رموزِ نعتِ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم

نعت مصطفیٰ ﷺ ایک بہت بڑاعنوان ہے۔اس پر لکھنایابولناہرکسی کے بس میں نہیں۔ہرکوئی نعت کہہ سکتاہے نہ ہرکوئی نعت پڑھ سکتاہے۔بلکہ ہرکسی کو یہ شرف ملتاہی نہیں،یہ خوش بخت صرف وہی ہیں جن کی بارگاہِ رسالت ﷺ سے منطوری ہے۔ بقول نصیرملت حضرت پیرسیدنصیرالدین رحمۃ اﷲ علیہ‘
تھی جس کے مقدرمیں گدائی تیرے درکی
قدرت نے اُسے راہ دکھائی تیرے درکی
آیاہے نصیرؔ آج تمنایہی لے کر
پلکوں سے کئے جائے صفائی تیرے درکی

یوں کہاجائے تو بے جانہ ہوگاکہ نعت درحقیقت ایمان کی حرارت اور عقیدہ کی پختگی کا دوسرانام ہے۔عقیدہ کسی مذہبی پیشوا،کسی پیر،کسی سکالر،کسی فقیہ،مفسر،مقرراورکسی علامہ کی تحریروتقریرکانام نہیں بلکہ اس کا سرچشمہ صرف اور صرف قرآن وحدیث مصطفیٰ ﷺ ہے۔جسکا عقیدہ درست ہے‘ اُسی کا عمل حق ہے اوراگرعقیدہ درست نہیں ہے تو صالح اعمال بھی دوزخ کا ایندھن بنادئے جائیں گے۔قرآن کریم میں ارشادباری تعالیٰ ہے‘’’ورفعنالک ذکرک‘‘(سورہ الم نشرح)ترجمہ:اورہم نے آپﷺ کا ذکرآپ ﷺ کے لئے بلندکردیاہے۔اﷲ جل جلالہ‘کی ہرصفت قدیمی یعنی ہمیشہ ہمیشہ سے اورہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہے،سورہ رحمٰن میں ارشاد باری تعالیٰ کامفہوم ہے۔کل من علیہافانo ویبقیٰ وجہُ ربک ذولجلال الاکرام(ترجمہ)’’ہرچیزکو فناہوجاناہے اور باقی رہنے والی (صرف)اﷲ رب ذولجلال کی ذات (ہی)ہے۔اﷲ کریم نے اپنے حبیب مکرم شفیع معظم رحمت کل عالم ﷺ کا ذکرخودبلندفرمایاہے،جس ہستی کا ذکر خودرب ذولجلال بلندفرمارہاہے ‘کوئی اسکا ذکرکم نہیں کرسکتا، بلکہ سورۃ والضحٰی میں ہے’’وللاآخرۃ خیرُ‘ لک من الاولیٰ(ترجمہ)اورآپﷺ کے لئے ہرآنے والالمحہ پہلے سے بہترہے۔یہ چندآیات ذہن نشین رکھتے ہوئے آگے بڑھئے۔ حمد‘ اﷲ رب ذوالجلال عزوجل کی تعریف و توصیف اور شانِ کبریائی کے بیان کوکہتے ہیں اور’’نعت‘‘حضورسرورکائنات صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف وکمالات ،آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ،آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت وصورت اورآپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے محبت وعقیدت کے اظہارکانام ہے جبکہ’’منقبت‘‘اﷲ رب العالمین عزوجل کے برگزیدہ بندوں،اولیاء کاملینؒ کی تعریف و توصیف کااظہار ہے۔ یہ الفاظ کسی اورکی تعریف کیلئے استعمال نہیں کیے جاسکتے۔اس لیئے کہ یہ ’’مختص الفاظ‘‘ ہیں۔حضورسرورکائنات صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی مِدحت قرآن کریم سے شروع ہوتی ہے ۔خودرب ذوالجلال عزوجل نے قرآن کریم میں اپنے حبیب ِکریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف بیان فرمائی ہے۔یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیئے کہ نعت بھی درحقیقت حمد ِ رب ذوالجلال کا ہی عکس اورایک پہلوہے۔ایک شاعر نے کیاخوب کہاکہ
؂نعت کیاہے‘درحقیقت حمدربِ ذوالجلال
نعت کے اجزائے ترکیبی حسان ؓ وبلالؓ

