وقت کرتا ہے پرورش برسوں،حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق پیرس کے اندر جو کچھ ہوا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ فرانس ایک حریت پسند ملک ہے وہاں ہر کسی کو اپنی مرضی کے مطابق جینے کی اور اپنی رائے کے اظہار کی آزادی ہے۔ مسلمان ناروادار ہیں اور وہ قتل غارتگری میں ملوث ہوتے ہیں۔یہودی قابلِ رحم ہیں اس لئے کہ براہِ راست ان کی دہشت گردی کا شکار ہوتے ہیں ۔ ایسے میں ان کی محافظریاست اسرائیل کی حمایت کی جانی چاہئے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ فرانس کے پس منظر میں درج ذیل عنوانات کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا جائے تاکہ حقیقت حال تک رسائی ہوسکے:
• اظہار رائے کی آزادی
• مسلمانوں کی دہشت گردی
• یہودیوں اور اسرائیل کی مظلومیت

اظہار رائے کی آزادی :ہم لوگوں میں سے اکثر نے فرانس کوبراہ راست دیکھا نہیں ہے اور اگر دیکھا بھی ہے تو فائی اسٹار ہوٹل کے شیشے سے جو ہر شہ کو خوشنما بنا دیتا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ ذرائع ابلاغ ہمیں فرانسیسی معاشرے کے بارے میں جو خوش کن نغمہ سناتا ہے ان پر ہم ایمان لے آتے ہیں۔ لیکن اگر بدنام زمانہ چارلی ہیبدو کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو حقیقی صورتحال نکھر کر سامنے آجاتی ہے۔ اس جریدے کا اجراء ؁۱۹۶۹ میں ہوا۔ اس وقت یہ انتہا پسند بائیں بازو کے افکار کا حامل انارکی پسند نظریات کا حامل رسالہ تھا جو اشتعال انگیز لب لہجے میں اظہار خیال کیا کرتا تھا۔ ؁۱۹۷۰ میں جب سابق فرانسیسی وزیراعظم جنرل چالس ڈیگال کا انتقال ہوا تو اس نے سرورق پر لکھا’’کولمبی(ڈیگال کا گاؤں) میں المناک رقص الوداع، ایک موت‘‘ اس شمارے کے شائع ہوتے ہی اس جریدے پر وزارت داخلہ کی جانب سے پابندی لگا دی گئی۔

اظہار رائے کی آزادی کا نعرہ لگانے والی حکومت نے ذرائع ابلاغ کا گلا اپنے ہاتھوں سے گھونٹ دیالیکن اس کے خلاف حرف احتجاج بلند نہیں ہوا جبکہ جس سیاسی رہنما کے خلاف لکھا گیا تھا اس کے مظالم اور سفاکی تاریخ کا حصہ ہیں۔ اس کے باوجود نہ اظہار رائے کے قتل عام کا ماتم کیا گیا اور نہ کسی کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا۔ فلپ وال کی ادارت میں ؁۲۰۰۰ کے اندر اس جریدے نے اپنا رخ تبدیل کیا اور ؁۲۰۰۶ میں لبنان سے برسرجنگ اسرائیلی جارحیت کی تائید کی۔ اس کے بعد چارلی نےڈنمارک میں شائع ہونے والے قابل اعتراض کارٹونس شائع کئے۔ اس پر کئی غیر مسلم دانشوروں نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔ اسی زمانے میں وال نے اسلام کے خلاف ایک اعلامیہ پر دستخط کئے۔ اس کے بعد اس جریدے سے کئی لوگوں نے وال سے اختلاف کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔ چارلی ہیبدو سے اس نام نہادآزادی کے حامی مدیر نے معروف کارٹونسٹ سائن کو یہودی مخالف کارٹون شائع کرنے کے جھوٹے الزام میں نکال باہرکاا ۔ صدر سارکوزی کی حکومت نے فلپ وال کے اس ظلم و زیادتی پر خوش ہوکر اسے سرکاری ریڈیو اسٹیشن کی ادارت سے نواز دیا ۔ ان واقعات کی مدد سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فرانس میں اظہار رائے کی آزادی کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ننگی تلوار ضرور ہےلیکن جب اس کا مقابلہ سیکولر نظریات یا عیسائیت و یہودیت سے ہوتا ہے تو یہ میان میں دبک کر بیٹھ جاتی ہے۔

