امم سابقہ میں ظہور قدسی کی بشارتیں

ہر سال ربیع الاول کا مہینہ اپنے دامن میں مومنوں کے لیے خوشیوں کی سوغات لے کر آتا ہے، ہر سو فر حت ومسرت کے شادیانے بجتے ہیں، رحمت ونور کی محفلیں سجتی ہیں اور عاشقان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نت نئے انداز میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

اس پس منظر میں جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں تاریخی حقیقتوں کے حوالے سے اس بات کا اعتراف کر نا پڑتا ہے کہ آمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن اور ولادت باسعادت کی دھومیں صرف آج ہی نہیں ہیں بلکہ انبیاے سابقین آپ کی بعثت سے صدیوں پہلے بھی آپ کی ولادت باسعادت کے تذکرے بڑی دل چسپی اور شوق وارفتگی سے کرتے تھے۔ہر دور اور ہر زمانے میں اس بات کی شہرت رہی کہ آخری زمانے میں ایک نبی برحق پیدا ہوں گے جو تمام انبیا کے سر دار اور اللہ کے آخری نبی ہوں گے،وہ اللہ تعالیٰ کی قدرتِ تخلیق کا شاہ کار ہوں گے،ان کا ہم مثل نہ کبھی پیدا ہوا ہے اور نہ کبھی پیدا ہوگا۔سلاطین سابقین آپ کے ظہور کے تعلق سے اپنے ارباب علم وفضل مصاحبین سے تبادلہ خیال کرتے، پادری اور راہبین اپنے اپنے کلیساؤں اور گرجا گھروں میں نبی آخر الزماں کی بعثت کے مژدے سناتے اور ان کی اتباع وپیروی کی نصیحت بھی کرتے، اس تعلق سے بے شمار واقعات کتب سیر وتاریخ میں ملتے ہیں، ہم اپنے اس مختصر مضمون میں بعثت محمد ی صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارات کے تعلق سے کچھ اہم اور مستند واقعات پیش کریں گے۔

سطیح اور شق کی بشارت: ابن کثیر نے البدایہ والنہایۃمیں ایک نہایت دل چسپ واقعہ نقل کیا ہے کہ یمن کے حکمراں ربیعہ بن نصر نے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا، جس نے اسے نہایت پریشان کر دیا۔ اس نے اپنی سلطنت کے ماہر اور تجربہ کار معبرین کو بلاکر اپنے اضطراب و بے چینی کا ذکر کیا۔ معبرین نے کہا، بادشاہ سلامت! آپ اپنا خواب بیان فر مائیں، ہمیں یقین ہے کہ ہم اس کی صحیح تعبیر بتانے میں کام یاب ہوں گے۔ بادشاہ نے کہا:اگر میں نے خواب بتادیا تو تعبیر پر مجھے یقین نہیں آئے گا۔میری خواہش ہے کہ خواب بھی تم بتاؤ اور اس کی تعبیر بھی۔ بادشاہ کی یہ نا معقول بات سن کر معبرین کے درمیان سرا سیمگی پھیل گئی،اور وہ عجب قسم کے کش مکش میں مبتلا ہو گئے،آخر کار باہمی مشورے کے بعدبادشاہ کے حضور عرض گزار ہو ئے،بادشاہ سلامت! آپ کی شرط پرصرف ہمارے دو افراد پورے اتر سکتے ہیں، یہ دونوں دانش مند اور قیا فہ شناش ہو نے کے ساتھ روشن ضمیر بھی ہیں، ایک کا نام سطیح ہے اور دوسرے کا نام شق۔ہمیں یقین ہے کہ وہ اپنے علم وتجر بے سے آپ کو مطمئن کر سکیں گے۔

