پوری امت مسلمہ کے ایمان کا
امتحان آ پہنچا
تحریر: محمد عثمان طفیل
﴿ وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نِبِیٍّ عَدُوّاً شَیَاطِیْنَ الإِنْسِ
وَالْجِنِّ ﴾ (الانعام:112)
’’اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بہت سے شیطان پیدا کئے‘ کچھ آدمی اور کچھ
جن۔‘‘
اسلام سے عداوت ازل سے ہی یہود کا وطیرہ رہا ہے۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں
لیکن سب سے بنیادی وجہ رسول اﷲ ﷺکا بنی اسرائیل میں سے نہ ہونا ہے۔ یہی وجہ
ہے کہ نسلی تعصب و تفاخر کا جِن کچھ اس انداز سے اہل یہود پر قابض ہوا کہ
انہوں نے ہر موقع اور مقام پر آپ ﷺاور صحابہ کرام ؓ کی مخالفت کی۔ مگر یہ
بھی حقیقت ہے کہ یہودی کبھی بھی کھل کر سامنے نہ آئے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے
تیر مشرکین و نصاریٰ کی کمانوں میں ڈال کر چلانے کی کوشش کی۔ رسول اﷲ ﷺکے
دور سے لے کر آج تک ایسا ہی ہوتا آرہا ہے۔ آج بھی فرانس کے ایک رسالے
’’چارلی ہیبڈو‘‘ نے نبی اکرم ﷺکے گستاخانہ خاکے شائع کر کے اسی بات کا ثبوت
دیا ہے کہ اسلام دشمنی میں سب کافر ایک جیسے ہیں۔ دوسری طرف گستاخانہ خاکوں
کی اشاعت کے دنیا بھر کے مسلمانوں اور ان کی حکومتوں نے اس ناپاک حرکت کے
خلاف آواز بلند کی۔ بالخصوص حکومت پاکستان نے فوری طور پر مزمتی قرارداد
منظور کی اور حکومتی ارکان کے اسمبلی سے باہر احتجاج بھی کیا۔ اسی طرح
وکلاء برادری نے بھی مارچ اور عدالتی بائیکاٹ کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ
کروایا۔ سعودی عرب میں بھی جمعہ کے خطابات میں اس معاملے کا اٹھایا گیا اور
پوری دنیا میں یہ معاملہ تاحال جاری ہے اور ہم اﷲ کی بارگاہ میں یہ امید
رکھتے ہیں کہ گستاخان رسول کو قرار واقعی سزا دلوائے بغیر یہ معاملہ
قطعاًنہ رک پائے گا۔ ان شاء اﷲ
نبی محترم ﷺ کی توہین کر کے خود کو ملعونین کی فہرست میں شامل کروانا اور
پھر دنیا و آخرت میں برے انجام سے دوچار ہونے کا معاملہ کوئی آج کا نہیں ہے
بلکہ آپ ﷺکی موجودگی میں بھی یہ معاملہ اسی طور جاری تھا۔ سمجھنے کی بات یہ
ہے کہ تب بھی اس کے پیچھے اہل یہود بذات خود یا ان کا ذہن موجود ہوتا تھا
اور آج بھی معاملہ ایسا ہی ہے۔ تب بھی کعب بن اشرف‘ ابورافع‘ ابن سنینہ
جیسے یہود کے معززین کا شمار گستاخان رسول میں ہوتا تھا اور آج بھی ڈینیئل
پائیس‘ فلیمنگ روز‘ سام باسیل ، چارلی جیسے یہودی سرغنے ان کاموں میں ملوث
ہیں۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ تب بھی محمد بن مسلمہ‘ عبداﷲ بن عتیک اور محیصہ
بن مسعودؓ جیسے محبان رسول ﷺنے ان گستاخان کو کیفرکردار تک پہنچایا اور آج
بھی غازی علم دین شہید اور عامر چیمہ شہید کے جانشین لاکھوں فرزندان اسلام
موجود ہیں جو اپنے اسلاف کی طرح موقع کی تلاش میں ہیں کہ کب قدرت ان پر
مہربان ہو اور وہ حرمت رسول ﷺکی خاطر ان گستاخوں کا سرتن سے جدا کردیں یا
خود قربان ہوجائیں۔ موجودہ دور میں نبی اکرم ﷺکی توہین کا معاملہ گو بہت
