فرانس کے ہفت روزہ میگزین Charli Hebdo نے
دانستہ طور پر نبی کریم ﷺ کے بارے میں توہین آمیز خاکے شائع کرکے ڈیڑھ ارب
مسلمانوں کے جذبات کو جو ٹھیس پہنچائی تھی اس کا خمیازہ لازمی طور پر اسے
بھگتنا ہی تھا۔اس کے دیکھا دیکھی آسٹریلیا اور جرمنی میں بھی چند جہنمی
اخبارات میں مزید خاکے شائع کرکے ایک بار پھر مسلمانوں کی غیرت کو للکارا
گیا ہے۔اس سے پیرس میں جن دو مساجد پر بمو ں سے حملہ کیا گیا وہ سب ٹھیک
ہے۔اس کے باوجود کہ ہم تشدد کی کسی بھی طرح حمایت نہیں کرتے لیکن ایک بات
ہر کسی کے ذہن میں رہنی چاہیئے کہ جب کسی کی ناک میں انگلی مارو گے تو
گھونسے کی امید بھی رکھنی چاہیئے ۔یہ وہ اخبارات اور میگزین ہیں جوپہلے بھی
اسی مذموم حرکتیں کرکے مسلم دشمنی کا برملا اظہار کر چکے ہیں ۔بات کو آگے
سے بڑھانے سے پہلے یہ بتانا ضروری سمجھتاہوں کہ یورپی ممالک (جن میں بیلجیم
ٗ جمہوریہ چیک ٗ فرانس ٗ ہنگری ٗ لتھوانیا ٗ لیکسمبرگ ٗ پولینڈٗ پرتگال ٗ
رومانیہ ٗ سلواکیہ ٗ سوئزرلینڈ ٗ اسرائیل سمیت کئی ممالک شامل ہیں ) میں
ہولو کاسٹ ( جس میں یہودیوں کے قتل عام )کے واقعے کی تردید کرنے والوں کو
سخت ترین سزا کا مستحق قرار دیا گیا ہے بلکہ بے شمار لوگ سزا بھگت بھی چکے
ہیں جبکہ حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات کی تردید کرنے والے بیس سالہ
نوجوان تھامس ایکن ہیڈ کو 1697ء میں برطانیہ میں توہین رسالت کامرتکب قرار
دے کر پھانسی دے دی گئی تھی ۔اسی طرح یہودیوں کی مقدس کتاب "توریت" کی
تیسری کتاب Leviticus کے چیپٹر 24 آیت 16 میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ
خدا کے لیے کفریہ کلمات کہنے اور توہین کرنے والے کو یقینا موت کی سزا دی
جانی چاہیئے بلکہ ایسے شخص کو دنیا کے سامنے سنگسار کردیاجائے تاکہ عبرت کی
مثال بنے۔لیکن جب بات نبی کریم ﷺ (جو نہ صرف رب کائنات کے محبوب ترین
پیغمبر ہیں جن پر خود اﷲ تعالی اوراس کے فرشتے درود پاک پڑھنا اپنے لیے
اعزاز تصور کرتے ہیں اور جو پوری کائنات کے لیے رحمت اور ہدایت کا سرچشمہ
قرار پاتے ہیں) کی آتی ہے تو دانستہ آزادی اظہار کے پردے میں توہین رسالت
کا ارتکاب کرکے مسلمانوں کے جذبات کو شدید ترین ٹھیس پہنچائی جاتی ہے ۔ اس
حوالے سے ترکی کے صدرکا بیان اہم ترین ہے بے شک تشدد کسی بھی مذہب میں جائز
نہیں لیکن آزادی رائے کی آڑ میں مذہب اسلام کی توہین کوکسی بھی طرح برداشت
نہیں کی جاسکتا ۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ غیر مسلم محققین ٗ اہل دانش اور
اہل فکر افراد بھی حضرت محمد مصطفے ﷺ کو محسن انسانیت قرار دے کر انہیں
دنیا کا عظیم ترین اور بہترین انسان قرار دے چکے ہیں ۔ میکائل ہارٹ ٗ لکھتے
ہیں کہ محمد ﷺدنیا کی واحد شخصیت ہیں جو مذہبی اور دنیاوی دونوں محاذوں پر
انتہائی کامیاب ہوئے ۔مہاتما گاندھی لکھتے ہیں کہ اسلام بہ زور شمشیر نہیں
پھیلا ٗ اس کی اشاعت کے ذمے دار رسول عربی ﷺ کاایمان ٗ ایثار اوراوصاف
حمیدہ ہیں ۔ جارج برنارڈ شا کہتے ہیں کہ محمد ﷺ صحیح معنوں میں انسانیت کے
نجات دہندہ ہیں۔نپولین کے مطابق حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات سے پندرہ برس کے