شاہی قاصد بھیج کر سب سے پہلے سطیح کو دربار میں طلب کیا گیا،سطیح نے بادشاہ کے خواب کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا:
”بادشاہ نے اندھیرے کا سمندر دیکھا، ہر طرف سیاہی اور ہیبت ناک بادل منڈلا رہے ہیں، اتنے میں بجلی کا کوندالپکا، پھر ظلمت کے پردے سے ایک شرارا نمودار ہوااور نشیب میں آکر گرااور تما م اشیا کو سیاہ خاک کر کے رکھ دیاکوئی جان دار اور بے جان اس کے دسترس سے نہ بچ سکا۔“

بادشاہ سطیح کی بات سن کر اچھل پڑا، اور کہا: یقینا خواب یہی تھا، اب تعبیر بھی بتاؤ، سطیح کا اندازہ بیان کچھ ایسا تھا جیسے وہ مستقبل کو دیکھ رہا ہو، یقینا یہ اس کے صفاے باطنی کی دلیل تھی،حاضرین سطیح کے اس بیان پر دنگ رہ گئے، پھر سطیح خواب کی تعبیر اس طرح بیان کر نے لگا۔

”ابتدائی دور جنگوں اور آویزشوں میں گزرے گا، تمہارے ملک پر حبشی اور ذی یزن کے لوگ حملہ آور ہوں گے،پھر ایک دور آئے گا جب تمام حکومتیں ختم ہو جائیں گی، باشاہ نے حیرت سے پو چھا، تمام حکومتیں کون ختم کرے گا؟ سطیح نے جواب دیا:”نبی زکی یا تیہ الوحی من قبل العلی“یعنی وہ ایک پاک نبی ہو گا،جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہو گی۔ سطیح نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا:اس نبی کا شہرہ آخری زمانے تک باقی رہے گا۔“بادشاہ نے مجسمہ حیرت بن کر پوچھا: ”کیا زمانے کا آخر بھی ہے؟سطیح نے جواب دیا: ہاں ”یجمع فیہ الاولون الاٰخرون یسعد فیہ المحسنون ویشفی فیہ المسیؤں“ اس دن سب لوگ جمع ہوں گے، نیک لوگ سعادت مند ہوں گے اور برے لوگ بد بخت۔یہ تمام باتیں بادشاہ کے لیے باعث حیرت و استعجاب تھیں، وہ نہایت بے چینی محسوس کر نے لگا، اتنے میں دوسرا عالم شق بھی آگیا۔ بادشاہ نے اسے بھی آزمانا چاہا، اسے تنہائی میں لے گیا، اس نے بھی وہی باتیں کیں، جو سطیح نے بتائی تھیں، البتہ الفاظ مختلف تھے۔شق نے بعثت نبوی کا ذکر ان الفاظ میں کیا: رسول مر سل یاتی بالحق والعدل بین اھل الدین والفضل۔“ وہ نبی مرسل ہیں جو فضل وکمال اور دین والوں کے پاس حق وصداقت اور عدل وانصاف لے کر آئیں گے، شق نے مزید کہا:وہ ظلم وجبر اور شرو فسادکی حکومت ختم کر دیں گے، ان کا شہرہ اور فیض یوم الفضل تک جاری رہے گا۔بادشاہ نے کہا یہ یوم الفضل کیا ہے؟شق نے جواب دیا:”یوم تجزی فیہ الولاۃ و یدعی فیہ من السماء بدعوات یسمع منھا الاحیاء والاموات ویجمع فیہ بین الناس للمیقات یکون فیہ لمن اتقی الفوز والخیرات“ وہ فیصلہ کا دن ہو گا، جب حکام اور بادشاہوں سے بھی باز پُرس ہو گی اور انہیں بدلہ دیا جائے گا۔آسمان سے ندا آئے گی جسے زندہ اور مردہ سب سنیں گے، اس دن تقویٰ اختیار کر نے والوں کے لیے کامیابی اور بھلائی ہو گی، بادشاہ نے کہا: کیا یہ سب ضرور ہو گا؟ سطیح نے جواب دیا: ہاں اس میں ذرہ برابر بھی شک کی گنجائش نہیں۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سطیح کے بارے میں فر ماتے ہیں:سطیح عجیب وغریب شخصیت کا مالک تھا، ایسا معلوم ہو تا تھا جیسے علوم اس پر القا ہو تے ہیں، وہ عبد شمس اور عبد مناف کے دور میں مکہ مکر مہ آیا تھا، اور اس سر زمین کو دیکھ کر کہاتھا:یخرجن من ذالبلد نبی مھتد، یھدی الی الرشد، یرفج یغوث والفند، یرأعن عبادۃ الضدد، یعبد ربا انفرد“۔ اس سر زمین سے خدا کے ہدایت یافتہ نبی ظاہر ہوں گے جو اصلاح و ارشاد کا درس دیں گے جھوٹ اور بت پرستی کے قریب بھی نہیں جائیں گے، خدائے لاشریک کی عبادت کریں گے(البدایہ والنہاےۃ لابن کثیر الدمشقی، ج:۲، ص:۳۶۱)

