دہلی انتخاب:بیدی کا عروج مودی کا زوال

احمد آباد میں بیٹھ کر دہلی کو فتح کرنا جس قدر آسان ہے دہلی میں آنے کے بعدیہ کام اتنا ہی مشکل ہے ۔ مثل مشہور ہے دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں اور ویسے بھی اببلیّ اپنے خوشنما تھیلے سے باہر آچکی ہے اس لئے اس کی اچھل کودکے پیچھے ٹی وی پر بجنے والی شیر کی چنگھاڑ سے کوئی خوف نہیں کھاتا۔ وادی ٔکشمیر کے اندر کراری شکست کے بعد جہاں بی جے پی کے تمام امیدواروں کی ضمانت ضبط ہو گئی اب دہلی کے اندر اپنی عزت بچالےجانا پارٹی کےوقار کا مسئلہ بناہوا ہے۔گزشتہ اسمبلی انتخاب میں بی جےپی کی دہلی شاخ کے داخلی انتشار و افتراق پر قابو پانے کیلئے مودی جی نے غیر معروف ڈاکٹر ہرشوردھن کو آگے بڑھا دیا تھا مگر وہ اکثریت کے حصول میں ناکام رہے۔ فی الحال ہرش وردھنمرکزی وزیر ہیں اور انہیں ریاستی سیاست میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے ایسے میں عصر حاضر کے خودساختہ چانکیہ امتر شاہ نے ممبران پارلیمان کی مدد سے دہلی کا میدان مارنے کی ٹھانی۔

ممبران پارلیمان والی حکمت عملی کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ یہ باہر والے لوگ نہ کسی کے رفیق تھے اور نہ رقیب۔ اس کام کیلئے شاہ جی نےسادھو ساکشی مہاراج اور سادھوی نرنجن جیوتی کا انتخاب یہ سوچ کر کیا کہ ان کے گیروے پیراہن سے بھولے بھالے ہندو عوام کو فریب دیا جا سکے گا لیکن وہ بھول گئے کہ اس چمکدار زعفرانی لباس کے اندر ایک سیاہ دل اور سرخ زبان بھی پائی جاتی ہے جو آگ اور زہر اگلتی ہے ۔ ان حضرات نے وہ گل کھلائے کہایوان پارلیمان میں مودی جی کا چراغ گل ہوگیا اور زبان پر تالہ پڑ گیا۔ انہوں نے ہاتھ جوڑ کر ارکان پارلیمان کے سامنے سادھوی نرنجن جیوتی کی حرام زدگی پر معافی مانگی۔ ساکشی مہاراج بیچارے خواتین کو چار بچوں کا مشورہ دینے کے علاوہ کچھ اور نہیں کر سکے۔

سنگھ پریواربرہما چریہ میں وشواس رکھتاہےاور ساکشی مہاراج خود بھی برہما چاری ہیں ایسے میں اگر مہاراج کی آگیہ کا پالن کرنے کیلئے ان کی کوئی بھکت کسی مسلم لڑکے سے وواہ کرلیتی ہے تو مہنت اویدیہ ناتھ لو جہاد کا نعرہ لگا کر دھرم یدھ چھیڑ دیتے ہیں ۔ اب بیچاری ہندو خواتین کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کریں تو کیا کریں؟ کوئی انہیں ہندودھرم کی رکشا کرنے کیلئے ۴ بچے پیدا کرنے کی صلاح دیتا تو کوئی مودی سرکار کو بچانے کیلئے ۱۰ بچوں کا مشورہ دیتا ہے۔ یہ سنت مہنت اور شنکر اچاریہ شاید نہیں جانتے کہ ان کا مشورہ قبول کرنے کے بعد بچہ کو جنم دینے میں اچھا خاصہ وقت درکار ہوتا ہے۔ اور پھر کوئی بچہ پیدا ہونے کے ساتھ ہی ووٹ نہیں ڈال سکتا۔ یہ حق اسےبالغ ہونے کے بعد یعنی ۱۸ سال کی عمر میں حاصل ہوتا ہے۔ اب اس پس منظر میں غور کریں کہ کیا آج سے ۲۰ سال بعد سن بلوغ کو پہنے ن والا ہندوستانی جوان کیا۸۳ سالہ مودی کو وزیراعظم بنائے گا جبکہ وہ خود ۷۵ سال سے زائد عمر والےسیاستدانوں کے سیاست میں عمل دخل کے روادار نہیں ہیں۔ خیر اگر ان سادھو سنتوں میں اتنی سمجھ ہوتی تو یہ بیچارے سنگھ پریوار کے چکر میں کیوں پڑتے؟

