حضور سرورعالم شفیع معظم،راحت
جاں،سائرلامکاں، وجہ تخلیق کائنات فخرموجودات جناب سیدنا ومولانامحمدمصطفیٰ
کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے موقع پر دنیابھرکے مسلمان
خوشی کااظہارکرتے ہیں۔اس خوشی میں جن وبشر اورملائکہ سمیت کائنات کی ہر
ہرچیزشامل ہوتی ہے۔حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ تاجدارکائنات صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کی ولادت کے مبارک سال رب کائنات عزوجل نے آسمان دنیاپر کئی طرح
کے معجزات کوظہوربخشا،آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے موقع پر سورج
،چانداورستاروں کو خصوصی نورعطاہوااوران کو روشن تر فرمایاگیا،ساراسال عرب
کی عورتوں کو بیٹے عطاہوئے کہ عرب کے جاہلانہ دستورکے مطابق کوئی بچی ناحق
قتل نہ کردی جائے۔اسی طرح جب آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت
ہوئی تو کعبۃُ اﷲ میں رکھے ہوئے تین سوساٹھ بت اوندھے منہ گر گئے،ایک
ہزارسال سے جلنے والافارس کاآتش کدہ بجھ گیا،کسریٰ کے محل کے چودہ کنگرے
ٹوٹ گئے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ حضور نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
ہرپیرکو روزہ رکھ کراﷲ عزوجل کے حضور اظہارتشکرکرتے ہوئے اپنی ولادت پر
خوشی منائی۔اسی پاک سنت پر عمل کرتے ہوئے امت کا جمہور اپنے پیارے آقا صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت پر اﷲ رب العالمین کے حضور اظہارتشکرکے
لئے خوشی کااظہارکرتے ہیں۔اہل اسلام ہرزمانے میں اپنے اپنے اندازسے جشن
عیدمیلادالنبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم مناتے چلے آرہے ہیں اور وعدہ الٰہیہ (
ترجمہ:اورآپ ﷺ کی ہر آنیوالی ساعت پچھلی ساعت سے بہتر ہے) کے مطابق
عیدمیلادالنبی ﷺ منانے والوں میں اضافہ ہوتاجارہاہے ۔امت کا جمہورہمیشہ
عیدمیلادالنبی ﷺ مناتاچلاآرہاہے،آپ ﷺ کے یوم میلاد،ماہ وسال پر اتفاق ہے کہ
آپ ﷺ کی ولادت باسعادت پیرکے دن عام الفیل ربیع الاول میں ہوئی۔تاریخ
میلادکے حوالے سے بھی امت کا جمہور 12پرمتفق ہے،مگربعض ناعاقبت اندیش لوگ
تاریخ عیدمیلادالنبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے غیرمعروف اقوال پیش
کرکے امت میں اختلاف کا باعث بن رہے ہیں۔جو لوگ حضورسرورکائنات شافع
محشرﷺکی ولادت باسعادت پر خوشی کے اظہارسے محروم ہیں یاخوشی کااظہارکرنے
والوں کایہ عمل پسندنہیں کرتے ،ہمیں ان سے کوئی سروکارنہیں۔ہم توامت کے
جمہورکی بات کرتے ہیں‘کہ ہم خالصتاًاﷲ جل مجدُہ‘ کی رضااور جناب رسالت مآب
صلی اﷲ علیہ وآلہ و سلم کی خوشنودی ورحمت کے طلبگاربن کر رب العالمین سے
نیک عمل کی توفیق اورہدایت وکامرانی کاراستہ اوربروزحشرآپ صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کی شفاعت کبریٰ سے حصہ چاہتے ہیں۔آج ہم ان سطورکے ذریعے حضور
سرورکائنات صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی’’ تاریخ ‘‘پربحث
کرناچاہتے ہیں کہ کیاآپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت بسعادت بارہ ربیع
الاول شریف کو ہی ہوئی ہے یایہ مبارک تاریخ کوئی اور ہے؟پہلی روایت: حضرت
امام ابوبکر بن ابی شیبہؒ روائت کرتے ہیں کہ ’’عقان ؒسے روائت ہے، وہ
سعیدبن مینارؒسے روائت کرتے ہیں اوروہ حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ‘ اور
حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ‘ سے راوی ہیں کہ یہ دونوں جلیل القدرصحابی
