مسجد میں معصوم کا قتل۔۔ایک معاشرتی المیہ

زمین پھٹی نہ آسمان گرا ۔۔۔۔لاہور میں ایک اور بچہ سفاک اور وحشی درندے کی درندگی کا شکار ہو گیا اور کوئی نہیں جو ایسے ظالموں کو سرعام سولی پر لٹکا کر اسے ’’نشان عبرت بنا دے ،پاکستان بھر میں اجتماعی آبرو ریزی اور معصوم بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی اور بعد ازاں اپنے قبیح فعل کو چھپانے کیلئے انہیں قتل کر دینے کے واقعات ہمارا بہت بڑا معاشرتی المیہ ہیں ،گذشتہ روز لاہور کے علاقے گرین ٹاؤن میں واقع ایک مسجد میں بھی اسی طرح کے ایک اندوہناک واقعہ میں 6سالہ معصوم بچے (م) کو کسی لوطی مُلا نے زیادتی کے بعد گلے میں پھندا ڈال کر موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ ظاہر ہے کہ 6سالہ معصوم بچے سے سوائے اس کہ اور کوئی دشمنی نہیں ہو سکتی کہ کسی شیطان صفت شخص نے اپنی حیوانی خواہشات کی عدم تکمیل کی بناء پر یا زیادتی کے بعد پکڑے جانے کے خوف سے بچے کو گلے میں پھندا ڈال کرقتل کر ڈالا۔ تعلیمی اداروں خصوصاً مدرسے جو ہمارے نونہالوں کی دینی تعلیم و تربیت کے مراکز سمجھے جاتے ہیں ۔ اکثر مدرسوں میں زیر تعلیم بچوں اور بچیوں کو اس قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،بعض بچے اپنے مدرسین بارے والدین سے شکایت بھی کرتے رہتے ہیں ، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ’’مُلاؤں ‘‘ کی غیر اخلاقی حرکات کی وجہ سے بھی بچوں کو مدرسوں سے نکال لیا جاتا ہے ۔ لیکن کئی مرتبہ بچوں کے ساتھ یہ المیہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ’’آسمان سے گرا کجھور میں اٹکا ۔۔۔کے مصداق ایک بحرانی صورتحال سے نکل کر دوبارہ اسی قسم کی صورتحال میں پھنس جاتا ہے ۔اور کئی بچے مدرسین کے روئیے کی شکایت بھی انہی کے ظلم کے خوف کی وجہ سے نہیں کر پاتے ۔۔اب تک ملک بھر میں بیسوں بلکہ سینکڑوں ’’معصوم‘‘ ان ’’لوطیوں‘‘ کی حیوانی خواہشات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔۔اور کم از کم مجھے یاد نہیں پڑتا کہ گذشتہ طویل عرصے سے کسی ایک بھی لوطی کو پکڑ کر تختہ دار پر لٹکایا گیا ہو ۔۔ہونا تو یہی چاہیے کہ جیسا کہ اسلام کہتا ہے کہ ’’کان کے بدلے کان ۔۔اور ناک کے بدلے ناک ۔۔۔۔ان لوطیوں کو بھی اسی ظلم و ستم سے گُذارا جائے جس سے ہماری قوم کے یہ نونہال گذرتے ہیں ۔اس کے بعد ان لوگوں کو ’’سرعام ‘‘ایسی سزا دی جائے کہ جو دوسرے لوگوں کیلئے ’’نشان عبرت ‘‘ ہو ۔۔لیکن یہاں تو معاملہ ہی اُلٹ ہے ۔۔۔یہاں ظالم جُر م کے ارتکاب کے باوجودموجودہ طویل عدالتی سسٹم اور قانونی سقم کی بدولت بعدازاں ’’برّی‘‘ ہو جاتے ہیں ۔اسطرح معاشرے میں بسنے والے باقی درندے بھی ایسے قبیح فعل کا ارتکاب کرنے میں ذرا برابر شرم اور خوف محسوس نہیں کرتے ۔

