے سے دور ہونے کے امکانات بھی کم سے کم ہوتے گئے۔

استاد جنگو قدامت پسند انسان تھا اور یہ بات اسے اپنے باپ استاد منگو سے وراثت میں ملی تھی۔اسی لئے تو نئے رنگوں میں کھو جانے کی بجائے استاد منگو لاہور چھوڑکر قصور جیسے پسماندہ شہر میں پناہ لینے آگیا تھا۔یہی سرشت استاد جنگو کی بھی تھی اگرچہ نوجوانی میں اسے اپنا باپ اتنا عقل مند نہیں لگتا تھا، لیکن جیسے جیسے وقت گذرا اس کا باپ اس کی نظروں میں عظیم سے عظیم ہوتا گیا اور جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوا تو وہ استاد جنگو کی نظر میں ایک ولی اﷲ سے کم نہیں تھا۔ اگر استاد جنگو کے پاس رقم ہوتی تو اس کا مزار ضرور بنوا دیتا۔لیکن اس نے اتنا ضرور کیا کہ اپنے باپ کے پیشے کو ہی اپنا حتمی پیشہ قرار دیا اور ساری عمر وہی کام اسی ٹانگے میں رہ کر جوا س کا مرحوم بزرگ باپ چھوڑ کر گیا تھا کرنا کا تہیہ کر لیا۔ استاد ان لوگوں میں سے تھا جو جب ایک بار ارادہ کر لیں پھر دنیا چاہے ادھر سے ادھر ہو جائے وہ نہیں بدلتے۔

استاد جنگو وقت کی یونیورسٹی میں پڑھنے والا انسان تھا وہ بظاہر ان پڑھ ہی تھا لیکن وہ اپنے آس پاس ہونے والی تبدیلیوں کو ایک غیر ملکی جاسوس کی طرح انتہائی غور سے دیکھا کرتا تھا اور ان تبدیلیوں کے آنے والی نسلوں پر پڑنے والے اثرات بھی اس کی نظروں سے اوجھل نہیں رہا کرتے تھے۔ وہ اپنے یار دوستوں کی کمپنی میں استاد کے مقام پر فائز تھا۔اور واقعی اس میں استادوں والی دور اندیشی تو کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔اسے اچھی طرح علم تھا کہ ہر عروج کا ایک زوال بھی ہوتا ہے اور زوال کسی وقت عروج میں بھی بدل جاتے ہیں۔ہر شادی کا انجام بھی شادی ہو ضروری تو نہیں۔ وہ اپنے محلے اور یار دوستوں کے گھروں کے مسائل بھی خوش اسلوبی سے نپٹادیا کرتا تھا۔ ہر کوئی جانتا تھا کہ استاد جنگو دل کا کھرا انسان ہے وہ ہر کسی کے لئے دل میں بھلائی اور خیر خواہی ہی رکھتا ہے۔

استاد جنگو کو اﷲ نے دو بیٹوں کی نعمت سے نوازا تھا جن کی شادیوں کے فرض سے وہ عہدہ برا ہو چکا تھا اور ان دونوں بیٹوں کو اس نے علیحدہ علیحدہ مکانات دے کر خود مختار ریاستوں کی حیثیت سے آزاد بھی کر دیا تھا یہ اس کی دانائی کا منہ بولتا ثبوت تھا کہ ہر کوئی اس کو سراہتا تھا کہ اس نے اچھا کیا ہے۔ وہ اور اس کی بیوی ابھی صحت مند تھے، انہیں دوسروں کے دست نگر ہونے کی کیا ضرورت تھی۔اس کی بیوی چاہتی تھی کہ ایک بیٹا اس کے ساتھ رہے لیکن استاد جنگو زمانے کے چلن جانتا تھا۔اور نئی تعلیم کے ثمرات سے معاشرہ میں آنے والی تبدیلیوں کا نبض شناس تھا۔اب کوئی بے وقوف ہی ہو گی جو اپنے سسرال والوں کی خدمت کو اپنے ماں باپ کی خدمت سمجھے۔

استاد جنگو رکشوں کو ٹانگوں کا ازلی دشمن گردانتا تھا جو ہر میدان میں ٹانگوں کو پچھاڑتے جا رہے تھے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ہی رکشے آن کی آن میں بھرنے لگے اور ٹانگے والے بچارے سواریوں کو بلاتے بلاتے ہلکان ہو جاتے اور پھر جا کے ٹانگہ چلنے کا قابل ہوپاتا۔ یہ صورتِ حال استاد جیسے ٹانگے کے شیدائی کے لئے بڑی تکلیف دہ تھی۔لیکن حالات پے کس کا بس چلتا ہے۔وہ بس سوچتا چلیں کوئی بات نہیں ہماری زندگی تو گذر لاہی چکی ہے اب نئے لوگ جانیں اور ان کا کام جانے، ہمیں کیا۔اس کا رکشوں کے خلاف ذہن اس وقت کچھ نرم پڑا جب ایک دن اس کے دونوں بیٹے بھی ٹانگے بیچ کر رکشے ہی لے آئے۔

