قدرت نے پاکستان کے صوبہ
خیبرپختونخواہ کی وادیٔ سوات کو اپنی بے پناہ فیاضیوں سے نوازاہے ،یہ وادیٔ
جہاں اپنے بے پناہ حسن ،قدرتی چشموں،گنگناتے آبشاروں ،شورمچاتے دریائے سوات
،فلک بوس سرسبزوشاداب پہاڑوں اور گھنے جنگلات کے ساتھ ساتھ آب وہوا کو لئے
دنیا میں اپنی ثانی نہیں رکھتی اسی طرح اس وادیٔ میں معدنیات کی بھی کوئی
کمی نہیں ہے اور اس لحاظ سے بھی قدرت نے اس وادیٔ کو مالال مالا بنادیا ہے۔
اس وادیٔ کے سینے میں جہاں ہزاروں سال قبل مسیح دور کے آثار قدیمہ اور
نوادرات محفوظ ہیں وہیں یہاں پر تین قیمتی پتھر زمرد(Emrald)کی کانیں بھی
اس وادی کی زینت بنی ہوئی ہیں ۔ان کانوں میں سے سب سے بڑی کان مینگورہ شہر
سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع پرفضامقام فضاگٹ میں واقع ہے،جبکہ دوسری
کان تحصیل بریکوٹ کے علاقے شموزئی اور تیسری کان سوات اور شانگلہ کے سنگم
پر واقع علاقہ امنے میں ہے ،جن میں سے اس وقت فضاگٹ کی زمردکان میں ایک نجی
کمپنی کھدائی کررہی ہے جبکہ دیگر دونوں کانیں ایک طویل عرصے سے بند پڑی ہیں
اور ان میں سے چوری چھپی کھدائی کی بھی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔
زمرد سبز رنگ کا قیمتی پتھر ہے جو عام طور پر زیوارت میں استعمال ہو تا ہے
یہ پتھر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں کافی پسند کیا
جاتا ہے اور اس کی منڈیاں نہ صرف پاکستان ،بھارت بلکہ چین،سنگاپور اور دیگر
ممالک میں قائم ہیں۔
1956میں ریاست سوات کے دور میں دریافت ہونیوالی قیمتی پتھر زمرد کی کانوں
کا شمار دنیا کی بڑی کانوں میں ہوتا ہے تاہم حکومت اور متعلقہ اداروں کی
عدم دلچسپی اور بنیادی ڈھانچہ نہ ہونے کے باعث ان ذخائر سے کوئی قابل ذکر
منافع حاصل نہیں کیا جار ہاتقریبا چھ کلو میٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ان کانوں
کی دریافت ریاست سوات کے سابق حکمران میاں گل عبدالحق جہانزیب (والیٔ سوات)
کے دور میں میں ہوئی تھی ۔ زمرد کان کی کانیں ایک وسیع و عریض پہاڑی علاقے
میں پھیلی ہوئی ہیں جہاں کان کن قیمتی پتھروں کی تلا ش میں مصروف نظر آتے
ہیں۔
فضاگٹ کی زمردکان کے مائننگ انجینئرقیصر خالد کے مطابق یہ کان 182ایکڑاراضی
پر مشتمل ہے اور اس میں کوئی 600فٹ سے زیادہ ٹنل نکالے گئے ہیں۔ ان ٹنلوں
کو مختلف مقامات پر آپس میں ملا یا گیا ہے ، اسی طرح ہوا کے لئے بھی خصوصی
انتظامات کئے گئے ہیں جبکہ سرکنے کی صورت میں مزدوروں کو پہلے سے ہی پتہ
چلنے کے لئے سفیدے کی لکڑیاں لگائی گئی ہیں ان کاکہنا ہے کہ وہ اس جدید دور
میں بھی روایتی طریقے سے زمردکی کھدائی کرتے ہیں جس سے کسی حدتک نتائج تو
مل رہے ہیں لیکن خاطر خواہ فوائد تب ہی حاصل ہوسکتے ہیں جب حکومت انہیں
جدید مشینری سمیت کان کے اندرراستوں کے لئے اقدامات کریں تو اس کان میں
موجود قیمتی پتھر کے ذخائر کو آسانی کے ساتھ رسائی ممکن ہوسکتی ہے۔اس کان
میں کوئی تین سو کے قریب مزدور کام کررہے ہیں لیکن یہ مزدور آج کے اس جدید
دور میں بھی پتھر نکالنے کے لئے روایتی طریقے ہی استعمال کررہے ہیں ۔
مزدوروں کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ تین چار سال سے زمر د کی کان کنی کررہے ہیں
کان کے اندر کام کرنا انتہائی کٹھن اور خطرناک بلکہ موت کے ساتھ ٹکر لینا
ہے کیونکہ پتھر کے اندر سے سرنگ لگاناآسان کام نہیں ، پتھر نکالنے کیلئے
مہارت درکار ہے اور یہاں عام مزدور کام نہیں کرسکتا۔ کھدائی کیلئے ان کے
پاس جدید مشینری بھی نہیں ہے ،ایک آدھ مشین موجود ہے لیکن اکثر اوقات بجلی