حضرت دانیال علیہ السلام کی بشارت:بخت نصر حضرت دانیال علیہ السلام کے عہد کا ایک مطلق العنان حکمراں تھا، اس کے ظلم وجبر کے بے شمار واقعات آج بھی تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیں، ایک شب اس نے خواب دیکھا، مگر بیدار ہوتے ہی بھول گیا،صرف اتنا یاد رہا کہ خواب بڑا خوف ناک اور ڈراونا تھا، چنانچہ اس نے حکومت کے کاہنوں اور جادوگروں کو بلا کر کہا: میں نے ایک خواب دیکھا ہے اس کی تعبیر بتاؤ۔ کاہنوں نے کہا کہ آپ اپنا خواب بیان کریں۔ بادشاہ نے کہا: میں اپنے خواب کی تفصیل بھول گیا ہوں۔ کاہنوں اور جادو گروں نے عاجزی ظاہر کی تو بادشاہ نے شاہانہ کبرونخوت سے کہا: تمہیں تین دن تک کی مہلت دیتا ہوں،ان تین دنوں کے اندر خواب مع تعبیر پیش کردو، ورنہ تمہاری گر دنیں اڑادی جائیں گی۔بادشاہ کے اس دھمکی آمیز حکم سے ان میں سرا سیمگی پھیل گئی، اور موت انہیں اپنی آنکھوں کے سامنے نظر آنے لگی۔ یہ شاہی حکم حضرت دانیال علیہ السلام تک بھی پہنچا۔ حضرت دانیال علیہ السلام نے اپنے ایک ساتھی سے فر مایا:بادشاہ سے جاکرکہہ دو کہ میں خواب مع تعبیر بیان کر سکتا ہوں۔رفقا نے آپ کو اس اقدام سے روکا اور کہا:بادشاہ نہایت ظالم وجابر ہے،اگر خواب بادشاہ کے مزاج کے خلاف ہواتو آپ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ حضرت دانیال علیہ السلام نے فر مایا:”لا تخف علی فان لی ربا یخبرنی بما شئت من حاجتی“تمہیں اندیشہ کر نے کی ضرورت نہیں، میرا ایک رب ہے جو مجھے میری ضرورت کے مطابق ہر چیز کا علم دیتا ہے۔ پیغام بادشاہ تک پہونچا دیا گیا۔ بادشاہ نے حضرت دانیال علیہ السلام کو در بار میں طلب کیا، اس زمانے میں شاہی دربار کے آداب سے یہ تھا کہ آنے والا بادشا ہ کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتا۔ حضرت دانیال علیہ السلام دربار میں داخل ہوئے لیکن بادشاہ کو سجدہ نہیں کیا۔ بادشاہ کو حضرت دانیال علیہ السلام کا یہ فعل باغیانہ محسوس ہوا،فورا تخلیہ کاحکم دیا۔ جب سب لوگ چلے گئے تو بادشاہ نے حضرت دانیال علیہ السلام سے دریافت کیا: تو نے دربار شاہی کے آداب کیوں ملحوظ نہ رکھا؟