فوک گائیکی کا بے تاج بادشاہ
منصورعلی ملنگی 66 سال کی عمر میں حرکت قلب بند ہونے سے دس دسمبر بروز بدھ
اپنے لاکھوں پرستاروں کی آنکھیں پرنم کر گیاجھنگ کی فضاؤں میں گونجنے والی
پر سوز آواز خاموش ہو گئی گھر گھر صف ماتم بچھ گیا انسان کی زندگی بھی عجیب
ہے نہ اپنی خوشی سے آتا ہے اور نہ اپنی خوشی سے جاتا ہے اس کی حیثیت ایک
مشین کے پرزے کی سی ہے کہ جس کی کوئی حرکت اس کے اپنے اختیار میں نہیں
مختیار کل اﷲ کی ذات ہے زندگی فانی بھی ہے ناپیدبھی،عارضی بھی ہے اور مختصر
بھی ہے مگر جب کوئی شخص اس دنیا میں اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر
کسی شعبہ میں اپنا ایک مقام ایک نام پیدا کر تاہے اور اپنے پیچھے اک سرمایہ
حیات چھوڑ کرجاتاہے تو دنیا برسوں تک اس کو بھُلا نہیں سکتی ۔منصور علی
ملنگی نے فوک گائیکی کو جو نقطہ عروج بخشا اور اپنی خداداد صلاحیتوں کا
لوہا منوایا اس کی گواہی فنِ موسیقی سے وابستہ ہر شخص دے رہا ہے ۔جھنگ کے
ایک قصبہ گڈھ موڑ میں پیدا ہونے والے منصور علی ملنگی نے جب 1965 میں ریڈیو
پاکستان لاہور کے سٹوڈیو سے اپنی منفرد پرسوز سُر یلی آواز میں اپنے فن کا
جادو جگایاتو ہر سو ان کی گائیکی کے چرچے ہونے لگے سرائیکی زبان کو صدیوں
سے جس کی آواز کی تلاش تھی وہ اسے مل گئی منصور علی ملنگی نے اپنی محنت اور
لگن سے فوک موسیقی کو عروج پر پہنچا دیا پاکستان کے کونے کونے میں ان کے
گیت گونجنے لگے۔
تقریبا ً 1970 کے لگ بھگ انہوں نے ایسا سدا بہار گیت گایا کہ شہرت کی دیوی
انھیں دنیا بھر میں مقبول کر گئی " اک پھُل موتیے دا مار کے جگا سو ہنڑی
اے"منصور علی ملنگی کی پہچان بن گیا اور پاکستان ٹیلی ویژن کے دروازے بھی
ان کے لیئے کھُل گئے اورانہوں نے " کہڑی غلطی ہوئی اے ظالم" گا کر اپنے
پرستاروں کا ایک وسیع حلقہ بنا لیا ۔سرائیکی کے علاوہ انہوں نے اُردوغزل کو
ایک منفردانداز سے گا کر اہل زبان کو بھی داددینے پر مجبور کر دیا ۔بابا
غلا م فرید کی کافیاں گا کر انہوں نے روحانی محفلوں کو بھی لُوٹ لیا منصور
علی ملنگی کے دو سو سے زائد البم پاکستان کے نامور ریکارڈنگ کمپنیوں نے
ریلیز کیئے جسے عوام نے بے حد سراہا آپ کو دنیا کے مختلف ممالک میں موسیقی
کے پروگرام کرنے کا بھی اعزاز حاصل ہوا ۔ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی
ویژن نے آپ کو موسیقی میں اعلیٰ کارکردگی پر کئی ایوارڈز سے بھی نوازا۔منصو
ر علی ملنگی سے میری پہلی ملاقات 2005 میں ہوئی جب وہ موسیقی کے ایک
پروگرام کے سلسلے میں اٹک آئے اور گلوکار محسن جھنگوی کے ہمراہ مجھے خصوصی
طور پر ملنے گھر تشریف لائے اور موقع کی مناسبت کو دیکھتے ہوئے میں نے اُن
کا ایک مقامی جریدہ کے لیئے انٹرویو کیا اور ان سے پوچھا کہ آپ نے فوک
گائیکی کا ہی انتخاب کیوں کیا حالانکہ آپ کلاسیکل موسیقی کے رموز سے بھی
آشنا ہیں ؟کچھ دیر سوچنے کے بعد کہنے لگے فوک موسیقی فطرت کے قریب تر ہے اس
کے ذریعے میں اپنی ثقافت ،تہذیب و تمدن اور کلچر کی بہتر طریقے سے ترجمانی
کر سکتاتھا اس لیئے خود کو فوک موسیقی کے لیے ہی وقف کر دیا انہوں نے شکو ہ
کیا کہ ہماری ثقافت اور فوک موسیقی کو ایک سازش کے تحت تباہ کیا جا رہا ہے
اس میں غیروں کا گلہ نہیں بلکہ اپنوں کا ہاتھ ہے انہوں نے کہا کہ ہم نے
انڈین موسیقی کے آگے بندھ بندھا اور اپنے نوجوانوں کو فوک گائیکی کی طرف
راغب کیا اپنے کلچر اپنی دھرتی سے پیار کا درس دیا مگر میڈیا نے ہمارا ساتھ
نہ دیا اس کے باوجو د ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنی فوک موسیقی کو آگے لے
کر چل رہے ہیں انہوں نے بتایا کہ وہ بچپن سے ہی موسیقی سے وابستہ ہیں اور
گذشتہ چالیس سال سے گا رہے ہیں۔
منصور علی ملنگی کی سچی اور کھری باتیں آج بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہیں
بہت افسوس کی بات ہے کہ گیا رہ دسمبر جمعرات کے روز ان کی دو بجے نماز
جنازہ ان کے آبائی گاؤں گڈھ موڑ میں ادا کی گئی سینکڑوں افراد نے ان کی
نماز جنازہ میں شرکت کی مگر پرنٹ میڈیا اور الیکڑونکس نے کوئی کوریج نہ دی
حالانکہ موسیقی کے لیئے ان کی خدمات قابل رشک تھیں انہوں نے تمام زندگی فن
موسیقی کے لیئے وقف کر رکھی تھی انہوں نے تین شادیا ں کیں تھی جن سے انکے
اُنیس بچے تھے جن میں دس بیٹے اور نو بیٹیا ں شامل ہیں۔منصو ر علی ملنگی
تمام زندگی اپنے آبائی علاقہ سے ہی وابستہ رہے اور کسی بڑے شہر کا رُخ کرنے
کی بجائے اپنے پسماندہ علاقے میں رہ کر پورے پاکستان میں اپنے فن کا جادو
جگاتے رہے اور ثابت کیا کہ مضافات میں رہ کر بھی دنیا بھر میں راج کر سکتے
ہیں۔منصور علی ملنگی کو انڈیا میں بھی بہت پسند کیا جا تا تھا ان کو فلمو ں
میں گانوں کی بھی آفر ہوئیں لیکن انہوں نے معذرت کر لی منصور علی ملنگی
جیسے خودار فن کار صدیوں بعد بھی شاید پیدا نہ ہوں آخری ایام میں انکے مالی
حالات درست نہ تھے اس کے باوجو د انہوں نے کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا ۔منصور
علی ملنگی نے اپنی زندگی میں عمرہ حج کی سعادت بھی حاصل کی اور بہت سا
نعتیاکلام بھی آپ نے گا کر امر کر دیا ہے بقول اقبال۔
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی نہ مر سکے |