نیا نہیں لیکن9/11سے جاری صلیبی جنگوں کے بعداس معاملے میں ایک خاص حد تک
تیزی آچکی ہے۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کے تقریباً ایک سال بعد8ستمبر2002ء
کو امریکی چینل فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک مذہبی جنونی ’’جیری فال
فویل‘‘ نے اسلام اور نبی کریم ﷺکی ذات کے بارے میں انتہائی گھٹیا زبان
استعمال کی اور آپ ﷺکو نعوذباﷲ ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیا۔ 2004ء میں ہالینڈ کے
فلم ساز ’’تھیون وان گو‘‘ نے بھی ایک دستاویزی فلم میں آپ ﷺکی کردار کشی
کی۔ اس فلم ساز کو کچھ ہی عرصہ بعد ایک مسلمان محمد بیوری نے جہنم واصل
کردیا۔ ستمبر 2005ء میں ڈنمارک کے اخبار’’جیلنڈرپوسٹن‘‘ نے آپ ﷺ کی توہین
کرتے ہوئے12کارٹون شائع کئے جو ’’ڈینیل پائیس‘‘ نامی متعصب یہودی کے غلیظ
ذہن کی اختراع تھے۔اس میں بھی آپ ﷺکی ذات کو ’’دہشت‘‘ کی علامت ظاہر کیا
گیا (نعوذباﷲ) ۔2008ء میں ہالینڈ کے ہی ایک اور فلم ساز ’’گریٹ ویلڈرز‘‘ نے
بھی ایک توہین آمیز فلم بنائی۔ اسی سال ہالینڈ کے ایک کارٹونسٹ نے آپ ﷺکے
خاکے بناکر اپنی ویب سائٹ پر ’’اپ لوڈ‘‘ کردیے۔ 20مئی2010ء کو فیس بک اور
سوشل میڈیا کو اس مذموم مقصد کے لئے استعمال کیا گیا اور نبی اکرم ﷺکے خاکے
بنانے کی دعوت دی گئی جس پر کئی ممالک نے یہ سائٹ بلاک کردی۔ اسی طرح ملعون
پادری’’ ٹیری جونز‘‘ (جو اس وقت فلوریڈا میں چپس بیچنے پر مجبور ہے) کی
جانب سے مسلمانوں کی مقدس کتاب کو نذر آتش کرنے کے لئے باقاعدہ ایک دن
مخصوص کیا گیا اوراپنی ذاتی عدالت میں مقدمہ چلا کر اس پاک کتاب کو ’’دہشت
گردی‘‘ کی تعلیم دینے والا کہا گیا۔ نعوذ باﷲ من ذالک۔پھر’’چارلی ہیبڈو‘‘
کا حالیہ معاملہ بھی آپ کے سامنے ہے جس میں رسول اﷲ ﷺ کے کردار کو بھی
انتہائی شرمناک انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ان ساری بدمعاشیوں کو’’آزادیٔ
اظہاررائے‘‘ کانام لے کر مسلسل کیاجارہاہے۔کسی پر بھی کوئی اعتراض کیا جائے
تو یہی جملہ سننے کوملتاہے کہ بھئی آج کے دورمیں ہرشخص کوآزادی ہے‘ وہ جو
مرضی کرتاپھرے۔ اول تویہ گماشتے اپنی اپنی زندگیوں اورمعاشروں کے حوالے سے
جومرضی بکتے رہیں لیکن جب معاملہ اسلام اور رسول اﷲ ﷺکی حرمت کا ہو توکسی
کوایساکرنے کی اجازت نہیں۔ پھران کایہ آزادیٔ اظہار کانعرہ اس وقت کہاں دفن
ہوجاتا ہے جب بات’’ہولوکاسٹ‘‘ کی ہوتی ہے۔ابھی اس معاملے کو چند سال ہی
توگزرے ہیں جب ایک فرانسیسی فلسفی’’روجیہ جارودی‘‘ جس نے اپنا اسلامی نام
رجاء جارودی رکھا‘کو’’ہولوکاسٹ‘‘ کے متعلق چندحقائق لکھنے پرعدالت میں
گھسیٹا گیا اوراس ’’جرم‘‘ کی پاداش میں اسے دولاکھ چوالیس ہزار فرانک
جرمانہ اداکرناپڑا۔کچھ ایساہی معاملہ2006ء میں تب دیکھنے کو ملاجب جرمنی نے
ہولوکاسٹ سے انکار پر ایک برطانوی بشپ کو 10ہزار یوروجرمانہ کیا۔اس کاجرم
یہ بتایاگیا کہ اس نے ایک ٹیلی وژن کو انٹرویودیتے ہوئے یہ کہا کہ’’وہ اس