یعنی حضرت جابربن عداﷲ انصاری رضی اﷲ عنہ‘ اورسیدالمفسرین حضرت عبداﷲ ابن
عباس رضی اﷲ عنہ‘ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت
باسعادت عام الفیل میں پیرکے روزبارہ ربیع الاول کوہوئی۔(سیرۃ النبویہ لابن
کثیر جلد 1 صفحہ 199 ‘البدایہ والنہایہ جلد2 صفحہ 260 )۔اس روائت کی سندبھی
صحیح ہے۔اس کے پہلے راوی امام ابوبکر بن ابی شیبہؒ حضرت امام بخار یؒ اور
حضرت امام مسلم ؒکے استادہیں۔یہ دونوں جلیل القدرآئمہ محدثین کی تصریحات کی
روسے ثقہ حافظ ہیں۔متصل سندکے ساتھ حضرت امام بخاریؒ نے 22 روایات صحیح
بخاری اور حضرت امام مسلم ؒ نے 1528روایات صحیح مسلم میں،امام نسائی ؒ نے 2
روایات سنن نسائی میں،امام ابوداء ود نے 60 روایات سنن ابوداء ود میں
اورابن ماجہ نے 151 روایات سنن ابن ماجہ میں نقل کی ہیں۔اس روائت کے دوسرے
راوی عقان ؒ ہیں جوکہ بلندپایہ امام ثقہ اور صاحب ضبط تھے۔ خلاصۃ التہذیب
‘صفحہ 268 ‘ امام عجلی ؒ نے کہاکہ وہ ثقہ اورصاحب سنت تھے۔تہذیب التہذیب
جلد7‘صفحہ 231 ‘امام ابن معینؒ نے ان کو صاحب الحدیث بلندپایہ میں
شمارکیاہے۔امام ذہبی ؒ نے کہا کہ وہ مشائخ الاسلام میں سے تھے۔تیسرے راوی
سعیدبن مینارؒ ہیں۔امام ابن معین ؒ اورامام ابوحاتم ؒ نے ان کو ثقہ کہا۔ابن
حبان ؒنے ثقات میں شمارکیا۔امام نسائی ؒ نے الجرح والتعدیل میں ثقہ
کہا(تہذیب التہذیب جلد4صفحہ 91 )وہ ثقہ تھے۔اس روائت کو نقل کرنے کے
بعدامام ابن کثیرؒ لکھتے ہیں کہ’’جمہورعلماء کے نزدیک یہی مشہورہے‘‘(سیرۃ
النبویہ جلد1صفحہ 199 )۔دوسری روائت: حضرت سعید بن جبیرؒ نے حضرت عبداﷲ بن
عباس رضی اﷲ عنہ‘ سے روائت کیاہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی
ولادت باسعادت عام الفیل میں پیرکے روز ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو
ہوئی۔(تلخیص المستدرک ،جلد 2 صفحہ 603 )۔حضرت امام ابن جریر طبریؒ نے تاریخ
طبری،جلد 2 صفحہ 125 پرلکھاہے‘رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت
باسعادت پیرکے روز ربیع الاول کی بارہویں تاریخ کو ہوئی۔السیرۃ النبویہ
لابن ہشام ‘ جلد 1 صفحہ 181 میں امام ابن ہشام ؒ نے محمدبن اسحاق ؒ کا قول
نقل فرمایا ہے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت پیرکے دن
بارہویں ربیع الاول کوعام الفیل میں ہوئی۔محدث ابن جوزیؒ ’’الوفا‘‘جلد1
صفحہ 90 میں لکھتے ہیں’’امام ابن اسحاق ؒ نے فرمایا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت پیرکے دن بارہ ربیع الاول کو عام الفیل میں
ہوئی۔امام ابن اسحاق کا یہ قول معتبر کتب ’’سبل الھدی والرشاد،شعب الایمان
بہیقی،السیرۃ النبویہ مع الروضۃ الانف‘‘ میں بھی موجود ہے۔ امام ابن جوزیؒ
نے’’بیان المیلاد النبوی‘‘ اور’’مولدالعروس ‘‘اور اپنی دیگرکئی کتب میں
سرکار کل عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تاریخ ولادت بارہ ربیع الاول
کوقراردیاہے۔مؤرخ شہیرعلامہ ابن خلدونؒ تاریخ ابن خلدون میں رقم طرازہیں کہ
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت نورانی عام الفیل کوبارھویں ربیع
الاول کوہوئی۔’’عیون الاثر میں امام ابوالفتح محمدبن عبداﷲ بن محمدبن یحیٰ
بن سیدالناس الشافعی الاندلسی ؒ لکھتے ہیں کہ ہمارے سردار اور ہمارے نبی
حضرت محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت پیرکے روز بارہ
ربیع الاول شریف کو عام الفیل میں ہوئی۔امام، ابن حجرمکی ؒ ’’النعمۃ