نعت نثرمیں ہویانظم میں،نعت حضورسرورکائنات صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ادب اورآپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے محبت وعشق کے اظہارکانام ہے۔اس کی تلقین اﷲ عزوجل نے بارہافرمائی۔ قرآن کریم میں لگ بھگ ستائس انبیاء کرام علیہ الصلوۃو السلام کا ذکرفرمایااور سب کوان کے مبارک ناموں سے یادفرمایا۔مگر اپنے پیارے حبیب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو کسی بھی مقام پر نام سے نہیں پکارابلکہ القاب سے یادفرمایا۔کہیں فرمایا’’یاایہاالمزمل ‘‘اے چادراوڑھنے والے،کہیں یاسین،کہیں طٰہ ‘اورپھر الحجرات میں توواضح فرمادیا‘’’تم نبی علیہ السلام کو اس طرح نہ پکارو جیسے تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو‘‘۔آگے فرمایا’’اپنی آوازوں کو نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی آوازسے اونچانہ کرو‘‘۔محبت کی بات تو یہ ہے کہ خود اﷲ عزوجل انسانو ں کو اپنے حبیبِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کویادکرنے کرنے کاآداب سکھارہاہے۔نعت کاآغازقرآن کریم کی’’آیت ِ درود‘‘(ان اﷲ وملٰئِکۃ‘یصلون علی النبی .......پارہ۲۲)(ترجمہ:بے شک اﷲ اوراس کے فرشتے نبی ﷺ پر درودبھیجتے ہیں(اس لیئے)اے ایمان والوتم بھی آپﷺ پر درودبھیجواورکثرت کے ساتھ سلام)کی رُوسے اُس وقت سے ہوتاہے جب ’’وقت‘‘ بھی نہ تھا۔اسی طرح قرآن کریم
بقول حضرت امیرخسروؒ
؂خدا (عزوجل) خود میرِمجلس بود،اندرلامکاں خسرؔو
محمد(صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم )شمعِ محفل بود‘شب جائے کہ من بودم
بقول اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمدرضاخاں بریلوی ؒ
؂عرش حق ہے مسند ِرفعت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی
دیکھنی ہے حشرمیں عزت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلمکی
اے رضاؔخودصاحبِ قرآں ہے مداحِ ِ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
تجھ سے کب ممکن ہے پھرمدحت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی

گویا‘نعت، اُس وقت بھی ہوگی‘جب موت کو بھی’’ موت ‘‘آجائے گی۔حضرت آدم صفی اﷲ علیہ السلام نے جب آنکھ کھولی تو سب سے پہلے عرشِ اعظم پر نظرپڑی‘دیکھا‘وہاں اﷲ عزوجل کے مبارک نامِِ نامی اسم گرامی کے ساتھ اسم ِ محمدصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم موجودتھا‘بلکہ جنت کے پتے پتے پرحضور سرورکائنات صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا اسم ِمبارک رقم تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام کا عقد جب حضرت بی بی حوا سلامُ اﷲ علیہا سے ہوا توآپ سلامُ اﷲ علیہا کاحق مہر باِذن ِ ربی حضورسرورکائنات صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر ہدیہ ءِ درودوسلام یعنی آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی نعت ہی ٹھہرا۔ہرنبی ،رسول اور پیغمبرنے اپنے ادوارمیں اپنی اپنی امتوں کو عالم ِارواح کے میثاق کے تحت حضوررسالت مآب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی بشارت دی ۔احادیث کے مطابق سابقہ امتوں کو حضورسرورکائنات صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے اس قدرمعلومات تھیں ،جیسے وہ اپنی اولاد کو جانتے تھے۔یوں تو سارے صحابہؓ حضورسرورکائنات صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے دیوانے تھے اور ہمہ وقت آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی زات اقدس ان مبارک ہستیوں کے پیش نظررہی ان میں سے کئی ایک نے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں باقاعدہ نعت کو تحریرکرکے بیان کیا،بالخصوص حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ‘،حضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ‘،حضرت عثمان ذوالنورین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ‘،حضرت مولیٰ علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ،امہات المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا‘حضرت عائشہ الصدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا، خاتون ِ جنت طیبہ طاہرہ حضرت بی بی فاطمۃ الزھرارضی اﷲ تعالیٰ عنہا ،حضرت عبداﷲ ابن رواحہ رضی اﷲ تعالی عنہ،حضرت کعب بن زھیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ‘ سمیت متعدد صحابہ وصحابیات ِ کرام نے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی نعت بیان فرمائی۔حضرت حسان بن ثابت ؓ کو تو شاعرِدربارِرسالت کا اعزازحاصل ہے جن کے لئے خود نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ممبربچھوایا اور اپنی نعت سماعت فرمائی۔صحیح البخاری کے مطابق حضرت حسان ابن ثابتؓ فرماتے ہیں،
وَاَحسنُ مِنکَ لَم ترقطُّ عینی
(یارسول اﷲ میری آنکھ نے آپ سا حسیں نہیں دیکھا)
واَجملُ مِنکَ لَم تَلِدِالنِساءُ
(کسی ماں نے آپ سا حسیں کوئی پیداہی نہیں کیا)
خُلقتَ مبرّاً مِّن کُلِّ عیب
ِِ(یارسول اﷲ آپ ہر عیب سے پاک پیداکئے گئے)
کاَنّک قدخُلِقتَ کماتشاءُ
(گویاآپ کو ایسے بنایاگیاجیسے آپ نے چاہا)

