حکمتِ عملی

عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ کوئی بھی قدم اٹھانے یا کسی بھی کام کے آغاز سے پہلے انجام یا ممکنہ پیش آنے والی مشکلات پر سنجیدگی اور گہرائی سے ایک نظر ڈال لینی چاہئے، آج پاکستان میں افغانیوں کے خلاف نعرے مارے جارہے ہیں کہ انہیں افغانستان واپس بھیجا جائے لیکن یہ ناممکن ہے کیونکہ حکومتوں نے ٹھوس اور پائیدار حکمت عملی اپنائی ہوتی تو آج پاکستان کو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔

پشتو ایک تاریخی زبان ہے ہر پشتو بولنے والا نہ تو پٹھان ہے نہ پاکستانی اور نہ ہی اس کا تعلق پشاور ،سوات ،کوہاٹ یا ایبٹ آباد سے ہے کیونکہ جب تک اسکے آباؤ اجداد کے بارے میں جانکاری نہیں ہو گی کوئی وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ پاکستانی پشتون ہے ، افغانی ہے یا کسی دوسرے ہمسایہ ملک سے تعلق رکھتا ہے، پاکستان میں کئی بے ترتیبیوں میں سب سے بڑی بے ترتیبی آئی ڈی(شناختی سسٹم) ہے جو نہایت کمزور ہے کرپشن کی بدولت ہر کوئی ایرا غیرا غیر ملکی شناختی کارڈ بنوا لیتا ہے اور اپنے آپ کو پٹھان یا پاکستانی کہلواتا ہے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک عام انسان جب اپنے معاملات کو سوچ بچار کے بعد حل نہیں کر سکتا تو اپنے قریبی رشتہ داروں یا دوست احباب سے رابطہ کرتا ہے اور شاید مخلص افراد کی امداد سے اس کے مسائل یامعاملات اگر مکمل حل نہیں بھی ہو پاتے تو کم سے کم صلاح مشورہ کا کوئی گُر اس کے معاملات کے لئے آسانی پیدا کر دیتا ہے، آج تک پاکستانی حکومتوں نے کبھی بھی حکمت عملی سے کام نہیں لیا روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے سوچے سمجھے بغیر تمام بارڈر کھول دئے،اور ان اوپن ڈورز سے جنگ زدہ افغانیوں کے علاوہ نہ جانے کن کن غیر ملکیوں نے پاکستان میں قدم جمائے،وقت اور حالات کبھی ایک سے نہیں رہتے ،حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں اور بدستور غیر ملکی پاکستان میں داخل ہوتے رہے ،دور کوئی بھی رہا ہو بات حکمت عملی کی ہوتی ہے انہیں بے شناخت غیر ملکیوں نے بومب بلاسٹ کئے اور کئی جانوں کا نقصان ہوا مشرف دور میں سات لاکھ افغانیوں کو راہداری دی گئی ،جنرل کیانی دور میں نہ جانے کن کن ممالک سے غیر ملکی پاکستان میں داخل ہوئے اور کسی سے کوئی پوچھ گاچھ نہیں ہوئی کہ بھائی آخر تم ہو کون؟ اور آج سے چند ماہ قبل جنرل راحیل کے ایکشن نے آئی ڈی پیز کم اور دہشت گردوں کے لئے زیادہ راستے ہموار کئے، کیا حکومتیں اور ان کے ایڈوائیزر یا انٹیلی جینس ایجنسیاں نہیں جانتیں کہ ایسے ناقص انتظام کرنے سے ملک کا انجام کیا ہو گا؟امریکا یا کسی یورپی ملک نے پاکستانی حکومت پر دباؤ نہیں ڈالا کہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ملیامیٹ کرو اور اپنے بارڈرز بھی کھلے رکھو تا کہ جس کا جی چاہے پاکستان میں داخل ہو اور بلاسٹ کرے، آج اگر افغانی یا اسلام کے نام پر چند غدار عناصر بدلہ لینے کیلئے پاکستان میں دھماکے کرتے ہیں اور بے گناہوں کو مار دیا جاتا ہے تو اس میں کسی عام افغانی یا پاکستان کا قصور نہیں حکومتوں کی نااہلی ہے اور جب تک ٹھوس حکمت عملی قائم اور اس پر عمل نہیں کیا جائے گا نعرے مارنے سے نہ افغانی واپس جائیں گے اور نہ بلاسٹنگ کا سلسلہ کم
ہو گا، سانپ کی لکیر پیٹنے اور ’’ اگر مگر ‘‘ سے مردے زندہ نہیں ہو جاتے۔

