معصوموں پر حیوانیت

16؍دسمبر کو یہ کیا سانحہ ہوگیا؟ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ انسانیت شرما گئی، کلیاں مرجھا گئی، پاکستان میں جاری خانہ جنگی میں معصوموں کو شہید کیا جا رہا ہے۔ ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں عوام اور بچے مر رہے ہیں۔ اچھے بُرے کی تمیز سے نابلد بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس انسانیت سوز حرکت کو انجام د ے کر اعتراف بھی کیا جا رہا ہے۔ بڑے پیمانے پر کی گئی اس شیطانی حرکت پر سارا ملک بلکہ پڑوسی ملک سمیت دنیا بھر کے لوگ تلملا اُٹھی ہے۔اس سانحہ پر ساری دنیا میں شدید الفاظ میں مذمت کی جا رہی ہے۔ مہذب سماج غم میں ڈوب گیا ہے۔ جدھر دیکھو خون میں لت پت معصوم بچوں کی لاشیں نظر آ رہی تھیں۔ بچوں کے ہاتھوں کی کتابیں خون میں ڈوب چکی تھیں۔ سبز یونیفارم میں اپنی ماؤں کے ہاتھ تھامے اسکول کا بیگ لے کر اسکول پہنچے طلبہ کا صرف ایک گھنٹے میں ختم کر دیا جانا انسانیت کو شرمسار کرنے کے لئے کافی ہے۔اس حادثہ کے بعد والدین اس امید کے ساتھ کہ اپنے نونہالوں کو زندہ دیکھ پائیں گے کہ نہیں اسکول کی طرف دوڑ پڑے۔ جب بچوں کی لاشوں کو باہر لایا جا رہا تھا۔ والدین رشتہ داروں کی آہ و بکا فضاء کو مغموم کر رہی تھی۔ نیم فوجی یونیفارم پہنے سات سے آٹھ لوگ پشاور کے وارسک شاہراہ پر قائم آرمی اسکول میں داخل ہوئے اور کم عمر بچوں کو نشانہ بنا کر دہشت گرید کا ننگا ناچ دکھایا۔2008ء میں بھی کراچی میں ایک ایسی ہی کاروائی میں 150سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ کراچی ایئر پورٹ پر دہشت گردی کے حملے کے بعد حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کے خلا ف ضربِ عضب کے نام پر بڑے پیمانے پر فوجی کاروائی شروع کی گئی، فوج کے مطابق شمالی وزیرستان اور قبائلی علاقوں میں اٹھارہ سو سے زائد دہشت گردوں کو ختم کیا گیا۔ دوسری طرف پاکستان بھر میں دہشت گردوں کے ہاتھوں اسکول کے طلبہ قتل کئے جا رہے ہیں۔

پشاور میں اسکول کے بچوں کی اندھا دھند ہلاکت پر دنیا غمزدہ ہے اور ہر ملک کی جانب سے بجا طور پر دکھ کا اظہار کیا گیا۔ پڑوسی ملک میں بھی ان بچوں کی شہادت پر دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ سانحہ پشاور میں ایک بچہ شاہد آفریدی بننے کی خواہش لئے اس دارِ فانی سے رخصت ہو چکا ہے۔میڈیا کے مطابق دل میں کرکٹر بننے کا خواب لئے پلاسٹک ڈیلر کا بیٹا سید عبد اﷲ شاہ بھی آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے میں شہید ہو گیا جبکہ اس کا دوسرا بھائی شدید زخمی ہوگیا ۔ زخمی طالب علم کے بھائی کا کہنا ہے کہ اس کے شہید بھائی کو کرکٹ کا بہت شوق تھا اور وہ ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ وہ شاہد آفریدی کی طرح کرکٹر بن کر کھیل کی دنیا میں اپنے ملک کا نام روشن کرے گا لیکن اس کا یہ خواب دہشت گردوں نے چکنا چور کر دیا۔

قدرت نیوز کے مطابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے دہشتگردی کے خلاف ایکشن پلان پر فوری عمل در آمد کے لئے متعلقہ حاکم کو ہدایات جاری کر دی ہیں۔ اس موقع پر پاک فوج کے سپہ سالار کا کہنا تھا کہ پاک افواج ملک میں دہشتگردی کے خاتمے کے لئے پُر عزم ہے اور سیاسی قیادت نے ملک کو دہشتگردی سے نجات کے لئے جس عزم کا اظہار کیا ہے وہ قابلِ تحسین ہے۔انہوں نے بھی کہا کہ دہشتگردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔یہ بات بھی حقیقت ہے کہ قائد اعظم کا دیس آج لہو لہو ہے، ہر طرف آہ و فغاں ہے، ایسے موقعے پر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ افواج پاکستان بھی سینہ سپر ہے اور بجا طور پر عوام کو بھی چاہیئے کہ وہ وطنِ عزیز کی حفاظت کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں۔

