ہم دنیا کے بارے میں سب کچھ نہیں جانتے مگر ہمیں یہ گمان
بھی ہوتا ہے کہ کچھ چیزوں کے بارے میں ہم علم رکھتے ہیں اور سائنسدانوں کو
تو لگتا ہے کہ وہ ہر شے سے ہی واقف ہیں مگر حقیقی سائنسدان تسلیم کرتے ہیں
کہ وہ کچھ بھی نہیں جانتے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانوں میں سائنس سامنے آئی جس
کے ذریعے ہم اپنی کائنات کے راز افشا کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر پھر بھی
چند عام سی چیزیں ہمارے لیے اتنی پراسرار ہیں کہ ہم ان کی حقیقت ہزاروں سال
کی کوشش کے باوجود جان نہیں سکے ہیں بلکہ صرف ان کے بارے میں تھیوریز یا
اندازے قائم کیے ہوئے ہیں۔ دنیا میگزین نے چند ایسی ہی حیرت انگیز چیزوں کے
بارے میں ایک رپورٹ شائع کی ہے، جو اب بھی کسی اسرار سے کم نہیں۔
|
ہم خواب کیوں دیکھتے ہیں؟
ہم انسان اس کرہ ارض پر آمد کے بعد سے ہی خواب دیکھتے آرہے ہیں۔ ہر رات
اربوں افراد اپنے بستروں پر لیٹ کر جب نیند کی آغوش میں جاتے ہیں ایک طلسم
ہوشربا میں کھو جاتے ہیں، جسے ہم خواب کا نام دیتے ہیں اور آج کے عہد میں
بہت زیادہ ترقی کے باوجود اب تک یہ اندازہ نہیں ہو سکا کہ ہم خواب کیوں
دیکھتے ہیں۔ اس حوالے سے خیالات یا اندازوں کی کمی نہیں بلکہ اس بارے میں
متعدد تحقیقی رپورٹس سامنے آتی رہتی ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ دماغ اپنے
بوجھ سے نجات پانے کے لیے خواب دکھاتا ہے۔ تاہم یہ محض افواہیں بھی نہیں کم
از کم سائنس یہ ضرور دریافت کرچکی ہے کہ خواب مستقبل کے واقعات کے عندیے کے
طور پر سامنے آتے ہیں۔ تاہم ان سب کے باوجود ابھی بھی ہم اس راز کے دس
فیصد حصے کو بھی سامنے نہیں لاسکے ہیں اور ہزاروں برس سے ہر شخص اس تجربے
سے گزر رہا ہے مگر اب بھی ہم نہیں جانتے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ |
|
موت
موت تو ہم سب کے لیے ایک بہت بڑا راز ہے اور ہم میں سے کوئی بھی اس
بات کا تعین نہیں کرسکتا کہ کس وقت ہمارے جسم کام کرنا بند کردیں گے۔ تاہم
سائنسدانوں نے اس کے بارے میں جاننے کی بھی کوشش کی اور اب انہوں نے جوابات
کی بجائے پہلے سے بھی زیادہ پیچیدہ سوالات ہمارے سامنے لاپھینکے ہیں۔سب سے
پہلے تو انہیں موت کے منہ سے لوٹ آنے والے افراد کو پیش آنے والے تجربات
ہی سمجھ نہیں آ سکے، بہت بڑی تعداد میں افراد نے اس طرح کے تجربات میں
روشنی، موسیقی اور خود کو جسم سے باہر نکل کر تیرتے ہوئے دیکھا ہے اور اب
تک اس کی کوئی قابل فہم وضاحت سامنے نہیں آسکی ہے۔ہزاروں برسوں سے موت
ہمیں شکار کرتی آرہی ہے مگر اب تک ہم نہیں جان سکے کہ کب فرشتہ اجل ہمیں
لینے آجائے گا۔
|
|
زندگی
سائنسدان طویل عرصے سے مصنوعی زندگی کو حقیقت کا روپ دینے کی کوشش کررہے
ہیں مگر ہم اب تک اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں جان سکے ہیں۔ اسلام میں اس
کا جواب ہے تاہم اس سے ہٹ کر جواب تلاش کیا جائے تو سائنس ہمیں بس یہ بتاتی
ہے کہ تین سے چار ارب سال قبل زمین پر کچھ مالیکیولز میں ایسا پیچیدہ
کیمیائی ردعمل پیدا ہونا شروع ہوا جو آر این اے کی شکل میں ڈھل کر زندگی
کا روپ اختیار کرگیا۔ مگر جب یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ آخر یہ کیمیائی
ردعمل کیوں زندگی کی شکل اختیار کرگیا تو کوئی جواب نہیں ملتا اور سائنس کے
پاس اس کا کوئی حل نہیں۔ دنیا بھر میں زمین کے ابتدائی دور کے ماحول کو
تشکیل دے کر اس طرح کی تھیوریز کو حقیقت کا روپ دینے کی کوشش کی جاتی ہے