بات پریقین نہیں رکھتا کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودیوں کا گیس چیمبروں
میں قتل کیا گیا تھا۔‘‘ اس سنگین جرم پراس کی فوری پکڑکی گئی اوراسے بھاری
جرمانہ اداکرناپڑا۔ اس جیسی بیسیوں مثالیں ہیں جو اہل مغرب کے ’’آزادیٔ
اظہار‘‘ کے نعرے کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہیں۔
درحقیقت ان سارے توہین آمیز واقعات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آئی
ہے کہ اہل کفر اسلام کی ترویج و اشاعت اور روز افزوں بڑھتی مسلمانوں کی
تعداد سے سخت نالاں ہیں۔ وہ یہ جان چکے ہیں کہ مستقبل میں اسلام ہی پوری
دنیا کا مذہب ہوگا۔ اسی طرح توہین کے ان سارے واقعات میں اہل مغرب و یورپ
کو اسلام سے برگشتہ کرنے کے لئے نبی اکرم ﷺکی ذات کو اس انداز میں پیش کیا
گیا ہے جیسے یہ بے حد خطرناک ہیں جو عنقریب تم پر چھا جائیں گے‘ تمہاری
بستیوں اور محلات کو تباہ کردیں گے‘ تم پر قابض ہوجائیں گے۔رموز کی زبان
میں بات کی جائے تو اسلام کی فتح کایہ معاملہ عنقریب ہوکر ہی رہنا ہے۔ گو
کہ اہل مغرب کے کچھ دانشور اس اشارے کو سمجھ چکے لیکن وہ اتنی طاقت نہیں
رکھتے کہ ان گستاخان رسول کو ایسے ’’اشارے‘‘ دینے سے روک سکیں۔ آئیے!ان
اشاروں کو سمجھنے کے لیے تاریخ سے ایک مثال لیں۔سیدنا عمر فاروقؓکے دور میں
مسلمانوں کے سپہ سالار سعد بن ابی وقاصؓنے اپنا ایک ایلچی شاہ فارس کے
دربار میں بھیجا جس نے جواب میں ازراہ تحقیر مٹی کا ایک ٹوکرا اس ایلچی کے
سر پر رکھوا دیا کہ یہ مٹی اپنے بڑوں کے پاس لے جاؤ۔ کچھ لوگوں کے نزدیک
شاید یہ ایک عام سی بات تھی مگر سعد بن ابی وقاصؓکا ذہین وفطین ایلچی بڑی
تیزی سے وہ ٹوکرا اٹھا کر اپنے سپہ سالار کے سامنے پیش ہوا اور بولا:
’’مبارک ہو! اربابِ فارس نے اپنی زمین آپ ؓکو تحفے میں دے دی۔‘‘کچھ ہی عرصے
کے بعد دنیا نے دیکھا کہ ’’رموز‘‘ کی زبان میں کی گئی بات سچ ثابت ہوئی اور
سارا فارس مسلمانوں کے زیر اطاعت زندگی بسر کرنے لگا۔ یہ بات بھی تاریخ کا
حصہ ہے کہ فارس کے کچھ سمجھداروں تک جب یہ بات پہنچی تو انہوں نے فوری طور
پر ’’خسرو‘‘ کو یہ بے وقوفی واپس لینے پر آمادہ کیا مگر تب تک بہت دیر
ہوچکی تھی۔ آج بھی مغرب کے کچھ نا سمجھوں نے دنیا بھر کے لئے رحمت بناکر
نازل کی جانے والی شخصیت کو اپنے لئے تباہی و بربادی کی تصویر بنانے کی نہ
صرف کوشش کی ہے بلکہ ازراہ تضحیک اسے پوری دنیا تک پہنچانے کے لئے کوئی کسر
روا نہ رکھی۔ دیکھا جائے تو یہ اپنے ہی ہاتھوں اپنی تباہی کی نوید ہے۔ اسی
بات کو امام ابن تیمیہرحمہ اﷲکے الفاظ میں دیکھا جائے تو مزید وضاحت ہوتی
ہے۔ آپ رحمہ اﷲ اپنی کتاب ’’الصارم المسلول علی شاتم الرسول‘‘ میں بیان
کرتے ہیں: لاتعداد مسلمانوں نے جوکہ ثقہ راوی ہیں اورعلم وفقہ سے بہرہ مند
اور آزمودہ کار‘ہم سے بیان کیا کہ شام کے ساحل پرواقع قلعوں اورشہروں کے
محاصرے کے دوران ایک زبردست بات وہ متعددبار آزماچکے ہیں۔ یہ ہمارے اپنے
(ابن تیمیہرحمہ اﷲ کے) زمانے کی بات ہے۔ اہل اسلام ان خطوں میں گوروں