آج کل جرمنی بھی پاکستان جیسے حالات سے دوچار ہے فرق صرف اتنا ہے کہ جرمنی میں شناختی سسٹم پاور فل اور قانون کی اجارہ داری کے علاوہ حکومت کی پائدار حکمت عملی کا مکمل عمل دخل ہے کہ چار لاکھ سے زائد غیر ملکیوں کی آمد کے باوجود ریاست میں امن و امان اور سکون ہے، جرمنی میں غیر ملکیوں کے ساتھ جو واقعات پیش آئے یا موجودہ دور میں رونما ہوتے ہیں اس پر کتاب لکھی جا سکتی ہے ایک یا دو صفحات سیاہ کرنے سے کسی کے معاملات حل نہیں کئے جا سکتے اور نہ ہی بے گناہوں کی جانوں کا ازالہ ہو سکتا ہے اس لئے حکمت عملی اور آغاز سے پہلے انجام سوچ لینا چاہئے۔

جرمنی کے ہفت روزہ میگزین نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا کہ تارکین وطن کی آمد سے ریاستی امور اور مقامی باشندوں پر کون سے مثبت یا منفی اثرات پڑے اور تارکین وطن یہاں مستقل رہائش کے خواہش مند ہیں یا محض سوشل ریاست ہونے اور لاتعداد مراعات سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں،تحقیق کے مطابق جرمنی یورپ کا واحد ملک ہے جہاں ہر بے روزگار فرد کو ماہانہ وظیفہ کے علاوہ بچوں کے اخراجات کیلئے بھی ادائیگی کی جاتی ہے،دیگر یورپی ممالک میں بینیفٹ کی گنجائش نہ ہونے ، روزمرہ کے معاملات اور معیار زندگی ناقابل قبول ہونے پر بیشتر تارکین وطن جرمنی کا رخ کرتے ہیں،جرمنی میں بے روزگاری الاؤنس کے علاوہ دیگر کئی مراعات شامل ہیں جن سے نہ صرف جرمن باشندے بلکہ غیر ملکی بھی مستفید ہوتے ہیں،قانون کی اجارہ داری ہونے کے باوجود کئی ملکی و غیر ملکی باشندے غیر قانونی جاب کرتے اور حکومت سے وظیفہ بھی لیتے ہیں، رپورٹ میں تفصیلاً بتایا گیا کہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر جرمنوں کے اندر شدید غم و غصہ کے تاثرات کے علاوہ شرمندگی کا عنصر پایا جاتا تھا وہ اپنے آپ کو قصور وار سمجھتے تھے لیکن جمہوریت اور قوانین کی بالا دستی نے انہیں متحد کیا ،تباہ کاری کے بعد ہمت و محنت کی اور دنیا میں اعلیٰ مقام حاصل کیا،ملکی ترقی کی راہ میں انہیں غیر ملکیوں کی ضرورت محسوس ہوئی تو پہلے غیر ملکی نے قدم رکھا جسے مہمان کارکن کا لقب دیا گیا، حکومت نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ ’’ خوش آمدید تارکین وطن ‘‘ لیکن ہم آپ کو جرمن شہریت نہیں دیں گے، شاید غیر ملکیوں سے نفرت یا ناپسندیدگی کی وجہ ایڈولف ہٹلر تھا کیونکہ وہ بھی ایک غیر ملکی (آسٹرین ) تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک وہ دور تھا جب مہمان کارکن آئے اور جرمنی کی ترقی میں جوق در جوق شرکت کی کئی تارکین وطن نے اپنے قدم جمانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکے دوسرا تارکین وطن کا دور دیوارِبرلِن کے منہدم ہونے کے بعد شروع ہوا اور اس دور کے بعد جرمن باشندوں میں رفتہ رفتہ نرمی پیدا ہوئی جبکہ کچھ جرمن دیوارِ برلِن کے گرائے جانے سے شدید اختلاف رکھتے تھے اس دور میں ترکوں کی آمد جاری تھی جن میں کُرد قوم بھی شامل تھی عراق جنگ کے دوران کئی عراقی کُرد غیر قانونی شام اور ترکی داخل ہوئے اور ترکی دستاویزات حاصل کرنے کے بعد جرمنی کا رخ کیا،اس دور میں جرمن قوم ترکوں سے نفرت کا اظہار کرتی اور انہیں حقارت سے دیکھا جاتا لیکن ملکی و بین الااقوامی قوانین جن میں انسانی حقوق کا احترام لازمی قرار دیا ، نفرت کی آگ بتدریج ٹھنڈی ہوئی اور معاملات اپنی ڈگر پر رواں ہوئے۔