یوروپ کے اندر سب سے زیادہ تعداد میں مسلمان اور یہودی فرانس میں رہتے ہیں۔ فرانس کے اندر سیکولر اقدار کا اس قدر مبالغہ ہے کہ ؁۲۰۰۴ میں حکومت نے ایک قانون بنا کر طالبات کو اسکارف پہن کر تعلیم گاہوں پر آنے سے روک دیا گیا۔ عام طور سے طالبان کی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ تعلیم نسواں کے دشمن ہیں لیکن جب فرانسیسی مسلم طالبات نے کہا کہ ہمارے حقوق پر اس درندازی کے سبب ہمیں تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا تو حکومت کا موقف تھااپنی بلا سے ہمارے نزدیک تمہاری تعلیم سے زیادہ اہمیت ہمارے اقدار کی ہے۔ حکومت کے جبر و ظلم کا سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ اس نے ؁۲۰۱۰ میں برقعہ پر پابندی لگا دی اور جس کے معنیٰ یہ تھے کہ تم اپنا دین اپنے گھر میں رکھو یعنی اندرون خانہ اپنے محرم افراد سے پردہ کرو لیکن باہر ہما رے سامنے بے نقاب ہو کر آو۔ یہ کس قدر احمقانہ منطق ہے اس کا ادراک کرنے کیلئے جو کم از کم عقل چاہئے اس سے بھی یہ لوگ پیدل نظر ہیں ۔ یہ عجب تماشہ ہے کہ مسلمانوں کی دلآزاری کرنے والے کارٹون تو بازار میں بکیں گے اس لئے کہ یہ ہمارے اقدار ہیں لیکن تمہارا نقاب گھر کے اندر رہے گا اس لئے کہ وہ دین ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ ہندو سے مسلمان بننے والا دھرم پریورتن کرتا ہے جو خلاف قانون ہے اور اگرمسلمان ہندو ہوجائے تو پسندیدہ گھر واپسی ہے۔ اس متضاد رویہ سے اہل اسلام اب پریشان نہیں ہوتے بلکہ مسکراتے ہوئےسوال کرتے ہیں؎
تضادِ جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کرو گے
میں رو رہا ہوں تو ہنس رہے ہو میں مسکرایا تو کیا کرو گے

مسلمانوں کی دہشت گردی: اس واقعہ کی مدد سے یہ پیغام دینے کوشش بھی کی جارہی ہے کہ سارے مسلمان دہشت گرد ہیں ۔ جریدے پر حملہ کرنے والے مسلمانوں کے نمائندے ہیں ۔ ایسا کرنے کیلئے ذرائع ابلاغ کو ایک کام تو یہ کرنا پڑا کہ اس حملے میں ہلاک ہونے والے سب سے پہلے شخص کا نام غائب کردینا پڑا اس لئے کہ احمد مرابت نہ صرف مسلمان بلکہ پولس اہلکار تھا۔ اس کا نام دینے سے یہ پیغام جاتا تھا کہ مسلمان دہشت گردی کے خلاف سب سے پہلے اپنی جانِ عزیز کا نذرا نہ پیش کرتا ہے اور قانون کے مطابق زندگی گزارنے والے مسلمانوں کی نمائندگی کرتا ہے ۔ احمد کے علاوہ چارلی جریدے کے اندر زیر ملازمت ایک مسلمان کی موت کو بھی چھپا دیا گیا اس لئے کہ اس کے بغیر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عوامی جذبات کو برانگیجتہ کرنا ناممکن ہے۔ مسلمانوں کی ناروادی پر آنسو بہانے والے اس حملہ کے ردعمل میں ملک بھر کے اندر ہونے والے حملوں پر خاموش رہے حالانکہ صدر ہولندی اعلان کرچکے تھے اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اس کے باوجود مسلمانوں اور ان کی عبادتگاہوں پر حملے کرکے فرانس کی آبادی کے ۵ تا ۱۰ فیصد مسلمانوں کو خوف و دہشت کا شکار کردیا گیا ۔

