پشاور والے سانحے پر جو بھی کہا جائے کم ہے کیونکہ دنیا
کا کوئی بھی مذہب خواہ اس کے عقائد کیسے ہی کیوں نہ ہو اس میں بچوں کواس
طرح ظلم وستم کا نشانہ نہیں بنایا جاتا۔پاکستان میں ابھی تک دکھ کی کیفیت
ختم نہیں ہوئی کہ جیسے جیسے میڈیا میں خبریں آتی ہیں ویسے ویسے دکھ تازہ
ہوجاتا ہے ۔اللہ ان سب شہیدوں کی شہادتیں قبول فرمائے اور لواحقین کو
صبرجمیل عطا فرمائے۔ (آمین)
سوال یہ ہے کہ کیا اس معرکے کو جو کہ ہم پر ہمارے دشمنوں نے اکٹھے ہو کر
’’الکفر ملۃ واحد‘‘ کے مصداق ہم پر مسلط کردی ہے ۔ کیا ہماری افواج اکیلی
ہی سر کرسکتی ہیں ؟ جبکہ ہمارا دشمن اس جنگ کو میدان جنگ سے اٹھا کر فکری
لحاظ سے بھی ہم پربہت دیر پہلے سے ہی مسلط کرچکا ہے کہ جس کا خمیازہ ہم اب
بھگت رہے ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں سے کچھ لوگ ان لوگوں کی باتوں
میں آ کر اپنے ہی لوگوں کو ہی خون میں نہلا رہے ہیں کہ جس میں اب ہمارے
بچوں اور عورتوں کی تمیز بھی انہوں نے ختم کردی ہے۔ افواج پاکستان کاکام
ہماری سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے اور الحمدللہ ہماری افواج ان میں بہر طور پر
پوری ملت کفر کا اللہ کی توفیق سے احسن طریقے سے نا صرف مقابلہ کررہی ہے
بلکہ منہ طور جواب بھی دے رہی ہے۔ کیا ملک کی حفاظت کرنا صرف افواج کی ذمہ
داری ہوتی ہے؟
فکری لحاظ سے ہم ابھی تک ان کا مقابلہ نہیں کرسکے یا اس طرف ہماری توجہ
مبذول نہیں ہوئی۔ ہمارا نوجوان تقریباّ 5 سے 6گھنٹے تک روزانہ کسی نہ کسی
شکل میں سوشل میڈیا استعمال کرتا ہے اور ٹی ۔وی وغیرہ اس کے علاوہ ہے کہ جس
پر ہم میں سے اکثریت انہی کے چینلز دیکھتی ہے کہ جن کو ہم اپنی دعاؤں میں
اپنے اللہ سے کہتے ہیں کہ اللہ اسلام وپاکستان کے دشمنوں کو نیست ونابود
کردے ۔ آج کا نوجوان بہر حال ان سب معاملات سے اگر کلی طور پر نہیں تو جزوی
طور پر آگاہ ضرور ہے۔ ہمارے نوجوان نسل کے سامنے سوشل میڈیا کا مقصد صرف
ٹائم پاس کرنا رہ گیا ہے یا پھر سیاست دانوں کی حمایت میں دوسرے مسلمانوں
کو برابھلاکہنا۔ بہت کم لوگ ہیں جو سوشل میڈیا کا استعمال اپنے نظریے اور
دشمنوں کو جواب دینے کے لئے استعمال کررہے ہیں ۔ حکمرانوں کو ہر بات کا ذمہ
دار ٹھہرا کر ہم لوگ سکون سے سوجاتے ہیں کیا پاکستان صرف اور صرف حکمرانوں
کا ہے اور اس میں جو بھی بہتری کرنی ہے انہوں نے ہی کرنی ہے ہمارا کام صرف
اور صرف تنقید کرنا ہی رہ گیا ہے؟
ہمارا دشمن ہم پر اتنا زبردست وار کرچکا ہے کہ جس کی مثال حالیہ ہونے والا
سانحہ پشاور ہے۔ ہمارے ارباب اختیار کی ذمہ داری تو بنتی ہے کہ وہ فکری
