کم بخت یادیں
(محمد فیصل شہزاد, karachi)
کم بخت یادیں(1)
(نوٹ: مندرجہ ذیل تینوں واقعات سچے ہیں۔۔۔مگر انہیں حالات حاضرہ پر منطبق
کرنے والا خود ذمہ دار ہے!)
یہ کم بخت یادیں کسی طرح پیچھا نہیں چھوڑتیں۔۔۔ اب دیکھ لو بیٹھے بیٹھے 99
یاد آ گیا۔۔۔نہیں نہیں۔۔۔ مشرف نہیں یاد آیا۔۔۔ کم بخت یادوں کا یہ مطلب
نہیں کہ کوئی کم بخت ہی یاد آئے!۔۔۔ ہمیں تو اندرون سندھ ٹنڈوآدم میں
اپنی گفٹ شاپ یاد آئی۔۔۔کیا بے فکری کے دن تھے اور مزے کی راتیں۔۔۔ دکان
ایک شاپنگ سینٹر میں تھی۔۔۔ اُس سال کا ایک خاص واقعہ اس سینٹر میں ایک بڑی
چوری تھی۔۔۔حبیب سینٹر میں بائیس پچیس دکانیں ہیں اور سب خوب چلتی ہوئیں۔۔۔
تو ہوا ایک رات یہ کہ حبیب سینٹر میں ایک بڑی دکان میں" بڑی "چوری ہو
گئی۔۔۔ صبح جب گھر سے نکل سینٹر پہنچا تو باہر رش لگا ہوا تھا۔۔۔ سینٹرکے
اندرسے تیسری دکان بھائی یوسف کی الٹی پلٹی تھی اور۔۔۔جتنے منہ اتنی باتیں
تھیں۔۔۔ ایک طرف سینٹر کا چوکیدار چہرہ فق، ہکا بکا بڑی بے چارگی سے کھڑا
ہوا تھا۔۔۔ میری آمد سے پہلے ہی شاید اس سے پوچھ گچھ ہوئی تھی۔۔۔ یوسف
بھائی ایک طرف سرنگوں بیٹھے اپنے مقدر کو رو رہے تھے۔۔۔ کئی لاکھ کی چوری
تھی!۔۔۔ سب زور زور سے اپنی بونگیاں مار رہے تھے۔۔۔مگر اب ان "چولوں" کا
کیا فائدہ تھا۔۔۔ اچانک یوسف بھائی کا بڑا بیٹا اور ایک دو رشتے دار
چوکیدار پر پل پڑے۔۔۔ اک شور مچ گیا۔۔۔ چھڑاتے چھڑاتے بھی بے چارے کا حشر
نشر ہو گیا تھا۔۔۔ مارنے والے اس پر الزام لگا رہے تھے۔۔۔ تب ہمیں پتہ چلا
کہ تالا ٹوٹا ہوا نہیں بلکہ کھلا ہوا پایا گیا۔۔۔بات مشکوک ہو گئی تھی۔۔۔وہ
بے چارہ روتے ہوئے یہی کہے جا رہا تھا۔۔۔ میری آنکھ لگ گئی تھی۔۔۔
آنکھ لگ گئی تھی یا بھنگ پی کر پروازیں کر رہا تھا؟!ایک چلایا۔
اور واقعی یہ بات ٹھیک تھی، سب جانتے تھے کہ وہ بھنگ بھی پیتا تھا،چرس کے
سٹے بھی لگاتا تھا اور کبھی کبھار کوکین کے نشے میں دم مارو دم بھی کرتا
تھا!۔۔۔اندازہ یہی ہو رہا تھا کہ رات کو بھی وہ چرس کے سٹے لگا کر آسمانوں
کی سیر کر رہا تھا کہ ڈاکووں کو تالا توڑنے کا کشٹ نہیں اٹھانا پڑا اور
انہوں نے آرام سے چابی پار کی اور دکان کا مال اور رقم لے اڑے۔۔۔
بہرحال زیادہ کیا ہوتا؟ چوکیدار کو تبدیل کیا گیا اور آیندہ کے لیے
سیکورٹی سخت کر کے واقعہ پر مٹی ڈال دی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
کم بخت یادیں (2)
اب آئیے ہمارا ہاتھ پکڑئیے اور 99 سےچھلانگ مار کر چلیے 2009 میں!