اس مہم میں ناکامی کے بعد شاہ جی نے وزرا ء کی جانب رخ کیا اور مودی جی کے سب سے بڑے بھکت گری راج سنگھ جیسوں کو میدان میں اتارا لیکن ان کی بھی دال نہیں گلی لوگوں کو ان کے جلسوں میں نہ آنا تھا سو وہ نہیں آئے۔ امیت شاہ کے پاس پارٹی کی گرتی ہوئی دیوار کو سنبھالنے کیلئے آخری ترپ کا پتہ وزیراعظم نریندر مودی تھے سو وہ انہیں بھی رام لیلا میدان میں لے آئے۔ اعلان ہوا کہ ایک لاکھ مودی بھکت ریلی میں آئیں گےحالانکہ اس اعلان میں خوداعتمادی کا فقدان عیاں تھا اس لئے کہ گزشتہ سال مودی جی کو دیکھنے کیلئے رام لیلا میدان میں ایک لاکھ ۳۵ ہزار لوگ آئے تھے لیکن اب انہوں نے مودی جی کو دیکھ لیا ہے۔

پہلے ہی مرحلے میں ۲۵ فیصد مقبولیت کی کمی کا اعتراف کرنے کے بعد جب شاہ جی نےدیکھا دہلی کے لوگ متوجہ نہیں ہورہے تو ہریانہ کا رخ کیا اور وہاں سے بھیڑ اکٹھا کرنے کی کوشش کی ۔ ہزاروں بسیں اس کام میں لگائی گئیں لیکن اس کے بعد بھی لوگ دہلی کی سرکاری سیر کیلئے تیار نہیں ہوئے۔ مفت آنا جانا اور اوپر سے دکشنا ان کے اندر کوئی کشش پیدا نہ کرسکی۔ اس کے بعدحقیقت پسندی کا دامن تھامتے ہوئے پولس سے صرف ۷۵ ہزار افراد کے پیش نظر بندوبست کرنے کیلئے کہا گیا لیکن ہائے افسوس کہ ساری ڈنڈ بیٹھک کے بعد ۲۵ سے ۳۵ ہزار کے درمیان لوگ کسی طرح جمع ہوئے۔ یہ تو کسی بھی وزیراعظم کیلئے توہین ہے ۔ اس جے د میں مودی جی نے امیت شاہ کی ناکامی کا بخار کیجریوال پر اتارا اور انہیں نکسلوادی قراردے کر جنگل میں چلے جانے کا مشورہ دیا تاکہ دہلی میں جنگل راج قائم کرکے وہ شبھ منگلم ساودھان کرسکیں ۔