حضرت دانیال علیہ السلام نے جواب دیا:ان لی ربا اتانی ھذ العلم سمعت بہ ان لا اسجد لغیرہ فخشیت ان اسجد لک فینسلخ عنی ھذاالعلم ثم اصیر فی یدک امیا، فلا تنتفع بی فتقتلنی فرائیت ترک السجدۃ اھون من قتلی“ میرا ایک رب ہے جس نے مجھے یہ علم (تعبیر رویا) عطا کیا ہے، اس کا حکم ہے کہ میں اس کے سوا کسی کو سجدہ نہ کروں،مجھے خوف ہوا کہ اگر میں نے تجھے سجدہ کر دیا تو میرا علم چھین لے گا، پھر میں تیرے سامنے بے علم رہ جاؤں گا،اور تو مجھے قتل کر دے گا، اس لیے میں نے قتل کے بجائے سجد ہ نہ کر نے کو آسان سمجھا“۔ حضرت دانیال علیہ السلام کے اس جرأت مندانہ جواب سے بخت نصر بہت خوش ہوااور کہا: مجھے ایسے لوگ پسند ہیں جو اپنے مالک کے اطاعت گزار ہیں، اپنے رب کی رضا کے لیے تمہارے اس جرأت مندانہ اقدام نے مجھے خوش کر دیاہے۔ پھر حضرت دانیال علیہ السلام نے بادشاہ کا خواب بیان کر نا شرو ع کیا:”آپ نے ایک بہت بڑا بت دیکھا ہے، جس کے پاؤں زمین پر تھے مگر سر آسمان پر پہونچا ہوا تھا۔اس کا بالائی حصہ سونے کا، پیٹ چاندی کا، نچلا حصہ تانبے کا اور پاؤں مٹی کے بنے ہوئے تھے، اچانک آسمان سے ایک پتھر گرا جس نے بت کے تمام حصوں کو پاش پاش کر ڈالا، پھر وہ پتھر بڑھنے لگا اور چاروں طرف پھیل گیا اور دوسری تمام چیزیں نظر آنا بند ہو گئیں“۔ بخت نصر نے کہا:صدقت، ھذہ ا لرویا التی رئیتھا“تم نے سچ کہا میں نے یہی خواب دیکھا تھا۔ پھر تعبیر اس طرح بیان کی:”بت سے مراد مروجہ رسوم اور بت پرستی کے طور طریقے ہیں، پتھر سے مراد اللہ کا دین ہے جو باطل ادیان کو مٹا کر رکھ دے گااور خود ہر طرف پھیل جائے گا“۔ پھر فر مایا:”یبعث اللہ نبیا امیا من العرب فیدوخ اللہ بہ الامم والادیان کما رائیت الحجر دوخ اصناف الصنم ویظھر علی الادیان والامم کما رأیت الحجر علی الارض“۔ اللہ تعالیٰ ایک نبی امی مبعوث فر مائے گااور تمام جھوٹے ادیان کا قلع قمع فر مادے گا، جیسا کہ تم نے دیکھا کہ پتھرنے تمام بتوں کو پاش پاش کر دیا۔ اور تمام ادیان پر ایسا ہی غالب آئے گاجیسے کہ تم نے پتھر کو روئے زمین پر غالب ہو تے ہوئے دیکھا۔

