کاش ہم کچھ کر سکتے!

سوشل میڈیا پر حالیہ حملے کے حوالے سے اس قدر بحث و مباحث چل رہا ہے کہ جسے دیکھ کر یوں لگتا ہے حملے نے پوری پاکستانی قوم کو متاثر کیا ہے۔ کچھ کی بحث اس بات پر ہے کہ اس حملہ کا سبب مذہبی جماعتیں، رہنماء اور علماء کرام ہیں، تو کچھ اسے غیر مذہبی اور ملک دشمن عناصر کی سازش قرار دیتے اور تبصرہ کرتے نظر آرہے ہیں۔ جہاں تک سوال ہے کہ اس حملے کا درد کسے کسے اور کہاں کہاں محسوس ہوا تو شاید کہ ملک کی کوئی مذہبی یا سیاسی جماعت ہوگی جس نے سخت الفاظ میں مذمت نہیں کی ہو، باقی تو سب نے گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کیا اور غائبانہ نماز جنازہ بھی ادا کیں۔ تاہم مذہبی منافرت پھیلانے والے گروہ اور افراد اس وقت سوشل میڈیا اور دیگر فورم پر کھل کر اپنا اظہار کر رہے ہیں۔

میڈیا سے منسلک ایک خاتون نے سوشل میڈیاکی ویب سائٹ پر اپنا اسٹیٹس اپڈیٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’مذہب کو سیاست سے علیحدہ ذاتی معاملہ بنایا جائے۔ تمام مذہبی اور تبلیغی جماعتوں پر پابندی عائد کی جائے، تمام مدارس کو تالے لگا کر فقہہ کی تمام کتب دریا راوی میں بہا دی جائیں(کیوں کہ ) یہ کتابیں رہنمائی کم اور شورش زیادہ پھیلاتی ہیں اور جدید علوم کی نظر میں متروک کا درجہ پانے کے لائق ہیں (حالانکہ) قرآن مجید مکمل ضابطہ حیات ہے)۔ قرآن و حدیث کی تعلیم کو اسکولوں میں لازمی قرار دے کر بچوں کی دینی تربیت کا انتظام کیا جائے․․․․․․‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کچھ دیگر افراد بھی اپنی اپنی جگہ مختلف انداز میں تبصرہ فرما رہے ہیں۔ ایک صاحب جنہوں نے اس حملے کو مکمل طور پر بیرونی سازشوں کا پیش خیمہ قرار دیا ہے۔
ممکنہ منافرت پھیلانے والی مذہبی جماعتوں اور اجتماعات کو تنقید کا نشانہ بنانے اور پابندی جیسے مطالبات کرنے والے خود یہ نہیں سوچ رہے کہ آیا وہ خود کتنے بڑے پیمانے پر نفرتوں کے بیچ بو رہے ہیں۔ مذکورہ تنقیدی جملوں کا یہاں تذکرہ کرنے کا مقصد صرف اتنا تھا اس قسم کے جملوں کا اظہار کرنے والی یہ خاتون خود ایک اچھی رائٹر ہیں اور ان کا ایک اچھا خاصا حلقہ احباب ہے۔ اب اگر یہ عوامی سطح پر اس قسم کی نفرت بھرے جملوں کا اظہار کریں گی تو شاید نفرتیں کم نہیں بلکہ اور بڑھیں گی اور اس کا اندازہ ان جملوں پر آنے والے کمنٹس سے باخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

قارئین کرام! وطن عزیز پر حالیہ حملوں کی مذمت کے لئے الفاظ نہیں ہیں․․․․․ تاہم اب جو کچھ سوشل میڈیا پر ہورہا ہے وہ ان حملوں کو شہہ دینے کے برابر ہے۔ کوئی حملہ آوروں کے قلابے کہیں جوڑ رہا تو کوئی کہیں ان کا سراغ لگاتا پھر رہا ہے۔ اگر ان حملوں پر غیر ضروری تبصرے کرنے اور خواہ مخواہ میں فرقہ بندی کو ہوا دینے سے گریز کیا جائے تو شاید شہیدوں کے حق میں اس سے بہتر کوئی صلہ نہیں ہوگا۔ اپنے الفاظ کا اچھا استعمال شاید ان ماؤں کے زخموں پر مرہم نہ بھی بن پائیں تو کم از کم ان کے نمک پاشی بھی ثابت نہیں ہونگیں۔

ایک یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ سوشل میڈیا پر بیشتر لوگ ایسے بھی ہیں جو ان شہید بچوں اوران کے والدین کے لئے برے نہیں تو کم ازکم اچھے الفاظ بھی خرچ نہیں کرنا چاہتے، تاہم ایسے بھی بہت سے افراد ہیں جو صبح شام ان کے لئے بہت کچھ لکھ رہے ہیں۔ان کے یہ جملے، الفاظ اور تمام نیک تمنائیں اور دعائیں یقینا اجر عظیم ثابت ہوں گی تاہم کچھ لمحوں کے لئے ہم سوچیں کہ کہیں ہم بھی تو قاتل نہیں ہیں۔

کیا ضروری ہے کہ قتل عام ہو توہم کسی کے لئے کچھ اچھے جملے کہیں، دوبول پیار و خلوص کے بولیں، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم ان شہداء کے لئے کچھ کر سکیں تو کیوں نہ ہم آج سے اپنے اردگرد میں پھیلے برائی کے اڈوں کو صاف کریں۔ ہم ان بچوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے ارد گرد کے بچوں کا خیال رکھیں۔ ناجانے کتنے ہی ایسے بچے ہیں جو آج کسی نہ کسی مجبوری کے تحت اسکول نہیں جا پاتے۔ کیا ہم نے کبھی ان بچوں کی مجبوری کو سمجھنے کی کوشش کی؟ کیا ہم ان بچوں کی تھوڑی سی مدد کر کے انہیں وہ وردی اور وہ حق دلا سکتے ہیں، جن کو ہم سے دہشت گردوں نے چھین لیا۔ خون کے دھبوں کو ان وردیوں سے دھو کر کسی اور دوسرے بچے کو پہنا سکتے ہیں۔ یقینا ہم اگر یہ سب کر گئے تو ہم نے واقعی میں ان ننھے شہداء کے لئے کچھ کردیا ، جو کہ ہم کرنا چاہتے ہیں۔

سوشل میڈیا کی ویب سائٹس پر ہر روز اپنے نرم گرم بستر وں اور کمروں میں بیٹھ کر ہمدردی کرنے کے ساتھ اگر تھوڑی باہر نکل کر دیکھیں تو شاید ہم بہت کچھ عملی میدان میں بھی کر پائیں۔ اﷲ ہمارا ہامی و ناصر ہو، آمین

Arif Ramzan Jatoi
About the Author: Arif Ramzan Jatoi Read More Articles by Arif Ramzan Jatoi: 81 Articles with 69474 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.