اک آبلہ پا وادیٔ پُرخار میں تھا

منظور عثمانی
دارِ فانی کی بے ثباتی کے بارے میں فانیؔ کے کہا تھا ؂
ہم نہ تھے کل کی بات ہے فانیؔ
ہم نہ ہوں گے وہ دن بھی دور نہیں

سو قدرت کے اٹل اصول کی تعمیل میں سرسید کے سچے وارث، قوم کے ہمدرد ، غم گسار اور مسیحا کو بھی 94سال کی عمر میں ملت کو سوگوار چھوڑ کر رخت ِسفر باندھنا پڑا۔ بالآخر ع
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائیدار میں
فیض احمد فیضؔ کے مطابق ع
اس جان کی کوئی بات نہیں یہ جان تو آنی جاتی ہے
لیکن قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ ع
کس دھج سے کوئی مقتل* کو گیا

تو تمام عمر کے لیکھا جو کھاکو نظر میں اگر رکھاجائے تو مجھے وثوق کے ساتھ کہنے دیجیے کہ کہ بڑے سیدکے بعد جس کا یہ سید سچا پیرو کار تھا شاید ہی کوئی دوسرا ایسادیدہ ور، پیدا ہو اہو جو قوم کے لیے عمر بھر اتنا سوزپا میں مبتلا رہاہو یا جس نے قوم کی فلا ح میں اتنی گرد پھانکی ہو۔

خاکسار سے سید حامد صاحب سے جانکاری اس وقت سے شروع ہوئی جب آ پ یوپی سے آکر مرکزمیں Staff Selection Commisionکے بانی چیئرمین تھے۔ وجہ یہ بنی کہ مرزا محمود بیگ سابق پرنسپل اینگلو عربک کالج(دلی کالج) دلی ایجوکیشن سوسائٹی (جس کے تحت دلی کالج اینگلو عربک سینئر سیکنڈری اسکول اور شفیق میموریل اسکول (جہاں میں پوسٹ گریجویٹ (P.G.T.)تھا)چل رہے تھے) سکریٹری تھے۔لیکن ڈاکٹر ذاکر حسین (سابق صدرجمہوریہ) کی ایما پر آپ بطور ایجوکیشنل ایڈوائزر کشمیرجانے لگے تو اپنی خداداد مردم شناسی کے باعث آپ کی نظر انتخاب اپنے متبادل کے طور پر سید حامد صاحب پر پڑی۔ سوسائٹی کی خوش قسمتی سے سیدصاحب نے یہ اضافی ذمہ داری بھی اوڑھ لی احقر اس وقت اپنے ادارے کے اکیڈمک (Academic)معاملات کا ذمہ دار تھا اس لیے مرحوم سے مسلسل رابطہ بنارہا۔ کچھ سالوں کے لیے یہ سلسلہ تب منقطع ہو جب سید صاحب 1985ء میں علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوکر چند سالوں کے لیے دہلی چھوڑ گئے۔ اس دوران تدریسی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ میں نے دہلی کے اسکولوں کے تعلیمی مسائل اردو کونسل کی فروغ اردو کے سلسلے میں لیت ولعل اور این سی آرٹی کی اردومیں نصابی کتب کی اشاعت میں مجرمانہ پہلو تہی پر سارے ہی اردو اخباروں میں مضامین لکھے۔ اس کے علاوہ اردو اسکولوں کی زبوں حالی اور نتائج کی شرمناک حالت کو بھی ہائی لائٹ کیا اسی دوران مسلم یونیورسٹی سے سبکدوشی کے بعد سید صاحب نے ہمدرد یونیورسٹی کو اپنی ذات کا محور بناکر اس کی نوک پلک سنوارنے میں جٹ گئے۔ لیکن حیرت ہوتی ہے کہ سید صاحب میں کتنی توانائی تھی کہ ملکی پیمانہ پر بھی ان کی نظر ہی اور اس کی اصلاح کے لیے جگر سوزی اور اور تگ ودو بھی۔
اسی دوران قوم کی بے عملی سے بے چین ہوکر اپنا پیغام در در پہنچانے کے لیے آپ نے کارواں لے کر گرد نوردی کی ٹھان لی ابتدا یوپی سے کی آپ یوپی اردو رابطہ کے چیئرمین بھی تھے اس کے علاوہ امان اﷲ خاں، پروفیسر عتیق احمد مرحوم، پروفیسر شریف احمد مرحوم اور ان کی ٹیم کو لے کر پوری یوپی کو چھان مارا۔ میں اس وقت اپنی ملازمت کے آخری دور میں تھا لیکن اس کارواں کی کامیابی اور پذیرائی برابر اخباروں میں پڑھتا رہا۔ کارواں جہاں جہاں سے گزرا لوگوں نے سر آنکھوں پر بٹھایا۔ بات کیونکہ دل سے نکلی تھی اس لیے جاکر دل پر اثر انداز ہورہی ہے۔ چنانچہ اس سے حوصلہ پاکر آبلہ پا سید صاحب کی رہنمائی میں ایک ملک گیر پیمانہ پر تعلیمی کارواں کی ٹھان لی گئی۔ میں اس وقت تک وظیفہ یاب ہوچکا تھا۔ مجھے بھی شمولیت کی دعوت دی گئی اگرچہ میں دل کا روگ لگابیٹھا تھا لیکن74سال کے میر کارواں کی ہمت اور حوصلہ کے آگے ساری مجوزہ احتیاط کو پس پشت ڈال کر میں بھی ساتھ ہولیا۔ پروگرام بھی سرچکرادینے والا تھا۔ 18دنوں میں 13ریاستوں اور 30شہروں کی خاک چھاننی پڑی۔ پروگرام ایسا بنایا گیا تھا کہ رات میں سفر اور دن میں کئی کئی جلسے۔ مرحبا اپنا میر کارواں سب سے زیادہ چاق وچوبند اور مستعد رہا۔ بلڈ پریشر اور نہ جانے کس کس عارضہ کی دوائیں لیتا اور سرگرمِ عمل اور رواں دواں۔

