کیسے حکمران ہیں جو پیٹرول اور گیس پر قابو نہیں پاسکے
صرف چند دنوں میں پیٹرول کا بحران اتنا شدت اختیار کرگیا ہے کہ اب یہی
مسئلہ دہشت گردی جیسے مسئلے سے بھی بڑا بنتا جارہا ہے بجلی اور گیس کا
بحران تو پیپلز پارٹی کی سابق حکومت نے مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت کو تحفہ
میں دیا تھا اور انہی دونوں بحرانوں پر سیاست کرکے عوام کو بیوقوف بنا کر
حکومت بنانے والے شیروں نے بجلی اور گیس کے بحران میں پیٹرول کا بھی بحران
شامل کردیا ہے اس کو کہتے ہیں سیاست کہ عوام کو ایسی مصیبتوں میں الجھائے
رکھوکہ انہیں حکومت کے کسی کارنامے کی خبر ہی نہ ہو حکومتی کارناموں میں سب
سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت ابھی تک وزیر خارجہ کی ذمہ داریاں
کسی کو دینے میں ناکام رہی ہے یا ان شیروں کے پاس کوئی ایسا سمجھ دار اور
قابل شیر نہیں ہے جو یہ ذمہ داریاں سنبھال سکے اسی حکومتی خامی کو آرمی چیف
جنرل راحیل شریف پورا کررہے ہیں کبھی وہ افغانستان معاملات نمٹانے جاتے ہیں
تو کبھی پاکستان کی نمائندگی کرنے لندن چلے جاتے ہیں ملک میں کوئی بھی
مسئلہ سر اٹھائے تو فوجی بھی سر اٹھائے آجاتے ہیں ہمارے باقی کے جتنے
سرکاری ادارے ہیں وہ صرف کرپشن کا گڑھ بنے ہوئے ہیں اگر سیاستدانوں نے عوام
کو بیوقوف بنا کر صرف لوٹ مار کرکے اپنے اثاثوں میں ہی اضافہ کرنا ہے تو
پھر پاکستان میں کرپشن اور چور بازاری کی کھل کر اجازت دیدی جائے تاکہ سب
ایک بار کھل کر لوٹ مار کرلیں ویسے بھی تو اندر کھاتے ہر وہ کام ہو رہا ہے
جو ہمارے قانون کی کتابوں میں میں بڑی سختی سے منع ہیں یہاں پر شراب اور
جوئے کی اڈے عام ہیں دنیا کا کوئی نشہ ایسا نہیں ہے جو پاکستان میں دستیاب
نہ ہو اب توہمارے گلی محلے اور تعلیمی ادارے بھی اس لعنت سے محفوظ نہیں رہے
ضروریات زندگی کی خالص اشیاء بازار میں نایاب ہوچکی ہیں اور تو اور بچوں کو
پلانے کے لیے دودھ لینے جائیں تو وہ بھی کیمیکل ملا نکلتا ہے پاکستان میں
ہر غیر قانونی کام عام ہو رہا ہے سیاستدانوں سے لیکر عام دوکاندار تک پیسہ
کمانے کی ہوس میں بہت آگے جاچکا ہے جنہوں نے نہ صرف ہمیں تباہ کر دیا ہے
بلکہ ہمارے آنے والی نسلیں بھی ان جعل سازوں کے ہاتھوں کھلونا بن کر اپنا
نقصان کرتی رہیں گی جبکہ رشوت جیساگھٹیا اور برا کام جو کبھی چھپ چھپا کر
ہوتا تھا اب رشوت کا نام تبدیل کرکے کمیشن رکھ دیا گیا ہے جو ہرکام سے پہلے
سرعام طلب کیا جاتا ہے ہمارے ہر ادارے میں قابلیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ
پیسے اورسفارش کے زور پر تعیناتیاں ہورہی ہے ہر غلط اور ناجائز کام سرعام
ہورہا ہے جسکی بظاہر ممانعت ہے اور ہر جائز کام کے لیے خوار ی لازمی بن
جاتی ہے اس لیے کرپشن ،چور بازاری ،ملاوٹ ،لوٹ گھسوٹ ،کمیشن اور پسنددیدہ
سیٹوں پرپیسے کے زریعے تعیناتیوں پر قانون سازی کرکے سب چوروں کو تحفظ
فراہم کردیا جائے تو پیپلز پارٹی کے دیرینہ نعرے روٹی،کپڑا اور مکان سمیت
موجودہ حکومت کی غریب مکاؤپالیسیاں دونوں پر عمل ہوسکے گا کیونکہ جسکے پاس
اختیار اور طاقت ہوگی وہ اپنا حق اور حصہ چھین لے گااور رہی بات کمزور اور
غریب کی وہ خود ہی ختم ہوجائیں گے سسک سسک اور ٹرپ ٹرپ کر تو بے چارے غریب
،مفلس اور بے یارو مدد گار افراد اب بھی موت کے منہ میں جارہے ہیں اور رہی
سہی کسر موجودہ حکومت نے پیٹرول کا بحران حل نہ کرکے پیدا کرلی ہے صبح سے
شام تک اور پھر ساری ساری رات لوگ پیٹرول پمپوں کے باہر ذلیل وخوار ہورہے
ہیں جنہوں نے موٹر سائیکل رکشے چلا کر اپنے خاندان کا پیٹ پالنا ہوتا ہے وہ
پریشانی کے عالم حکومت کو کوس رہے ہیں اسی حکومت کے سابقہ دور میں بھی چینی
اور آٹے کا بحران پیدا ہوا تھا جسکے بعد عوام روٹی کھانے سے تنگ آگئی تھی
اب پیٹرول کی بندش سے لوگوں کا روزگار ختم ہوچکا ہے اور حکومت کے وزیر اس
بحران کو ختم کرنے کی بجائے اپنی اپنی رام کہانی سنا کر عوام کو مزید
پریشانی کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیر اعظم فوری
اس طرف توجہ دیتے صرف سیکریٹری پیٹرولیم کو ہی معطل نہ کرتے بلکہ وزیر
پیٹرولیم کو بھی فارغ کرتے مگر یہاں پر بھی ناانصافی کی گئی اپنے وزیر کو
بچا لیا گیا جو اس ساری صورتحال کا ذمہ دار بنتا ہے حکومت کی ناقص کارکردگی
صرف یہاں ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ پیٹرول کے بحران کے ساتھ ہی عوام کے ساتھ
ایک اور ظلم بھی شروع ہوگیا پیٹرول غیر قانونی طور پر اب سڑکوں اور گلیوں
میں فروخت ہونا شروع گیا ہے جو ابھی فلحال ڈھائی سو روپے سے تین سو روپے کا
ایک لیٹر دستیاب ہے اگر چند دن مزید یہی صورتحال رہی تو روزگار کے ہاتھوں
مجبورلوگ پیٹرول کی تلاش میں اپنا کام دھندہ بھی گنوا بیٹھے گے یا پھر اپنے
روزگار کو بچانے کے لیے سڑک کنارے اور گلی محلوں میں سرعام پیٹرول فروخت
کرنے والوں سے پانچ سو روپے لیٹر بھی خرید کر حکومت کو بدعائیں دینگے۔
تحریر۔روہیل اکبر 03004821200
|