ایک بڑی تبدیلی جو حالات میں رونما ہو چکی تھی وہ ایمبولینسوں کا ہارن بجانا اور تیز رفتاری سے ادھر سے ادھر پھرتے رہنا تھی۔ اس جنگو نے لوگوں سے سنا کہ یہ بھی انسانوں کے فائدے کے لئے چلائی گئی ہیں۔ جب کوئی حادثہ ہو جائے تو یہ زخمیوں کو فوراً ہسپتال لے جانے کے لئے آجاتی ہیں۔ استاد جنگو نے کئی ایک مواقع پر دیکھا بھی کہ یہ ایمبولینسیں زخمیوں کو بہت اچھے طریقے سے سنبھال لیتی ہیں۔اب ان لال لال تیز رفتار گاڑیوں کی تعداد بھی کافی ہو گئی تھی اور اکثر کسی نہ کسی طرف سے ان کے ہارن بجانے کی آوازیں سنائی دیتی رہتی تھیں۔ استاد صاحب جب بھی یہ ڈراؤنے ہارن سنتے خوف زدہ ہو جاتے اور فوراًدل ہی دل میں دعا مانگے لگتے کہ خدا خیر کرے، سب کا بھلا ، سب کی خیر کا کلمات اکثر اس کی زبان پر جاری ہو جاتے۔ اس کا پکا عقیدہ تھا کہ کسی کا بھلا مانگنے سے ہی اپنا بھلا ہوتا ہے۔ وہ جب بھی کسی ایمبولینس کو دیکھتا اس خوف آجاتا۔

اس کا یہ خوف بھی آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا۔اس نے ایسے بہت سے واقعات سن لئے تھے جن میں ایمبولینس ون ون ٹوٹو نے کاروائی کر کے کئی ایک لوگوں کی جان بچائی تھی۔وہ یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ آجکل بہت سے لوگوں کو ہارٹ اٹیک بھی ہو جاتے ہیں اور ایمبولینس ہر کسی کے بلانے پر اس کی مدد کرنے پہنچ جاتی ہے۔اگر کہیں لڑائی جھگڑا ہو اور لوگ زخمی ہو جائیں تب بھی یہ مدد کر سکتی ہیں، اگر کہیں کوئی مصیبت میں پھنس جائے اور ان کو بلائے تو بھی یہ حاضر ہو جاتی ہیں۔ بس انہیں ایک فون کال کی ضرورت ہوتی ہے۔چنانچہ استاد جنگو نے ایک موبائل فون بھی لینے اور اس کا طریقہ سیکھنے کا ارادہ پکا کر لیا۔

استاد جنگو جو ابھی پورا طریقہ نہیں آیا تھا کہ ایک دن اس کا اپنی بیوی کے ساتھ کسی پرانی بات پر جھگڑا ہو گیا۔ اوروں کو نصیحت اور خود میاں فضیحت والی بات استاد جنگوں کو کبھی کبھی بڑا شدید غصہ آجایا کرتا تھا۔ اس کی بیوی سے لڑائی ہاتھا پائی تک آتے آتے رہ جایا کرتی تھی ، بہت سے پنجابی مردوں کی طرح استاد جنگو کا غصہ بھی بہت ’بہیڑا‘ تھا۔ غصے میں اسے اپنے اوپر اختیار نہیں رہ جایا کرتا تھا۔لیکن اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس کی جورو اس سے زیادہ جور بھی رکھتی ہے صرف نام کی جورو نہیں ہے۔لیکن اب اسے پتہ نہیں کدھر سے اتنی بے باکی آئی ہوئی تھی وہ بڑھ چڑھ کے لڑائی کو شدید کرنے اور آگے بڑھانے کی باتیں کر رہا تھا۔ا س کی بیوی نے کچھ وقت تو برداشت کیا لیکن جب دیکھا کہ آج استاد کو سبق سیکھانے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے تو اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ جھٹ سے اس پر کود پڑی اسے نیچے گرا لیا اور خود اس پر ایسے براجمان ہو گئی جیسے کوئی سدہائے ہوئے گدھے یا گھوڑے پر بیٹھ جاتا ہے۔ استاد جنگو کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ وہ منوں بوجھ تلے دبا جا رہا تھا۔ اس کی بیوی اس کے خوب کڑاکے نکال رہی تھی اور اسے نانی یاد دلا رہی تھی۔ استاد صاحب نے اس کرین جیسی ہستی کو پرے ہٹانے کے لئے بڑی جان ماری لیکن زبردست کے آگے کس کا سب چلتا ہے۔استاد کے منہ پر ایک دو’ کسُن‘ بھی رسید ہو چکے تھے اور اس کے حواس خطا ہونے کی طرف رواں دواں تھے۔اسے فوراً یاد پڑا کہ اس کے پاس تو موبائل ہے ۔ اس نے نکال کر کان سے لگایا اور بولا ’ریسکیو ون ون ٹوٹو‘۔اس کی بیوی نے یہ دیکھا تو اس اور بھی غصہ آگیا اس نے اسے پکڑ کے اور جھنجھوڑا اور کہا کہ ’یہ کیا رَن رَن تو توکہہ رہے ہو، کون ہے وہ نخاپنی‘اور ساتھ ہی استاد کو ایک دو مکے اور رسید کر دیئے۔استاد ’بوندل‘ یعنی بیہوش سا ہو رہا تھا۔ اس کے منہ سے اب صرف ’ رن رن تُوتُ۔۔۔۔۔۔۔و‘ ہی نکل رہا تھا۔ اس کی بیوی نے اس کے منہ سے کان لگا کر غور سے سنا تو اس کا غصہ محبت میں بدل گیا وہ تو اپنی اکلوتی بیوی کی تعریف کر رہا تھا۔استاد جنگو تو پہلے ہی ہلے میں اپنی کدورت بھول چکا تھا۔ اب اس کی بیوی کا جوشِ شجاعت بھی ٹھنڈا ہو چکا تھا۔استاد اپنے تصورِ لا شعوری میں ’ریسکیوون ون ٹوٹو‘ کے تیزی سے بجتے ہارنوں کو گونج سن رہا تھاجبکہ اس کی بیوی اس سے اتر کر اس کے لئے پانی لینے جا رہی تھی ۔
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 285263 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More