سید حامد صاحب کی مہم جوئی کی مبادیات
۱۔ خواندگی اور تعلیمی بیداری
۲۔ اصلاح معاشرہ
۳۔ صحت وصفائی
۴۔ اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی

غور سے دیکھا جائے تو یہی سر سید علیہ الرحمہ کی بھی ساری جدو جہد کا نچوڑ ہیں۔ مرحوم کی زندگی کا محور یہی چار نکات تھے۔ کارواں جن جن راہوں سے گزرا انہی کی ترغیب دیتارہا۔ شرکاء کاروان بھی انہی بنیادی مقاصدکو اپنی تقریروں کا موضوع بناتے کہ صدیوں کا طاری جمود کسی طور کم ہو۔ میر کارواں کے الفاظ میں:
’’کارواں جہاں بھی گیا اس کی پزیرائی گرم جوشی سے کی گئی۔ اسلامی اخوت اور اخلاص کے ایمان افروز مظاہرے ہر پڑاؤ پر دیکھنے کو ملے۔ یہ محسوس ہوا کہ اب مسلمان جواب غفلت سے قطع تعلق کرناچاہتا ہے وہ علم وآگہی کے پیاسے ہیں، شعلہ بار مقرروں اور صحافیوں سے ان کا دل بھر چکا ہے، انہیں یہ احساس ستانے لگا ہے کہ وقت عزیز باتوں خیال آرائیوں اور خرافاتوں میں بہت گنوایا اب سنجیدگی کے ساتھ تعلیم اور تعمیر میں لگانا چاہیے، اپنی ذات پر اب وہ کڑھنے لگے ہیں، غیرت انہیں کچھ لَے لگانے لگی ہے جھوٹی قناعت سے وہ اکتانے لگے ہیں‘‘۔

آگے چل کر فرماتے ہیں:
’’اگرچہ یہ دعویٰ کرنا نادانی ہی کہلائے گی کہ کارواں کوئی بڑی تبدیلی لے آیا لیکن اتنا کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بڑے شہروں میں کارواں نے جہاں جہاں پڑاؤ کیا اضلاع کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس کا سندیسہ دوش بدوش اطراف واکناف میں پھیل گیا۔ کانفرنسوں نے پروبال کا کام کیا۔ روزناموں نے کارواں کی آمد کو مشتہرکیا۔ بعض نے اس پر ادارئے لکھے اور جلسوں کی روداد اور تقریروں کے نکات کو صفحات میں جگہ دی۔ فلاح وتعمیر واصلاح کی لہریں پھیلتی اورجابجا ساحل سے ٹکراتی گئیں‘‘۔