اس عظیم ناکامی کے بعد براک اوبامہ کے علاوہ کوئی اور سہارا نہیں بچا۔ چانکیہ جی نے سوچا کیوں نہ یوم جمہوریہ کے موقع پر براک اوبامہ کی آمد کے سہارے اپنی ڈوبتی نیاّ کو پار لگا لیا جائے۔ وہ فوراً اپنا سجھاو ٔ لے کر سمراٹ اشوک کے سمکش پہنچے اور پرارتھنا کی مہابلی اب ہماری عزت اوبامہ کے ہاتھ میں ہے ۔ فی الحال اوبامہ کی مقبولیت کا گراف بھی دن بدن نیچے گر رہا ہے ایسے میں اگر آپ ان کے اور وہ آپ کی ناؤ کے کھیویاّ بن جائیں تو ممکن ہے ہم کنارے پہنچ جائیں گے۔سمراٹ اشوک اپنے چانکیہ کی اس ونتی پر بہت خوش ہوئے ان کو شاباشی دی اور فوراً انتخابات کی تاریخ کا اعلان کروا دیا۔ ان لوگوں کی یہ خام خیالی ہے کہ اوبامہ کی آڑ میں اپنا خوب چرچا کرکےعوام کو مسحور کردیں گے اوراس سے قبلکے لوگ ہوش میں آئیں ہم انتخاب جیت جائیں گے ۔

اس حکمت عملی میں ایک مشکل یہ ہے کہ براک اوبامہ دہلی سے انتخاب نہیں لڑ سکتے اس لئے انہیں وزیراعلیٰ کا امیدوار نہیں بنایا جاسکتا ۔ اس سے پہلے جن ریاستوں میں انتخابات کا انعقاد ہوا وہاں اروند کیجریوال جیسا مضبوط دعویدار موجود نہیں تھا لیکن دہلی میں تو وزیرااعلیٰ کا امیدوارپیش کئے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔ جس طرح وارانسی کے رائے دہندگان جانتے تھے کہ اروند کیجریوال اگر کامیاب بھی ہو جائیں تو وزیراعظم نہیں بن سکتے اسی طرح دہلی کے ووٹرس بھی جانتے ہیں کہ اگر بی جے پی کو اکثریت حاصل بھی ہو جائے تو نریندر مودی وزیراعلیٰ نہیں بن سکتے۔ ایسے میں ایک طاقتوار امیدوار کے اعلان کی مجبوری بی جےپی پر آن پڑی۔

امیت شاہ کے پاس کسی امیدوار کے انتخاب میں ۳ ایس کی کسوٹی ہے۔ سنگھ ، سانسد(رکن پارلیمان) اور سروے۔ اس کسوٹی پر سنگھ کے نام پر بی جے پی میں بے شمار امیدوار ہیں لیکن ان لوگوں پر جب اراکین پارلیمان کی رائے لی جاتی ہے تو ان میں سے بڑی تعدادنااہل ٹھہرتی ہے اور جب ان کے نام کا عوامی جائزہ (سروے) کرایا جاتا ہے تو انہیں کتا نہیں پوچھتا اس لئے عدم مقبولیت کی بناء پر ان کا پتہ کٹ جاتاہے ۔ امیت شاہ نے اس صورتحالسے نمٹنے کیلئے سنگھ سے باہر نظر دوڑائی اورعام آدمی پارٹی یعنی عاپ کے اندر کیجریوال سے ناراض لوگوں پر نشانہ سادھا ۔ سب سے پہلے ان کی نظر عنایت شاذیہ علمی پر پڑی۔
ایک زمانے میں شاذیہ نےمسلمانوں کو فرقہ پرست بن کر ووٹ دینے کا مشورہ دیا تھا اور بڑی تنقید کا نشانہ بنی تھیں لیکن بی جے پی جیسی فرقہ پرست جماعت میں شامل ہو جانے کے بعد انہیں کم از کم مذکورہ بالا رائے کا اظہار کرکے بدنام ہونے کی ضرورت نہیں پیش آئیگی۔ سابق صحافی شاذیہ نے قلمتوڑ کر اول تو عاپ کا جھاڑو سنبھالا تھامگر جب پارلیمان کی رکنیت سے محروم رہیں تومودی جی کی صفائی ابھیان میں شامل ہو گئیں۔ اس طرح بی جے پی کے اندر آنے کا راستہ انہوں نے خود صاف کردیا ۔ اس کے بعد جب امیت شاہ نے اس راستے پر پھول بچھائے اور وہ اس پر دوڑی چلی آئیں لیکن چونکہ وہ نام سے مسلمان ہیں یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کیلئے انہیں وزیر اعلیٰ کا امیدوار بنانا مسئلہ بن گیا اس لئے تلاش جاری رہی ۔
ہندوستان کو ہندوراشٹر بنانے والے بانجھ سنگھ پریوار کیلئے یہ شرم کامقام ہے کہ۹۰ سال کی جدوجہد کے بعد وہ دہلی شہر کیلئے ایک قابل وزیراعلیٰ کا امیدوار تک پیدا نہ کرسکا ۔ کس کام کا وہ لٹریچر اورکس فائدے کی وہ شاکھا ئیں جو ایسا معمولی کام نہ کرسکیں جسے دوسال قبل بننے والی عاپ پارٹی نے کردکھایا ہو۔ خیر شاذیہ کے بعد چانکیہ جی کو سابق پولس کمشنرکرن بیدی کے اندر امید کی کرن نظر آئی ۔ ان پر جب ڈورے ڈالے گئے تو خلاف توقع وہ پکے ہوئے پھل کی طرح دام میں آگریں۔کرن بیدی حالانکہ پشاوری ہندو ہےاس لئےانہیں تقسیم کا درد اورمسلمانوں سے نفرت وراثت میں ملی ہے۔کرن بیدی نے چونکہ ایک سکھ سے بیاہ رچا لیا اس لئےلوگ انہیں سکھ سمجھنے لگےویسے موجودہ دور میں عام سیاستدانوں کا دین و مذہب صرف اور صرف ابن الوقتی ہوتا ہے۔یہ بھی ایک مضحکہ خیز حقیقت ہے کہ سنگھ پریوار سکھوں کو ہندو گردانتا ہے لیکن نہ کوئی سکھ اپنے آپ کو ہندو سمجھتا ہے اور نہ ہندوستانی دستور انہیں ہندو سماج میں شامل کرتا ہے۔