نہیں ہوتی جس کی وجہ سے مزدور کو پہاڑ چیر نے کیلئے ہاتھوں سے کام کرنا
پڑتا ہے ،روایتی طریقوں سے کام کرنے کی وجہ سے نہ صرف وقت زیاد ہ لگتا ہے
بلکہ کام بھی مہارت سے نہیں ہوتا جس سے حکومت اور ٹھیکیدار دونوں کو نقصان
ہوتا ہے جبکہ مزدور کو بھی اس کی محنت کی خوب مزدوری نہیں مل پاتی ۔
قیمتی پتھر وں کے ماہرحاجی رسول خان کے مطابق زیادہ ترزمرد کے پتھر ایک سے
پانچ قیراط کے ہوتے ہیں جس کی قیمت مارکیٹ میں پچاس ہزار ورپے سے لے کر
لاکھوں روپے تک ہوتی ہے تاہم قیمت کا دارو مدار پتھر کی کٹائی اور کوالٹی
پر ہوتا ہے حکومت نے مینگورہ کی ان کانوں کو ایک مقامی نجی کمپنی کو د س
سال کی مدت کیلئے ٹھیکے پر دیا ہوا ہے ،ان کاکہنا ہے کہ سوات کی زمردکان سے
روایتی طریقوں سے کھدائی کے باوجود کافی مقدارمیں زمردنکلتے ہیں جن میں بعض
ایک پتھر تو لاکھوں روپے کے ہوتے ہیں لیکن افسوس کامقام ہے کہ سوات میں
کانیں ہونے کے باوجو دحکومت کی جانب سے یہاں پر تراشنے اور کٹائی کے لئے
کسی قسم کے اقدامات نہیں کئے گئے ہیں۔اگر حکومت اس حوالے سے دلچسپی کا
مظاہرہ کرے تو اس سے نہ صرف سوات میں روزگار کے مواقع بڑھ سکتے ہیں بلکہ
سوات کی سیاحت بھی پروان چڑھے گی کیونکہ اس زمرد کے لئے دنیا بھر سے
بیوپاری اور پارٹیاں آئیں گی ،جس سے سوات کی معیشت کا پہیہ بھی چل سکتا ہے۔
ستم ظریقی کی انتہا دیکھئے کہ ریاست سوات کے پاکستان میں ادغام کے بعد کسی
بھی حکومت نے سوات کی کانوں کی ترقی پر توجہ نہیں دی اور نہ ہی اس کی
کھدائی کے لئے موثر اقدامات کئے گئے یہی وجہ تھی کہ یہ کانیں تقریباً 15سال
تک بند رہیں جس کے باعث قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان اٹھا نا پڑا ،
سوات میں جب طالبان کا دور تھا تو زمرد کان کی یہ کانیں کئی ماہ تک ان کے
زیر قبضہ بھی رہیں ، زمرد کی کانوں کی ٹھیکہ دار نجی کمپنی کے ماہرین کے
مطابق طالبان کے دور میں ان کانوں میں انتہائی غلط انداز میں کھدائی کے لئے
کٹائی کی گئی جس سے بہت بڑ ا نقصان ہوا ہے،سوات میں قیام امن کے بعدا ن
تمام کانوں کو بند کردیا گیا اور پھر سے نئی کانیں کھودنی پڑیں جس سے کافی
وقت لگا اور رقم بھی خرچ ہوئی۔
سوات میں زمرد کی دریافت کے 50برس بعد بھی ان کانوں میں بنیادی ڈھانچے کا
شدید فقدان ہے اور کانوں تک جانے کیلئے سڑک بدستور کچی ہے جس پر چھوٹی
گاڑیاں بمشکل جاسکتی ہیں جبکہ کانوں کو محفوظ بنانے کیلئے بھی کوئی انتظام
موجود نہیں، زمرد کان کی کانوں کو محفوظ بنانے کے لیے بھی کوئی انتظام
موجود نہیں، ان کانوں سے تقریباً چار سو مزدوروں کا روز گار وابستہ ہے تاہم
حکومت کی جانب سے ان کان کنوں کو پانی جیسی بنیادی ضروریات بھی میسر
نہیں،ماہرین کاکہنا ہے کہ سوات کے زمرد کا شمار دنیا کے چار قیمتی پتھروں
میں ہوتا ہے لیکن حکومت اور متعلقہ اداروں کی غفلت اور لا پرواہی کے باعث
ان بیش بہا کانوں کو منافع بخش نہیں بنایا جاسکا ہے ،ان کا کہنا ہے کہ اگر
سوات میں جم ٹریننگ سنٹر قائم کرنے کے ساتھ مزدوروں اور بیوپاریوں کے لئے
تربیتی ادارہ قائم کیا جائے تو اس سے سوات کی زمرد کانوں کو نہ صرف منافع
بخش بناکر روزگار قیمتی زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے بلکہ اس سے علاقے میں
روزگار کے مواقع بھی بڑھاجاسکتے ہیں اور ساتھ ہی اس سے سوات کی تباہ حال
معیشت کو بھی سہارادیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہے جب اس قوم
کو دیانت داراور وطن دوست قیادت نصیب ہوجو زمانہ قریب میں مشکل ہی نہیں
بلکہ ناممکن نظر آتا ہے ۔ |