اس بار لٹنے کی کہانی خود ہمارے ساتھ ہوئی۔ہم 25000 کا ایک عدد چیک کیش
کروانے ایم اے جناح روڈ، سول اسپتال کے پاس ایک بینک میں گئے (بینک کا نام
لکھنا شاید مناسب نہیں ہے)۔ کراچی میں رہنے والے احباب جانتے ہیںکہ دن میں
وہ کتنا مصروف ترین علاقہ ہے! بہرحال ہم نے چیک کیش کروایا۔ بینک کے اندر
ہی 500 کے ایک نوٹ کو چھوڑ کر رقم شلوار کی جیب میں رکھی ۔ 500 کا نوٹ
سامنے کی جیب میں رکھا اور باہر نکل آئے۔ ڈاو سے مڑ کر اردو بازار والے
سگنل کی طرف بڑھنا شروع کیا۔ ارادہ تھا کہ کچھ آگے موجود " دلپسند "
پوائنٹ سے مزیدار فالودہ کھائیں گے کہ اچانک رانگ سائیڈ سے یعنی لائٹ ہاوس
کی طرف سے دو موٹر سائیکلوں پر سوار چار لڑکے ساری ٹریفک کو چیرتے
ہوئےہمارے پاس رکے۔ دونوں پیچھے بیٹھے لڑکوں نے چھلانگ ماری اور ہم سے آ
کر چپک گئے۔ اس افتاد پر ہم گھبرا گئے کچھ شرما گئے۔ مگر جب ایک سرد لوہے
کی نال اپنی پسلی میں چبھی تو سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں شرماہٹ ختم ہو کر
صرف گھبراہٹ رہ گئی۔ پیچھے والے لڑکے نے ہمیں تیز تیز گندی گالیاں دیتے
ہوئے دوسرے لڑکے کو کہنا شروع کیا۔ مار اسے ماردے(گویا ہمیں دھمکا رہا تھا
کہ کبھی بھولے سے بھی جیمز بانڈ بننے کی کوشش نہ کیجیو۔۔۔ ہمیں جان پیاری
تھی ، اس لیے ہم چپ رہے(کچھ نہ کہا، منظور تھا پردہ اپنا) اور ہم نے
میکانکی انداز میں سامنے کی جیب سے پانچ سو کا نوٹ نکالا کہ انہیں تھما دیں
کہ بچو! اور کچھ نہیں ہے۔۔۔ دل میں یہ خیال تھا کہ ازار کی پوشیدہ جیب کا
ان لونڈوں کو کیا پتہ ہو گا۔۔۔ مگرانتہائی حیرت انگیز طور پر لڑکے نے فوراً
ہی ازارپر ہاتھ مارنا شروع کر دیا۔۔۔ جیب کی زپ کا سرا اس کے ہاتھ میں آیا
اور اس کے منہ سے بے اختیار نکلا: مل گئے!
اس نے زپ کھولی ، رقم نکالی اور موٹر سائیکل پر بیٹھ یہ جا وہ جا۔۔۔ اس
ساری کارروائی میں مشکل سے ایک منٹ لگا ہو گا۔۔۔ نکتے کی بات یہ تھی کہ وہ
اپنی پکی "انفارمیشن" میں اتنے یکسو تھے کہ انہوں نے ہمارے ہاتھ کو دیکھا
تک نہیں۔۔۔ اور نتیجتاً جس 500 کے نوٹ کو ہم 24500 پر قربان کرنا چاہ رہے
تھے، وہ ہمارے پاس ہی رہ گئے۔
اب یہ تو کنفرم تھا کہ بینک کے اندر ان لٹیروں کا بندہ موجود ہے جو انہیں
انفارمیشن دیتا ہے۔۔۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ بینک اس حوالے سے کافی بدنام
ہے۔۔۔ بالکل اسی طرح ناگن چورنگی یوپی موڑ سے کچھ پہلے بھی ایک بینک اس
حوالے سے بدنام ہے کہ وہاں اندر کی " انفارمیشن" پر کئی ڈکیتیاں اسی انداز
میں ہو چکی ہیں!