بدعنوانی کے خلاف چلائی جانے والی لوک پال تحریک میںکرن بیدی اور اروند کیجریوال ایک ساتھ تھے۔ اروند کیجریوال سے ان کا اختلاف انتخابی سیاست میں شمولیت کو لے کر ہواتھا ۔وہ سیاسی جماعت بنا کر انتخاب لڑنے کے خلاف تھیں لیکن اب اچانک وہ وزیراعظم کی گرویدہ ہو گئی ہیں جبکہ ماضی میں مودی جی پرگجرات فساد کو لے کر وہ تنقید کرچکی تھیں ۔ وزارت اعلیٰ کی لالچ میں کرن دیدی بھول گئیں کے کسی زمانے میں وہ بی جےپی کو بھی کانگریس کی مانند بدعنوان سمجھتی تھیں ۔ دراصل کرن بیدی نےمنافقت میں شاذیہ علمی کو بھی مات دے دی اس لئے شاذیہ کا انتخابی سیاست سے کوئی اصولی اختلاف نہیں تھا ۔کرن بیدی کی نامزدگی کے بعد سب سے پہلے انہیں کیجریوال نے مبارکباد دی اور مباحثہ کی دعوت بھی دی اس پر کرن ڈر گئیں اور کہا ہم فلور پر مباحثہ کریں گے۔ جس پارٹی کا چھتیس انچ والا سینہ کیجریوال کے سامنے پچک گیا اس میں مباحثے کا دم خم کہاں؟بیدی نے کہا میں بات نہیں کام کرتی ہوں ۔ مودی جی کے بارے میں لوگوں کا یہی خیال تھا لیکن اب بدل گیاہے۔ اب تو نہ وہ بات کرتے ہیں اور نہ رٹی رٹائی تقریر کرنے کے علاوہ کوئی اہم کام کرتے ہیں۔