الکبریٰ علی العاصم ‘‘میں لکھتے ہیں ’’اورآپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی
ولادت باسعادت پیرکی رات بارہ ربیع الاول کوہوئی۔مستدرک میں امام المغازی
محمدبن اسحاق ؒ سے روائت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت
باسعادت بارہ ربیع الاول کو ہوئی۔امام برہان الدین حلبی سیرت حلبیہ میں
لکھتے ہیں کہ حضرت سعیدبن مسیب ؓ سے روائت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کی ولادت باسعادت بہارنہارکے قریب یعنی وسط میں ربیع الاول کی بارہ
تاریخ کو ہوئی۔جلیل القدر محدث حضرت امام بہیقی ؒ نے دلائل النبوت بہیقی
میں لکھاہے کہ ’’رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پیرکے دن عام الفیل میں
ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو پیداہوئے۔جلیل القدر محدث حضرت امام ابن حبان
ؒ سیرۃ النبویہ واخبارالخلفاء میں لکھتے ہیں کہ امام ابو حاتم نے فرمایاکہ
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت عام الفیل کے سال پیرکے
دن بارہ ربیع الاول کوہوئی۔محدث جلیل حضرت امام سخاوی ؒ التحفۃ اللطیفۃ میں
لکھتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم عام الفیل رببیع الاول پیرکے
دن فجرکے وقت بارہ کی رات پیداہوئے۔اعلام النبوۃ میں امام ابوالحسن علی بن
محمد ماوردی ؒ ( متوفی 450ھ )رقم طرازہیں کہ عام الفیل میں واقعہ کے پچاس
روزبعد اور اپنے والدگرامی ؓ کے وصال کے بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
ماہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو پیداہوئے۔شواہدالنبوت فارسی میں مولانا
جامیؒ لکھتے ہیں کہ ولادت رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بتاریخ بارہ
ربیع الاول بروزپیر واقعہ فیل سے پچیس دن بعدہوئی۔شارح بخاری حضرت امام
قسطلانی مواہب الدنیہ میں لکھتے ہیں ’’اورمشہورہے کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم پیرکے روز بارہ ربیع الاول کو پیداہوئے۔ماثبت بالسنۃ ،مدارج
النبوت میں محقق علی الاطلاق،مجددعصر حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ لکھتے
ہیں’’اورکہاگیاہے کہ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت بارہ ربیع
الاول ہے اور یہی مشہور قول ہے‘‘۔معروف اہلحدیث عالم نواب محمدصدیق حسن
بھوپالی’’الشمامۃ العنبریہ من مولد خیرالبریہ ‘‘میں لکھتے ہیں کہ ’’ولادت
شریف مکہ مکرمہ میں وقت طلوع فجرکے روز دوشنبہ دوازہم دہم ربیع الاول عام
فیل کو ہوئی۔جمہورعلماء کاقول یہی ہے ابن جوزیؒ نے اس پر اتفاق نقل
کیاہے‘‘۔کتاب ’’رحمت عالم‘‘میں معتبر دیوبندی عالم سید سلیمان ندوی لکھتے
ہیں کہ (آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم )پیدائش بارہ تاریخ کو ربیع الاول کے
مہینے میں ییرکے دن حضرت عیسیٰ ؑ پانچ سو اکہتر برس بعدہوئی۔دیوبندی عالم
اشرف علی تھانوی بیان کرتے ہیں کہ ’’جمہورکے موافق بارہ ربیع الاول تاریخ
ولادت شریف ہے‘‘۔دیوبندی قاری محمدطیب کے فرزند محمداسلم قاسمی لکھتے ہیں
کہ ’’بارہ ربیع الاول پیرکے روز بیس تاریخ اپریل 571ء کو صبح کے وقت جناب
آمنہ ؓ کے یہاں ولادت ہوئی‘‘۔ولی رازی اپنی غیرمنقوط سیرت کی کتاب ’’ہادی
عالم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’سال مولود کے ماہ سوم کی دس اور دو ہے ‘‘جماعت
اسلامی کے بانی مولانامودودی لکھتے ہیں کہ’’ربیع الاول کی کون سی تاریخ ہے