کامحاصرہ کئے ہوتے تھے تواس سلسلہ میں ان (ثقہ عینی شاہدوں) نے ہم (ابن
تیمیہرحمہ اﷲ) سے بیان کیا کہ کسی قلعے یا شہرکامحاصرہ کیے ہوئے ہمیں مہینہ
مہینہ یااس سے بھی زیادہ عرصہ گزرجاتا مگروہ قلعہ یا وہ شہرفتح ہونے کانام
نہ لیتا۔حتی کہ ہم قلعہ لینے کی آس بھی قریب قریب کھوچکے ہوتے۔یہاں تک کہ
جب وہ لوگ کبھی رسول اﷲ ﷺکی توہین کے مرتکب ہوتے اورآپﷺکی ذات و ناموس کے
متعلق گستاخی کرلیتے توان کامفتوح ہوجاناہمیں بہت قریب دکھائی دیتا۔صورتحال
یک بیک ہمارے حق میں تبدیل ہونے لگتی اور قلعہ کازیرہونادن دودن کی بات رہ
جاتی۔ پھر ہمیں بھرپورفتح ملتی اوردشمن کاخوب ستیاناس ہوتا۔ان راویوں کا
کہنا ہے کہ یہ بات ہماری اس قدر آزمودہ رہی کہ جب کبھی ہم ان بدبختوں
کورسول اﷲ ﷺکی شان میں زبان درازی کرتے سنتے تو اگرچہ اسے سن کرہمارا خون
کھول رہاہوتامگر ہم اس کوفتح کی بشارت سمجھتے۔ایسی ہی روایت مجھ سے ثقہ
راویوں نے غرب(شمالی افریقہ واندلس) کی بابت بیان کی کہ وہاں بھی مسلمانوں
کونصاریٰ کے ساتھ یہی معاملہ پیش آتارہاہے۔‘‘ (الصارم المسلول:ص123۔ فصل:من
تجارب المسلمین فی عصرالمؤلف فیمن سب الرسول)
مندرجہ بالا واقعات کو دیکھا جائے تو اسلام و کفر کی یہ جنگ اپنے منطقی
انجام کی طرف بڑھتی دکھائی دیتی ہے۔ ایک طرف امریکہ اور اس کے حواری اپنی
تمام تر صلاحیتوں کو اسلام کے خلاف استعمال کررہے ہیں جبکہ دوسری طرف اﷲ
اور اس کے رسول e کی خاطر اپنی جانیں قربان کرنے کا عزم لئے مجاہدین ان کے
مدمقابل ہیں۔ ایسے دور میں کہ جب اسلامی ریاستوں کے سربراہان امریکی
مرعوبیت کا شکار ہوکر حق بات کہنے سے گھبرارہے ہیں‘اسی دور میں اﷲ کے شیر
امریکی سورماؤں کو ناکوں چنے چبوانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اﷲ رب العزت تو پہلے
ہی ان بدبختوں کے لئے دنیا و آخرت کے عذاب کی خبر دے چکے ہیں۔ ﴿ إِنَّ
الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ لَعَنَہُمُ اللَّہُ فِیْ
الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَأَعَدَّ لَہُمْ عَذَاباً مُّہِیْناً
﴾(الاحزاب57:)
’’بے شک وہ لوگ جو اﷲ اور اس کے رسول( ﷺ)کو تکلیف پہنچاتے ہیں اﷲ نے ان پر
دنیا اور آخرت میں لعنت کی اور ان کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کیا۔‘‘
اﷲ رب العزت یقینا اس بات پر قادر ہے کہ ایک حکم کے ذریعے ان سارے کافروں
کو نیست و نابود کردے۔ مگر اﷲ کی یہ سنت رہی ہے کہ وہ اہل ایمان کو موقع
فراہم کرتا ہے تاکہ ان کے ہاتھوں سے کافروں کو عذاب دیا جائے اور ان کے
ایمانوں کا امتحان بھی ہوسکے۔
﴿ قَاتِلُوْہُمْ یُعَذِّبْہُمُ اللّٰہُ بِأَیْدِیْکُمْ وَیُخْزِہِمْ
وَیَنْصُرْ کُمْ عَلَیْہِمْ وَیَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ﴾
(التوبہ14:)
’’ان سے لڑو اﷲ انہیں تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے گا اور انہیں رسوا کرے گا
اور ان کی خلاف تمہاری مدد کرے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا دے گا۔
