گلاب، جنوری اور لوک کہانیاں

جنوری سخت سردی اور سرخ گلابوں کا مہینہ ہے۔ خط استوار سے جوں جوں شمال کی طرف بڑھتے جائیں، سردی کی شدت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ آگ کے بغیرگزارہ ہی نہیں ہوتا۔ سردی کے مارے لوگ آگ کے اس قدر قریب بیٹھتے ہیں کہ جل جانے کاڈر ہوتا ہے مگر مجبوری ہے، کیا کریں۔ آگ سے ہٹیں تو جم جانے کاڈر ہوتاہے۔جنوری میں راتیں بہت کٹھن ہوتی ہیں البتہ دن کوہلکی ہلکی دھوپ اور سرخ پھولوں اورسرخ پھلوں کی بہار انسان پر سحر طاری کردیتی ہے۔ جس طرف نظر ڈالیں، سرخ سرخ گلاب ہی نظرآتے ہیں ۔ پھولوں کی سرخی ، پھلوں کی سرخی ، ہر طرف گلاب ہی گلاب لہلہا تے ہیں مگربہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ سیب ، ناشپاتی ، چیری، آلو بخار ہ، آڑو اور خوبانی بھی گلاب کے خاندان ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔

روم کی لوک کہانیوں کے مطابق سورج دیوتا اپالو ہرصبح اپنی رتھ پر سوار مشرق سے نمودار ہوتا ہے اور شام کو مغرب میں غائب ہو جاتا ہے۔ اپالو کا ایک دوست تھا جس سے ملنے کے لئے وہ کبھی کبھی زمین پرآجاتا اور وہ مل کر لوہے کے چھلوں سے کھیلتے ، اپالو کو اپنے اس دوست (Hyacinth) سے بہت پیار تھا۔ ہو ا کا دیوتا زیپرس (Zephyrus) ان کی دوستی سے جلتا تھا۔ ایک دن دونوں کھیل رہے تو Zephyrus آگیااور اس نے لوہے کا چھلا اپالوکے دوست کے سرپر ماردیا جس کے نتیجے میں Hyacinth شدید زخمی ہو کر مرگیا۔ اپا لو کو اپنے دوست کی موت کا بہت افسوس ہوا اور اس نے اس کے خون کے چھینٹے پھولوں پر پھینکے جس سے پھول ہمیشہ کے لئے سرخ ہوگئے۔

اپالو کے بیٹوں میں سے ایک کانام جانس تھا۔ رومن مذہب میں جانس وقت کا دیوتا ہے۔ وہ دیوتا جو ہر چیز کی ابتدا اور انتہا پر قادرہے ، جو راستوں اور دروازوں پر نظر رکھتا ہے۔ اس دیوتا کے دو چہرے ہیں جن سے وہ آگے اور پیچھے ، ماضی اور مستقبل سب جگہ دیکھ سکتا اور باخبر رہتا ہے۔ جنوری کا مہینہ اسی دیوتا کے نام کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔

ابتدائی طور پر رومن سال دس مہینے کا ہوتا تھا جس میں 304 دن ہوتے تھے۔ مارچ، مئی ،جولائی اوراکتوبر کے 31 اور بقیہ چھ مہینوں کے تیس دن، سردیوں کے مہینے میں لوگ محدود ہوجاتے تھے۔ سخت سردی میں باہر نکلنا مشکل ہوتا تھا، چنانچہ یہ مہینے جواب جنوری اور فروری کہلاتے ہیں، ان کو کیلنڈر میں شامل ہی نہیں کیا جاتا تھا۔ سال کی ابتداء مارچ سے ہوتی تھی۔ سخت سردی کے مہینوں میں گلہریاں اورریچھ لمبی تان کر سوتے تھے اور بالکل بھی نظر نہیں آتے تھے۔ انگلستان کے مچھیرے ان دنوں کو بھیڑیوں کے مہینے کہتے تھے کیونکہ بھوکے بھیڑے شکار کی تلاش میں قصبوں کا رخ کرتے تھے۔ اس وقت کیلنڈر کے مہینوں میں مارچ ، اپریل، مئی اور جون چار دیوتاؤں کے نام پر تھے جبکہ باقی مہینے پانچ چھ سے دس تک کی گنتی کے معنوں میں تھے۔