ایک تاثر یہ بھی ہے کہ یوروپ نہات پرامن علاقہ ہے اور یہاں سارا خون خرابہ مسلمانوں کے سبب سے ہے ۔ حالانکہ پیرس شہرمیں ہر سال ۱۳۵ قتل کے واقعات ہوتے جن کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے حالانکہ یہ تعداد نہایت محفوظ سمجھے جانے والے نیویارک کی بہ نسبت ایک تہائی ہے ؁۲۰۱۳ میں نیویارک کے اندر ۳۳۳ افراد کا قتل ہوا جو ؁۱۹۶۳ کے بعد سب سے کم تعداد تھی۔ ان اعدادو شمار کی مدد سے مغرب کے اندر پھلنے پھولنے والی قتل و غارتگری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ پیرس کے اندر رونما ہونے والا ؁۱۹۶۱ کا واقعہ کون بھول سکتا ہے جب الجزائر کے پرامن مظاہرین پر پولس فائرنگ کے نتیجے میں ۲۰۰ سے زائد لوگوں کو پولس نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ دوسرے دن دریا میں بہنے والی لاشوں کے سبب انتظامیہ نے ۳ افراد کی موت کو تسلیم کیا اور ؁۱۹۸۰ میں ۴۰ ہلاکتوں کا اعتراف کیا لیکن سبھی مجرمین کو عام معافی دے دی گئی۔ اس قتل کے عام کے بعد ساری دنیا کے رہنماوں کا پیرس آنا تو درکنار فرانس کے سربراہِ مملکت نے بھی ا پنے محل سے باہر آنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ظلم کا ارتکاب کرنے والے پولس افسر موریس پاپون کو یہودیوں کو نازی کیمپ میں بھیجنے کے سبب ۱۰ سال کی سزا ہوئی۔ یہی ہے عدل ومساوات جس کی تعریف و توصیف میں اکثر و بیشتر روشن خیال مفکرین کرام رطب اللسان رہتے ہیں ۔

فرانس نے کے خلاف الجزائر کی جنگ آزادی میں ؁۱۹۵۴ سے لے کر ؁۱۹۶۲ کے درمیان دس لاکھ لوگ تہہ تیغ کئے گئے ۔ اس کے بعد فرانس کا قبضہ تو ختم ہوگیا مگر ؁۱۹۹۰ کی دہائی میں فرانس نے الجزائر کے حکمرانوں کے ساتھ ساز باز کرکے ایک لاکھ جزائری باشندوں کو ہلاک کیا ۔ فرانسیسی حکومت کے ان کرتوت کو جو چشم دید گواہ ہیں ان جزائری حملہ آور نوجوانوں کے اوپر بھلا فرانسیسی کھوکھلےدعووں کیا اثر ہوسکتا ہے جن کو ٹیلی ویژن پر دیکھ کر ہم سردھنتے ہیں ۔ اس بابت کانگریسی رہنما منی شنکر ائیر کا موقف قابل تعریگ ہے ۔ انہوں چارلی ہیبڈو پر حملے کی مذمتّ کرنے کے بعد اسے ۱۱ ستمبر کے بعد مغرب کی جانب سےچھیڑی گئی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا فطری ردعمل قراردیا۔ انہوں نے ڈرون حملوں اور فلسطین کے اندر جارحیت کا ذکر کرنے کے بعد کہا جو کچھ ہوا وہ ہیبت ناک ہے اور میں اس سےغمزدہ ہوں مگر دنیا میں ایسی کوئی جنگ نہیں جس میں دشمن پلٹ کر حملہ نہیں کرتا اور یہ اسی کا حصہ ہے ۔ بقول قابل اجمیری ؎
راستہ ہے کہ کٹتا جاتا ہے،فاصلہ ہے کہ کم نہیں ہوتا
وقت کرتا ہے پرورش برسوں،حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