صحابہ کرامؓ کی طرح تابعینؒ،تبع تابعینؒ واولیاء کاملین میں سے حضرت اویس قرنی ؒ،حضرت امام زین العابدینؒ‘حضرت امام باقر ؒ،حضرت امام اعظم نعمان بن ثابت الکوفی ؒ،حضرت امام مالک بن انس مدنیؒ، حضرت امام محمدبن ادریس الشافعیؒ،امام احمدبن حنبلؒ،حضرت حسن بن یسار مدنی ثم البصری ؒ،حضرت غوث الاعظمؒ،حضرت سیدعلی ہجویریؒ،حضرت مولانارومؒ،حضرت مولاناعبدالرحمان جامیؒ،حضرت امام غزالیؒ،حضرت حافظ الشیرازیؒ،حضرت سیداحمدالرفاعیؒ سمیت سینکڑوں عشاقان رسول ایسے ہیں جنہوں نے جنابِ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی شان و مقام اور مرتبہ کو منظوم انداز سے بیان فرمایا۔ حضرت شیخ سعدی شیرازیؒ فرماتے ہیں۔
(وہ کمال خاص ملا کسے)
بلغَ العُلیٰ بِکمالہ
(وہ جمال حق نے دیاکسے)
کشفَ الدُّجیٰ بِجمالہ
(یہ ہوئی بھلائی عطاکسے)
حسُنَت جمیعُ خِصالہ
(یہ کہہ رہاہے خودخداجسے)
صلُوّ علیہ وَآلہ
حضرت امام بوصیری ؒ فرماتے ہیں،
مولیٰ یاصلّ وسلّم دائماً ابداً
علیٰ حبیبک خیرالخلق کلّہِم
یااکرمَ الخلقِ مالِ مِن الوذُبہ
سواک عندَحُلولِ الحادِثِ العَمم
حضرت حافظ شیرازی فرماتے ہیں
؂یاصاحب الجمال ویاسیدالبشر
من وّ جہک المنیرلقدنوّرالقمر
لایمکن الثناء کماکان حقہ‘
بعدازخدابزرگ توئی قصہ مختصر
قلندرِلاہور حضرت علامہ محمد اقبالؒ فرماتے ہیں
؂ وہ دانائے سُبل ختم الرسل مولائے کُل جس نے
غبارِراہ کو بخشافروغِ وادی ِ سینا
نگا ہِ عشق ومستی میں وہ اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یاسیں وہی طہٰ

حضوررحمت مآب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی نعت گوئی ایک عظیم عبادت ہے۔اس دوران ادب واحترام اور آدابِ نعت کا خیال رکھنا ازبس ضروری ہے،نعت پڑھنے کے ساتھ ساتھ سننے والے پر بھی لازم ہے کہ وہ ان آداب کا خیال رکھے جو نعت تقاضاکرتی ہے۔ عظیم بزرگ شاعر حضرت علامہ شہرت بخاریؒ نے کیا خوب فرمایا،
؂ادب گاہ ہیست زیرآسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آئد جنیدؒوبایزیدؒایں جا

مرادیہ ہے کہ حضوررسالت مآب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا روضہ اطہروہ عظیم مقام ہے کہ جو عرش اعظم سے بھی زیادہ ادب کا مقام ہے اور یہ وہ مقام ہے کہ جہاں عرفاء ربانیین کے سردارسیدالطائفہ حضرت ابوالقاسم جنیدبغدادیؒ اوراولیاء کے سرتاج حضرت طیفوربن عیسیٰ المعروف بایزیدبسطامیؒ سانس بھی گم کردیتے ہیں۔
الغرض
تیراآناتھاکہ اثناء میں صنم ٹوٹ گئے
تیری ہیبت تھی کہ شہزوروں کے دم ٹوٹ گئے
تیری توصیف کا اِک باب بھی پورانہ ہوا
زندگیاں ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے
حضرت مولاناجامی بدایونی ؒ فرماتے ہیں
رخ مصطفی ہے وہ آئینہ کہ دوسراکوئی آئینہ
نہ خیال آئینہ ساز میں، نہ دکان آئینہ ساز میں

حضرت مجدددین وملت امام اہلسنت الشاہ امام احمدرضاخان حنفی قادری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ نعت دودھاری تلوارہے،کہ ذرہ ساغلو کیاتو مقام الوہیت پرزدپڑتی ہے اورامکان نقص بھی کسی حرف سے ظاہرہواتوگستاخی کے ارتکاب سے لکھنے والاایمان سے ہاتھ دھوبیٹھتاہے۔نعت خواں کے لئے خاص طورپر یہ بات ملحوظ خاطررکھنا لازم ہے کہ وہ مبالغہ آرائی سے کام نہ لے اور انتہائی ادب واحترام اور عاجزی وانکساری سے خودکو بارگاہ رسالت(صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) میں تصورکرتے ہوئے نعت گوئی میں مصروف ہو،اگر ایسا نہ ہواتو نعت کی صحیح روح حاصل نہ ہوسکے گی۔اﷲ رب العالمین عزوجل ہم سب کو سمجھ وعمل کی توفیق عطافرمائے(آمین بجاہِ النبی الامین)۔
Safeer Raza
About the Author: Safeer Raza Read More Articles by Safeer Raza: 44 Articles with 43216 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.