مگر اب تک کسی کو کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے اور اربوں افراد اپنے اس
سب سے بڑے راز کے سوال پر محض کندھے اچکا کر رہ جاتے ہیں۔
|
|
کائنات
ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری کائنات ہر گزرتے لمحے کے ساتھ پھیل رہی ہے اور اس
سے انکار ممکن نہیں۔ یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ اس عمل کی رفتار
مسلسل بڑھ رہی ہے مگر اس سے زیادہ کسی کو کچھ معلوم نہیں۔بیش تر سائنسدان
اس کا الزام تاریک توانائی (بلیک ہول) اور بلیک مادے پر دھر دیتے ہیں جو کہ
ان کے مطابق ہماری کائنات میں جگہ جگہ موجود ہیں مگر ہم نہیں جانتے کہ ان
کے اندر کیا ہے اور یہ کیا کام کرتے ہیں۔ اب کہا جارہا ہے کہ اس کا جواب
ممکنہ طور پر کوانٹم کشش ثقل میں چھپا ہوا ہے مگر وہ بھی انسانی غلطی محسوس
ہوتا ہے کیونکہ سائنس کے اصولوں کے مطابق دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ
کائنات خود اپنے اصولوں کی نافرمانی کررہی ہے اور ہم بس یہ اندازہ ہی
کرسکتے ہیں کہ ایسا کیوں ہورہا ہے۔
|
|
تاریخ
ہم سب ہی تاریخ میں دلچسپی رکھتے ہیں مگر کیا آپ جو کچھ سنتے، دیکھتے یا
پڑھتے ہیں وہ سب مستند ہوتا ہے؟ جواب مشکل ہے نا مگر حقیقت تو یہی ہے کہ ان
سب معلومات میں بہت زیادہ خلاء ہوتا ہے۔ اگرچہ کچھ چیزوں کے بارے میں ہم
مناسب حد تک جانتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ انسانی تاریخ کا بیشتر حصہ
ہماری کتابوں میں کسی ایک ذریعے یا اندازوں کے نتیجے میں تحریر ہوا ہے۔
حضرت عیسیٰؑ کی ولادت کے بعد سے اسلام کے اولین عہد کے درمیان جو عرصہ گزرا
ہے اس کے بارے میں دنیا کو بہت کم ہی معلوم ہے اور جو کچھ جانتے بھی ہیں اس
کی حقیقت پر بھی بھروسہ کرنا بہت مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کبھی کوئی یہ
ثابت کردے کہ زمانہ قدیم میں لوگ گاڑیوں پر سفر کرتے تھے یا ٹچ اسکرین
ٹیکنالوجی ان کے استعمال میں تھی تو یہ کوئی بہت زیادہ حیران کن بات نہیں
ہوگی کیونکہ ہم اس عہد کے بیشتر گوشوں کے بارے میں مکمل یقین سے کچھ نہیں
کہہ سکتے۔
|
|
آرٹ
کسی بھی لکھاری یا مصور یا فنون لطیفہ کی کسی صنف سے تعلق رکھنے والے شخص
سے پوچھیں کہ وہ آرٹ پر کیوں کام کرتے ہیں؟ یقین کریں آپ کو لگ بھگ ایک
ہی جیسا جواب ملے گا کہ بس ذہن میں آمد سی ہوتی ہے اور وہ اپنا کام شروع
کرجاتے ہیں۔ درحقیقت غاروں کی دیواروں پر تصاویر بنانے کی کوئی انقلابی وجہ
نہیں تھی کیونکہ ایک جاندار ہونے کے ناطے ہمیں اس سے کوئی فائدہ نہیں اور
نہ ہی یہ پتھر کے دور کے انسان کو گرم کرنے، پیٹ بھرنے یا کسی بھی چیز میں
مدد دیتی تھی تو پھر وہ ایسا کیوں کرتے تھے؟اس فہرست کی دیگر چیزوں کی طرح
آرٹ بھی اسی صنف میں شامل ہے کوئی بھی اس سوال کا جواب نہیں جانتا مگر یہ
چیز ہمیں اندازے لگانے سے نہیں روک سکی۔اس بارے میں متعدد تھیوریز زیرگردش
ہیں اور فی الوقت ہمارے پاس ان کے علاوہ کوئی اور ٹھوس جواب نہیں۔
|
|
ڈائنو سار
اگر آپ جراسک پارک کے پہلے حصے کے ریلیز ہونے کے موقع پر بچے تھے تو آپ
بھی ڈائنو سارز کی محبت یا انہیں دیکھ کر مبہوت ہونے کے مرحلے سے ضرور گزرے
ہوں گے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ نے ان جانوروں کے ڈھانچوں کو بھی ٹی وی
پر دیکھا ہو مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ ان میں سے بیش تر اندازوں سے تعمیر
کیے گئے ہیں۔درحقیقت نیشنل جیوگرافک کے مطابق ایسے دریافت ہونے والے 59