لاہور میں معصوم بچے سے زیادتی کے بعدمبینہ طور پر 2ملزمان کو پکڑا گیا ہے ،جبکہ پولیس نے بچے کے کپڑے و دیگر اشیاء کے نمونے تجزئیے کیلئے لیبارٹری بھجوا دئیے ہیں ۔جس کی روشنی میں تفتیش کو آگے بڑھایا جائے گا ۔کس قدر افسوسناک بات ہے کہ یہ واقعہ ایک مسجد میں پیش آیا ہے اور زیادتی کا ارتکاب کرنے والا یقینا اسی مسجد کا مولوی یا خادم ہی ہوسکتا ہے ۔یہ واقعہ بجا طور پر قابل مذمت ہے کہ مساجدجنہیں علم و دانش کے مراکز ہونا چائیے وہاں بھی ہمارے نونہال محفوظ نہیں ۔ گذشتہ ایک سال میں صرف پنجاب میں آبروریزی کے 2000 کیس رجسٹر ہوئے جن میں سے 200کیس بچوں سے زیادتی کے متعلق ہیں ۔ظاہر ہے کہ یہ نونہال جہاں اپنے ماں باپ کی آنکھ کا تارا تھا وہاں قوم کا ’’بیٹا‘‘بھی تھا ۔اس سانحہ پر بچے کے والدین پر جو گذر رہی ہو گی وہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے ، اس ظلم پر ہر درددل رکھنے والا انسان غم زدہ ہے ۔ اس واقعہ کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جہاں ملافضل ہوں یا طاہر اشرفی،مولانا عبدالعز یز ہوں یا مولانا فضل الرحمن کسی ایک بھی عالم دین یا سیاسی رہنماء نے کسی قسم کا کوئی مذمتی بیان جاری کیا ہے اور نہ ہی کسی نے اس سانحہ کا نوٹس لیا ہے وہاں سوشل میڈیا پر ہمارے بعض دانشور زیادتی کے شکار معصوم بچے کی پھندا لگی تصویر کو ’’فیس بک‘‘ پر پوسٹ کرکے حکمرانوں اور مولویوں کو لعن طعن کرنے میں مصروف ہو گئے ہیں ۔اور اپنی’’ پوسٹ ‘‘اور ’’کمینٹس‘‘ کے ذریعے ’’لوطی‘‘ اور شیطان صفت شخص کو سرعام ’’نشان عبرت ‘‘بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔۔اس پوسٹ کو دیکھ کر لوگوں میں اشتعال پیدا ہو رہا ہے ۔اس معصوم کے ساتھ ایک ’’مُلا‘‘ نے زیادتی کرکے اسے مار ڈالا ۔۔مگر ہم اخلاقی طور پر اس قدر بے حس اور مردہ دل ہو چکے ہیں کہ ہم یہ بھی نہیں سوچ رہے کہ اس بچے کی مذکورہ تصویر پوسٹ کرنے سے ہمارے نونہالوں کے ذہنوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری غیرت مر چکی ہے ؟ ہماری اخلاقی اقدار دفن ہو چکی ہیں ؟ یا ہم اس قدر بے حس ہیں کہ ایک معصوم کی پھندا لگی ’’تصویر‘‘ کی تشہیر کر کے یہ سمجھتے ہیں ہم ملک و ملت کی بڑی خدمت کررہے ہیں ۔۔کاش! ہماری حکومت اور دیگر ذمہ دار ادارے اس سوچ اور فکر کا نوٹس لیں ۔۔یہ تصویر ظاہر ہے پولیس حکام نے اپنے ریکارڈ کیلئے بنوائی ہو گی ۔۔یہ تصویرکیسے باہر آئی اور اس کو پوسٹ کرنے کا نوٹس کیوں نہیں لیا گیا ۔۔؟اس کا جواب تو وزیر اعظم میاں نواز شریف،وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف،وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان و دیگر ارباب اختیار ہی دے سکتے ہیں ۔ زیادتی کے واقعات میں انصاف کی دوہائی دینے میں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ذمہ داران کا کردار بھی کسی المیے سے کم نہیں کیونکہ میڈیا نے یہ وطیرہ بنا لیا ہے کہ وہ مظلوموں کی تصاویر اور وڈیوز کی صبح شام تشہیر کو کارثواب سمجھ کر ’’انصاف ۔۔۔