ایک بار غالباً 1909ء میں میں نے کاروانِ تعلیم کا ذکرکیا تو ان کے جواب میں آپ نے اپنے مکتوب20اپریل 2000 میں لکھا ’’کارواں کا ذکر آپ نے
اک تیر میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے

’نکتہ‘ چینوں نے کہا ’’کارواں آیا، خاک اڑائی، گزر گیا، کارواں کاجواز اکبر الہ آبادی نے پہلے ہی فراہم کردیا تھا
ہر چند بگولہ مضطر ہے اک جوش تو اس کے اندر ہے
اک وجہ تو ہے، اک رقص تو ہے بے چین سہی بے تاب سہی

گرد تو ہم نے ضرور اڑائی لیکن بے چینی اور بے تابی بھی تو ہم بانٹتے چلے گئے اور وہ بھی وجد اور رقص کے انداز میں جب اہلِ کارواں کے دل میں اس کی یادیں پیوست ہوگئیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ جنہوں نے رقص شرر کا منظر دیکھا وہ بالکل بھول گئے ہوں۔ تجارت کے لیے اجناس وانواع کی کوئی کمی نہیں۔ لیکن سب سے اعلیٰ کاروبار جس سے انسانیت کو سروکار رہاہے، افکار کا کاروبار رہا ہے۔ افکار وخیالات کی تخم ریزی ہمیشہ تہذیب کے برگ وبار لاتی ہے‘‘میں کارواں کی صفائی کرنے کیوں بیٹھ گیا اور وہ بھی ایسے شخص کے حضور جس نے کارواں میں شریک ہو کر اس کے وقار کو بڑھایا‘‘۔

غرض اس کارواں کو کسی آنے والے انقلاب کی گھن گرج سے تو نہیں ہاں آہٹ سے ضرور تعبیر کیاجاسکتا تھا۔ ایک بڑی حوصلہ افزا بات یہ دیکھنے میں آئی کہ مسلم تعلیم یافتہ نوجوانوں میں اپنے بچھڑے پن پر زیادہ تڑپ محسوس کی گئی۔

تعلیمی کارواں سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ہمیں یہ علم ہوگیا کہ ملک بھر میں مسلمانوں کی تعلیمی صورتِ حال کیاہے۔ کہیں صورتِ حال اطمینان بخش تو کہیں کہیں انتہائی مایوس کن پائی مثلاً مہاراشٹر، کرناٹک اور حیدر آباد میں انجمن اسلام اور الامین اور کیرالا نے غیرمعمولی بیداری کا ثبوت دیا ہے تو شمالی ہندوستان نے مثالی بے حسی کا اپنا یوپی اور دہلی سب سے زیادہ پھسڈی پائے گئے جو کبھی اردوکے گہوارہ رہے تھے۔ یوپی میں ایک بھی اردو میڈیم ہائی اسکول نہ تھا جبکہ اڑیسہ جیسے 3%مسلمانوں کی آبادی والے صوبے میں 6اردو میڈیم اسکول پائے گئے۔ کرناٹک میں (جہاں اس وقت ڈھائی سو سے زیادہ اردومیڈیم اسکول تھے) وزیر سلیمان سیٹھ کا یہ دلخراش جملہ بھی سننے کوملا کہ ایک زمانہ تھا کہ علم کا سورج شمال سے طلوع ہوا کرتا تھا اور جنوبی ہند اس کی روشنی سے مستفید ہو تا تھا پر آج الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ جس پر سید حامد نے جواب دیا تھا ؂
جہاں میں اہل ایمان صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے ، اُدھر ڈوبے ادھر نکلے
علامہ اقبالؔ