713 قبل مسیح میں رومن شہنشا ہ نومانے پہلی بار جنوری اور فروری کو گیارہویں اور بارہویں مہینے کے طور پرکیلنڈر میں شامل کیا اور مہینے کے دنوں کی ترتیب بھی بدلی چونکہ رومن جفت اعداد کو منحوس تصور کرتے ہیں، اس لئے چار مہینے 31دن کے، 7 مہینے 29 دن کے اور فقط بد قسمت فروری کو 28 دن کا کہا گیا۔ یو ں سال کے دنوں کی تعداد بڑھ کر355 ہوگئی۔ گو سال کی ابتدا یکم مارچ سے ہوتی تھی مگر ہر علاقہ اور ہر ملک سال کی ابتدااپنی مرضی سے کرلیتا تھا۔ کوئی مارچ 15کوئی یکم مئی اور کوئی کسی اور تاریخ کو سال کا پہلا دن قرار دیتا۔ غالباً 450 قبل مسیح میں جنوری کو پہلا ماہ قرارد یا گیا اور یوں کیلنڈر کی نئی ترتیب سامنے آئی اور یہی ترتیب آج بھی قائم ہے۔ جولیس سیرز نے 46ق میں رومن کیلنڈر میں ترمیم کی جس کے نتیجے میں یہ جولین کیلنڈر کے نام سے موسوم ہوا۔ جولیس سیرز نے ہر مہینے کے دنوں کی ترتیب بدلی۔ سال کو 365.25دن کا قرار دیا اور ہر چار سال کو لیپ کاسال قراردے کر اس سال فروری کے دن 29 کردئیے ۔ گویہ کیلنڈر کافی حد تک ٹھیک تھا، مگر ہر چارصدی کے بعد تین دن کا اضافہ ہوجاتا تھا۔

1582 ء میں پوپ گریگوری XIII نے اس کیلنڈر میں کچھ اور تبدیلیاں کیں ، ہر چار صدیوں کے بعد تین دن کے اضافے کو ختم کرنے کے لئے چار صدیوں میں لیپ کے سالوں کی تعداد 100 سے 97کردی گئی۔ چنانچہ ہر سال جو چار تقسیم ہوتا تھا۔ اسے لیپ کا سال قرار دیا گیا۔ ماسوائے اس سال کے جو 100 پر تقسیم ہولیکن جو سال جو 400 پر تقسیم ہو، وہ لیپ کا سال ہوگا۔ یوں 1900 ء اور 2100 ء کو لیپ کا سال مانا جائے گا۔

کیلنڈر کی نئی ترتیب کے مطابق سال جو پہلے 365.25 دن یعنی 365 دن اور 6 گھنٹے کا تھا۔ اب365.2425 دن یعنی 365 دن ، 5 گھنٹے ، 49 منٹ 12 سیکنڈ کا ہوگیا۔ آج یہی کیلنڈر دنیا بھر میں مانا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ اوربین الاقوامی پوسٹل یونین والے بھی ہر سطح پر اسی کو تسلیم کرتے ہیں۔

سورج کے دیوتا اپالو کی بات چلی تو مجھے اس سے وابستہ بہت سی رومن لوک کہانیوں یاد آگئیں۔ کہتے ہیں تو اپالو کا ایک دوسرا بیٹا جس کا نام فطون (Phaeton) تھا، وہ اپنے باپ سے سورج کی رتھ چلانے کے لئے کہتا ، ایک دن صبح ہی صبح وہ باپ کی رتھ لے کر زمین کے گرد چل پڑا۔وہ رتھ کو بہت تیزی سے چلارہا تھا۔ ایک جگہ تیزی کی وجہ سے رتھ اس کے قابو سے باہر ہوگئی اور الٹ کر تیزی سے زمین پر آگری۔ اس رتھ کی گرمی سے ہر چیز جھکس گئی ، جس علاقے میں رتھ گری وہاں کے رہنے والے لوگوں کارنگ بھی مستقل سیاہ ہوگیا۔ آج دنیا میں جو کالے نظرآتے ہیں یہ اسی حادثے کا سبب ہیں۔

ایک اور خوبصورت کہانی یہ ہے کہ ایک بچی جس کانام کلائٹی(Clytie) تھا، سورج دیوتا سے بہت پیار کرتی تھی۔ اسے اپالو کی رتھ کو مشرق سے نکل کر مغرب تک کا سفر بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ ایک دریا کے کنارے پر کھڑی یہ نظارہ دیکھتی رہتی تھی۔ اپالو کو پتہ نہیں تھا۔ جنوری کی ایک یخ رات کو وہ گھرجانے کی بجائے صبح سورج کے طلوع ہونے اور اپالو کے رتھ لے کر جانے کاانتظار کرتی رہی۔ صبح اپالونے اسے دیکھا تو اسے اس بچی پر بہت رحم اور پیار آیا اور اس نے اسے سورج مکھی کے پھول میں تبدیل کردیا۔ اس کا سبز لباس سبز سبز ٹہنیوں میں اورسنہری بال پیلی پنکھڑیوں کی شکل اختیار کرگئے۔ اب وہ بچی بہت خوش تھی کہ وہ ہمیشہ اپالو کو صبح مشرق سے شام تک مغرب کی طرف چلتے ساری عمر دیکھتی رہے گی ۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500348 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More