مقوقس والی اسکندریہ کی بشارت:حضرت مغیرہ بن شعبہ دولت ایمان سے مشرف ہو نے سے قبل جب اسکندریہ پہنچے تو وہاں کے حکمراں مقوقس نے انہیں در بار میں طلب کیا اور مکہ مکر مہ میں مبعوث ہو نے والے نبی کے بارے میں استفسار کیا۔ مغیرہ بن شعبہ نے جواب دیا: مجھے اس نئے دین میں دل چسپی نہیں اس لیے تفصیلات نہیں بتا سکتا۔ البتہ اتنا معلوم ہوا ہے کہ وہ خدا کی وحدانیت کے اقرار پر بہت زور دیتے ہیں،اور شرک و بت پرستی سے رو کتے ہیں، نیز زنا، سود اور قتل وغارت کے خلاف سخت موقف اختیار کرتے ہیں، ان کی تعلیمات اخلاقیات پر مبنی ہیں۔

مقوقس تورات وانجیل کا بڑا عالم تھا، ان کے احکام پر اس کی گہری نظر تھی، مغیرہ بن شعبہ کی گفتگو سن کر کہا:ھوالذی تصفون منہ بعث بہ الانبیاء من قبلہ ستکون لہ العاقبۃ حتی لا نبارعہ احد و یظہر دیہ“ وہ نبی مر سل ہیں، اور تمام مخلوقات کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ اگر وہ قبط وروم میں تشریف لاتے تو سب ان کے پیرو کار بن جاتے۔

حضرت عیسی علیہ السلام نے بھی انہی چیزوں کا حکم دیا تھا جن کا تو نے ذکر کیا۔ یہی سابقین انبیاے کرام کی تعلیمات ہیں، وہ کام یاب ہو ں گے ان کے مخالف ناکام، ان کادین غالب ہو گا۔مقوقس کی باتیں سن کر مغیرہ بن شعبہ کے دل میں تحقیق حق کاشوق ہوا۔ان کا یہ شوق وجستجوانہیں وہاں کے ایک ریاضت گزار پادری کے پاس لے گیا۔ انہوں نے پادری سے سوال کیا:”اخبر نی ھل بقی احدمن الانبیاء قال نعم ھو آخر الانبیاء لیس بینہ وبین عیسیٰ ابن مریم احد ھو نبی قد امر نا عیسیٰ باتباعہ ھو النبی الامی العربی اسمہ احمد“۔ آپ مجھے بتائیے کیا کوئی نبی باقی رہ گئے ہیں؟۔اس پادری نے جواب دیا: ہاں! وہ خاتم النبین ہیں ان کے اور حضرت عیسی کے درمیان کوئی اور نبی نہیں۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے ہمیں ان کے اتباع کا حکم دیا ہے، وہ نبی عربی ہیں، اور ان کا نام احمد ہے“۔

حضرت مغیرہ بن شعبہ فر ماتے ہیں:میرے دل میں ان باتوں کا ایسا اثر ہواکہ سفر سے واپس آتے ہی میں دین اسلام سے وابستہ ہو گیا، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پادری کاواقعہ سنایا۔ حضرت شعبہ فر ماتے ہیں:اعجب ذلک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واحب ان یسمعہ اصحابہ فکنت احدثھم ذلک فی الیومین والثلاثۃ“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہو ئے اور پسند فر مایاکہ اسے صحابہ بھی سنیں، تو میں دو تین دن تک صحابہ میں یہ باتیں بیان کرتا رہا۔(الخصائص الکبریٰ للسیوطی،ج:۲، ص:۹۱)