یہودیوںاوراسرائیلکیمظلومیت: اس حملے کا ایک اہم ترین حصہ دوسرے دن منظر عام پر آیا جب احمد کالیبلی نے ایک یہودی سپر مارکیٹ میں یہودی گاہکوں کو یرغمال بنا کر حملہ آور برادران کے رہائی کا مطالبہ کیا۔ اس حملے کی طوالت اور یہودیوں کا یرغمال بنایاجانا بے ساختہ ممبئی میں تاج حملے کی یاددلاتا ہے۔ گزشتہ سال اسرائیل کی غزہ پر جارحیت نے مظالم کےپچھلے سارے ریکارڈ توڑ دئیے اور اس نے یوروپ کے عوام اور حکمرانوں کے ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ اس کے بعد مختلف ممالک میں اسرائیل کے خلاف غم و غصہ کی لہر اٹھی جو بلاواسطہ فلسطین کے حق میں ہوگئی ۔ مختلف ممالک میںفلسطین کی حکومت کو تسلیم کرنا شروع کیا جن میں اسپین، برطانیہ اور پھر فرانس نے پیش قدمی کی ۔ اس کے علاوہ یوروپی یونین کی زبردست حمایت فلسطین و غزہ کو حاصل ہو ئی ۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جب اسرائیل سے تین برس میں فلسطینی علاقے خالی کرنے کے مطالبے پر مبنی قرارداد پیش ہوئی تو ۱۵ رکنی سلامتی کونسل میں اس کی منظوری کے لیے۹ ووٹ درکار تھے مگر اس کی حمایت میں آٹھ ووٹ پڑے اس لئے ایک ووٹ سے وہ نامنظور ہوگئی ۔ اس کی مخالفت کرنے والوں میں صرف دو ممالک امریکہ اور آسٹریلیا تھے جبکہ پانچ ممالک برطانیہ، لیتھوینیا، نائجیریا، جمہوریہ کوریا اور روانڈا نے ووٹنگ میں حصہ ہی نہیں لیا تھا۔ویسے قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس قرارداد کی حمایت کرنے والے ممالک میں فرانس سر فہرست تھا اور چین، روس، ارجنٹائن، چاڈ، چلی، اردن اور لگزمبرگ اس کے ساتھ تھے۔ اس حملے نے مسلمانوں اور فلسطین کے حق میں سازگار ہونے والی اس فضا کا یکسر خاتمہ کردیا ہے اور سپر مارکیٹ کے ڈرامہ نے ہوا کا رخ تبدیل کردیا ہے۔ یہودیوں پر یوروپ کی تنگ ہوتی زمین کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ ۱۰ سالوں میں سب زیادہ یعنی ۲۶۵۰۰ لوگوں نے ؁۲۰۱۴ میں اسرائیل کی جانب نقل مکانی کی ۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد ۷ ہزار فرانس سے لوٹ کر آئی جبکہ ؁۲۰۱۳ میں یہ تعداد نصف سے کم یونی ۳۴۰۰ تھی۔ یہ لوگ اسرائیل کی محبت میں نہیں بلکہ مقامی آبادی کے غم غصہ سے پریشان ہو کر اور معاشی بدحالی کے سبب اسرائیل کا رخ کررہے ہیں ورنہ یوکرین سے لوٹنے والوں کی تعداد ۵۸۰۰ نہیں ہوتی ۔ اس لئے قطع نظر اس کے حملہ آوروں کی نیت اور ارادہ کیا تھا بظاہر اس سےفلسطین کاز کا نقصان اور صہیونی طاقتوں کا فائدہ ہوا ہے ۔ اب وہ لوگ ذرائع ابلاغ کی مدد سےاس کا بھرپور فائدہ اٹھانے میں جٹے ہوئے ہیں ۔

سوئے اتفاق سے چارلی ہیبڈ پر حملہ اسی دن ہوا جس دن اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اعلان کیا کہ فلسطینی ریاست یکم اپریل ؁۲۰۱۵ کو انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کا حصہ بن جائے گی۔ اس کے نتیجے میں اسرائیل کوجنگی جرائم کی بنیاد پر بین الاقوامی عدالت کے کٹھہرے میں لا نے کا حق فلسطینیوں کو حاصل ہو جائیگا۔ اسرائیل اور امریکہ نے فلسطین کے انٹر نیشنل کریمنل کورٹ کا حصہ بننے کی بھرپورمخالفت کی لیکن وہ اپنی اس کوشش میں ناکام رہے۔ آئی سی سی نسل کشی،انسانیت مخالف جرائم اور جنگی جرائم کے الزامات میں مشتبہ افراد کے خلاف مقدمات چلا سکتی ہے۔ یہ عدالت معاہدۂ روم کے تحت یکم جولائی ؁۲۰۰۲ کو قائم کی گئی تھی۔ اب تک ایک سو بائیس ممالک اس عدالت کے قیام کے لیے معاہدۂ روم کی توثیق کر چکے ہیں۔ تاہم امریکہ اور اسرائیل نے ابھی تک اس معاہدے پر دستخط نہیں کئے ہیں۔