گلبرگہ کے سفر کے دوران ایک محیر العقول واقعے دیکھنے میں یہ آیا کہ درگاہ خواجہ گیسو دراز کی آمدنی سے وہاں کے قابل فخر سجادہ صاحب نے اکیس ادارے چلا رکھے ہیں جن میں میڈیکل کالج، انجینئرنگ کالج، نرسنگ اور ڈینٹل اور آئی آئی ٹی جیسے بڑے ادارے شامل ہیں۔اس کارنامہ سے متاثر ہوکرمیں نے خصوصی طور پر اجمیر شریف، نظام الدین اور دوسری بڑی درگاہوں کے سجادگان کو غیرت دلائی۔ پر وائے بے حسی اور غفلت، وہاں تو ع
’’ہے یوں کہ انہیں دُردِ تہہ جام بہت ہے‘‘

اس ٹور میں احقر نے ایک خاص چیز نوٹ کی کہ ساؤتھ میں مسلمانوں کی تعلیمی ترقی میں وہاں کے لوکل غیر مسلم سیاستدانوں کا بھی تعاون حاصل رہا۔ ہمارے جلسوں میں وہ لوگ برابر دلچسپی لیتے رہے۔ ہم لوگوں نے اپنی تقاریر میں اسے خاص طور سے سراہا۔ ہندوستان جیسے بین الثقافتی ملک میں اس کے بغیر کام بھی نہیں چلتا۔ Polarizationیا ارتکاز کے تنائج ہم شمال مغربی ہندوستان میں بھگت ہی رہے ہیں۔

اس مہم میں اہالیانِ کارواں نے تقابلی تجزیہ بھی کیا اور پایا کہ اہل اسلام نے کہیں کسی ریاست میں کتنی بھی تعلیمی ترقی کی ہو لیکن معیار میں سبقت غیر مسلموں کو ہی حاصل تھی۔ اس کے علاوہ بھی دوسرے سروے سے یہ ثابت تھا کہ تعلیمی دوڑ میں ملک کے سب سے نچلے پائیدان پر تھا جس کا واحد حل سید حامد اور سید شہاب الدین جیسے عمائدین کے تئیں یہ تھا کہ مسلمانوں کو رزرویشن دیا جائے۔

کاروانِ صحت
تعلیمی کارواں کے اٹھارہ دنوں کے تھکا دینے والے سفر کے بعد بھی حامد صاحب نچلے نہیں بیٹھے چنانچہ چند دن سانس لینے کے بعد کاروانِ صحت لے کر نکل پڑے اس بار ٹارگیٹ یو پی کے وہ اضلاع تھے جہاں مسلمان گندگی کے سبب سے پولیو اور ٹی بی جیسے امراض کو شکار تھے۔ حامد صاحب خصوصی طور پر مجھے حکم دیا کہ احقر کو شامل سفر رہنا تھا۔ میرٹھ، رڑکی اور بجنور اور مظفر نگر تک میں ساتھ رہا لیکن طبیعت کی خرابی کی وجہ سے مزید تعمیل نہ کرسکا۔

یہاں کچھ چونکادینے والے انکشاف ہوئے۔ وہ یہ تھے کہ مظفر نگر کے مشہور ٹی بی اسپیشلسٹ ڈاکٹر بنسل نے بتایا کہ ان کے پاس 75%برقعہ پوش خواتین ٹی بی کے مریضہ تھیں، بجنور میں 110پولیو کے مریضوں میں 103مسلمان بچے تھے۔ ڈاکٹر خلیل اﷲ کے مطابق ان کے مریضوں میں اکثریت گوشت خوروں کی تھی۔ اس کے اس بار حفظان صحت موضوع رہا۔ اس لیے اس بار حفظان صحت خاص موضوع رہا۔اہتمام یہ رکھا گیا کہ ان شہروں کے غیر مسلم ڈاکٹروں کا تعاون بھی شامل حال رہے۔ ضلعوں میں صحت وصفائی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں ہماری تقاریر کاموضوع بھی زیادہ تر صفائی ہی رہا خاص ہلچل ہر جگہ دیکھنے میں آئی۔کئی غیر مسلموں کو کارواں کی غرض وغایت کا پتہ چلا تو برملا اعتراف کیا کہ یہ تو دیش کی خدمت ہے صرف مسلمانوں ہی کی نہیں۔ جب انہیں میر کارواں کی عمر کا علم ہوا تو کئیوں نے تو سید صاحب کے پیر چھوکر اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔
سید صاحب کے ساتھ احقر کو 22روز دن رات رہنے کا اعزاز ملا۔ میں دل کی گہرائیوں سے دعویٰ کرتاہوں کہ ایسا بے نفس، بے ریا، بے غرض درویش صفت اور قوم کی بہبودی میں ہر لمحہ سوزاں فقیر اپنی اسی سالہ زندگی میں میں نے نہ دیکھا اورنہ برتا اور اس مکر وریا کی دنیامیں شاید ملے بھی نہیں کاش ہمیں اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی توفیق ہو۔

