کوزے میں دریا

You can afford to close your eyes because our eyes are open. یہ جملہ ایک اشتہار کا ہے جس نے اس کالم کی بنیادیں فراہم کیں ۔ایک ملک(دودھ) کے اشتہار میں دکھایا گیا ہے کہ ایک خاتون گلاس میں دودھ پی رہی ہیں اور ان کی آنکھیں بند ہیں ۔اور پھر یہ جملہ کہ آپ بلا جھجک آنکھ بند کر کے دودھ پی سکتے ہیں اس لیے کہ ہم نے اپنی آنکھیں کھلی رکھی ہوئی ہیں ۔ایک چھوٹے سے جملے میں اپنا پورا پیغام سمو دینا یہ ذہانت کی اعلیٰ مثال ہے ۔اسی طرح ایک زمانے میں ایک چاکلیٹ کے اشتہار میں ایک انگلش کا جملہ اس طرح بولا جاتا تھا The heights of delights۔چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی بڑی بات کہہ دینا اسی کو کوزے میں دریا بندکا نام یامحاورہ دیا گیا ہے ۔

ہمارے ملک کے مشہور مزاح نگار جناب فاروق قیصر سے کسی نے سوال کیا کہ یہ چینل والے خبریں پڑھنے کے لیے خوبصورت مرد و خواتین کا انتخاب کیوں کرتے ہیں انھوں نے جواب دیا کہ جھوٹ تو وہی ہے جو خوبصورتی کے ساتھ بولا جائے ۔اس چھوٹے سے جملے میں طنز بھی ہے اور مزاح بھی۔مشرقی پاکستان میں ایک اجتماع میں کسی نے مولانا مودودی سے ایک معصوم سا سوال کیا کہ آپ کو مغربی پاکستان سے زیادہ محبت ہے یا مشرقی پاکستان سے ،مولانا نے جواب دیا جن صاحب نے یہ سوال کیا ہے وہ یہ بتائیں کہ انھیں اپنی دونوں آنکھوں میں سے کون سی آنکھ پیاری ہے ۔ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا کے خوش نصیب کون لوگ ہیں انھوں نے جواب دیا جو اپنے نصیب پر خوش رہے وہی خوش نصیب ہے ۔بھٹو دور میں جب پروفیسر غفور صاحب سے ہر جگہ یہ سوال کیا جاتا کے اب جسارت کب نکلے گا تو آپ ایک ہی جواب دیتے کہ بھٹو اور جسارت ساتھ نکلے گا ۔حضرت علی کرم اﷲ وجہ سے ایک یہودی نے سوال کیا کہ وہ کون سے جانور ہیں جو انڈے دیتے ہیں پھر ان سے بچے پیدا ہوتے ہیں اور وہ کون سے جانور ہیں جو بچے دیتے ہیں ،آپ نے جوا ب دیا کہ وہ جانور جن کے کان ہوتے ہیں وہ بچے دیتے ہیں اور جن جانوروں کے کان نہیں ہوتے وہ انڈے دیتے ہیں ۔

یہ چند مثالیں ہیں اس طرح کی سیکڑوں نہیں ہزاروں مثالیں دی جا سکتی ہیں ۔مختصر وقت میں جامع بات کرنا یہ سنت ہے کسی لیڈر نے کہا تھا کہ مجھے کوئی ایک گھنٹے کے لیے تقریر کرنے کہے تو وہ میرے لیے آسان ہو گا ،اور اگر آدھے گھنٹے کے لیے کہے تو وہ ذرا مشکل ہو گا ،اور اگر دس منٹ کے لیے کہا جائے تو یہ میرے لیے بہت مشکل ہوگا۔ہمارے پیارے نبی اکرم ﷺ ہمیشہ بہت مختصر بات کرتے تھے آپ ﷺ کی احادیث اس کی بہترین مثال ہے ۔آپ ﷺ کی اگر کوئی طویل گفتگو یا تقریر ہے تو وہ خطبہ حجتہ الوداع ہے ،جو زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ پر مشتمل تھا ،ویسے اگر آپ اس خطبہ کو پڑھیں تو یہ پانچ سات منٹ میں پڑھ لیں گے ،لیکن جس اجتماع میں آپ ﷺ نے یہ گفتگو کی تھی اس میں صحابہ کرام کی حاضری کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی اس لیے درمیان میں کچھ لوگ متعین کیے گئے تھے جو اس تقریر کے جملوں کو پہنچا رہے تھے ،جس طرح آج کے دور میں نماز میں اگر لوگ زیادہ ہوتے ہیں بالخصوص عیدین کی نمازوں میں مکبرین درمیان میں تکبیر پڑھتے ہیں ۔چھوٹے فقروں میں بہت بڑی بات کو سمو دینا احادیث نبوی ﷺ سے بڑھ کر اس کی دنیا میں کوئی اور مثال نہیں ہے نمونے کے طور پر ایک حدیث پیش خدمت ہے ۔آپ ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور سوال کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ کوئی ایسا عمل بتایے کہ جس کی وجہ سے مجھ سے اﷲ بھی خوش رہے اور بندے بھی خوش رہیں ،آپ ﷺ نے فرمایا جو کچھ اس کائنات کے رب کے پاس ہے اس ہی پر اپنی نظریں جمالو اور جو کچھ بندوں کے پاس ہے اس سے نظریں ہٹالو تو اﷲ اوربندے دونوں خوش رہیں گے ۔