ایک پادری کی بشارت: طبرانی اوربیہقی میں خلیفہ بن عبدہ سے روایت ہے کہ میں (خلیفہ بن عبدہ)نے محمد بن عبدہ سے سوال کیا کہ تمہارے والد نے زمانہ جاہلیت میں تمہارا نا م محمد کس طرح رکھا؟محمد بن عبدہ نے کہا:یہی سوال میں نے اپنے والد محترم سے بھی کیاتھا، انہوں نے اس کا پس منظر کچھ اس طرح بتایا: قبیلہ بنو تمیم کے چار افراد پر مشتمل ایک تجارتی قافلہ ملک شام کے لیے روانہ ہوا۔ اس قافلے میں شامل سفیان بن مجا شع، یزید بن عمر ربیعہ اور اسامہ بن مالک کے ساتھ میں بھی تھا۔ دوران سفر ایک تالاب جس کے کنارے درختوں کی قطاریں تھیں، ہم نے پڑاؤ کیا۔ اس کے قریب ایک گر جا بھی تھا۔ اس گر جے کا پادری ہم لو گوں کے پاس آیا اور پوچھا تم کون لوگ ہو؟ہم نے کہا ہم مضر سے ہیں۔اس پادری نے نہایت شفقت ومحبت سے کہا، میں تمہیں ایک بڑی حقیقت سے آگاہ کر نا چاہتا ہوں ”انہ سوف یبعث منکم وشیکانبی فسارعوا الیہ، فقلنا مااسمہ؟ قال: محمد،فلما انصرفنا ولد لکل منا ولد فسماہ محمد لذلک“عن قریب تم میں ایک نبی پیدا ہو نے والے ہیں تو تم ان کی اتباع میں بڑھ چڑھ کر حصہ لو، ہم لوگوں نے کہا ان کا نام کیا ہے؟ پادری نے کہا ان کا نام محمد ہے، جب ہم لوگ واپس ہوئے تو ہم میں سے ہر ایک کو لڑکا پیدا ہوا، اور اسی وجہ سے محمد نام رکھا۔(فتح الباری شرح صحیح البخاری للعسقلانی، ج: ۵، ص:۶۵۵)

امیہ بن ابی صلت کی بشارت: امیہ بن ابی صلت ملک عرب کا ایک زاہداور عبادت گزار شخص تھا، اس کی زندگی کا بیش تر حصہ وعظ ونصیحت میں گزرتا۔ ایک دن اس نے حضرت ابو سفیان سے کہا:”انی کنت اجد فی الکتب صفۃ نبی یبعث فی بلادنا“ میں کتا بوں میں ایک ایسے نبی کے اوصاف پاتا ہوں جو ہمارے علاقے میں پیدا ہوں گے۔ اس نے مزید کہا :میرا گمان تھا کہ وہ میں ہی ہوں، پھر مجھ پر منکشف ہوا کہ وہ بنی عبد مناف سے ہو گا۔ میں بنی عبد مناف کا جائزہ لینا شروع کیا تو میری نظر عتبہ پر رکی،مگر جب اس کی عمر چالیس سال سے تجاوز کر گئی اور اس پر وحی نازل نہ ہو ئی تو میں نے سمجھا کہ نبی کوئی دوسرا ہوگا۔حضرت ابو سفیان فر ماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تومیں امیہ بن ابی صلت کے پاس گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے ان کی راے پوچھی،تو اس نے کہا: ”اما انہ حق فاتبعہ“ وہ حق پر ہیں ان کا اتباع کرو۔ حضرت ابو سفیان نے کہا، پھر تم کیوں ایمان نہیں لاتے؟ امیہ بن صلت نے کہا:”الحیاء من نسیات ثقیف“۔مجھے ثقیف کی عورتوں سے شرم آتی ہے، کیوں کہ میں ثقیف کی عورتوں کو بتایا کر تا تھا کہ وہ نبی میں ہی ہوں، اب عبد مناف کے ایک جوان کی پیروی کس طرح کر لوں؟۔

بلا شبہہ یہ واقعات سر ور کائنات صلی اللہ ولیہ وسلم کی صداقت وحقانیت کی واضح دلیل ہیں، جن کے مطالعے سے روح کو تا زگی اور ایمان و یقین کو بالیدگی ملتی ہے
محمد ساجد رضا مصباحی
About the Author: محمد ساجد رضا مصباحی Read More Articles by محمد ساجد رضا مصباحی: 56 Articles with 106267 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.