جب انسان نے کوّؤں کی زبان سیکھی

زندگی کے سفر میں جدت اب ٹیکنالوجی، روبوٹس اور مشینوں تک محدود نہیں رہی بلکہ فطرت، جنگلی حیات اور پرندوں سے بھی اس کا گہرا تعلق جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
فضل خالق خان (مینگورہ سوات)
دنیا میں جاپان ہمیشہ اپنی سائنسی ترقی، جدت اور مسائل کے منفرد حل تلاش کرنے کی صلاحیت کے لیے مشہور رہا ہے۔ وہاں کے لوگ صرف ٹیکنالوجی، روبوٹس اور مشینوں تک محدود نہیں رہتے بلکہ فطرت، جنگلی حیات اور پرندوں سے بھی گہرا تعلق جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حال ہی میں جاپان میں کوّؤں کے ساتھ کیا گیا ایک تجربہ دنیا بھر میں دلچسپی کا باعث بنا ہے۔ یہ تجربہ نہ صرف سائنسی اعتبار سے منفرد ہے بلکہ اس میں ایک ایسا پہلو بھی پوشیدہ ہے جو ہمیں قرآن مجید کی ایک اہم آیت کی عملی مثال فراہم کرتا ہے۔
جاپان میں کوّے ایک لمبے عرصے سے شہری زندگی کے لیے مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ پرندے بڑی ذہانت کے ساتھ کچرے کے تھیلے پھاڑ کر سڑکوں پر گندگی پھیلا دیتے ہیں، کھیتوں اور باغات میں پھل اور سبزیاں خراب کر دیتے ہیں اور اپنی تیز چیخوں سے شور پیدا کرتے ہیں۔ عام طور پر دنیا کے کئی ممالک میں ایسے پرندوں کو قابو کرنے کے لیے مار دیا جاتا ہے، لیکن جاپان میں قانون کے مطابق کسی جانور یا پرندے کو مارنا ممنوع ہے۔ اس لیے حکام کو ایک ایسا حل چاہیے تھا جو پرامن بھی ہو اور مؤثر بھی۔
یہ ذمہ داری جاپانی محقق ناوکی تسوکاہارا کو دی گئی، جو پرندوں خصوصاً کوّؤں کے رویے کے ماہر ہیں۔ انہوں نے نہایت حساس آلات کی مدد سے کوّؤں کی آوازیں ریکارڈ کیں، بالکل ویسے جیسے فوجداری تحقیقات میں مشتبہ افراد کی باتوں کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ہر آواز کے بعد کوّؤں کا ردعمل بھی نوٹ کیا گیا، تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ وہ کس طرح ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں اور ہر پیغام کا مطلب کیا ہوتا ہے۔
تحقیق کے بعد یہ حیران کن انکشاف ہوا کہ کوّے تقریباً 40 مختلف الفاظ یا پیغامات استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کا مطلب ہوتا ہے "مجھے کھانا مل گیا"، "یہ جگہ محفوظ ہے"، یا "خطرہ ہے، یہاں سے فوراً بھاگ جاؤ"۔ یہ دریافت اس بات کا ثبوت تھی کہ کوّے نہ صرف ذہین ہیں بلکہ ایک منظم زبان کے ذریعے باہمی رابطہ بھی رکھتے ہیں۔
اس سائنسی دریافت کے بعد یاماجاتا شہر میں ایک عملی تجربہ کیا گیا۔ کچرا جمع کرنے کے مقامات کے قریب اسپیکر نصب کیے گئے جن سے کوّؤں کی اپنی زبان میں پیغام نشر کیا جاتا: "خطرہ ہے، یہاں سے بھاگ جاؤ"۔ جیسے ہی یہ آواز نشر ہوتی، کوّے فوراً وہاں سے اڑ جاتے اور اس وقت تک واپس نہ آتے جب تک صفائی کی گاڑیاں آکر کچرا اٹھا نہ لیتیں۔
مزید تجربے میں، ایک جگہ کوّؤں کے لیے کھانا رکھا گیا اور اسپیکر سے ان کی زبان میں "مجھے کھانا مل گیا" کا پیغام چلایا گیا۔ حیرت انگیز طور پر چند لمحوں میں درجنوں کوّے وہاں پہنچ گئے اور کھانے لگے۔ اس طرح جاپانی سائنسدانوں نے نہ صرف کوّؤں کو سمجھا بلکہ ان کے ساتھ براہِ راست "مکالمہ" بھی کیا۔
یہ تحقیق اب جاپان کے جانوروں کے سائنس کے محکمے نے مزید آگے بڑھا دی ہے۔ ماہرین پرندوں اور دیگر جانوروں کی زبانیں سمجھنے اور ترجمہ کرنے کی ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں۔ مستقبل میں یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ انسان اور جانور آپس میں بات کر سکیں — ایک ایسا خواب جو کبھی محض کہانیوں اور فلموں میں دیکھا جاتا تھا۔
یہ سب کچھ ہمیں قرآن مجید کی اس آیت کی یاد دلاتا ہے:
﴿وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي ٱلۡأَرۡضِ وَلَا طَائِرٖ يَطِيرُ بِجَنَاحَيۡهِ إِلَّآ أُمَمٌ أَمۡثَالُكُمۚ﴾
ترجمہ: "اور زمین میں چلنے والا کوئی جاندار اور اپنے دونوں پروں سے اڑنے والا کوئی پرندہ ایسا نہیں مگر وہ بھی تمہاری ہی طرح ایک امت ہے" (الانعام: 38)
اس آیت کا پیغام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کو ایک منظم معاشرت، اصول اور زندگی کا نظام عطا کیا ہے۔ جیسے انسان ایک دوسرے سے بات کرتے اور سوسائٹی میں رہتے ہیں، ویسے ہی پرندے اور جانور بھی اپنی دنیا اور زبان رکھتے ہیں۔ جاپانی تحقیق نے اس قرآنی حقیقت کو جدید سائنسی شواہد کے ساتھ ثابت کر دیا ہے۔
شاید یہ وقت ہے کہ ہم فطرت کے ساتھ جنگ کرنے کے بجائے اسے سمجھنے اور اس کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی کوشش کریں۔ کیونکہ زمین کی یہ رنگا رنگ مخلوقات صرف دیکھنے کا نہیں، سیکھنے کا بھی ذریعہ ہیں۔ اور ممکن ہے کہ کل ہم جانوروں اور پرندوں سے اسی طرح بات کر رہے ہوں جیسے آج ہم ایک دوسرے سے کرتے ہیں۔

 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 149 Articles with 89356 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.