احادیث نبوی ﷺ کے بعد اس پوری کائنات کے رب نے بھی اپنے آخری نبی ﷺ پر جو قران نازل کیا ہے اس میں بھی مختصر جملوں یعنی ایک ایک آیت میں پوری دنیا جہاں کے معنی پوشیدہ ہیں اسی قرآن میں خود اﷲ تعالیٰ نے یہ ہدایت کی ہے کہ تم اس پر غور و فکر اور تدبر کیوں نہیں کرتے جس طرح قرآن مجید و فرقان حمید کا پڑھنا باعث ثواب ،اسے سمجھ کر اپنی زندگی میں عمل کرنا باعث نجات ہے اسی طرح اس پر غور وفکر اور تدبر کرنا بھی اس لیے ضروری ہے کہ خود اﷲ میاں نے اس کی ہدایت کی ہے ۔اس اہم بات پر ڈاکٹر محمود غازی صاحب نے ایک تاریخی واقعہ اپنی کتاب محاضرات قرآن میں لکھا ہے کہ حضرت امام شافعی حضرت امام احمد بن حنبل کے استاد تھے ۔حضرت امام احمد بن حنبل اپنی دعاؤں میں اپنے والدین کے ساتھ اپنے استاد حضرت شافعی کے لیے دعائیں مانگا کرتے تھے ۔حضرت امام احمد بن حنبل کی دو بیٹیاں تھیں جو اکثر ان دعاؤں کو سنتی تھیں ۔ایک دفعہ حضرت امام شافعی حضرت امام احمد بن حنبل کے گھر مہمان کی حیثیت سے آئے تو حضرت امام احمد بن حنبل کے بیٹیوں کو یہ جستجو تھی کہ اب ہم یہ چیک کریں گے کہ حضرت امام شافعی وہ کون سی عبادت کرتے ہیں جس کی وجہ ہمارے والد صاحب ان کے لیے اتنی دعائیں مانگا کرتے ہیں ۔چنانچہ جب حضرت امام شافعی عشاء کی نماز بعد اپنے حجرے میں سونے کے لیے چلے گئے تو حضرت امام احمد بن حنبل کی بیٹیوں نے جاگنے کا پرو گرام بنایا کہ وہ یہ دیکھیں کہ حضرت امام شافعی رات کتنی عبادت کرتے ہیں وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد جا کر دیکھتیں تو یہ نظر آتا کہ حضرت امام شافعی سو رہے ہیں پوری رات یہی سلسلہ رہا حتیٰ کہ حضرت امام شافعی تہجد کے لیے بھی نہیں اٹھے جب کے ان بچیوں نے یہ دیکھا کہ ان کے والد حضرت امام احمد بن حنبل نے حسب روایت تہجد ادا کی تو انھیں بڑی حیرانی ہوئی انھوں نے اپنے والد سے بھی اس کا ذکر کیا جب صبح فجر کا وقت ہوا تو حضرت امام احمد بن حنبل اپنے استاد حضرت امام شافعی کو نماز فجر کے اٹھانے گئے انھوں نے جب ان کو جگانا چاہا تو حضرت امام شافعی نے کہا کہ میں تو جاگ رہا ہوں اور پوری رات سویا نہیں ہوں تم نے جو رات کو نماز عشاء میں سورہ بقرہ کی جو آیات تلاوت کی تھیں اس میں سے ایک آیت پر رات بھر میں غور کرتا رہا اب تک اس آیت کے 104 آثار ملے ہیں یعنی مطالب و مفاہیم سمجھ میں آئے ہیں ۔(حدیث کی اصطلاح میں اس کو آثار کہتے ہیں ) اس واقعہ سے ہم اور دنیاوی چیزوں کے بارے میں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ کوزے میں دریا بند ہے اور احادیث کے بارے کہہ سکتے ہیں کہ کوزے میں سمندر بند ہے لیکن آیات قرآنی کے لیے یہ محاورے بھی ختم ہیں۔
 
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 41 Articles with 41240 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.