کراچی کا ایک عجیب پروفیشنل ہوٹل
(Munir Bin Bashir, Karachi)
جب پاکستان اسٹیل مل اپنے
تنصیباتی مراحل سے گزر رہا تھا تو اس وقت مجھے ایک دشوار مرحلہ پیش آیا -
ایک قیف نما پانی کی ٹنکی جسکی بلندی سات آٹھ منزلوں کے برابر تھی اس کی
بیرونی سطح پر رنگ کروانا پڑا - اس کے لئے کسی چھوٹے ٹھیکیدار کی ضرورت پڑی
- جو کم سے کم دام میں مقامی طریقے جسے عرف عام میں “جگاڑ“ کہتے ہیں لگا کر
یہ کام کردے -مجھے اپنے کیریر کا آغاز کئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا اور
تجربہ نہ ہونے کے برابر تھا-
ایک دوست سے بات کی - اس نہ کہا کوئی مسئلہ ہی نہیں --صدر آجاؤ اور کیف
جارج کے قریب ہی سامنے ایک ہوٹل ہے وہاں مجھے ملو -وہاں مطلوبہ کام کر نے
والے مل جائیں گے اور اپنے رنگ کر نے اسکیم اور منصوبہ بندی سے بھی آگاہ کر
دیں گے --بس وقت کا خیال رکھنا کہ شام کے پانچ بجے کے بعد آنا-
|
|
میں وقت مقرہ پر متزکرہ ہو ٹل پہنچ گیا - آدھے گھنٹے ہی میں سارا ہوٹل بھر
گیا -ہر نیا گاہک آتا اور چائے کا آرڈر دیتا اور ادھر ادھر نظر دوڑاتا اور
کسی نہ کسی کے پاس اٹھ کر چلا جاتا یا اسے اپنی ٹیبل پر بٹھا کر مختلف
انجینئرنگ کے - یا تعمیراتی مسائل پر بات چیت شروع کر د یتا - زیادہ تر
افراد اپنی موٹر سائیکلوں پر آرہے تھے - تب میرے دوست نے بتایا کہ جسطرح
ادیبوں نے اپنا ٹی ہاؤس بنایا ہے اسی طرح ان چھوٹے ٹھیکیداروں نے اپنے لئے
یہ ٹی ہاؤس بنایا ہے -یہاں آکر اپنے مسائل پر بات چیت کرتے ہیں اور کوئی نہ
کوئی حل لیکر جاتے ہیں -
میرے دوست نے ہوٹل اور ہوٹل کے افراد کا احوال بتا کر ادہر ادہر نطر ڈالی -دو
تین افراد کو آواز دی -وہ اٹھ کر آگئے - میں نے ان کے سامنے اپنا مسئلہ پیش
کیا - تھوڑی ہی دیر میں سب نے بحث کی اور تھوڑی ہی دیر بعد اس کا حل پیش
کیا - یہ حل وہ ہوتے ہیں جو پاکستان میں مقامی افراد جدید مشینوں کی غیر
دستیابی کی صورت میں اختیار کرتے ہیں -
میں تقریبآ آٹھ بجے تک وہاں رہا اس کے بعد ہوٹل خالی ہو گیا - پھر عام
افراد رہ گئے -
اسٹیل مل سے ریٹائر ہوئے ایک عرصہ بیت گیا-ملازمت کے دوران کئی پیچیدہ
مسائل حل کئے - ان گنت انتہائی زیرک تکنیکی الجھنیں سلجھائیں - تعریفی خطوط
بھی ملے لیکن یہ ہوٹل اور اس میں آنے والے افراد اب بھی یاد آتے ہیں -
نہ جانے اب بھی یہ لوگ آتے ہیں یا وہ بھی افتاد زمانہ کی گرد میں کھو گئے
شہر کراچی سب کے مسائل حل کرتا تھا |
|