فلسطین کی اس کامیابی پراسرائیل نے پھر ایک بار اپنی جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی کے لئے ۱۲ کروڑ سات لاکھ ڈالر کے محصولات روک لی ۔امریکی کانگریس نےجہاں ایک طرف چوالیس کروڑ ڈالر کی امداد روک لینےکی دھمکی دی وہیںاسرائیل کی جانب سے فلسطین کو محصولات کے ذریعے وصول کی جانے والی رقوم کی منتقلی روکنے کی مخالفت بھی کردی اس لئے کہ کسی سےمحصول وصول کرنا اور اسے واپس نہ کرنا سراسر چوری اور دغابازی ہے۔ اسرائیل کی داداگیری سے اب فلسطینی خوفزدہ نہیں ہوتے اقوام محدےہ میں فلسطینی مندوب ریاض منصور نے اعلان کیا کہ فلسطین آئی سی سی میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے خلاف اسرائیل کی جانب سے فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے بارے میں بھی مقدمہ دائر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

اسلام اورمسلمانوں کے تئیں پیدا ہونے والی ہمدردی کی لہر سے اسلام دشمن عناصر پہلے ہی سے خائف ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف ممالک میں اسلاموفوبیا کا ہواّ کھڑا کیا جاتا رہا ہے ۔ اس حملے سے قبل اکتوبر سے جرمنی میں اسلام مخالف یورپی تنظیم ’پیگیڈا‘نے’مغرب کی اسلامائزیشن‘ کے خلاف ہر ہفتہ ایک ریلیکا انعقاد کیالیکن وقت کے ساتھ میڈیا میں ان ریلیوں کی مخالفت بھی شروع ہو گئی۔جرمن اخبار ’بلڈ‘ کی طرف سے شروع کی گئی ایک مہم کی حمایت سابق چانسلر ہلمٹ، اداکارہ کیروکائن ہرفرت اور ریٹائرڈ فٹ بالر اولیور بئیر ہوف کے علاوہ ۸۰ کے قریب مشہور شخصیات نے کی ۔’پیگیڈا‘ کی اسلام مخالف ریلیوں کے خلاف جرمنی کے شہروں برلن، کولگنی، ڈریسڈن اور سٹٹگرٹ میں بھی ہزاروں لوگ نے سڑکوں پر مظاہرے کیے انہیں بتدریج تقویت ملتی چلی گئی ۔ جن شخصیات نے ’پیگیڈا‘ کے خلاف مہم میں شمولیت اختیار کی ہے، وہ انتہا پسندی اور نفرت کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں اوررواداری و بھائی چارے کے علمبردار ہیں ۔
پولیس کے مطابق برلن میں ۵ ہزار کے قریب احتجاجی مظاہرین نے’پیگیڈا‘ کے چند سو حامیوں کا راستہ روک دیا۔خبر رساں ایجنسی ڈی پی ایس کے مطابق سٹٹگرٹ، مووینسٹر اور ہیمبرگ میں ۲۲ ہزار لوگوں نے ’پیگیڈا‘ کے خلاف احتجاجی جلوس نکالے۔ کولوگنی میں ’پیگیڈا‘ کی حمایت میں صرف ڈھائی سو افراد باہر نکلے جب کہ ان کی مخالفت میں ہزاروں افراد نے احتجاج کیا۔ مسلمانوں کے ان حوصلہ مند اقدامات کا فائدہ یہ ہوا کہ فضا پھر ایک بار ان کے حق میں ہموار ہونے لگی۔ سابق چانسلر گیرڈ شیراڈ اور معرف ٹی وی اینکرتھامس گوٹسچاک نے بھی ’پیگیڈا‘ کی اسلام مخالف ریلیوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور ابتداء میں پیگیڈا کی حامی نظر آنے والی موجودہ چانسلر انجیلا مارکیل بھی اس کی مذمتّ کی ۔ یہ واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ فی الاظل مسلمان ایسے دبے کچلے بھی نہیں ہیں کہ اسلام دشمن کی سازشوں کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیں یا ان سے خوف کھاکر گھر بیٹھے رہیں ۔ وہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرکے باہر نکلتے ہیں اور تاریخ شاہد ہے کہ اللہ کی مدد و نصرت سے کامیابی ان کے قدم چومتی ہے۔ بقول شاعر؎
ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا
آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1227475 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.