ہم بہت اداس تھے مگر ہمارے محترم ڈاکٹر صاحب کو اللہ خوش رکھے کہ انہوں نے
نقصان پورا کر دیا۔۔۔ مگر اس دن ثابت ہوا کہ اتنی آسان ڈکیتیوں میں ضرور
"اندر" والوں کی ملی بھگت ہوتی ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
کم بخت یادیں(3)
اب چلیے پھر چھلانگ ماریے اورآئیے 2014ء میں۔۔۔
پچھلے دنوں پھولوں کی ایک مشہور" دکان"( جہاں پھول امانتا رکھے جاتے تھے)
لٹ گئی۔۔۔ لوٹنے والے آخری اطلاعات کے مطابق انسان نہ تھے بلکہ ان کے ڈی
این اے سے ثابت ہو اکہ بش کی نسل سے تھے۔۔۔ تب ہی انہوں نے لوٹاکم اور
پھولوں کو مسلا زیادہ۔۔۔ پھول چونکہ بہت قیمتی تھے۔۔۔ اور مالک بے چارہ جو
پہلے بھی کئی بار بیچ بازار لٹ چکا تھا۔۔۔ اس لیے اس نےایک سیکورٹی کمپنی
کی خدمات لے رکھی تھیں،جس نے نہایت "بھاری معاوضے" پر نہ صرف دکان بلکہ چار
کلومیٹر کے دائرے میںاپنے "بہووووت "سارے چوکیدارپھیلا رکھے تھے۔۔۔ وہ بھی
ڈنڈےسوٹی والے نہیں بلکہ ہرطرح کے کھلونوں سے مزین۔۔۔ کمپنی کا پلہ ہر لحاظ
سے بھاری تھا، دکان کے اندر بھی اور باہر بھی۔۔۔ مگر ہوا کیا؟۔۔۔ ڈکیت اتنے
ہی آرام سے آئے جیسے ہمارے ٹنڈوآدم والے شاپنگ سینٹر میں آئے تھے۔۔۔
بدمست ہاتھی کی طرح خوب وحشت دہشت پھیلائی۔۔۔ انہوں نے گلاب چنبیلی کے
"مخصوص" پھولوں کو چن ،ایک ایک پنکھڑی توڑ ،بے رحمی سے مسل کر رکھ دیا۔۔۔
اس ڈکیتی میں کئی معصوم چوکیدار اپنی جان پر کھیل گئے اور انہوں نے ان
ڈاکووں کو جہنم رسید کر دیا۔۔۔ مگر خود بھی جیتے نہ رہ سکے اور بالآخر
پھولوں کے ساتھ مسلے گئے!
قصہ ختم پیسہ ہضم۔۔۔۔مگر جاتے جاتے ایک انعامی سوال کا جواب بتاتے چلیں۔۔۔
کہ ان تینوں واقعات میں قصوروار صرف ڈکیت تھے یا کوئی اور بھی قصوروار
کہلائے گا؟۔۔۔پہلے واقعے میں تو چوکیدار ایک ہی تھا، جس کو مار پیٹ کر اور
ڈیوٹی کے دوران نشہ کرنے پر تبدیل کر دیا گیا۔۔۔رہےیوسف بھائی؟۔۔۔ توان کی
کوئی گل نہیں۔۔۔ انہوں نے اگلے سیزن میں ہی ساری کسر نکال لی۔۔۔دوسرے واقعہ
کوتمام بہنوں اوربھائیوں کے فیصل بھائی پی گئے۔۔۔ مہربان باس نےنقصان جو
پورا کر دیا تھا!۔۔۔ مگر ۔۔۔ مگر تیسرے واقعے میں ان ڈکیتوں نے جو لوٹاجو
پھولوں کو مسلا۔۔۔ وہ نقصان کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔۔۔ پھول اب کبھی
دوبارہ نہ کھلیں گے۔۔۔
تو اس کمپنی کو سوچنا نہیں چاہیے کہ چوکیداروں میں سے یا دکان کےعملے میں
آخر کون آستین کا سانپ ہے؟۔۔۔اگر نہیں تو پھر دکان کے مالک کے دیے جانے
والے اتنے بھاری معاوضے کس کھاتے میں جائیں گے؟
کیا کہا؟؟۔۔۔ جواب نہیں معلوم!۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔ چلو کوئی گل نہیں۔۔۔ لیکن میرے
ساتھ ایک کام ہی کرتے جاو پھر۔۔۔ ڈی پی کالی کرتے جاو۔۔۔ عورتوں کی طرح
کوسنے دیتے جاو۔.. آو ان پر لعنت تو کرو۔۔۔
ان پر، ان کے معاونین پر، ان کے حمایتیوں پر قیامت کی صبح تک۔۔۔ اللہ کریم
کی لعنت ہو بے شمار۔۔۔ بے شمار!
نوٹ:ایک بار پھر عرض ہے کہ تینوں واقعات سچے ہیں۔ انہیں حالات حاضرہ پر
منطبق کرنے والا خود ذمہ دار ہے اور کسی بھی قسم کی مماثلت محض اتفاقیہ ہو
گی۔ |
|