انصاف کی رٹ لگانے لگتے ہیں جبکہ پولیس اور میڈیا سے وابستہ افراد ملزمان کا مکروہ چہرہ بھی دکھانا گوارا نہیں کرتے ۔بڑے بڑے دہشتگردوں اور زیادتی کے مرتکب ملزمان کو ’’نقاب‘‘پہنا کر میڈیا اور عوام کے سامنے لایا جاتا ہے ۔کاش! ہم ہوش کے ناخن لیں ۔بیشک! مظلوم کو انصاف دلانا گناہ نہیں ہے لیکن مظلوم اور بے بس بچوں اور بچیوں و دیگر زمانے کے ستائے ہوئے لوگوں کی ’’تصویری خبرنامے ‘‘ کے ساتھ تشہیر انتہائی تکلیف دہ امر ہے کیونکہ اس طرح ہم لوگوں کی عزت نفس کا جنازہ نکال کر رکھ دیتے ہیں ۔اگر کوئی کام کرتے وقت ہم خود کو ’’مظلوم ‘‘ کی جگہ رکھ کر سوچیں تو یقینا ہم کبھی بھی ایسی غیر ذمہ دارانہ روش ہی اختیار نہ کریں ۔۔مگر نہیں شاہد ہم انسانی تضحیک کو کوئی جُرم ہی تصور نہیں کرتے ۔گوکہ وزیرا علیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے حسب سابق واقعہ میں ملوث افراد کیخلاف فوری کارروائی کاحکم صادر کیا ہے ۔لیکن ہماری درخواست ہے کہ اس واقعہ کی غیر جانبدانہ تحقیقات کروا کر ملوث افراد کو جلد از جلد سرعام الٹا لٹکا دیا جائے ۔یقینا یہ ظلم کسی ایک فرد کا نہیں کیونکہ بچہ چھوٹا ہی سہی مگر کوئی ظالم اکیلا زیادتی کے بعد اسے رسی سے باندھ کر چھت سے نہیں لٹکا سکتا اس لئے اس ظلم میں شریک تمام ملزمان کو سزا دلانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔موجودہ حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام کیلئے انتہائی سخت اقدامات اٹھائے جائیں ۔علمائے کرام کی اس واقعہ پرخاموشی لمحہ فکریہ ہے ۔اس وقت جبکہ فوجی عدالتوں کا قیام بھی عمل میں لایا جانا مقصود ہے۔ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث افراد کو انہی عدالتوں کے ذریعے کیفر کردار تک پہنچانے کا فیصلہ کیا گیا ہے تو اس بارے ہم حکومت سے دردمندانہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ اجتماعی آبروریزی سمیت معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں ملوث ملزمان کے خلاف بھی مقدمات انہی فوجی عدالتوں میں چلائیں تاکہ مختصر وقت میں یہ لوطی سزا پا کر دوسروں کیلئے ’’نشان عبرت ‘‘ بنائے جا سکیں ۔حکومت نے اگر ایسا نہ کیا تو ہمارے نونہال ظالموں کے ظلم کا شکار ہوتے رہیں گے جبکہ موجودہ عدالتی سسٹم کی بدولت ایسے قبیح فعل کا ارتکاب کرنے والے ’’برّی ‘‘ ہوتے رہیں گے اور کبھی بھی مظلوموں کو انصاف نہیں مل سکے گابقول فیض احمد فیضؔ ؂
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے !!
منصف ہو تواب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
Syed Arif Saeed Bukhari
About the Author: Syed Arif Saeed Bukhari Read More Articles by Syed Arif Saeed Bukhari: 4 Articles with 3342 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.