کم لوگوں کو علم ہے کہ سچر کمیٹی کو صحیح صورتِ حال کی جانکاری کرانے میں سید صاحب کی بصیرت اور ملک گیر معلومات کا کتنا بڑا ہاتھ تھا مجھ علم ہے کہ کمیشن کے سلسلے میں مرحوم کتنی آشائیں کتنی امیدیں باندھے ہوئے تھے۔ لیکن حقیقت پسند انسان کی طرح انہیں اس کا بھی بخوبی علم تھا کہ Follow upکے بغیر سرد جانے کتنے کمیشنوں سے اٹے پڑے ہیں۔ دباؤ بنائے بغیر سرکار ہڑبڑاتی نہیں۔ حق کو بھیک کی طرح مانگنے میں ہمیں ملکہ حاصل ہے۔ بے عملی کی سیاہ ردائیں اوڑھ کر نوحہ گری میں ہم کو لطف آنے لگا ہے اسی پر نشانہ سادھتے ہوئے مرحوم کو کئی بار دہراتے ہوئے سنا ہے کہ ہم لوگوں کو ؂
ہے وصلِ یار کی بھی تمنا کو حوصلہ
ڈر یہ بھی ہے کہ طبعِ عدو پر گراں نہ ہو

یہی ہوا بھی ہم سید صاحب کے باربار انتباہ کے باوجود وہ دباؤ نہ بنا سکے جس کے نتیجے کے طور پر رپورٹ بھی طاقِ نسیاں ہوکر رہ گئی۔ مرحوم نے اس کمیشن کی تیاری میں بڑی محنت کی تھی بڑی امیدیں واسطہ کی تھیں لیکن ہوا وہی جس کا خدشہ تھا اثر انداز ہونے کے لیے باعمل ہونے بیدار ہونے اور جہد مسلسل کی ضرورت ہے جو بد قسمتی سے ہمارے خمیر میں نہیں جاگ جاگ کر سوجانے میں ہمیں بڑا مزہ آتا ہے۔ مرحوم قوم کی بے عملی سے دل برداشتہ ہوکرکئی بار کفِ افسوس ملتے ہوئے فرماتے بھی تھے کہ ہمارے دلوں سے احساسِ زیاں تک جاتارہا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ؂
یہ خواب مسلسل کے نتائج ہیں کہ ہم لوگ
خودداریٔ احساس کو بھی بھول چکے ہیں

کم وبیش اسی محرومی ٔاحساس کی ٹیس ہر دلِ دردمند نے محسوس کی ہے سرسید پر ہماری بے حسی اورگمرہی نے کیاکیا ظلم نہیں ڈھائے۔ اقبال ؔ نے اپنے پیغام کی پائمالی پر کیسے کیسے آنسو بہائے ہیں۔ بے حس قو میں اپنے محسنوں کے احسانات کا بدلہ ایسے ہی چکاتی ہیں۔ یہ تو ان کا آ ہنی عزم تھا جو گالیاں کھاکے بھی بے مزہ نہیں ہوئے اور خود کویہ کہہ کر تسلی دے لی کہ ؂
مانا کہ اس جہاں کو نہ گلزار کر سکے
کچھ خار کم تو کرگئے گزرے جدھر سے ہم