فیصد فوسلز بہت چھوٹے حجم کے ہوتے ہیں یا وہ نامکمل ڈھانچے کا حصہ ہوتے ہیں
اور باقی خلاء کو انسانی تخیل کے ذریعے بھر کر انہیں مکمل ڈھانچوں کی شکل
دے دی گئی ہے۔
|
|
ادب
اگر آپ سے کام کی جگہ پوچھا جائے کہ اپنے عہد کے عظیم ترین ادیبوں کے بارے
میں آپ کیا جانتے ہیں یا ان کے بارے میں کیا اندازہ لگاسکتے ہیں تو جواب
ممکنہ طور پر یہی ہوگا بہت زیادہ نہیں۔مثال کے طور پر ولیم شیکسپیئر کے
بارے میں سب کو معلوم ہے کہ وہ انگریزی زبان کا سب سے بڑا ڈرامہ نویس تھا
مگر اس کے علاوہ اور کیا جانتے ہیں؟ چلیں وہ تو انگریزی ادیب تھا۔اردو ہی
کی بات کریں تو اپنے کسی پسندیدہ مصنف اب چاہے وہ قرۃ العین حیدر ہوں، شوکت
صدیقی یا سعادت حسن منٹو آپ ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں کیا جانتے ہیں
بلکہ بیشتر افراد تو ہوسکتا ہے کہ ان کی کتابوں کے ناموں سے بھی واقف نہ
ہوں تو حیرت کی بات نہیں۔ اور آپ کو تو ہوسکتا ہے کہ یہ معلوم نہ ہو کہ کس
طرح چند برس، دہائیوں، صدیوں پرانی کتابیں اب جدید شکل میں کس طرح بدل کر
سامنے آجاتی ہیں۔اسی طرح قدیم ادب خاص طور پر یونانی اور رومن ادب کی بہت
کم کتابیں ہیں جو اتنی صدیوں میں خود کو بچانے میں کامیاب ہوسکیں اور
اسلامی تاریخ میں بھی ایسے قابل قدر ادب کی کمی نہیں جو آتشزدگی اور جنگوں
کے نتیجے میں گم ہوگیا۔ بنیادی طور پر ہماری یا انسانی ادبی تاریخ میں
اربوں خلاء موجود ہیں اور ہمارے درمیان قصہ گو یا دادی جیسی کہانیاں سنانے
والے نہ ہوتے تو ہوسکتا ہے کہ بچی ہوئی لوک یا تاریخی داستانیں بھی کب کی
فنا ہوچکی ہوتیں۔ |
|
کشش ثقل
جیسا اوپر بتایا گیا تھا کہ کائنات کس طرح اپنے بنائے ہوئے کشش کے قوانین
پر عمل نہیں کر رہی مگر کشش ثقل کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے جو اپنے
طبعیاتی اصولوں کے برخلاف کام کرتی ہے۔کسی پیچیدہ وضاحت کی بجائے سادہ
الفاظ میں بات کی جائے تو کشش ثقل ان چار بنیادی طاقتوں میں سے ایک ہے جو
اپنی ذات کے بالکل مخالف کام کرتی ہیں۔پہلے تو کہا جاتا تھا کہ کشش ثقل
انسانوں کو زمین پر کھڑا رکھنے میں مدد دیتی ہے مگر جدید عہد کی فزکس جس
طرح ترقی کررہی ہے ہر نئی دریافت کے ساتھ ہمیں معلوم ہو رہا ہے کہ ہم تو
اپنی دنیا کے بارے میں اپنی توقعات سے بھی کم جانتے ہیں اور کشش ثقل بھی
ایسی ہی چیز ہے جس کے بارے میں انسان ابھی کچھ زیادہ نہیں سمجھ سکا ہے۔ |
|
سب کچھ۔۔۔؟؟
انیسویں صدی کے اختتام تک انسان خاص طور پر سائنسدانوں کا خیال تھا کہ ہم
علم کی حد تک پہنچ چکے ہیں اور پھر آئن اسٹائن نے اپنے مشہور نظریات پیش
کیے اور انسانی تصورات چکنا چور ہوکر رہ گئے۔ تو پھر ہم نے ایک بار پھر نئی
عمارت تعمیر کی اور چیزیں درست ہوگئیں مگر پھر ہم نے دیکھا کہ بلیک ہول تو
ہمارے تصورات سے ہٹ کر کام کر رہے ہیں اور اس وقت ہم ایک بار پھر تصورات کے
چکناچور ہونے کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ اور ایسا ہوا تو ہمیں ایک بار پھر
وجود کے بنیادی تصورات کے بارے میں دوبارہ نئے نظریات تحریر کرنا پڑیں گے
جیسے ایک سائنسدان کا خیال ہے کہ ہم ایک ہولوگرام کی طرح زندگی گزار رہے
ہیں جسے کائنات کے کنارے سے پراجیکٹر سے چلایا جارہا ہے ، یقیناً یہ کوئی
ٹھوس خیال نہیں کتنا حیران کن ہے اور ایسے نظریات کی کمی نہیں جو کبھی درست
بھی ثابت ہوسکتے ہیں جس کے بعد ہم اپنا سر یہاں وہاں مارنے پر بھی مجبور
ہوسکتے ہیں۔ |
|