اس میں اختلاف ہے لیکن ابن ابی شیبہ نے حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ اور جابر بن
عبداﷲؓ کاقول نقل کیاہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بارہ ربیع الاول کو
پیداہوئے اس کی تصریح محمدبن اسحاقؒ نے کی ہے اورجمہوراہل علم میں یہی
تاریخ مشہور ہے۔’’سیرت مبارکہ‘‘ میں دیوبندی عالم سیدمحمدمیاں ندوی لکھتے
ہیں‘ ربیع الاول کی بارہ تھی۔یہاں امام اہلسنت مجدددین وملت الشاہ امام
احمدرضاخاں فاضل بریلی رحمۃ اﷲ علیہ کے حوالہ سے ایک غلط فہمی کا ازالہ بھی
نہائت ضروری ہے۔آپؒ کی طرف سے بعض لوگ عبارت کا نامکمل حصہ بیان کرکے
مغالطہ ڈالنے کی دانستہ کوشش کرتے ہیں۔حالانکہ امام اہلسنت احمدرضاخان فاضل
بریلویؒ کے الفاظ کچھ اسطرح ہیں۔آپؒ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’نطق الہلال بارخ
ولادالحبیب والوصال(حبیب خداصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تاریخ ولادت ووصال
پرہلال کی گواہی)میں لکھتے ہیں کہ ’’ذی الحجہ حجۃ الوداع شریف جب عمراقدس
حضور پُرنورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے تریسٹھواں سال تھا ذی الحجہ میں
آیاتو12‘12کے اسقاط سے جب عمراقدس سے تیسراسال تھاذی الحجہ میں
ہوااوردوسراسال ذی القعدہ اورپہلاسال شوال‘ولادت شریفہ رمضان اورسال
استقرارحمل مبارک شعبان میں لیکن ان نامنتظموں کی کوئی بات منظم نہ تھی جب
جیسی چاہتے کرلیتے‘لٹیرے لوگ جب لُوٹ چاہتے اورمہینہ اُن کے حسابوں اشہرحرم
سے ہوتا‘اپنے سردارکے پاس آتے اورکہتے اس سال یہ مہینا حلال کردے‘وہ حلال
کردیتا‘اوردوسرے سال گنتی پوری کرنے کو حرام ٹھہرادیتا ’’کمارواہ ایتاء
جزیروالمنذرومردسیہ وابی حاتم عن ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما‘‘(جیساکہ اس
کو جریر‘منذر‘مدویہ اورابوحاتم کے بیٹوں نے سیدناابن اعباس رضی اﷲ تعالےٰ
عنہما سے روائت کیا)تواس سال جمادی الآخرہ میں ذی الحجہ ہوناکچھ
بعیدنہیں۔واﷲ تعالیٰ اعلم‘‘فائدہ:سائل نے یہاں تاریخ سے سوال نہ کیا کہ اس
میں اقوال بہت مختلف ہیں دو‘آٹھ‘دس‘بارہ‘اٹھارہ‘بائس‘سات قول ہیں
مگراشہرواکثروماخوزومعتبربارھویں(12)ہے۔مکہ معظمہ میں ہمیشہ اسی تاریخ مکان
مولداقدس کی زیارت کرتے ہیں’’کماہوفی المواھب والمدارج ‘‘جیساکہ مواہب
الدنیہ اورمدارج النبوۃ میں ہے ۔اور خاص مکان جنت نشان میں اسی تاریخ محفل
میلادمقدس ہوتی ہے۔اعلیٰ حضرت اپنے مشہورزمانہ قصیدہ نورمیں فرماتے ہیں‘
بارہ برجوں سے جھکا ایک اک ستارہ نورکا
بارھویں کے چاندکامجراہے تارانورکا
علامہ قسطلانی وفاضل زرقانی فرماتے ہیں ’’مشہورہے کہ حضورانورصلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم بارہ ربیع الاول بروزپیرپیداہوئے‘امام المغازی محمدبن اسحاق
(صاحب سیر ت اسحاق) وغیرہ کا یہی قول ہے‘‘۔مذکورہ تمام حوالہ جات سے یہ بات
روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ حضور رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت
باسعادت کی تاریخ بارہ ربیع الاول ہے اوراسی پر اجماع امت ہے۔اﷲ کریم ہمیں
اپنے حبیب کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے غیرمشروط نعمت عشق محبت عطافرمائے
آپ ﷺ کی تمام نسبتوں کی تعظیم وتوقیر کی توفیق عطافرمائے ۔ہمیں باادب
امتیوں میں شامل فرمائے، روزمحشرآپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت سے
فیضیاب فرمائے اوردین حق کی سمجھ اوراس کے مطابق عمل کی توفیق
عطافرمائے۔آمین بجاہ النبی الکریم الامین۔ |