سر سید کے خلاف ایک مولانا شیخِ حرم سے کفر کا فتویٰ لینے حج پر گئے تو سر سید نے یہ کہہ کر ہنسی میں ٹال دیا ’’ہمارا کفر بھی کیاکفر ہے کہ لوگوں کو حاجی بنادیتا ہے‘‘۔ان کی روایتوں کا یہ سچا وارث بھی اسی خمیر سے اٹھا تھا وقتی کدورتوں کی بات دوسری تھی ورنہ حامدصاحب بھی انہی جیسے اعصاب کے مالک تھے۔ ایک بار ایک شہر کے لوگوں کی بے رغبتی (شاید ناگپور)کے پیشِ نظر میں نے حامدصاحب سے مؤدبانہ عرض بھی کیا ’’جناب اپنی قوم کو آپ جیسے مصلح کی ضرورت بھی ہے یا ہم بلا وجہ ہی سرگرداں ہیں؟‘‘

اس گستاخانہ سوال کا جواب سوائے خندہ ٔزیر لب کے اور ہو بھی کیا سکتا تھا۔ ایسے لوگ بددل ہوکربیٹھ بھی کب سکتے ہیں۔

مرحوم نے اپنے اوپر آرام حرام کرلیا تھا۔ بڑھاپے میں بھی ہر وقت قوم اس کی فلاح وبہبودی کے بارے میں ہی سوچتے ایک دھن تھی جو ہمیشہ سوار رہتی۔ اگرچہ آخری دور کا بیشتر حصہ ہمدرد یونیورسٹی کے بنانے، سنوارنے اور اسے تعلیمی برادری میں نمایاں مقام دلانے میں گزرا لیکن قومی اور ملی مسائل آپ کی نظر سے کبھی اوجھل نہیں ہوئے۔ تعلیمی کارواں کے بعد احقر کا دہلی کے امداد یافتہ اسکولوں کے مسائل کے بارے میں آپ سے مسلسل رابطہ رہا۔ ایک بار نتائج کے بہتر کرنے کے سلسلے میں (جس کو آپ نے سراہا تھا) حکیم عبد الحمید صاحب سے ملاقات بھی کرائی جو ان کے فنانشیل سیکریٹری قدوائی صاحب کی کتر بیونت کی نذر ہوگئی۔ مرحوم کو دہلی کے اردو میڈیم اسکولوں کی بہبود کی فکر ہمیشہ رہتی تھی۔ ایک بار سوچا گیا کہ ایک نگراں کمیٹی مقرر ہو جو اسکولوں کی کارکردگی پہ نظر رکھ سکے۔ شریف الحسن نقوی صاحب بھی پیش پیش تھے۔ چنانچہ تمام اسکولوں کے منیجر، صدور، پرنسپل صاحبان کی مشترکہ میٹنگ فتحپوری مسلم اسکول میں بلائی گئی جس کا ایک رکن یہ خاکسار بھی تھا۔ پہلی ہی میٹنگ میں میں نے محسو س کیا کہ اسکولوں نے ذمہ داران کی نظر میں یہ ان کے اختیارات پر ایک قدغن تھا۔ حامد صاحب نے جب مجھے اپنی رائے پیش کرنے کا حکم دیا تو میں نے عرض کیا کہ ہماری حیثیت تو صرف درد مندان اور مشیر کی سی ہے کرنا نہ کرنا تو اسکولوں کے عہدیداران کو ہے۔ بہر کیف ایک نگراں کمیٹی تشکیل دی گئی۔ سید حامد صدر اور نقوی صاحب سیکریٹری اور چند افراد بمع اس خاکسار ممبر بنائے گئے۔ طے یہ ہوا کہ ہر دوماہ بعد کسی ایک اسکول میں نگراں کمیٹی کارکردگی کا جائزہ لے۔ لیکن میرے اندازے کے عین مطابق یہ میٹنگ ہی پہلی اور آخری ثابت ہوئی کیونکہ بفضل تعالیٰ وہاں تو ع
سب کام چل رہے تھے ہنرکے بغیر بھی