اب تو پشاور وارسک روڈ کا المیہ بیتے لگ بھگ دس روز گزر چکے ہیں لیکن وہاں کی فضا آج بھی سوگوار ہے، وہاں ہر آنکھ اب بھی اشک بار ہی ہے، یہ ایسا زخم ہے جسے مندمل ہوتے ہوتے وقت لگ جائے گا، سانحہ بھی تو دل ہلا دینے والا تھا، ایک سو چونتیس معصوم اور کم عمر طلبہ اور ان کی استادوں کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ بلاشبہ تاتاری حملہ ہی ہے۔ ان بچوں کے لئے قرآن خوانی ہورہی ہے، ایصالِ ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کی جارہی ہے، اس کے علاوہ چراغ بھی روشن کئے جا رہے ہیں۔ موم بنیا جلائی جا رہی ہیں اور ان سے ہمدردی کی کے لئے چند منٹوں کی خاموشی بھی اختیار کی جا رہی ہے۔ چلیں کسی بھی طرح یہ قوم متحد تو ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ملک میں جاری دہشت گردی کو روکنے کے لئے پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی تمام جماعتوں کے رہنماؤں کا اجلاس کامیابی سے ہو چکا ہے اور غالباً اٹھارہ نکاتی ایجنڈا بھی منظور کیا جا چکا ہے، جس کا اعلان وزیراعظم نے اپنے قوم سے خطاب میں کر دیا ہے۔ مگر دیکھنے اور سوچنے والی بات یہ ہے کہ اس پر عملد رآمد کب ہوگا۔ وزیراعظم صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ سانحہ پشاور کے بعد کا پاکستان بدل چکا ہے، جس میں دہشت گردی، انتہا پسندی، فرقہ واریت اور عدم برداشت کی کوئی گنجائش نہیں۔ سب ہی جانتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے تابوت والدین کے کندھوں پر کتنے بارِ گراں تھے۔ ہمیں نہ صرف دہشت گردی بلکہ دہشت گردانہ سوچ کا بھی خاتمہ کرنا ہوگا۔ خصوصی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ بھی اس سلسلے میں اہم پیش رفت ہے جس کا ٹائم فریم دو سال رکھا گیا ہے۔

ویسے تو تاریخ کا دامن بے شمار المناک ظلم اور بربریت کے داغوں سے لدا ہوا ہے۔ مگر سانحہ پشاور پر ہر آنکھ سوگوار ہو گئی ہے۔بچے ڈر اور خوف سے میز کے نیچے چھپ چکے تھے مگر وہاں بھی انہیں تلاش کرکرکے نشانہ بنایا گیا،قیامت سے قیامت کا منظر ہوگا وہاں۔ شاعر نے کیا خوب کہہ دیاہے:
پھول دیکھے تھے جنازوں پر ہمیشہ شوکت
کل میری آنکھ نے پھولوں کے جنازے دیکھے

بلاشبہ انسانی تاریخ کا یہ دلخراش سانحہ ہے، جس نے نہ صرف اہلِ پاکستان بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کے دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اور اہلِ پاکستان کے تو بنیادوں کو ہی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پورے ارضِ پاک میں کہرام بپا ہے۔ معصوم پھولوں کو زندگی سے دور کر دیا گیا جو کل بڑے ہوکر اس ملک کا سرمایہ افتخار ہونے والے تھے۔ جب کوئی شخص اپنی زندگی سے مایوس ہو جائے یا افسردہ ہو تو وہ بھی بچوں کو دیکھ کر کھلکھلا اُٹھتا ہے، مگر یہاں تو معصوم بچوں کو ہی ابدی نیند سلا دیا گیا ہے۔

صرف پاکستان ہی نہیں افغانستان، عراق میں بھی دہشت گرد اسکولی بچوں کو نشانہ بنتے آئے ہیں۔ اس طرح کے واقعات کو دوبارہ وقوع پذیر ہونے سے روکنے لئے سارے عالم کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ اتحاد کے ذریعہ ہی ظلم و جبر کا خاتمہ ممکن ہے۔ اس سمت میں اقوامِ متحدہ جیسی تنظیموں کو کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 368200 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.