امریکن میڈیا کی ڈور اس وقت چند لوگوں کے
ہاتھ میں ہے اور وہ اپنی مرضی کے مطابق اس سے کام لے رہے ہیں۔ 1990کے آخر
سے امریکہ کی اکثریت میں اور بڑی تعداد میں ٹیلی ویژن نیٹ ورک ، پرنٹنگ
پریس ، ہالی وڈ مووی انڈسٹری،بک پبلشنگ انڈسٹری، اور ریکارڈنگ انڈسٹری
وغیرہ کو سات امریکی یہودی چلا رہے ہیں اور ان کے نام ۔گیرن لیون (سی۔ای۔او
) اینڈ ڈائیریکٹر آف "AOL" ٹائم وارنر۔۔۔ مچل ایزنر (سی۔ای ۔او) اینڈ چئیر
میں آف دی Walt Disney Company" " ۔۔۔ ایجربرونف مین سینئر چئیر مین آف
Seagram Company Ltd" " ۔۔۔ ایجر برونف مین جونئیر ڈائیرکٹر آف Seagram
Company Ltd" " اینڈ ہیڈ آف یونیورسل اسٹوڈیو ۔۔۔ سمر ریڈاسٹون چئیر مین
اینڈ "CEO" Viacom Inc"ـ" ۔۔۔ ڈینس ڈمر مین وائس چئیر مین آف "General
Electric" ۔۔۔ پیٹر پریزیڈنٹ اینڈ "CO COO" آف نیوز کارپوریشن لمیٹڈ ۔ یہ
سات یہودی اکٹھے مل کر ABC,NBC,CBS, دی ٹیونر برڈکاسٹ سسٹم CNN, MTV
یونیورسل اسٹوڈیو MCA , ریکارڈز ,Geffen ریکارڈز,DGC ریکارڈز,GRP
ریکارڈزرائزنگ ٹائڈ ریکارڈز ، کرب یونیورسل ریکارڈز اور انٹرسکوپ ریکارڈز
پر مکمل کنٹرول رکھتے ہیں ۔
مشرقی یورپ کا میڈیا بھی چند مخصوص لوگوں کے ہاتھ کی کٹھ پتلی ہے ۔
(یوکرائن کاRonald Lauder" ) & (آسٹریا کا Vadim Rabinovich" ) دونوں نے
ملکران ممالک جو کبھی سویت یونین تھی میں ایک میڈیا ایمپائر کھڑا کیا
"سنٹرل یورپیئن میڈیا انٹرپرائزز" ۔
برطانیہ کا میڈیا بھی چند لوگو ں کے کنٹرول میں ہے ۔WPP" " دنیا کا سب سے
بڑا ایڈورٹائزنگ اور مارکیٹنگ گروپ ہے ، اور چند کروڑ پتی یہودیوں کے تابع
ہے ۔ وہاں کے قومی اخبارکے لئے ایک اصطلاح استعمال ہوتی تھی Forth Estate"
" ۔ پرنٹنگ میڈیا کی ٹی وی ، ریڈیو ، انٹرنیٹ کے آنے کے بعد اب اتنی طاقت
نہیں رہی جتنا کہ شروع آغاز میں تھی لیکن اس کے باوجود اس کا برطانیہ میں
اہم مقام ہے ۔ یو کے میں اخبارات دوسرے میڈیا سورسز پر فوقیت رکھتے ہیں اور
چند نام ہیں جو اس وقت وہاں کے پرنٹ میڈیا پر مکمل کنٹرول رکھتے ہیں اور یہ
سب یہودی ہیں۔
Guy Zitter , مینجنگ ڈائریکٹر آف ڈیلی میل ، ۔ Lawrence Sear مینجنگ ایڈیٹر
آف ڈیلی میل ، ۔ Jonathan Holborrow ایڈیٹرآف میل آن سنڈے ، ۔ Anne
Applebaum ، ایسوسی ایٹ ایڈیٹر لندن ایوننگ اسٹینڈرڈ ، ۔ Matthew Norman ،
ایوننگ اسٹینڈرڈ کالمسٹ ، ۔ ایکٹنگ مینجر آف BBC" " نیٹورک Michael Green
اکیلا واحد شخص پورے برطانیہ کے ریڈیو نیٹ ورک پر قابض ہے ، غرض برطانیہ
میں بھی مکمل میڈیا پر قابض ہیں ۔
دنیا میں ، ٹاک شو ، میگزین ، رسالے ، وغیرہ سب کے سب آپس کے ساتھ مقابلہ
کر رہے ہیں ۔ اور یہ کام یا تو ہمارے کاروبار کے لئے یا اشتہارات کے لئے ہے
۔ اس سے ہم اتنا پیسا نہیں کما سکتے جتنا کہ یہ میڈیا کماتا ہے ۔ ایک دوسر
ے سے آگے بڑھنے کے لئے اور میڈیادرجہ بندی میں اول آنے کی کوشش میں سب کچھ
کیا جاتا ہے۔ سمجھانے کی غرض سے مثال کے طور پراگر ایک چینل پریہ خبر چلتی
ہے کہ فلاں سیاست دان نے کسی لڑکی کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کی
ہے تو اس پر کچھ کمپنیاں یا کچھ مخصوص لوگ بیٹھ کر پیسا پھینک رہے ہوں گے ،
تا کہ بڑھا چڑھا کر اس خبر کو پیش کیا جائے ، اور دوسرا چینل اسی خبر پر