‘‘
اس سے پچھلی آیات میں اﷲ نے انہی کفار کا ذکر کیا ہے جو اپنے عہد توڑ ڈالتے
ہیں اور مسلمانوں کے دین میں طعن کرتے ہیں۔ قرآن کو ‘ رسول اﷲ ﷺو تضحیک کا
نشانہ بناتے ہیں‘ توان کے سرداروں سے لڑنے کا اﷲ نے ہمیں حکم دیا ہے۔
(مفہوم سورۃ التوبہ12:)
اس سارے پس منظر اور پیش منظر کو سامنے رکھتے ہوئے چند ایک کاموں کا
سرانجام پانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ رسول اﷲ ﷺکی
حرمت کا معاملہ صرف چند ایک دنوں کی بات نہیں۔ یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے
اور اس پر ایک مستقل آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ
جب تک میڈیا اس معاملے کو اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ذریعے اٹھائے رکھے ہم
بھی اس میں حصہ ڈالتے رہیں اور جب ’’کوریج‘‘ آنا کم ہوجائے یا خبروں کی
تعداد گھٹتے گھٹتے نہ ہونے کے برابر ہوجائے تو ہم سمجھیں کہ اب یہ مسئلہ
ختم ہوگیا ہے۔ایک تو ہمارے لئے یہی بات سوہانِ روح ہے کہ اس طرح کے واقعات
اس دور میں ہورہے ہیں‘جب ہم اس گستاخی کے باوجود زندہ ہیں جبکہ مسلمانوں کی
تمام حکومتیں ایک اعتبار سے امریکی غلامی کا شکار ہیں۔ جس کا نقصان یہ ہے
کہ جس جارحانہ انداز کے ساتھ اس گستاخی کا جواب دے کر گستاخان رسول کے سروں
کو تن سے جدا کردینا چاہیے‘ وہ معاملہ دکھائی نہیں دے رہا۔ اس پر ہم بھی
خاموش ہوکر گھروں میں بیٹھے رہے اور اتنا دباؤ ڈالنے میں ناکام رہے جو ان
تمام ملعونین کو سزا دلوانے کے لئے چاہیے تھا توخود سوچئے کل ہمارے پاس
اپنی اس بے ہمتی کا کیا جواب ہوگا؟؟اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام
گستاخانِ رسول کی سزا تک ہم چین سے نہ بیٹھیں اور مسلسل اس تحریک کو چلائے
رکھیں۔ جن لوگوں نے اس معاملے کو اجاگر کرنے کا عزم مصمم کررکھا ہے‘ ان کا
ساتھ دیں تاکہ کم از کم احتجاج اور اجتماعات کے ذریعے ہی ہم اپنا پیغام ان
بدبختوں تک پہنچاسکیں ۔جن میں سے اکثر دنیا سے روپوش ہوکر ذلت آمیز زندگی
گزارنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔
اس حوالے سے دوسرا اہم کام یہ ہے کہ ہمیں دنیا کو اس بات پر مجبور کرنا
چاہیے کہ وہ رسول اﷲ ﷺکی حرمت کے لئے قانون سازی کریں۔ کسی کو یہ اجازت
نہیں ہونی چاہیے کہ وہ ہمارے نبی ﷺکی شان میں گستاخی کا ارتکاب کرسکے اور
اگر کفار کی حکومتیں ایسا نہیں کرتیں تو ہمیں آہنی ہاتھوں سے ان کے ساتھ
نمٹنا چاہیے۔اس اعتبار سے اگلا نہایت اہم کام کفار کا معاشی بائیکاٹ ہے۔
اول تو ان تمام افراد اور اداروں کو اہل کفر سے فی الفور تجارت بند کردینی
چاہیے جن سے خریدی گئی اشیاء خود مسلمانوں کے خلاف ہی استعمال ہورہی ہیں۔
جیسے عرب مسلمانوں کے پاس اس وقت ایک اہم ہتھیار تیل کی دولت ہے۔ آج اگر
اہل عرب‘ اہل مغرب کو تیل فروخت کرنا بند کردیں تو امریکی و یورپی معیشت کا
دیوالیہ نکل جائے۔ امریکی ہاتھی جو مرتے مرتے بھی کئی ایک کو لے کر ڈوبنے