محاذ پر بھی خصوصی توجہ دیں ۔ جبکہ یہ ہم سب کا بھی فرض ہے کہ قوم کو اس
دلدل سے نکالنے کی کوشش کریں جبکہ ان نام نہاد مسلمانوں کو کہ جو اپنے سوا
سبھی کلمہ گو بھائیوں کو کافر اور واجب القتل کہتے ہیں ان کو ان کی اصل جگہ
پر پہنچادیا جائے اور ان نام نہا د علماء کو بھی عقل کے ناخن لینے چاہئیے
کہ وہ کن کی حمایت کررہے ہیں کہ جو اسلام سے ہٹ کر بھی کسی مذہب سے نہیں
لگتے ۔ ہمیں اپنی نسل کو اس فکری جنگ سے بچانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر
اقدامات کرنے ہونگے تاکہ کہیں صرف پاکستان میں نام کا ہی اسلام اور نام کے
ہی پاکستانی نہ رہ جائیں۔ اسلام امن و سکون کا دین ہے یہ اسلام ہی تھا جس
نے زندہ درگور ہوتی بیٹیوں کو زندگی بخشی ،یہ اسلام ہی تھا کہ جس نے جنگ
میں بھی انسان دوست قوانین متعارف کروائے اور یہ بھی اسلام ہی تھا کہ جو
اپنے دشمنوں کی آل اولاد کی بھی ذمہ داری اپنے سر لے لیتا تھا۔ اسلام آج
بھی وہی ہے جو محمد عربیﷺنے بتایا تھا صرف اسلام کوبدنام کرنے والے اس کا
استعمال کررہے ہیں کیوں کہ ان کو پتہ ہے کہ اگر اسلام کے نام لیوا اس کی
تعلیمات پر عمل کرنا شروع کردیں تو پوری دنیا میں اسلام کے نام لیوا سب سے
زیادہ ہو ں گے۔ان کو ڈر پاکستان کی عوام سے نہیں ان کو ڈر صرف اور اسلام کے
نام پر بننے والے پاکستان سے ہے۔
ہم کو اپنی غلطیاں بھی تسلیم کرنی چاہئیے اور ان کا ازالہ کرتے ہوئے تمام
مذہبی وسیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوکر ان خوارج اور ان کے
سرکردہ لوگوں کے خلاف سخت سے سخت اقدامات کرتے ہوئے اسلام کا صحیح رخ دنیا
کے سامنے لانا چاہئیے یہ صرف جنگ کے میدان میں ممکن نہیں اس میں ہمارے عمل
کا بھی عمل دخل ہے ۔ قومیں بہت کم اسطرح کسی فورم پر یک زبان ہوتی ہیں اس
وقت ہماری قوم ان دہشت گردوں کے خلاف ناصرف متحد ہے بلکہ افواج پاکستان کے
شانہ بشانہ لڑنے کو تیار کھڑی ہے ۔اس قوم کو فکری لحاظ سے اپاہج بننے سے
بچانے کے لئے ہمیں اپنا تعلیمی اور علماء صاحبان کو اپنے خطابات میں اسلا م
کے وہ زریں اصول سامنے لانے ہونگے کہ جن کی وجہ ہندوستان کے ہندو ابن قاسم
رحمۃاللہ علیہ کو دیوتا گردانتے تھے۔ حالانکہ ابن قاسم صرف اور صرف اسلام
کے نام لیوااور اسلام کی تعلیمات پرعمل پیرا تھے۔
عوام کوبتائیں کہ یہ کون لوگ کون ہیں اور ان کی اصلیت کیا ہے اور قرآن
وحدیث میں ان کے متعلق کیا حکم ہے تاکہ عوام ان خوارج کے خلاف اور ان کے
نظریات کے خلاف جدوجہد تیز کرسکیں اور نسل کو ان گمراہوں سے بچایاجاسکے۔
تعلیمی اداروں کے نصاب میں اس کے متعلق مواد شامل کیا جائے تاکہ ہمارے
دشمنوں کے گھناؤنے وار کامقابلہ کیا جاسکے۔ |