کرن بیدی کے پاس انتظامی اور تحریکی تجربہ تو ہے لیکن سیاسی سوجھ بوجھ کا فقدان ہے اس لئے جیسے امتن شاہ نے انہیں وزیراعلیٰ کا امیدوار بنانے کا عندیہ دیا وہ خود ہوا میں اڑنے لگیں مگر بی جے پی میں بھونچال آگیا۔ اس زلزلہ کی ذمہ داری خود جلد باز طبیعت کی حامل کرن بیدی پر بھی ہے جنہوں نے نہ صرف اپنے گھر پر ارکان پارلیمان کی نشست بلوالی بلکہ شمالی اور مشرقی دہلی کے میئرس اور کاؤنسلر کو بلا کر انہیں بیجا نصیحتیں بھی کر ڈالیں۔کرن بیدی کی ان مانیوں نے بی جے پی والوں کو پہلے ہی مرحلے میں پریشان کردیا اور وہ ان سے مایوس ہو کانگریسی رہنما کرشنا تیرتھ کو وزارت اعلیٰ کا لالچ دے کر پکڑ لائے ۔ اب وزارت اعلیٰ کی کرسی گویا ایک انار اور سو بیمار کی سی کیفیت میں گرفتار ہےجس کا جھانسہ دے کر شاہ جی ہر روز نت نئے شکار کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

کرن بیدی کے گھر پر ہونے والی نشست کا جو حشرہونا تھا سو ہوا یعنی وہ بھی فلاپ ہوگئی ۔ اسکے اندر ۷ میں سے صرف ۴ ارکان پارلیمان وقت پر آئے۔ مرکزی وزیر ہرشوردھن بادلِ ناخواستہ تاخیر سے آئے تو انہیں نہ کرن ملی اورنہ چائے ملی اوروہ بے نیل و مرام لوٹ گئے۔ منوج تیواری جو پہلے ہی کہہ چکے تھے پارٹی میں تھانیداری نہیں چلے گی بولے کہ اگر پارٹی کا صدر بلائے تومیٹنگ میں جانابنتا ہے لیکن کوئی کل پارٹی میں شامل ہو اور ہمیں بلا بھیجےتو یہ ٹھیک نہیں ہے۔ تیواری نے ہرشوردھن کے ساتھ ہونے والے سلوک کو لے کر بھی بیدی پر تنقید کی۔

بی جے پی کے پرانے رہنماوں کو کرن بیدی کے آجانے سے یہ مشکل ہوگئی ہے کہ اب وہ اپنے چہیتوں کو ٹکٹ نہ دلا سکیں گے ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ان میں سے ہر کوئی اپنے کسی نہ کسی رشتہ دار کوپارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑانا چاہتا ہے۔ڈاکٹر ہرش وردھن جو کبھی وزیراعلیٰ کی کرسی کے دعویدار تھے کرشن نگر میں اپنے بیٹے کو امیدوار بنانے کے چکر میں شاہ جی سےڈانٹ کھا چکے ہیں۔ منوج تیواری براڈی سے اپنے بھانجے کو ٹکٹ دلوانا چاہتے ہیں۔ رکن پارلیمان رمیش بگھوڑی اپنےبھتیجے وکرم بھگوڑی کوتغلق آباد سے اوررمیش ورما اپنے بھائی کو مہرولی سے الیکشن لڑانا چاہتے ہیں۔ ادیت راج سلطان پور سے اپنے بھانجے کو، ماجرہ سے رکن پارلیمان کیرتی آزاد اپنی بیوی کو اسی طرح وجئے گویل بھی ماڈل ٹاؤن سے اپنی اہلیہ کو انتخاب لڑانا چاہتے ہیں۔ یہ تو خیر وہ لوگ ہیں جو فی الحال رکن پارلیمان ہیں لیکن ان کے علاوہ سابق وزیراعلیٰ مدن لال کھرانا بھی اپنے بیٹے کو ہری نگر سے کامیاب کرنے کے خواہشمند ہیں ، سابق ریاستی صدر وجیندر گپتا اپنی اہلیہ کیلئے روہنی سے ، سابق رکن پارلیمان وی کے ملہوترا اپنے بیٹے کو گریٹر کیلاش سے لڑانا چاہتے ہیں تو سابق رکن اسمبلی او پی ببر خود تلک نگر سےقسمت آزمانا چاہتے ہیں۔ یہ اس جماعت کا حال ہے جو کانگریس پارٹی کو اقرباء پروری کا طعنہ دیا کرتی ہے۔