کے چکر میں ہے‘ تیل نہ ہونے کی بدولت چند دنوں میں سسک سسک کر دم توڑ دے
گا۔ پھر یہ تو اجتماعی طور کرنے کے کام ہیں جن کا تعلق ہرخاص وعام سے نہیں
حالانکہ انفرادی طور پر بھی ہر شخص اس کار خیر میں حصہ لے سکتا ہے۔ ہمارا
مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے خود کو ان تمام اشیاء کا عادی کررکھا ہے جن کا فائدہ
سراسر کفار کو پہنچتا ہے اور وہ اسی سرمائے کو مسلمانوں کے خلاف استعمال
کررہا ہے۔ اس حوالے سے ثمامہ بن اثالؓکی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یہ بنی حنیفہ
کے سردار تھے اور مکہ والوں کو غلہ فراہم کیا کرتے تھے۔ اﷲ نے انہیں نور
ہدایت سے نوازا اور یہ مسلمان ہوگئے۔ اسلام قبول کرتے ہی یہ عمرہ کے لئے
مکہ تشریف لے گئے۔ قریش والوں نے ان سے تعلقات کا خیال نہ کیا اور طعن و
تشیع کرنے لگے کہ کیا تم بے دین ہوگئے ہو؟ آپؓنے انہیں جواب دیا کہ بے دین
نہیں ہوا بلکہ محمد رسول اﷲ ﷺپر ایمان لاکر مسلمان ہوا ہو۔ جب اہل قریش نے
اپنی زبانوں کو لگام نہ دی تو یہ بالآخر پکار اٹھے: اﷲ کی قسم! اب جب تک
محمد ﷺاجازت نہ دیں گے تب تک یمامہ(ان کا علاقہ) سے تمہارے لئے گیہوں کا
ایک دانہ بھی نہ آئے گا۔ یہ بات مشرکین پر بجلی بن کر گری اور وہ لگے ادھر
اُدھر کی وضاحتیں دینے مگر بات نہ بنی۔ یہاں تک کہ رسول اﷲ ﷺسے ذلیل ہوکر
اجازت طلب کرنا پڑی۔ کیا آج ہم اس معیار کے امتی بھی نہیں کہ رسول اﷲ ﷺکی
حرمت کا خیال کرتے ہوئے ان کافر ممالک کی مصنوعات کا استعمال ترک کردیں……!!
بہرحال اس معاملے میں سب سے اہم اور فوری کرنے والا کام یہی ہے کہ رسول اﷲ
ﷺکی حرمت کا پاس کرتے ہوئے اپنی جان ومال ‘گھربار ‘اولاد‘رشتہ دار الغرض
ہرشے قربان کرنے کا عزم کیاجائے۔ یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ اس حوالے
سے ہماری شخصیت اسوہ رسول ﷺکی مکمل نمائندگی کرتی نظر آنی چاہئے۔ یہ نہ ہو
کہ ہم خالی خولی نعروں کے ذریعے تواپنے نبی ﷺ سے محبت کاثبوت دیں مگر جب
بات لباس‘شکل وصورت اور وضع قطع کی ہوتوان کو ثانوی حیثیت دے کر جان چھڑانے
کی کوشش کریں۔یہ وطیرہ منافقین کاتوہوسکتاہے لیکن محبان نبی ﷺ کو ایسی
باتیں زیب نہیں دیتیں۔یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کفار کو اصل تکلیف ہی اس بات
کی ہے کہ اسلام دنیامیں تیزی سے پھیل رہاہے اور پوری دنیا رسول اﷲ ﷺکے
کردار عمل سے روشنی حاصل کررہی ہے۔ یہ بات باطل مذاہب کے پیشواؤں کوہضم
نہیں ہورہی اور وہ اپنے چیلوں کے ذریعے سے ایسی فضا بنارہے ہیں جس سے
کائنات کی سب سے معززہستی کی تضحیک کی جاسکے۔ مگر ’’آسمان کا تھوکا منہ
پر‘‘ کے مصداق ایسی تمام گستاخیاں انہیں مہنگی پڑرہی ہیں اور نہ صرف رسول
اﷲ ﷺ کے پیروکاروں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے بلکہ ان کی ذلت ورسوائی بھی
اسی حساب سے بڑھ رہی ہے۔ اﷲ نے چاہا تو یہ گستاخیاں کفار کی شکست فاش میں
آخری کیل ثابت ہوں گی اور جلد پوری دنیا پراسلام کا پھریرا لہرائے گا۔ ان
شاء اﷲ |