ادھر سے مایوس ہوکر مرحوم اس نتیجے پر پہنچے کہ دہلی میں چند انگلش ماڈل اسکول کھڑے کیے جائیں جہاں قوم کے ہونہار بچوں کا دینیات اور اردو سیکنڈ لینگویج کے ساتھ انگلش میڈیم سے تعلیم دی جائے۔ چنانچہ ہمدرد پبلک اسکول، کریسنٹ پبلک اسکول، نیوہورائیزن پبلک اسکول اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پبلک اسکول (ارون ہسپتال کے پشت پر) اسی خواب کی تابندہ تفسیریں ہیں۔ یقینا اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے میں شفیع قریشی، شفیع پیکارڈ والے، ریاض عمر، چودھری عارف، عیسیٰ شفیع اور دردمندان کا خون جگر شامل ہے لیکن یہ سب سید صاحب کے اختراعی ذہن کی ہی پیداوار ہیں۔ انڈیا اسلامک سینٹر کا قیام بھی جو آج سراج الدین قریشی کے خلوص اور محنت کے باعث مثالی ادارہ ہے سید صاحب، شفیع قریشی وغیرہ کے ہی خوابوں کا ثمرہ ہے۔
حکیم عبد الحمید اور سید صاحب کا نایاب تال میل

دنیا کی واحد مثال ہے کہ بیوہ ماں کے دو لائق سپوتوں نے صرف اپنے بل بوتوں پر اور اپنے پیسے سے ہندو پاک میں دو عظیم یونیورسیٹیاں قائم کردیں۔ حکیم صاحب گلے گلے تاجر تھے لیکن ایسے تاجر جس کی تاجرانہ صلاحیتوں سے قوم کو بے پناہ فائدہ پہنچاہو۔ دولت بہت لوگ کماتے ہیں لیکن دولت کا اتنے مستحسن استعمال کی توفیق چند ہی لوگوں کو ملتی ہے۔ ہمدرد کامالک واقعی صحیح معنوں میں قوم کا ’’ہمدرد‘‘ تھا۔ اس نے دولت کو اپنی آسائش کا ذریعہ نہیں بنایا۔ اپنے پیسے سے ایک عظیم ادارے کا قیام کا خواب نہ جانے کب سے پالاہوا تھا کہ 47ء کے پُر آشوب دور میں جب مسلمان اپنی جائدادیں اونے پونے بیچ کر بھاگ رہے تھے تو یہ عبد المومن اپنے مومن کے بھروسے پر تغلق آباد میں اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے زمینیں خریدرہا تھا۔ ہمدرد یونیورسٹی کی بنیاد پڑ چکی تھی لیکن حکیم صاحب اپنے تمام تر وسائل، سارے جذبے کے باوجود ان رموز سے آگاہ نہیں تھے جو تعلیمی اداروں کے لیے درکار ہوتے ہیں لیکن قدرت نے انہیں جو ہر شناسی کا ملکہ ضرور دیا تھا۔ ہمدرد دو اخانہ کی ترقی سے لے کر ہمدرد یونیورسٹی کے فروغ تک کارکنان کا انتخاب ان کی دور رس نگاہی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ ہر مہرہ جو جس بساط پر موزوں تھا وہ وہیں پر نظر آتا تھا۔ کام کرنے والے کی اہمیت اپنی جگہ لیکن کامی افراد کا بہترین مصرف کے لیے غیر معمولی لیاقت درکار ہوتی ہے۔ حکیم صاحب کو یہ جوہر خدا کا عطیہ تھا۔ نہ جانے مرحوم کب سے تاک میں تھے کہ سیدحامد کب ان کے ہتھے چڑھیں اور وہ انہیں اچک لیں۔ یہی ہوا بھی کہ مسلم یونیور سٹی کی چانسلر شپ سے سبکدوش ہوتے ہی حامد صاحب حکیم جی کے دوش بدوش نظر آئے۔ نہ جانے اﷲ نے ان کی زبان میں کیا تاثیر دی تھی کہ آپ کے ساتھ ہر کام کرنے والا اسے اپنا کام سمجھ کر بھنبھیری بنا دن رات ایک کردیتا تھا۔ اتفاق سے ہمدرد دواخانے کے ابتدائی کارکن ماسٹر صاحب (منیجر)محمد محترم عثمانی، سید صاحب، مخمور عثمانی اور وحید صاحب سے میں ذاتی طور سے واقف تھا۔ انہوں نے ہمدرد کو ہمدرد بنانے میں کس طرح ’’بصد شوق‘‘ اپنی جانیں وقف کی تھیں اس کا میں عینی شاہد ہوں۔ الجمعیۃ کے انگریزی جریدے کے بند ہونے کے بعد کس طرح ناز نخرے اٹھا کر سیداوصاف علی کو اپنے ساتھ کام کرنے پر راضی کیا اور ان کے جملہ اوصاف کو یونیورسٹی کے لیے استعمال کیا۔ وہ بھی میرے علم میں ہے۔