میگزین کا کہنا ہے آج تقریباً پچیس سال بعد جرمنوں میں کافی تبدیلی رونما ہوئی ہے اب کوئی تارکین وطن سے نفرت یا حقارت ، غم و غصہ کا اظہار نہیں کرتا اور نہ ہی کسی پشیمانی میں مبتلا ہے ، برلِن انسٹی ٹیوٹ برائے مائیگریشن ریسرچ نے گزشتہ دنوں آٹھ ہزار دو سو جرمن باشندوں سے انٹرویو کئے اور ایک خاص سوال کہ کیا آپ اپنے ملک ، سیاست اور بالخصوص تارکین وطن کی حکومتی پالیسی سے خوش اور مطمئن ہیں تو سب کا ایک ہی جواب تھا کہ ہم اپنے ملک ،ملکی سیاست اور حکومتی حکمت عملی برائے تارکین وطن سے خوش ، مطمئن اور مکمل اعتماد کرتے ہیں،دوسرے سوال میں سب کا ایک ہی جواب تھا کہ جرمن شہریت حاصل کرنے کیلئے قطعاً ضروری نہیں کہ تارکین وطن یا ان کے آباؤ اجداد کا تعلق جرمن قوم سے ہویا وہ جرمن ہوں بلکہ یہ سب سے زیادہ اہم ہے کہ انہیں جرمن زبان پر مکمل عبور حاصل ہواور ہمارے معاشرے کو قبول کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں وہ دنیا کے کسی بھی ملک یا خطے سے تعلق رکھتا ہو، ہم جانتے ہیں کہ موجودہ حالات میں جرمنی پر بہت دباؤ ہے یورو کرائیسس ،توانائی بحران اور خطوں کی جنگوں نے بہت مشکلات میں ڈال دیا ہے لیکن جرمنی کو مثبت کردار ادا کرنا ہے ہماری حکومت اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہے، دوسری جنگ عظیم کے بعد گزشتہ سال تارکین وطن کی بہت بڑی کھیپ کی جرمنی آمد ہوئی تقریباً چار لاکھ پینسٹھ ہزار تارکین وطن نے جرمنی میں پناہ کی درخواست دی جن میں ایک لاکھ پچیس ہزار مختلف بحرانوں اور عراق ، شام ،افغانستان کے علاوہ یوکرائن کی جنگوں سے متاثرہ باشندے شامل ہیں ،ہمیں فخر ہے کہ جرمن حکومت امیگریشن سسٹم کو بخوبی حل کرنے کا ہنر جانتی ہے،ہم کسی بھی تارکین وطن کے خلاف نہیں بلکہ چاہتے ہیں اگر قومی و صوبائی سطح پر کہیں مسائل یا پیچیدگیاں پیدا ہوں تو انہیں خوش اصلوبی سے حل کیا جائے لیکن تارکین وطن کو بھی چاہئے کہ ہمارے قوانین کا احترام کریں۔
گو افغانی گو کی بجائے گو جمہوریت گو زیادہ بہتر نعرہ ہے ،ایسی ریاست جہاں روز سو پچاس بے گناہ افراد مار دئے جائیں وہاں کسی جمہوریت، آمریت کی نہیں بلکہ انسانیت اور قومی یک جہتی کی اشد ضرورت ہے۔

Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 246105 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.