عرصے میں عرب کے لوگوں نے جھوٹے خداؤں کی پرستش سے توبہ کرلی ۔ یہ حیرت
انگیز کارنامہ ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کے سبب ہوا ۔ڈی لمرٹائن لکھتے ہیں
کہ انسانی عظمت کوماپنے کے لیے تین شرائط اہم ہوتی ہیں مقصد کی بلندی ٗ
وسائل کی کمی ٗ حیرت انگیز نتائج ٗ بھلا اس معیار پر تاریخ کی کونسی شخصیت
محمد ﷺ سے ہمعصری کا دعوی کرسکتی ہے ۔اس کے باوجود کہ نبی کریم ﷺ کی شان
کسی تعارف اور تصدیق کی محتاج نہیں ہے آپ ﷺ کی زندگی نہ صرف مسلمانوں بلکہ
قیامت تک پوری کائنات کے رحمت اور نجات کا باعث ہے ۔ لیکن امریکہ سمیت
یورپی ممالک کے کچھ حاسد پادری ٗ رائٹر ٗ سکالر صحافی اور کارٹونسٹ دانستہ
نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کرکے نہ صرف خود کو جہنم کی آگ میں جلانا
چاہتے ہیں بلکہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں صبر و تحمل
اور برداشت کی شدید ترین کمی ہے ۔فرانس کے واقعے میں جس طرح یہ ملعون اپنے
بدترین انجام کو پہنچے ان کا انجام اس سے بھی بھیانک ہونا چاہیئے تھا ۔اگر
حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات کی تردید کرنے والے شخص کو برطانیہ میں آج
سے ساڑھے تین سو سال پہلے پھانسی دی جاسکتی ہے تو مسلمانوں کے نبی ﷺ ( جن
پر ڈیڑھ ارب مسلمان اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے بھی ہر لمحے تیار رہتے
ہیں ) کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو بھی دنیا کے سامنے عبرت ناک سزا دی
جانی چاہیئے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ مجرموں کو بروقت سزانہ ملنے اور
گرفت نہ ہونے کی وجہ سے امریکہ سمیت یورپی ممالک میں توہین رسالت کے واقعات
تسلسل سے ہورہے ہیں نہ تو مقامی حکومتیں ہی ایسے افراد کو مشق ستم بناتی
ہیں اور نہ ہی عدالتیں توہین رسالت کرنے کو بروقت سزادیتی ہیں ۔اگر ایسے
بدترین افراد کو بروقت سزا مل جائے تو دوسرے بھی ایسی حرکت کرنے سے پہلے
ہزار بار سوچتے ہیں ۔ ماہرین نفسیات کے مطابق تہذیب یافتہ دنیا میں جب اصول
اور ضابطے یک طرفہ ہوجائیں نظام اور انصاف پر اعتبار قائم نہ رہے تو پھر
خود کو مجبور اور محکوم سمجھنے والے لامحالہ طور پر انتہائی اقدام اٹھانے
سے گریز نہیں کرتے ۔جس کاعملی مظاہرہ چند دن پہلے پیرس میں دیکھنے میں آیا
ہے ۔اسلام فرانس کا دوسرا بڑا مذہب ہے خود فرانسیسی تجزیہ نگار یہ اعتراف
کررہے ہیں کہ آٹھ دس سال بعدفرانس ایک اسلامی ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے
پر ابھرسکتا ہے ۔ فرانس کے علاوہ اسلام جس قدر تیزی سے امریکہ اور یورپی
ممالک میں پھیلتا جارہا ہے خود امریکی اور یورپی معاشرے کی غلاظت میں لتھڑے
ہوئے لوگ قلبی سکون کے لیے اسلام کی جانب راغب ہورہے ہیں اس میں کوئی شک
نہیں رہنا چاہیئے جب ہم تمام انبیاء کرام کو دل سے احترام کرتے ہیں تو
دوسرے مذاہب کے لوگوں کو ہمارے نبی ﷺ کا ہر حال میں احترام ملحوظ رکھنا
ہوگا وگرنہ پیرس جیسے واقعات کو طاقت سے بھی نہیں روکا جاسکتا۔جہاں جہاں
توہین رسالت کے واقعات رونما ہوں گے وہاں ایسے واقعات کا رونما ہونا فطری
امرہے ۔ |