امتج شاہ کیلئے بی جے پی کے پرانے رہنماوں سے نمٹنا تو کسی طرح ممکن ہو سکتا ہے لیکن یہاں تو وزیر خزانہ ارون جیٹلی اور وزیر خارجہ سشما سوراج کے بھی چہیتے ہیں جو تنکوں کے سہارے تیرنا چاہتے ہیں ۔ ارون جیٹلی خود انتخابی میدان میں چاروں شانے چت ہوچکے ہیں سشما جی اپنی بہن کو ہریانہ کی اسمبلی میں کامیاب کرچکی ہیں مگر دل ہے کہ مانتا ہی نہیں۔ امتا شاہ کو پتہ ہے کہ یہ پٹے ہوئے مہرے بازی جیت نہیں سکتے اس لئے وہ عاپ پارٹی سے دل بدل کر بی جے پی کے دلدل میں آنے والی کرن بیدی، شاذیہ علمی کے علاوہ ونود کمار بنیّ ، اشوک چوہان کو عاپ کے بڑے رہنماوں کے خلاف لڑانا چاہتے ہیں۔ امتا شاہ کو اپنی پارٹی کے امیدواروں کی بہ نسبت عاپ کی شکست خوردہ امیدوارفرحانہ انجم اہل تر نظر آتی ہے۔

اس انتخابی دنگل کی محاذ آرائی بھی بہت سوں کو کنفیوژ کرتی ہے مثلاً کانگریس کا فرقہ پرست بی جے پی کے بجائے سیکولرعاپ کی مخالفت کرنا۔ اس کی وجہ صاف ہےکانگریس کا سارا ووٹ بنک فی الحال عاپ کی جیب میں چلا گیا ہےاور اسے واپس لائے بغیر کامیابی ممکن نہیں ہے۔ بی جے پی بھی کانگریس کے بجائے عاپ کو نشانہ بنائے ہوئے جب کہ قومی سطح پر اس کا دعویٰ کانگریس مکت بھارت کاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دہلی میں بی جے پی کی حریف اول کانگریس نہیں بلکہ عاپہے۔اس جماعت نے اسمبلی الیکشن میں کانگریس کے ووٹ پر ہاتھ صاف کیا مگر پارلیمانی انتخاب میں اس نے بی جے پی ووٹ بھی کھائے۔اس طرح گویا عاپ کو بیک وقت کانگریس اور بی جے پی دونوں سے مقابلہ درپیش ہے ۔ عاپ نے بی جے پی کو اس لئے نشانہ بنایا ہواہے کہ بی جے پی کی جیب سے نکلنے والا ہر ایک ووٹ اس کیلئےدو کے برابر ہے۔ بی جے پی کے کشکول سے نکل کر آنے والے ہر ووٹ سے اس کےصندوق میں نہ صرف ایک ووٹ کا اضافہ ہوگا بلکہ اس سے دشمن ِ اول کی جیب سے ایک ووٹ کم بھی ہوجائے گا۔ اس طرح ایک تیر سے بیک وقت دو شکار ہو جائیں گے ۔ یہ سیاسی جمع خرچ نہ دانشور سمجھتے ہیں اور نہ عام آدمی سمجھتا ہے لیکن سیاستداں خوب سمجھتے ہیں اور اروند کیجریوال کی پارٹی کا نام جو بھی ہو وہ بہر حال ایک ماہر سیاستداں بن گئے ہیں ۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450516 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.