لیکن میری نظر میں حکیم صاحب کا ’’ماسٹر اسٹروک‘‘ سید حامد کا استعمال تھا۔ حکیم صاحب کے سارے وسائل، ساری دولت، سارے منصوبے، سارا جذبہ سب دھرے رہ جاتے اگر حامد صاحب جیسا جہاں دیدہ، تجربہ کار، ایڈمنسٹریٹیو، مشقت پسند اور قومی جذبے سے سرشار مرد مومن انہیں نصیب نہ ہوتا۔ سرسید نے تو اپنی نجات کا ذریعہ ’مسدس حالی‘ لکھوالانے کو بتایا تھا لیکن حکیم صاحب بجا طور پر سیدحامد کے انتخاب پر فخر کرسکتے ہیں۔ سید صاحب کا جذبہ، تجربہ اور رسوخ اگر نہ ہوتے تو ہمدرد یونیورسٹی آج اس مقام پر نہ ہوتی۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ حکیم صاحب کے مہیاکردہ وسائل سید حامد کو حاصل نہ ہوتے تو اس درویش کے ہاتھوں یہ کام ہرگز نہ ہوپاتا۔ عجیب اتفاق تھا ان دو عظیم شخصیتوں کا۔ شاید یہ قدرت ہی کی طرف سے تھا۔ نیتوں میں خلوص اور جذبوں میں صداقت ہو تو وہ قادر مطلق غیب سے ایسے امکانات پیدا فرمادیتاہے۔

بہرحال قدرت کو سید صاحب جیسے فقیر اور درویش سے جتنا اور جیسے کام لیناتھا وہ لے لیا۔ مرحوم فقیرانہ آیا اور صداکرگیا۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم ان کی وراثت کو کس انداز سے تھامتے اور آگے بڑھاتے ہیں ویسے اپنے محسنوں کے بارے میں ہمارا ریکارڈ کچھ زیادہ روشن رہا نہیں۔ تجربہ بتاتا ہے کہ وقتی طور سے خوب خوب تعزیتی جلسے ہوتے مرحوم کی خدمات کے بارے میں دل کھول کر اعتراف کیے جاتے ہیں، زبانی جمع خرچ کے جھاڑ باندھے جاتے ہیں۔ یہ ضرور بالضرور کہا جاتاہے جانے والا جو خلا چھوڑ کر گیا وہ پُر ہونے والا نہیں لیکن
بقول ایک دانشور:
’’کوئی خلا پیدا نہیں ہوتا اور اگر ہوتا بھی ہے تو مرحوم کے جسد ِخاکی سے پُر بھی ہوجاتاہے‘‘۔

وقتی جوش کے تحت کبھی اِّکا دکّا میموریل بھی قائم کردیا لیکن جلد ہی آپسی مناقشے یا شخصی مفادات کے زیر اثر اکھاڑہ بن کر رہ جاتا ہے۔ مرحوم کا پیغام اس کا کردار، خلوص، ایثار اور مقصد طاقِ نسیاں کی نذر کردیا جاتا ہے۔ دعا ہے کہ حکیم صاحب کا اگایا اور حامد صاحب کا سینچا پودا ہمیشہ سرسبز وشاداب رہے۔ مسیحا روز روز نہیں آتے کبھی تو صدیوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ کاش ثمر حامد اور عبد المعید اسی لگن، تال میل اور ایثار کا ثبوت دیں جو ان مرحومین کا عمر بھر وطیرہ رہا۔ آمین
سچ تویہ ایسے نایاب ہستیوں کے بارے میں کسی شاعر کا یہ شعر یاد آتا ہے کہ ؂
قبروں میں نہیں ان کو کتابوں میں اتارو
یہ لوگ ’’محبت‘‘ کی کہانی میں مرے ہیں
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180587 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.