وہ ہمارے قائد تھے۔۔۔۔!
(Farrukh Shahbaz Waraich, Lahore)
ہمارے قائد کی شخصیت کتنی بلند
تھی،سمجھ میں نہیں آتا کس رخ پہ بات کروں کس پر نہ کروں۔ایسی عظیم شخصیت پر
بات کرنا اتنا آسان کبھی بھی نہیں رہا۔بے شمار صفات ہیں قلم مگر بے بس ہے۔
سچ پوچھیں تو قائداعظم کی سب سے بڑی صفت اْن کی حقیقت پسندی ہے۔ وہ قوم کی
صحیح قوت کو سمجھتے تھے۔وہ جانتے تھے قوم کے جذبات کیا ہیں، قائد کاسب سے
بڑا کمال یہ ہے کہ کم قوت سے بڑا مقصد حاصل کرلے۔ قائداعظم کا کمال یہی تھا
کہ ہر موقع پر اتنی ہی قوت استعمال کرتے جتنی ضرورت ہوتی۔ انھیں جذبات پر
بڑا قابو تھا۔بے شمار واقعات ہیں،آزادی صحافت کے لیے قائد کے جذبات کیا تھے۔
الطاف حسین مدیر ڈان کہتے ہیں
’’یہ واقعہ یاد کر کے میرا سر اظہار تشکر میں جھکتا اور احساس فخر سے بلند
ہو جاتا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد کراچی میں ایک طویل گفتگو کے موقع پر انھوں نے میرے
اخبار کے افتتاحیہ مقالوں میں آزادی رائے کی ضرورت پر زور دیا۔ میں نے ایک
مضمون لکھا جسے چھپے لفظوں میں قائداعظم پر اعتراض سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
وہ اس کا مطالعہ فرما چکے تھے۔ اْسی روز شام کو اْن سے ملنے کا اتفاق ہوا۔
انھوں نے صرف اتنا کہا: ’’میں تمہارا مضمون پڑھ چکا۔‘‘
کچھ دیر بعد اْن کی زبان مبارک سے وہ الفاظ نکلے جنھیں میں تمام صحافیوں کے
لیے آزادی کا منشور سمجھتا ہوں۔ انھوں نے فرمایا:
’’کسی موضوع پر غور کرکے اپنے دل میں فیصلہ کرو۔ اگر تم اس نتیجہ پر پہنچ
چکے کہ ایک خاص نظریہ یا اعتراض پیش کرنا ضروری ہے تو بالکل وہی لکھ ڈالو
جو حقیقتاً تم نے محسوس کیا۔ کبھی پس و پیش نہ کرو‘ اس خیال سے کہ کوئی
ناراض ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ اپنے قائداعظم کی ناراضی کی بھی پروا نہ کرو۔‘‘
اس سے زیادہ قدر و منزلت ہمارے پیشے کی اور کیا ہو سکتی ہے؟ حقیقتاً ایک
عظیم المرتبت ہستی ہی یہ الفاظ ادا کر سکتی ہے۔سیاست میں اخلاقیات کا جنازہ
نکل چکا ہے،ہمارے قائد اصول پسندی اور اخلاقیات پر کتنی توجہ دیتے
تھے۔سیاست میں اخلاقیات کی ان کے نزدیک کیا اہمیت رکھتی تھی،ایچ اے صفحانی
کی زبانی سنیے ’’بنگال قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ہونے والے تھے۔ میں
مسلم چیمبر آف کامرس کلکتہ کی طرف سے امیدوار تھا۔ نامزدگی کی تاریخ سے صرف
دو روز پہلے چیمبر کے ایک رکن نے اپنی نامزدگی کے کاغذات داخل کرا دیے۔
چیمبر کے پرانے ارکان اور راہنما سب سٹپٹا گئے۔ انھوں نے اْسے سمجھایا
بجھایا اور دباؤ بھی ڈالا۔ مگر اْس نے کاغذات واپس لینے سے انکار کر
دیا۔اْن دنوں قائداعظم کلکتہ میں میرے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ایک شام ہم گاڑی
میں سیر کر کے واپس آئے تو عبدالرحمن صدیقی جو ایک آزمودہ سیاست دان
اورمیرے دیرینہ دوست تھے‘ دوڑے دوڑے آئے اور بتایا کہ وہ مخالف سے ملے تھے۔
لمبی چوڑی گفتگو کے بعد وہ شخص کاغذاتِ نامزدگی واپس لینے پر آمادہ ہو گیا
ہے۔ شرط یہ رکھی کہ جو دو صد پچاس روپے فیس کے جمع کرائے ہیں‘ اْسے دے دیے
جائیں۔قائداعظم اپنے کسی خیال میں مستغرق تھے۔ انھوں نے بات نہ سنی۔ صدیقی
سے فرمایا کہ وہ اپنے الفاظ دہرائیں۔ صدیقی صاحب نے حکم کی تعمیل کی۔ پھر
کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح قائداعظم کے ملامت بھرے الفاظ ہمارے دل و
دماغ میں پیوست ہو گئے:’’روپیہ ادا کر دو گے؟ ایک امیدوار کو بٹھانے کے
لیے‘بالواسطہ رشوت؟ نہیں‘ کبھی نہیں۔اْسے جا کر یہ کہہ دو کہ تمہاری پیش کش
مسترد کر دی گئی ہے۔ حسن تمہارا مقابلہ کرے گا۔‘‘عبدالرحمن صدیقی لمحہ بھر
کے لیے بھونچکا رہ گئے۔ پھر سنبھلے اور عرض کیا: ’’میں آپ کا پیغام پہنچا
دوں گا۔‘‘ اور چلے گئے۔ ہم عقبی برآمدے میں چلے آئے اور آرام کرسیوں پر
بیٹھ گئے۔قائداعظم مجھ سے مخاطب ہوئے: ’’میرے بچے! اْسے یہی جواب ملنا
چاہیے تھا۔ سیاست میں اخلاق کی پابندی نجی زندگی میں اخلاقی اصولوں پر
کاربند رہنے سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اس لیے کہ اگر تم نے عوامی زندگی میں
کسی غلط کام کا ارتکاب کیا‘ تو اْن لوگوں کو نقصان پہنچاؤ گے جو تم پر
اعتماد کرتے ہیں۔‘‘یہ ہمارے قائد تھے جن کی اصول پسندی، ایمانداری،دلیری
اور بے باک رائے کا اعتراف دشمن بھی کرتے تھے۔ جب مسلمانوں نے چاہا کہ مسلم
لیگ کے صدر کا سالانہ انتخاب ختم کر کے قائداعظم ہی کو مستقل صدر بنانے کی
قرارداد منظور کرائی جائے۔
انھوں نے جواب دیا:
’’نہیں۔ سالانہ انتخابات نہایت ضروری ہیں۔ مجھے ہر سال آپ کے سامنے آ کر آپ
کے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا چاہیے۔‘ |
|