پہلے والے کے خلاف بول رہاہوگا ۔ اب عام شخص جو ان چینلز کو دیکھے گا وہ
کیا اثر لے گا جو جسکی خبر دیکھے گا اسکی زبان بولے گا، اندازا لگائیں کتنا
تضاد آیا؟؟
سوشل میڈیا کا جدید آغاز اچانک ہی نہیں ہوگیا ۔ پچھلے 20 سالوں میں
ٹیکنالوجی نے بڑی تیزی سے ترقی کے مراحل تہہ کئے ہیں۔ جدید دور کی
ٹیکنالوجی نے دنیا اور سیاست کو ایک نئی شکل دی ۔
(1990 کے آغاز میں ٹیکنالوجی کا ایک دھماکہ ہوتا ہے اور (1991 میں کمپیوٹر
کلاس روم کی تفریح کا باعث بنتا ہے ۔ 1993 ( میں ونڈوز آتی ہے کمپیوٹر گھر
کے استعمال میں بھی عام ہو جاتا ہے۔ (1997 میں AIM چیٹ سے ہر چیز کو بدل کے
رکھ دیتا ہے۔ 1998 ( میں گوگل سرچ انجن متعارف ہوتا ہے اور دنیا بھر کی
معلومات چار حرف ٹائپ کرنے اور سرچ پر کلک سے آپکو میسرآتی ہیں ۔ 1999 (
میں Napster ساری حدوں کو توڑ کر ہر قسم کا میوزک مہیا کرتا ہے۔ 2003 ) میں
myspace.com آتی ہے اور لاکھوں کروڑوں لوگوں کاآپس تعارف کرواتی ہے۔ 2004)
میں فیس بک متعارف کروائی جاتی ہے اور انسان ہو گیا کمرے میں بند۔ 2006)
ٹوئیٹر انسان کے وقت کو کمپیوٹر میں ڈال دیتی ہے ۔ 2001) میں iPodمتعارف
ہوا اور انسان اسکو جدھر مرضی لے کے گھومے اچھا وقت کٹتا ہے۔ 2009) میں
iPone جدید موبائل ٹیکنالوجی متعارف کرواتاانسان کو ایسے نشے اور لت میں
لگا دیتاہے ، آج اچھاسمجھ دار ،بھلا بندہ گٹر میں گر جاتا ہے وہ تو بعد میں
پتا چلتا ہے موبائل استعمال کرتے ہوئے یہ حادثہ رونما ہوا ۔ غرض انسان کے
معاشرتی تعلقات فیزیکل سے ڈیجیٹل ہو گئے ہیں۔ انسان اب فطرت کے قوانین کے
خلاف ٹیکنالوجی کوکھڑا کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔
" بے شک سوشل میڈیا نے مسلم ممالک میں عوامی بغاوتوں میں اہم کردار ادا کیا
" ۔
لیکن مغربی ممالک سختی سے اس کے اثرات سے محفوظ رہے۔امریکی پروفیسر Charles
Hirschkind۔
مقامی میڈیا ہو یابین الاقوامی میڈیا ،اس میں آگے الیکٹرانک میڈیا ہو یا
پرنٹ ان میں سے سوشل میڈیا اس وقت سب سے زیادہ طاقتورہے اور اس کی طاقت کا
اندازا اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ بڑے بڑے حضرات ، انجینئر ، ڈاکٹر ، سیاست
دان، یہاں تک کہ فورسز اور انٹیلی جنس ادارے بھی اس کے آگے بے بس ہیں ۔ اس
میں فیس بک،ٹوئیٹر ، اور دوسرے مختلف فورمز پر اب ہر شعبہ ہائے سے تعلق
رکھنے والے لوگ آپکو اپنی رائے دیتے ہوئے نظر آئیں گے اور اپنا اسٹیٹس
ڈالتے ہوئے بھی۔ سوشل میڈیا کی حکمت عملی حقیقی زندگی کی طرح واقعی عوامل
کی ایک بڑی تعداد پر منحصر ہے ۔ جس طرح کے حقائق کا سامنا ہمیں حقیقی زندگی
میں کرنا پڑتا ہے اس طرح سے ہمیں سوشل میڈیا سے بھی مواد حاصل ہو جاتا ہے ۔
یہ اسوقت دنیا کا سب سے بڑا سورس ہے عوام کے بین الاقوامی و مقامی تعلقات
کا ۔ ورلڈ میڈیا وار ون جو شروع ہوئی تھی اب اس کی جنگ عظیم دوئم کا آغاز
سوشل میڈیا سے ہو چکا ہے ۔ اسکا آغاز گزشتہ عشرے کے شروع میں ہوتا ہے لیکن
اب جنگ اپنے جوبن پر ہے اور حریف ایک دوسر ے کوچت کرنے کے لئے نت نئے حرب
آزما رہے ہیں اور دن رات اسی پر کام کرنے میں مصروف ہیں ۔ اور یہ انٹرنیشنل
میڈیا کاکچھ حد تک مخالف بھی ہے کیونکہ اسکی جوانی کے دن ہیں اور اس میں
نسبتاََسازش کے ساتھ سچائی کا عنصربھی برابر مقدار میں ہے۔ |