میں آج اکیلے میں بیٹھی یہ سوچ رہی تھی کیسا رہا یہ سال
تو دماغ اک لفظ " چینج " پر رک گیا . سوچا کیا انسان کچھ بدلنے کے لیے
ہمیشہ تاریخ اور وقت بدلنے کا انتظار کرتا رہے گا ؟ کیا ہمیشہ ہر کام کو
کرنے کے لیے کے ہم یہی سوچتے رہیں گے کے کوئی اور آگے بڑھ کے ہماری مدد کرے
گا ؟ زیادہ دور نہیں ہم اپنی ذات کو ہے لیتے ہیں ، جب کوئی بہت اپنا بچھڑ
جاتا ہے تو تب بھی ہم یا تو وقت کا سہارا لیتے ہیں یا کسی دوسرے اپنے کو
تلاش کرنے لگ جاتے ہیں . ہر دفعہ نیا سال بالکل ایسا ہی ہوتا ہے جیسے آنے
جانے والے سیاست دان یا پِھر جیسے لوگوں کے مزاج ہوتے ہیں جو ہمیں کچھ نہ
کچھ سیکھا جاتے ہیں وہی سیکھ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کے سیکھ اگر بھیک
میں بھی ملے تو لے لو . اب اِس سال ہمیں ہر گزرتے دن کے ساتھ صرف ضرورت ہے
خود کو سمجھنے کی اور خود کی بہتری کو جس دن سمجھ لیا اس دن بہتری آئے گی
پِھر چاھے وہ ملک کے لیے ہو یا خود اپنی ذات کے لیے . |